عورت شعورِ انسانیت کی تعمیرِ نو کی معمار

خصوصی رپورٹ

ابتدائیہ:

اللہ تعالیٰ نے معاشرے کو پروان چڑھانے اور انسانیت کی بقا کے لئے مرد و زن کو پیدا کیا۔ زندگی کے سفر میں شراکت دارہونے کے سبب دونوں کو بطور ِانسان یکساں حقوق اور اختیارات دیے مگر دونوں کی صنف اور عملی میدان میں مختلف ہونے کی وجہ سے دائرہ کار مختلف ہے اس اختلاف کا سبب دونوں جنسوں کی فطری صلاحیتوں، رجحانات اور استعداد میں فرق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی معاشروں میں افراد کے لئے اعمال اور افعال کا تعین ان کی قدرتی صلاحیتوں، ان کے تعلیمی ہنر، ان کی کسی خاص شعبہ میں مہارت اور رجحانات کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے تاکہ ہر شعبہ زندگی سے معاشرے کی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔ ایسے میں مختلف افراد کے لیے انکی صلاحیتوں کے مطابق کاموں کی تخصیص کرنے کا مقصد کسی کے مقام و مرتبہ کو کم کرنہیں ہوتا مگر بدقسمتی سے عصر حاضر میں خواتین سے متعلق اسلام کے متوازن فکرونظریہ کی غلط تشریحات اور متنازع شکل دے دی گئی ہے جس نے ابہام کی شکل پیدا کر دی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین کو بااختیار بنانا خاندان، معاشرے اور ممالک کی بہتری اور معاشرتی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ اگر خواتین محفوظ، مکمل اور نتیجہ خیز زندگی گزر رہی ہوں تو ہی وہ اپنی افرادی قوت اور صلاحیتوں کے تعاون سے خوشحال خاندان اور صحت مند بچوں کی پرورش کر سکتی ہیں۔ اور معیشت کے فروغ اور انسانیت کو بڑے پیمانے پر فائدہ پہنچانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اگر انسان کی دونوں صنفوں کے جسمانی، نفسیاتی اور نامیاتی خصائص اور افعال پر مفصل بحث اور جامع ترین سائنسی معلومات کے نتیجے میں یہ عموما یہ نتائج اخذ کیا جاتے ہیں کہ مرد اور عورت کے دائرہ کا ر میں فرق کی وجہ تخلیقی اور فطری اعتبار سے دونوں کا جدا ہونا ہے۔اس وقت معاشرے میں عورت کے کردار کو لے کرجو مختلف نظریا ت پیش کیے جار ہے ہیں ان میں متوازن سوچ دینے کیلیے عورت کی تخلیق کے مقصد کو سمجھنا ضروری ہے۔ اسی نظریے کے پیش نظر منہاج القرآن ویمن لیگ نے دورِ حاضر میں اسلام کی تعلیمات کے مطابق اور عصرِ حاضر میں عورت کی حیثیت کے مطابق ایک متوازن بیان دے رہی ہے جو کہ درج ذیلی ہے:

عورت کی تخلیق کا فطری مقصد:

اللہ رب العزت نے معاشرے کو پروان چڑھانے اور نسل انسانی کی بقاء کے لئے مر د و عورت کی تخلیق کی اور معاشرے کی تعمیر کے لئے بنا ئے جانے والے تمام دینی و سماجی قوانین انسانی فطرت کو مدنظر رکھ کر بنائے گئے ہیں قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے فرمایا:

قائم ہو جاؤ اُس فطرت پر جس پر اللہ تعالی نے انسانوں کو پیدا کیا ہے،اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی۔ (سورہ الروم)

معاشرے کی تعمیر میں نصف کردار عورت کا ہے اللہ رب العزت نے حضرت حوا کو پیدا کیا تو بائیبل میں انکی تخلیق کا مقصد حضرت آدم کے مدد گار کے طور پر دیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ تخلیق انسانیت میں دونوں کے کردار کو برابری کی حیثیت حاصل ہے۔

یَا أَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً کَثِیرًا وَ نِسَاءً وَ اتَّقُواْ اللّهَ الَّذِی تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللّهَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیبًا. (النساء)

اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء ) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا، اور ڈرو اس اللہ سے جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتوں (میں بھی تقوٰی اختیار کرو)، بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے۔

اسی بات کو Christianity میں بائبیل کا انسائیکلو پیڈیا تصور کی جانیوالی مشہور کتاب قاموس الکتاب میں یوں بیان کیا گیا ہے۔

شادی تخلیق کا ایک امر ہے، خالق کل نے مرد اور عورت کو اپنی صورت پر بنایا اور خدا کی یہ صورت مرد اور عورت کی وحدت میں نظر آتی ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے کیلئے بنایا گیا ہے۔ دونوں کی شخصیتیں ایک دوسرے کی شخصیت کا تکملہ ہیں۔ شادی کا رشتہ اس وحدت کا دوسرا نام ہے۔"

اگر ہم عورت کی فطری و تخلیقی صلاحیتوں کو دیکھیں تو عورت کو قدرت نے ایسی صلاحیتوں سے نوازا ہے جن کی بدولت وہ بچوں کی نگہداشت، تعلیم و تربیت کے لئے موزوں ترین ہے اس طرح نسلِ انسانی کا مستقبل عورتوں کے ہاتھ میں سونپ دیا گیا ہے۔

فطری خلقت کا تقابل اور سائنسی تشریح:

اس سے قبل بحث میں عورت اور مرد کی معاشرے کی تعمیر میں یکساں کردار پر بات کی گئی۔ ا اکیسویں صدی میں مرد و عورت کے مساوی حقوق کی بات کرتے ہوئے ان کے جنسی فرق کو معمولی فرق تصور کرتے ہوئے اس موضوع کو عجیب و غریب انداز سے پیش کیا جاتا ہے اور حقوق و فرائض کے تعین میں اسے کمزور نکتہ تصور کیا جاتا ہے حالانکہ حقیقت میں اسی جسمانی تخلیق میں فرق کی وجہ سے ان کے سماجی مقام اور حقوق و فرائض پر ہی فرق نہیں پڑتا ہے بلکہ اعصابی نظام اور جسمانی ونفسیاتی ساخت کا فرق انسان کی شخصیت میں گہرا رنگ رکھتا ہے۔

بلاشبہ تخلیقی اعتبار سے فرق کی وجہ سے مرد و عورت کی ذمہ داریاں مختلف ہیں مگر حقوق یکساں رکھے گئے ہیں نیکی کرنے پر اجر جتنا مرد کو دیا گیا اتنا ہی عورت کو بھی دیا گیا ہے غرض بحیثیت انسان دونوں کے حقوق برابر رکھ دئیے گئے ہیں مگر فرائض اور ذمہ داریاں تخلیق کے اعتبار سے مختلف ہیں۔

انسانی ساخت کا مطالعہ یہ واضح کرتا ہے کہ کس طرح قدرت نے مرد اور خاتون کو موزونیت بخشی ہے یہی وجہ ہے کہ دونوں کے عملی میدان میں دائرہ کار مختلف رکھے ہیں مثلااگر یہ بات ثابت کرنے کہ کوشش کی جائے کہ ایک صنف مخالف صنفوں کی تمام خصوصیات رکھتی ہے تو وہ معاشرہ جس کی بنیاد خاندانی نظام ہے وہ مستحکم نہیں رہے گا کیونکہ خاندان مر و و عورت وجود میں لاتے ہیں ایک ہی صنف کے دو لوگ نہیں۔

عورت میں اخلاقیات اور روحانیت کا پہلو:

خواتین میں اللہ رب العزت نے فطری طور پر صلح جو، امن پسندی کے جذبات رکھیں ہیں خاص طور پر مادرانہ جذبات میں عورت مرد کی نسبت نرم دل ہوتی ہے اسی لئے پیدائش کی تمام تکالیف عورت کو اُٹھانا ہوتی ہیں کیونکہ عورت اعلی اخلاق کی مالک ہونے کا رجحان مرد کی نسبت زیادہ رکھتی ہے۔ ایک طبقہ عورت کی روحانی حیثیت کا انکاری رہا ہے کہ عورت کو روحانی مقام میسر نہیں آسکتا یہ بات بھی قرآن نے خود غلط ثابت کر دی ہے کہ قرب خداوندی کسی جنس کی بدولت حاصل نہیں ہوتا ہر پیغمبر کے ذکر کے ساتھ قرآن میں ایک عورت کا ذکر کیا ہے جس نے بطور ماں یا بیوی اہم کردار ادا کیا ہے۔ عورت کی گود میں پیغمبر پروان چڑھے قرآن میں اللہ تعالی فرما رہا ہے کہ ہم نے موسی کی والدہ کی طرف وحی کی یہ قرب خداوندی اور ایک خاتون کے روحانی مقام کی دلیل یہ ہے کہ پیغمبر اورر اولیاء عورت کی آغوش میں پرورش پاتے ہیں۔ اسی وجہ سے عورت کا کردار پرورش نسل میں مرد کے کردار سے زیادہ طویل اور مشکل رکھا گیا ہے۔

عورت کا اعصابی نظام:

اللہ تعالی نے عورت کو مضبوط اعصاب سے نوازا ہے ذہانت و فطانت میں بھی اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا مگر ماہرین علم الاعضاء کے نزدیک اعصابی نظام کی مضبوطی میں مرد و عورت کا دائرہ کا مختلف ہے مثلا اگر میدان جنگ کی سختیوں کو برداشت کرنے کے لئے عورت کو جنگ میں بھیج دیا جائے تو اُسکے اعصاب مرد کی نسبت فطری طور پر سختیاں برداشت کرنے کی صلاحیت کم رکھتے ہیں اسی طرح اگر مرد کو تولیدی ذمہ داری دے دی جائے تو مضبوط اعصاب رکھنے کے باوجود وہ اس عمل کو سر انجام نہیں دے سکے گا لہذا عورت کی ذہانت اور اعصابی نظام یقینا مرد کے برابر ہے مگر جسمانی ساخت مختلف ہونے کی وجہ سے دائرہ کار مختلف ہیں۔

عورت کا الہامی، دینی اور معاشرتی مقام:

عورت کی حیثیت سے متعلق معاشرہ ہمیشہ افراط و تفریط کا شکار رہا ہے اور قبل از اسلام تو معاشرہ میں عورت کو پست ترین مقام حاصل تھا دورِ حاضر میں مغربیِ معاشرہ یہ باور کروانے میں مصروف ہے کہ عورت کی آزادی کا اسلام سے دور دور تک تعلق نہیں اور اسلام عورت کو چاردیواری میں قید کر دیتا ہے اس نظریے کا پرچار وہ کتابوں، اخبارات اور خصوصی دستاویزی فلمز بنا کر بآسانی کر رہے ہیں۔ کچھ کمزور عقیدہ مسلمان اُن کی باتوں میں آکر یہ پرچار کرتے نظر آرہے ہیں کہ اسلام کے عورت کے بارے میں نظریات دقیانویسی ہیں۔

حقیقتاً تہذیب جدید نے عورت کو جو حقوق دیئے ہیں وہ حقوق نہیں بلکہ عورت کا مزید استحصال ہے پہلے وہ ظلم کی چکی میں پس رہی تھی اب اتنا آزاد کر دیا کہ کوئی قید نہ نہیں رہی۔ اسلام سے قبل کے معاشروں کو اُٹھالیں وہی معاشرے جو آج سب سے زیادہ عورتوں کے حقوق کا خیال کر رہے ہیں کہ خود اُن کے ماضی میں عورت کے ساتھ کیا سلوک روارکھا گیا ہے وہ یونان ہو روم ہو، یورپ ہو، ہندوستان ہو کس معاشرہ نے عورت کے ساتھ حسن سلوک کا رویہ رکھا۔

اسلام میں عورت کو جو عزت دی گئی اس کی اساس اس آیت کریمہ پر تھی۔

وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَی کَثِیرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلاً. (بنی اسرائیل)

اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیا۔

ایک اور جگہ ارشاد ہوا:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِی أَحْسَنِ تَقْوِیمٍ. (التین)

بیشک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔

پھر اسلام ہمیشہ سے مساوات انسانی کا علمبردار رہا ہے اسلام نے ہی انسانیت کو روشناس کروایا کہ بنیادی انسانی ضروریات ہر کسی کو بغیر رنگ، نسل اور جنس میں امتیاز کیے بغیر برابر ملنی چاہیے تمام انسان مساوی بنیادی حقوق رکھتے ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یَا أَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً کَثِیرًا وَ نِسَاءً وَ اتَّقُواْ اللّهَ الَّذِی تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللّهَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیبًا. (النساء)

اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء ) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا، اور ڈرو اس اللہ سے جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتوں (میں بھی تقوٰی اختیار کرو)، بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے۔

اسلام میں عورت کو جو مقام حاصل رہا اس کی وجہ وہ رہنما اُصول تھے جس پر اسلام کی بنیادیں قائم کی گئیں۔ جس میں انسان کو اگر باعث تکریم کہا گیا تو اس سے مراد مرد اور عورت دونوں تھے۔اسلام میں اگر فضیلت ہے تو صرف تقویٰ کی بنیاد پر اگر کوئی تقویٰ میں اچھا ہے تو اسکا مقام دوسروں سے مختلف ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں عورت کی حیثیت نہایت مسلم ہے۔ حضور ﷺ کی آمد کے ساتھ جہاں تاریکیوں کے بادل چھٹے رہیں عورت کو فرش سے عرش پر بٹھا دیا گیا ہے۔

معاشرے میں عورت کا بنیادی اور اہم کردار ہے کیونکہ تخلیقی کردار اُسے سونپا گیا ہے، پیدائش کا سارا بوجھ عورت کو برداشت کرنا ہوتا ہے اسی لئے اللہ تعالی نے اسے اتنی قوت و صلاحیت سے نوازا ہے کہ وہ اس اہم ذمہ داری کا بااحسن سر انجام دے سکے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں خاتون دین و اخلاق کا مجسمہ ہو اسلامی تعلیمات کی رو سے عورت تب ہی معاشرے کا مفید رکن ہو سکتی ہے جب وہ دین واخلاق میں اونچا مقام رکھتی ہو ورنہ اس کی بداخلاقی و بدکرداری پورے معاشرے کو جہنم میں بدل سکتی ہے چونکہ معاشرے کا اجتماعی شعور انفرادی تربیت سے ہی پختہ ہو سکتا ہے۔ اسلام نے انفرادی تربیت پر زور دیا ہے اسی تربیت کا ایک حصہ تعلیم ہے جسے خواتین کیلئے ضروری قرار دیا گیا ہے جس میں اخلاقی تعمیر، تعمیرِ سیرت اور تقویٰ کے احاس کے عمل دخل کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ تربیت کے دوسرے حصے میں عورت کے عملی زندگی کے دائرہ کار کو متعین کی گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اگر سیرت طیبہ ﷺ کی روشنی میں دیکھا جائے تو خواتین کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ اسی لئے دی گئی کہ عورت معاشرہ ساز ہے کیونکہ نسل انسانی اُس کی گود میں پروان چڑھتی ہے لہذا معاشرہ عورت کے کے کردار کا محتاج ہے۔

ویمن تھیوریز کے نتائج، پیدا ہونے والے رجحانات اور مسائل:

عورت سے متعلق جدید نظریات اور مختلف وقتوں میں پیش کی جانے والی تھیوریز نے جدید دور میں عورت کی حیثیت سے متعلق خطرناک موڑ لے لیا ہے یہ حقوق نسواں کی تحریک جو بنیادی حقوق کی فراہمی کے لئے شروع ہوئی اب اپنا الگ تشخص بنانا شروع ہوگئی ہے جسکا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں جنکا بیانیہ کسی الہامی تعلیم کی بجائے اپنا تیارکردہ ہے کیونکہ اس تحریک کا آغاز مغرب سے ہوا مسلمان خاتون مغرب کی عورت کی نسبت پہلے ہی اسلام کے عطا کردہ حقوق سے مستفید ہو رہی تھی وہ بھی جزوی طور پر اس تحریک کا حصہ بنی اور اس وقت یہ اپنے متنازعہ بیانات کی وجہ خواتین کی ایک بڑی تعداد کی نمائندہ ہونے کی بجائے ایک چھوٹے سے گروہ کی صورت میں رہ گئی ہے مگر یہاں اس کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنا ضروری ہے کہ اس سب جدوجہد سے عورت اب تک کیا حاصل کر سکی ہے کیا حقوق نسواں حاصل ہوئے یا معاشرے میں کس حد تک با عزت مقام حاصل ہوا ذیل میں ان نظریات نے کیا نتائج پیدا کئے اورکونسے رجحانات اور مسائل کو جنم دیا ان کا تجزیہ پیش کیا جا رہا ہے۔

بنیادی حقوق کی فراہمی:

خواتین نے بہت تگ و دو کے بعد مختلف ممالک میں حقوق حاصل کئے اس سے قبل رائے دہی،نوکریوں، اور سیاست میں خواتین کا تناسب بہت کم تھا۔

غرض اتنی تگ و دو کے بعد عورت پارلیمنٹ میں چند فیصد ہی حصہ لے پاتی ہے۔ پھر یہ تو سیاسی حقوق ہوئے اگر انفرادی سطح پر دیکھا جائے تو ووٹ کا حق بھی دیا بھی بہت دیر کے بعد ملا اس صورتحال پر ڈاکٹر محمد طاہر القادری اسلام میں انسانی حقوق میں رقمطراز ہیں۔

عورت کے حقوق کے تحفظ کا مفہوم انفرادی، معاشرتی، خاندانی اور عائلی سطح پر عورت کو ایسا تقدس اور احترام فراہم کرنا ہے جس سے معاشرے میں اس کے حقوق کے حقیقی تحفظ کا اظہار بھی ہو اگر ہم حقائق اور اعداد و شمار کی روشنی میں مغربی معاشرے میں عورت کے حقوق کا جائزہ لیں تو انتہائی مایوس کن صورتحال ہے خاندان جو کسی بھی معاشرے میں انسان کے تحفظ و نشوونما کی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے عورت کے تقدس کے عدم احترام کے باعث مغربی معاشرے میں شکست و ریخت کا شکار ہے۔

خاندانی نظام کی تباہی:

حقوق نسواں کی دوڑ میں جہاں خواتین کو حقوق حاصل ہوئے وہیں کچھ نظریات کی وجہ سے خاندانی نظام بھی دن بدن تباہی کی طرف جا رہا ہے مر د و عورت کے درمیان مقابلہ بازی کی فضاء پیدا کرنے کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر فیملی یونٹ ہوا ہے دنیا بھر میں سنگل پرینٹنگ کا رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔

نوجوان نسل کی تربیت کا فقدان:

پاکستان اور دنیا بھر میں طلاق کی شرح میں خطرناک حد ک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جس نے لامحالہ ماں باپ کی توجہ بچوں کی تربیت سے ہٹا دی ہے جس سے دن بدن تربیت کا فقدان دیکھنے میں آرہا ہے اور نوجوان نسل تیزی سے دین سے دوری اور بے راہ روی کا شکار ہو رہی ہے۔

مرد و عورت میں اختلاف کی فضاء:

تحریک نسواں کے مختلف ادوار میں حقوق کی جو جنگ رہی اس نے تدریجی ارتقاء میں مردوں کے خلاف نفرت اور مقابلے کی فضاء پیدا کر دی ہے۔ قرآن پاک میں مردوں کو بوجہ ذمہ داریوں کے عورت پر قوامیت دی گئی ہے جن کی غلط تشریحات کے ذریعے خواتین کو ذہنی انتشار کا شکار کیا جا رہا ہے۔ اسلامی تعلیمات سے دوری کی بنا پر ہمارا معاشرہ ایسی غلط تشریحات و تعبیرات کو سچ مان کر اپنی اصل سے دور ہوگیا ہے۔ اسلام تو عورت کو خلع، خیار بلوغ اور نان و نفقہ کی صورت میں حقوق کا ضامن بن رہا ہے، پھر معاشرے کی دو اہم صنفوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑا کرنا معاشرتی اکائی خاندان کی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔

شعور انسانیت کی تعمیر نو کی نگہبان عورت ہے:

درج بالا بحث کا مقصد صرف اس بات کی نشاندہی کرنا تھا کہ عورت کا کردار معاشرے میں جس قدر اہمیت کا حامل ہے حقوق نسواں کی دوڑ میں اس کردار کی اہمیت کو الجھنوں کا شکار کر دیا گیا ہے۔ جبکہ الہامی تعلیمات اور خصوصا اسلام میں جو مقام اور حیثیت عورت کو دی گئی ہیاس وقت از سر نو اسے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ کہ عورت کا اس معاشرے میں مقام کسی صورت مرد سے کم نہیں ہے بلکہ بحیثیت عورت اس کا دائرہ کار معاشرے کی نگہبانی اور حفاظت ہے جیسے ایک ولی معاشرے کو تربیت فراہم کر کہ اسے جینے کا ڈھنگ سکھاتا ہے اور اللہ رب العزت اور حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات سے روشناس کرواتا ہے۔ یہی کردار معا شرہ سازی میں عورت کا ہے۔ لہذا عورت معاشرہ میں شعور انسانیت کی نگہبان اور ولی ہے۔

خواتین سے درپیش چیلنجز کا حل:

خواتین سے متعلق موجودہ تمام چیلنجز اور مسائل کا حل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک خواتین کے حقوق، مقام اور کردار سے متعلق مردوں کو Educateنہ کیا جائے۔

عورت بحثیت ولی:

اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات پید ا فرما کر اس کو کائنات میں اہم مقام پر فائز کیا ہے پھر بحثیت انسان مرد اور عورت کو تخلیق کر کے ان کے حقوق و فرائض بھی مقرر کر دیے۔ تعمیر معاشرہ میں دونوں کا کردار لازم و ملزوم ہے یعنی ایک صنف دوسری صنف کے ذمے امور کی تکمیل کا باعث بنتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے قر آن پاک میں مرد اور عورت کے حقوق و فرائض کا تعین کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے مقربین انہیں قرار دیا جو ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ ار شاد باری تعالی ٰ ہے کہ:

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَیُقِیمُونَ الصَّلَاةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَیُطِیعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَٰئِکَ سَیَرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ.

(توبه: 71)

اور اہل ایمان مرد اور اہل ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔

در ج بالا قرآنی آیات کے مطابق اللہ تعالی نے مرد اور عورت کو ایک دوسرے کا ولی قرار دیا ہے۔

یہ بات یقینا بہت سے لوگوں کیلیے باعث حیرت ہوگی کہ عورت ولی کیسے ہو سکتی ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں ولی اس ہستی کے لیے بولا جاتا ہے جو مقرب الی اللہ ہو اور خصوصی کمالات و محاسن کی حامل ہو۔ لیکن قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے مرد اور عورت کو معاشرے میں ایک دوسرے کا ولی قرار دیا ہے۔ یہی بات اللہ رب العزت نے بائبل میں حضرت حو ا کی تخلیق کے ضمن میں فرمائی کہ میں آدم کا مدد گار پیدا کر رہا ہوں۔

اگر ہم معاشرہ سازی اور تربیت سازی میں ولی کی حیثیت اور خصوصیات دیکھیں تو اسلامی تاریخ میں اولیاء اور مجددین نے معاشرہ سازی میں اہم کر دار ادا کیا جو کام تربیت سازی میں ولی کرتا ہیوہ کام دورِ حاضر میں معاشرتی تنزلی اور تربیت سازی کے ضمن میں عورت بھی با احسن طریقے سے کر سکتی ہے بشرطیکہ وہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق صحیح فکرو نظر یہ سے آگاہ ہو۔ اس نظریہ کی مزید وضاحت کیلیے دور ِ حاضر میں عورت کی حیثیت بطور ولی معاشرہ متعارف کروانے کیلیے لفظ ولی کے مختلف مفاہیم کا جائزہ پیش کیا جا رہاہے۔

ولی کا مفہوم:

لغت کے اعتبار سے ولی کے کئی مفاہیم ہیں۔ عرف عام میں اس سے مراد دوست کے لیے جاتے ہیں۔ مختلف مفاہیم کی روشنی میں دیکھا جائے تو ولی وہ ہوتا ہے جو معاشرہ کی نبض پر ہاتھ رکھ کر نہ صرف مرض تشخیص کرے بلکہ معاشرہ کیمسائل کے حل کیلیے تربیت بھی فراہم کرے۔ اسی طرح عورت معاشرے میں ہر حیثیت میں نمایاں اور مستحکم کردار رکھتی ہے انفرادی حیثیت کے ساتھ ساتھ خاندان کی اکائی کی بنیاد بھی عورت ہے گویا کہ وہ

  1. اپنے کردار و وقار کی محافظ ہے
  2. خاندان کی نگہبان ہے
  3. نسل نو کی محافظ ہے

دورِ جدید میں نسل نو جس تربیتی، فکری اور اخلاقی تنزلی کا شکا رہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کے جس کردار کی طرف اشارہ کیا وہ اب ناپید ہوتا جار ہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دن بدن معاشرتی انحطاط کا شکار ہورہے ہیں۔ اگر اس تنزلی کی ایک وجہ معاشرے میں بطورِ ولی عورت کے کردار کی مفقود یت کو کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ آج بطور ولی مرد اور عورت کے کردار کو واضح کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ذیل میں بطور ولی عورت کے کردارکے چند پہلو واضح کیے جارہے ہیں۔

ولی کے معنی نجات دہندہ اورمعاون کے ہیں۔

لفظ ولی کے معنی:

1۔ صاحب مودت و نصرت

یعنی ولی وہ ہوتا ہے جو انسانیت سے محبت و پیار کرنے والا ہوتا ہے۔ اس معنی ٰ کے پیش ِ نظر اگر بحثیت ولی عورت کے کردار کو دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ نے فطرتاً عورت کے اندر محبت اور مامتا کے جذبات ودیت کیے ہیں۔ اسی وجہ سے اسے ماں کا رتبہ عطا کیا ہے تاکہ وہ شفقت اور محبت سے نسلِ نو کو پروان چڑھائے اور خانگی امور میں مرد کی معاونت کرے۔

2۔ ہادی و مرشد:

بھٹکی ہوئی انسانیت کو مولا کے قریب لا نے کے لئے تربیت فراہم کرتا ہے۔ عورت نسل ِ نو کی تر بیت میں یہی کردار ادا کرتی ہے۔جیساکہ حدیث ِ مبارکہ کا مفہوم ہے کہ ہر بچہ فطرت ِ سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے اس کے مسلمان یا عیسائی ہونے کا تعلق اس کے والدین سے ہوتاہے یعنی عورت بچے کی ہادی بن کر اسے صحیح اور غلط کے درمیان تمیز کرنا سکھاتی ہے۔ اگر عورت یہ کردار ادا نہ کرے تو معاشرے کی تنزلی کاآغاز یہیں سے ہو جاتا ہے۔

3۔ نگہبان و سرپرست:

معاشرے میں مروجہ غیر اسلامی اور منتشرانہ سوچ کو شعورو آگہی دے کر ختم کرنے اور احکامات کی حفاظت کرنے والا ہو۔ عورت اپنے کردار، گھر کی نگہبان اور محافظ ہے۔ اس کی اس حیثیت کو قرآن ِ پاک میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ عورت شوہر کی غیر موجودگی میں گھر کی محافظ اور نگہبان ہے اسی طرح وہ اپنے کردار، وقار، تشخص اور نسل نو کی محافظ ہے اگر عورت محافظیت اور نگہبانی کا یہ فریضہ کماحقہ سر انجام نہیں دیتی تو معاشرتی نظام کے زوال کا آغاز ہو جاتا ہے۔

4۔ المخلص:

یعنی وہ جو ظلم سے خلاصی دلوادے۔ اس معنیٰ کا براہ راست تعلق عورت کے تربیتی کردار سے ہے۔ جب عورت خود تربیت یافتہ اور اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے مقام سے روشناس ہو کر تربیت کا فریضہ سر انجام دے تو وہ موجودہ بے راہ روی اوردن بدن زوال کا شکار نسل ِ نو کو تباہی اور بربادی سے خلاصی دلو ا سکتی ہے یعنی معاشرے میں ظلم کی روک تھا م عورت کے تربیت یافتہ ہونے اور تربیت فراہم کرنے پر منحصر ہے کیونکہ بیٹوں کی سیرت ماؤں کی آغوش میں تیار ہوتی ہیں۔ انسانی فطر ت میں سچائی اور پاکیزگی کے جوہر ماؤں ہی کی تربیت سے چمکتے ہیں۔

5۔ معاون:

یعنی نفرتوں کو ختم کر کے معاشرے کے اذہان کو جوڑنا اور معاونت کرنا۔ عورت بطور ولی خاندان کی وحدت کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر ہم دورِ حاضر میں خاندان کی علیحدگی کی شرح میں اضافہ دیکھیں تو عورت کے ا س کردار کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے کیونکہ عورت اپنی تربیت سے نسلوں کے اندر رشتوں کی محبت پیدا کر کے خاندان کی اکائی کو بچا نے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ جہاں شوہر نان و نفقہ اور مالی و معاشی اعتبار سے ذمہ دار ہے تو وہیں خاندان کی تربیت عورت کے کندھوں پر ہے۔ خاندان کے استحکام کے بغیر معاشرہ کا استحکام ممکن نہیں۔

6۔ ہمدرد، غمگسار اور ایثار پسند:

عورت بطورِ ولی ایک خاندان کو خوشحال بنانے کیلیے بہت سے قربانیاں دیتی ہے۔ عورت اپنی ذات میں ایک تنا آور درخت کی مانند ہے جو ہر قسم کے سرد و گرم حالات کا دلیری سے مقابلہ کرتی ہے۔ اس عزم و ہمت، حوصلے، استقامت اور جذبہ ایثار و قربانی کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے جنت کو اس کے قدموں تلے بچھا دیا ہے۔ تاریخِ اسلام خواتین کی قربانیوں اور خدمات کا ذکر کیے بغیر نامکمل رہتی ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں مسلم خواتین کا جو کردار رہا وہ آج ساری دنیا کیلیے ایک واضح سبق بھی ہے۔

7۔ معاشرے میں امن کی ضامن:

عورت کی گود میں نسلیں پروان چڑھتی ہیں اگر عورت نسل کی تربیت صحیح خطوط پر کرے تو معاشرے کو امن کا گہوارہ بنا سکتی ہے۔

8۔ معاشرہ ساز:

کوئی بھی معاشرہ عورت کو تعلیم و تربیت فراہم کیے بغیر ترقی نہیں کرسکتا کیونکہ تربیت یافتہ عورت ہی معاشرے میں توازن پیدا کرسکتی ہے۔کیونکہ اسلامی تاریخ میں عورت کی تربیت کا کلیدی کر دار رہا ہے جس نے بڑے بڑے صوفیاء، آئمہ او ر سربراہان ِ مملکت کو پروان چڑھایا ہے۔

9۔ مضبوط اور مستحکم خاندان کی اساس:

خاندان معاشرے کی اہم اور بنیادی اکائی ہے۔مستحکم معاشرے کی بنیاد پر پرسکون معاشرہ بنتا ہے۔مگر بدقسمتی سے خاندان موجودہ مادیت پرستی کا شکار ہو کر زوال پذیر ہو رہے ہیں۔ایک ہی خاندان کے افراد ایک دوسرے سے بہت دور جا چکے ہیں۔پھر نفسا نفسی کے عالم میں کسی کے پاس اپنے خاندان کی بنیاد مضبوط کرنے کا وقت نہیں مگر عورت کو اللہ پاک نے یہ صلاحیت عطا کی ہے کہ وہ خاندان کے استحکام کے لئے اساس مہیا کر سکتی ہے۔ عورت کو چاہئے کہ اپنے خاندان کو معاشرے کا بہترین شہری اور اچھاا انسان بنائے۔ اپنے خاندان اور اولاد کو معاشرے کا سودمند شہری بنائے اور اس کے لئے عورت کے اندر درج ذیل خصوصیات ہونا ضروری ہیں۔

  • با شعور
  • تربیت یافتہ
  • ہنرمند

الغرض عورت معاشرے کا لازمی جزو اور عنصر ہے۔ ان میں سے عورت کے کردار اور ذات کی نفی کر دی جائے تو معاشرہ کی اساس ہی ختم ہو جائے گی۔ عورت کے بغیر معاشرہ ادھورا ہے۔

10۔ پرامن خاندان سے پر امن معاشرہ:

خاندان کی تربیت ہی انسان کو معاشرے کا مفید رکن بنانے میں مدد دیتی ہے اگر خاندان انتشار کا شکار ہیں تو معاشرہ کبھی بھی پرسکون اور پرامن نہیں رہ سکتا ہے۔

مذکورہ تھیوری کے نتیجے میں سفارشات:

  1. مرد اور عورت کے متوازن کر دار پر ورکشاپس:۔ حکومتی سطح پر مرد اور عورت کے متوازن کردار اور معاشرے میں دونوں کے ایک دوسرے کے ولی ہونے کے تصور پر ورکشاپس اور سیمینارز منعقد کیے جائیں تاکہ دونوں صنفوں کے درمیان اختلاف اور مقابلے کی فضا کو ختم کر کے معاونت کی سطح پر لایا جائے۔
  2. تعلیمی ادارہ جات میں صنفی اختلافات کو بیان کرنے کی بجائے طلباء کے لئے کونسلنگ سیشنز منعقد کئے جائیں جہاں انھیں اسلامی تعلیمات کے سیشنشز دیے جائیں۔
  3. ریاستی سطح پر ایک جامع تربیتی نظام تشکیل دیا جائیجس کے تحت تعلیمی اداروں، سماجی و فلاجی این جی اوز کے ذریعے مرد اور خواتین دونوں کے لئے تربیتی پروگرامز تشکیل دیے جائیں۔
  4. سماجی اور فلاحی این جی او ز کے ذریعے روایتی نظام تعلیم کے ساتھ ساتھ غیر روایتی انداز تعلیم سے ایک دوسرے کی عزت و وقار پر مبنی نظریات کو فروغ دیا جائے۔
  5. حاملہ خواتین کی تربیت کا نظام بھی متعارف کروایا جائے اگر اس سطح پر خاتون کی تربیت کی جائے وہ اس سے آگے نسل نو کی تربیت بہتر انداز میں کر سکتی ہے۔
  6. حکومتی ضلعی یا تحصیلی سطح پر Mother training centers ماؤں کی ٹریننگ کے لئے سینٹرز قائم کرے تاکہ ماں کا انداز تربیت متشدد رویوں کی بجائے متوازن کردار کا حامل ہو اور بچوں کی بہتر تربیت کی جا سکے۔
  7. فیملی یونٹ میں استحکام کی ضرورت: پاکستانی معاشرے میں فیملی یونت کو مستحکم کرنے کیلیے حکومتی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے اسکے بغیر نہ تو حقوق کی جنگ لڑی جا سکتی ہے اور نہ معاشرے کو متوازن سوچ کے حامل افراد میسر آ سکتے ہیں، اس میں خاتون کو آگے بڑھ کر اپنی نسلوں کی متوازن تربیت سے معاشرہ کی سوچ بدلنی ہوگی۔
  8. انتہا پسندانہ مذہبی سوچ کا خاتمہ: ہمارے معاشرے میں عورت کے ساتھ استحصالی رویے کے ذمہ دار انتہا پسند مذہبی طبقہ بھی ہے لہذا اس سوچ کے خاتمے کیلیے مدرسہ ریفارمز حکومت کی ترجیحات میں ہونا چاہیے۔
  9. قوانین پر عملداری کی ضرورت: اسلام میں خاتون کو جو حقوق عطا کر دیے گئے اسکی نظیر کوئی مذہب یا معاشرہ پیش نہیں کرسکتا، پاکستانی آئین میں حقوق کی فراہمی پر قانون موجود مگر عملداری نہیں ہے جس پر فوری اقدامات ہونے چاہیں۔