فکرِ شیخ الاسلام: دل کی صفائی جنت کی ضمانت ہے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍo

(القلم، 68: 4)

اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)

اخلاق حسنہ یعنی طبیعت کی کشادگی، دوسروں کے لیے نرمی اور شفقت یہ دین کی اصل روح ہے۔ اگر ہم اپنی طبیعتوں، مزاجوں، اخلاق، اپنے برتاؤ میں یہ خوبیاں پیدا نہیں کرسکتے۔ تو یاد رکھ لیں کہ اللہ رب العزت ہماری عبادتوں کا، ہماری نمازوں کا، ہمارے روزوں کا، ہمارے سجود اور رکوع کا محتاج نہیں ہے۔ اگر ساری روح زمین پہ بسنے والے لوگ عبادت کرنا، طاعت کرنا، نماز پڑھنا، روزہ رکھنا چھوڑ دیں۔تو اللہ رب العزت کی شان کبریائی میں نہ کوئی کمی واقع ہوگی۔ وہ بے نیاز ہے اُس نے ہمیںیہ احکام اِس لیے دیئے ہیں تاکہ ہمارے اخلاق سنور جائیں، دوسروں کے لیے ہمارے دل کھل جائیں، اللہ کی مخلوق کے لیے ہمارے دلوں میں شفقت، محبت آجائے، دلوں میں سخاوت آجائے، ہمارے نفس سے کدورت دور ہوجائے۔ اگریہ خوبیاں پیدا نہیں ہوتیں تو طاعت اورعبادات بے کار ہیں۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

کنا جلوسا مع رسول الله علیه السلام فقال یطلع علیکم الآن رجل من أهل الجنة.

(احمد بن حنبل، المسند، 3: 166، الرقم: 12720)

مجلس میں آقا علیہ السلام تشریف فرما ہیں۔ ہم آقا علیہ السلام کے اردگرد بیٹھے تھے۔ اچانک حضور علیہ السلام نے فرمایا: ابھی تمہاری مجلس میں ایک ایسا شخص آنے والا ہے جو جنتی ہے۔ تیار ہو جاؤ ایک جنتی کو دیکھنے کے لیے۔ اس کے بعد ہر کسی کی نگاہ دروازے کی طرف لگ گئی۔ ایک شخص داخل ہوا جو دیہاتی سا آدمی لگتا تھا اُس نے اپنے جوتے ہاتھ میں پکڑے ہوئے مجلس مصطفی میںاندر آگیا۔ ہم سب اُس کی طرف تکنے لگے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا: دیکھ لو اِس جنتی کو، مجلس ختم ہو گی وہ شخص چلا گیا۔ اگلے دن پھر مجلس برپا ہوئی۔ آقا علیہ السلام نے پھر فرمایا: ابھی ایک شخص تمہاری محفل میں آرہا ہے جو جنتی ہے تیار ہو جاؤ جنتی کو دیکھنے کے لیے۔ اب دیکھنے لگے کہ آج کون آتا ہے ؟دروازہ کھلا وہی شخص پھر اندر آگیا۔ سب تکتے رہے گے مجلس برخاست ہوئی تیسرے دن ہم پھر آقا علیہ السلام کے حضور بیٹھے آقا علیہ السلام نے وہی کلمات پھر دہرائے، ابھی اِسی لمحے ایک جنتی داخل ہونے والا ہے عین اُس لمحے دروازہ کھلتا تو تیسرے دن بھی وہی شخص داخل ہو جاتا۔ تینوں دن ایک ہی شخص آیا۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اِس حدیث کے واقعہ سے میرے دل میں بڑا شوق ہوا کہ اِس شخص کا عمل کیا ہے؟ کہ آج تین دن سے آقا علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ ابھی جنتی آرہا ہے اور بدل کے کوئی دوسرا شخص نہیں آیا ہر روز یہی آتا کوئی بڑا عمل ہو گا اِس کی کوئی بڑی عبادات ہونگی، بڑی ریاضیت ہو گی، شب زندہ دار ہوگا، طاعت گزار ہوگا، کیا عالم ہوگا؟ کہتے ہیں میں اُس کے پیچھے پیچھے چل پڑا جب مجلس ختم ہوئی اور راستے میں اس آدمی سے کہاکہ میری آرزو ہے کہ اگر اجازت دیں تو تین دن، تین راتیں آپ کے ساتھ آپ کے گھر میں گزاروں۔ اُس نے کہا مجھے کوئی اعتراض نہیں آجاؤ، اُس نے گھر ٹھہرا لیا، تین دن عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اُس کے گھر میں ٹھہرئے۔

آپ فرماتے ہیں کہ نماز عشاء پڑھ کے وہ سوتا جب وہ کروٹ لیتا آنکھ کھلتی تو کروٹ لیتے ہوئے دائیں یا بائیں تو بس اللہ اکبر کہہ دیتا۔سو کے پھر نماز فجر کے لیے اُٹھتا اور باقی معمولات شروع کردیتا۔پہلی رات بھی دیکھا اُس کا معمول یہی نماز عشاء پڑھی۔ فجر کے لیے اٹھا، اُس کی کوئی اضافی عبادت نہیں دیکھی۔

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب تین راتوں کا منظر دیکھا تو مجھے اپنی کوششیں بھی یاد آئیں جو ہم ریاضیت کرتے ہیں، عبادت کرتے ہیں، عمل کرتے ہیں، نوافل پڑھتے ہیں، استغفار کرتے ہیں، تسبیحات کرتے ہیں اور اُس کا عمل عبادات اور طاعت اپنے اعمال کے مقابلے میں ہلکے دکھائی دینے لگے۔ میں نے اُس سے پوچھا۔ اے شخص! میں نے تیرے پاس تین دن تین راتوں کا قیام اِس لیے کیا تھا کہ مجھے اُس عمل کا پتہ چلے جس نے تجھے جنتی بنا دیاہے اور زبان مصطفی سے تمہارے جنتی ہونے کا تین دن اعلان ہوتا رہا ہے مگر کچھ نظر نہیں آیا۔

اُس نے کہا اور توکچھ نہیں یہی کچھ ہے جو تم نے دیکھا ہے۔ کہتے ہیں میں چل پڑا اور اِسی سوچ میں گم تھا میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ اُدھر زبان مصطفی تھی اِدھر میرا اپنا مشاہدہ تھا۔ ورطہ حیرت میں تھا۔ جونہی میں مڑا تو اُس نے پیچھے سے آواز دی اُس نے کہا ایک بات یاد آئی ہے۔ وہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانے۔ فرمایا: یہ میں حلفاً کہتا ہوں زندگی بھر اپنے دل میں رتی برابر نہ کسی کا حسد پایا ہے اور نہ کسی کے لیے اپنے دل میں کوئی میل دیکھا ہے۔

وہ کہتے ہیں مجھے سمجھ آگئی میں نے کہا اللہ کی عزت کی قسم! یہی دل کی صفائی ہے اِس نے تجھے زبان مصطفی سے جنت کی بشارت دے دی ہے۔

اگر دل میں صفائی ہو جائے کسی کے لیے حسد اور بغض نہ رہے، دل کسی کا برا نہ چاہے، یہ ایک ایسی کیفیت ہے کہ اِس کی قبولیت کی ضمانت اللہ کے رسول نے دے دی ہے۔

نیت کیا ہے؟:

إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ.

اعمال کا دارومدار دل کی نیت پر ہے۔

(بخاری، الصحیح، 1: 3، الرقم: 1)

نیت دل کی کیفیت کا عنوان ہے، جبکہ اعمال دنیا دیکھتی ہے۔ دل کی کیفیت اور نیت صرف اللہ دیکھتا ہے۔ اگر دلوں کی کیفیت ایسی ہو جائے کہ اُس میں اللہ کے سوا کوئی طلب اور حرص نہ رہے تو اللہ رب کائنات کو نفس اور دل کی سخاوت صفائی اتنی پسند ہے کہ اگر بندہ گناہگار بھی ہو تورب اُسے اپنے قریب کر لیتا ہے۔

دو چیزیں اکٹھی نہیں رہ سکتیں، ایک ہی وقت میں دن کا اجالا بھی ہو اور رات کا اندھیرا ہو، یہ دو متضاد چیزیں ہیں۔ جس طرح دن کا اُجالا اور رات کا اندھیرا اکٹھا نہیں ہوتا۔ اِس طرح اللہ کی ذات کے ساتھ صدق اخلاص، وفاداری اور اللہ کی محبت، اُس دل میں نہیں آتی جس دل کے اندر اللہ کی مخلوق کے ساتھ نفرتیں، کدورتیں، حرص کی پلیدی ہو، کیونکہ اللہ عیب تلاش کرنے والے کے دل میں خیر نہیں اتارتا۔

وہ کہتا ہے میرے بندے! ایک جگہ تعلق رکھ یا مجھے سے رکھ یا شر طلبی سے رکھ یا لوگوں کے عیب تلاش کرنے سے واسطہ رکھ یا مجھے سے خیر طلب کرنے سے واسطہ رکھ۔ تواللہ پاک اپنا کرم نہیں کرتا اُس دل پر جس دل میں غلامت ہوتی ہے۔ چونکہ اگر اللہ کسی کے دل میں اپنا نور دے دے تو زمین وآسمان کی وسعتیں بھی اُس دل کے مقابلے میں تنگ ہوجا تی ہیں۔ یہ نفس کی سخاوت ہے، یہ دلوں کی وسعت ہے، یہ نفس کی پاکیزگی ہے، یہ دلوں کی پاکیزگی اور طہارت ہے اور یہ مزاج کی وسعت اور سخاوت ہے، جس میں کسی شخص کے عیب کو دیکھنے کی گنجائش نہیں رہتی۔

ایمان کی علامت:

آقا علیہ السلام نے فرمایا:

لایستقیم ایمان عبد حتی یستقیم قلبه و لایستقیم قلبه حتی لایستقیم لسانه.

کسی شخص کا ایمان پختہ نہیں ہوتا، جب تک اُس کا دل استقامت پہ نہ آجائے اور دل استقامت پہ نہیں ہوتا جب تک اُس کی زبان استقامت پر نہ آجائے۔

(شرح سنن ابن ماجه، 1: 286، الرقم: 3972)

زبان کی صفائی دل کی صفائی کی آئینہ دار ہے، جن لوگوں کے دل صاف ہو جاتے ہیں۔ تو سالہا سال اُن کی مجلس میں بیٹھیں کسی کی غیبت نہیں سنے گے، کسی کا عیب نہیں سنے گے، کسی کی برائی نہیں سنے گے، کسی پر تہمت نہیں لگائیں گے، کسی کا نقص نہیں بیان کریںگے، جس زبان پر کسی کا نقص نہیں آتا، سمجھ لیں وہ دل نقص سے پاک ہے، جس کی زبان پر کسی دوسرے شخص کا عیب نہیں آتا، سمجھو اُس کا اپنا دل عیب سے پاک ہے، جس گھر کو اللہ صاف دیکھتا ہے،اُسی کا مہمان بنتا ہے، جس دل میں اللہ قیام کر جائے، کعبہ اُس دل کا طواف کرتا ہے۔یہی بات مولانا روم نے کہی۔

جس شخص کا دل صاف اور ستھرا ہو جائے، وہ اللہ کا مسکن ہے اور جس کا دل اللہ کا مسکن بن جائے تم کعبے کے طواف کو جاتے ہو اور کعبہ ایسے لوگوں کے دلوںکا طواف کرتا ہے۔

امام ابو قاسم القشیری روایت کرتے ہیں سیدنا مولا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ایک روز رو رہے ہیں۔ کسی نے پوچھا:

فَقِیْلَ لَهٗ: مَا یُبْکِیْکَ؟

اے مولا کائنات آپ کو کیا چیز رولا رہی ہے؟ کیوں رو رہے ہیں؟

(القشیري في الرسالة: 366)

فرمایا: اِس لیے

فَقَالَ: لَمْ یَأْتِنِي ضَیْفٌ مُنْذُ سَبْعَةِ أَیَّامٍ.

(القشیري في الرسالة: 366)

آج سات دن ہو گے میرے گھر کوئی مہمان نہیں آیا اِس لیے رو رہا ہوں۔ پھر اُس نے پوچھا میںاِس سے کیا سمجھوں۔ فرمانے لگے۔

وَأَخَافُ أَنْ یَکُوْنَ اللهُ تَعَالٰی قَدْ أَهَانَنِي.

(القشیري في الرسالة: 366)

مجھے ڈر لگنے لگ گیا ہے کہ کہیں میں اللہ کی نگاہ میں گر تو نہیں گیا۔ اُس نے کوئی مہمان میرے گھر نہیں بھیجا۔ شاید اللہ کی ذات سمجھتی ہے کہ میرے دل میں اُتنی سخاوت نہیں رہی۔

حر بن کثیر الکندی روایت کرتے ہیں کہ میں نماز پڑھ کے نکلا امام حسین علیہ السلام کے ساتھ مسجد سے اور آپ کے ساتھ ساتھ چلا پڑا اور چلتے چلتے آپ کا گھر آ گیا۔ بنی تمیم میں جب میں آپ کے دروازے تک پہنچا تو آپ نے دیکھا کہ یہ بندہ چلتا ہوئے میرے گھر آگیا تو میں مڑنے لگا تو آپ نے مجھے پکڑ لیا۔ امام عالی مقام علیہ السلام نے فرمایا: واپس نہ جاؤ، میں نے کہا حضور میں تو بس ایسے آپ کے ساتھ آیا تو فرمایا: نہیں کھانا کھا کے جاؤ۔ اندر لے گئے کھانا منگوایا مجھے کھانا کھلایا۔ اُس کے بعد خوشبو منگوائی مجھے دی خوشبو لگالو، میں نے خوشبو لگالی۔ پھر اُس کے بعد ایک تھیلا دیا کہ اِس سے ضرورتیں پوری کرنا۔ میں وہ تھیلا لے کے گھر آیا گھر آکر گنے تو پانچ سو درہم تھے صرف اُن کے ساتھ چند قدم چلے کے اُن کے دروازے تک گیا، طلب بھی نہیں کی، کوئی حاجت نہیں رکھی بغیر مانگے جولی بھر کے روانہ کیا۔ یہ سخاوت مال سے نہیں آتی یہ سخاوت حال سے آتی ہے، جب دل سخی ہو جاتے ہیں تو بھلے ایک لقمہ بھی پاس نہ ہو تو بندے کا کرم تھمتا نہیں ہے۔

یتیم کے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے:

امام حسن البصری روایت کرتے ہیں۔ کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا معمول تھا بھوکے بیٹھے رہتے، یتیم بچے کے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے۔ یہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ کیونکہ آقا علیہ السلام نے تعلیم یہ دے رکھی تھی۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے:

طَعَامُ الْوَاحِدِ یَکْفِي الِاثْنَیْنِ وَطَعَامُ الِاثْنَیْنِ یَکْفِي الْأَرْبَعَةَ وَ طَعَامُ الْأَرْبَعَةِ یَکْفِي الثَّمَانِیَةَ.

ایک شخص کا کھانا دو کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے، دو کا کھانا چار کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے اور چار کا کھانا آٹھ لوگوں کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔

(مسلم، الصحیح، 3: 1630، الرقم: 2059)

تربیت جب یہ ہو تو پھر کوئی ضرورت مند کے بغیر کھانا ہی کیوں کھائے یعنی اُن کے زاویہ نگاہ بدل دیئے تھے، اُن کی طرز زندگی بدل دی تھی، آج ہم اِس طرز زندگی کو دین، عبادت اور ایمان کا حصہ ہی نہیں سمجھتے حالانکہ ایمان کا مغز یہی ہے۔

ضرورت سے زائد دوسرے کو لوٹا دے:

آقا علیہ السلام نے فرمایا:

تم میں سے جس شخص کے پاس ضرورت سے زائد کھانا پینا ہے وہ لوٹا دے۔

جس کے پاس ضرورت کا کھانا نہیں اور فرمایا: جس کے پاس ضرورت سے زائد سواری ہے وہ لوٹا دے اُسے جس کے پاس اپنی ضرورت کی سواری نہیں۔

(ابی داؤد، السنن، 2: 125، الرقم: 1663)

یہ نہیں فرمایا کہ وہ دے دے۔ جس کے پاس ضرورت کا کھانا اور سواری نہیں۔ چونکہ اگر فرماتے دے دے تو دینے کا معنی یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ کا اُس پر احسان بنے گا۔ یہ احساس بھی نہیں ہونے دیا کہ دینے والا یہ خیال بھی لائے کہ اس محتاج پر میرا احسان ہے۔فرمایا:

فَلْیَعُدْ بِهِ.

لوٹا دے ذہن یہ بنایا کہ جس کے پاس زائد دولت ہے، زائد ضروریات زندگی ہیں اور سامان آسائش ہے وہ لوٹا دے اُسے جس کے پاس ضرورت کی چیزیں نہیں۔ لہذا لوٹا دے کا مطلب یہ ہے۔ اُس کا حق اُس کو لوٹا دو مگر دے کر یہ بھی نہ سمجھو کہ میں نے دیا۔

ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ اشعری ایک قبیلہ تھا۔ فرمایا:

فَهُمْ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُمْ.

وہ مجھے اتنے اچھے لگتے ہیں کہ وہ مجھے سے ہیں اور میں اُن میں سے ہوں۔ صحابہ کرام نے پوچھا یارسول اللہ ﷺ! آپ اُن میں سے کیسے ؟اور وہ آپ میں سے کیسے ؟ فرمایا:

قَلَّ طَعَامُ عِیَالِهِمْ بِالْمَدِینَۃِ جَمَعُوا مَا کَانَ عِنْدَهُمْ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ ثُمَّ اقْتَسَمُوهُ بَیْنَهُمْ فِي إِنَائٍ وَاحِدٍ بِالسَّوِیَّۃِ فَهُمْ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُمْ.

(مسلم، الصحیح، 4: 1944، الرقم: 2500)

اُن کے ایک عمل نے اُنہیں میرے اتنے قریب کر دیا ہے کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ وہ مجھے سے ہیں میں اُن سے ہوں۔ وہ عمل کیا ہے؟ فرمایا: جب اُن کے قبیلے میں کسی شخص کے پاس کھانا،پینا، ضروریات زندگی ختم ہو جاتیں ہیں وہ سارے قبیلے والے اپنا سارا کچھ اٹھا کے ایک کپڑے میں جمع کر لیتے ہیں، وہ اُنہیں بانٹ دیتے ہیں برابری ساتھ جن کے پاس نہیں ہوتا۔ اُن کا یہ سخاوتِ نفس کا عمل، باہمی تعاون کا عمل اور نفس اور دل کی سخاوت کا عمل اِس نے اُنہیں میرے اتنا قریب کردیا ہے کہ محسوس کرتا ہوں کہ وہ مجھے سے ہیں اورمیں اُن سے ہوں۔

یہ کیفیت سخاوتِ نفس، سلامتی صدر اور دلوں کی صفائی سے نصیب ہوتی ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

دلوں کی صفائی درجہ شہادت پر پہنچا دیتی ہے:

سہل بن حنیف روایت کرتے ہیں۔ انسان عمل کرتا ہے مگر دلوں کی صفائی نہ ہونے کی وجہ عمل رد کر دئیے جاتے ہیں اور کچھ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ عمل کیا نہیں ہوتا، مگر دلوں کی صفائی کی وجہ سے وہ عمل قبول ہو جاتا ہے بغیر کیے عمل کا درجہ مل جاتا ہے۔ آقا علیہ السلام غزوہ سے پلٹے تو صحابہ کو رستے میں روکا اور فرمایا: کئی لوگ ایسے ہیں ہماری ساتھی جو مدینہ میں رہ گئے ہمارے ساتھ جہاد کے لیے نہیں جاسکے۔ وہ گھر بستروں پر پڑے ہیں۔ مگراللہ نے اُنہیں بھی شہید بنا دیا۔ اُن کو شہادت کے درجے مل گئے۔ صحابہ کرام نے پوچھا یارسول اللہ ! وہ گھروں سے نکلے ہی نہیں۔ ہمارے ساتھ غزوہ اور جہاد پر آئے ہی نہیں اور آپ فرما رہے ہیں گھروں میںبستروں پر پڑے ہیں اور لیٹے لیٹے شہید کا درجہ پاگئے۔ یہ کیسے ہوا؟ فرمایا: اُن کے دلوں کے حال نے اُنہیں شہداء کے درجے پر پہنچا دیا۔ اُن کے دلوں میں نیت تھی، اخلاص تھا، طلب تھی، دل میں صفائی تھی، چاہتے تھے کہ وہ شہادت پائیں مگر کسی جائز عذر، مجبوری اور بیماری نے اُن کو روکے رکھا مگر رب کائنات نے اُن کے عذرکو نہیں دیکھا اور اُن کے دلوں کے حال کو دیکھا اور گھروں سے نکلے بغیر اُنہیں شہداء کا درجہ عطا کر دیا۔

او ر حدیث پاک ہے سہل بن حنیف کی روایت آقا علیہ السلام نے فرمایا:

مَنْ سَأَلَ اللهَ الشَّهَادَۃَ بِصِدْق.

(مسلم، الصحیح، 3: 1517، الرقم: 1909)

آقا علیہ السلام وہ سچے دل سے شہادت چاہتے تھے۔ کسی عذر او ر مجبوری کی وجہ سے آ نہیں سکے۔ فرمایا:

بَلَّغَهُ اللهُ مَنَازِلَ الشُّهَدَائِ وَإِنْ مَاتَ عَلَی فِرَاشِهِ.

اُن کی موت گھر میں بستر پر ہی کیوں نہ آجائے اللہ پاک اُن کا نام شہداء میں لکھتا ہے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا: اے لوگو! میری امت میں تھوڑے لوگ وہ ہیں جنہیں شہادت کا رتبہ میدان جنگ میں ملتا ہے گولی یا تلوار سے اُن کی جان جاتی ہے تووہ شہید بنتے ہیں۔ فرمایا: زیادہ ایسے شہید ہیں جن کی موت بستر پر آتی ہے مگر دلوں کا حال اُنہیں رتبہ شہداء پر پہنچا دیتا ہے اور دل کی کیفیت صاف نہیں تو ڈھیروں عمل رد کر دئیے جاتے ہیں۔

حضرت شقیق بلخیؒ کا واقعہ:

حضرت شقیق بلخی حج پہ جانے لگے، قافلہ تیار ہو گیا۔ بڑے لوگ تیار ہو گئے کہ شقیق بلخی کی معیت میں، حج کریں گے۔ جب روانگی کا دن آیا حضرت شقیق بلخی نے معذرت کر دی کہ میری کچھ مجبوری بن گی میں نہیں جا سکتا۔ لوگ چل پڑے، طعنہ زنی کرنے لگے، جتنے منہ اُتنی باتیں ہونے لگی۔ کسی نے کہا کوئی سودا خرید لیا ہو گا، کسی نے کہا کہ اللہ بلائے تو بندہ جاتا ہے، اللہ نے بلایا ہی نہیں، طرح طرح کی باتیں ہونے لگی۔ حضرت شقیق بلخی تک ہربات پہنچتی تو مسکرا دیتے، حجاج مکہ پہنچے گئے، حج ہو گیا۔ اُنہی میں سے ایک ولی اللہ جو حج پر گیا تھا وہ رات کو خواب دیکھتا ہے کہ ملائکہ بیٹھے ہیں ملائکہ سے کوئی پوچھتا ہے کہ اِس سال کتنوں کا حج قبول ہوا اور کتنوں کا نہیں، ملائکہ جواب دیتے ہیں کہ اِس سال اللہ رب العزت نے سب کا حج قبول کرلیا۔ کسی کا حج رد نہیں ہوا۔ سائل پوچھتا ہے وہ یہ کیسے ہوا؟ اُنہوں نے کہا شقیق بلخی کے حج کے صدقے سب کے حج قبول ہو گئے۔ وہ اٹھا اُس نے سمجھا کہ کہیں چپکے سے آنہ گیا ہوں پھر خبر لی۔ پتہ چلا وہ تو نہیں آئے، حیرت زدہ وہ اللہ کے ولی واپس جب بلخ پہنچے۔ سیدھا اُن کے گھر گئے۔ شقیق بلخی مبارک ہو، ہزاروں، لاکھوں لوگوں کا حج آپ کے حج کے صدقے قبول ہو گیااورہمیں علم ہے کہ آپ تو حج پر گے ہی نہیں۔ یہ کیسے ہو گیا؟ اب راز بتا دو کیا ماجرا بنا کہ آپ نہیں گے اُن نے کہا میں تیار تھا جس صبح حج پہ جانے کے لیے تو میں نے ایک خاتون کو دیکھا ایک جانور مر گیا تھا وہ چھری لے کر مردار کا گوشت کاٹ کے گھر لے گئی، میں چپکے سے اُس کے پیچھے ہو لیا وہ گھر گی تو اُس کو پکانے لگی۔ میں نے پوچھا خاتون یہ کیا کر رہی ہو اُس نے کہا آج سارا دن سے میرے بچے بھوکے ہیں۔ اب سوائے مر جانے کے اور کوئی راستہ نہ تھا تو میں نے کہا اللہ معاف کر دے گا۔ بچوں کو تو کچھ مل جائے۔ شقیق بلخی نے اپنے حج کا زادِ سفر، اُس خاتون کو دیدیا کہ تو رزق حلال کھائے اللہ نے توفیق دی تو حج بعد میںکر لوں گا، غریب پروری اور دوسرے کے لیے سخاوت کے عمل سے نہ صرف اپنا حج قبول ہوا بلکہ لاکھوں لوگوں کا حج مبرور ہو گیا۔

لہذا اگر من صاف نہ ہو تو تن کے ذریعے انجام پانے والا کوئی عمل قبول نہیںہوتا۔ من سخی ہو جائے، اللہ کی مخلوق کے ساتھ رحمت اور شفقت آجائے تو تن بہت زیادہ مشقت کرے یا نہ کرے وہ سمندوں سے بڑھ کر اجر پاتا ہے۔