کتاب اور انسان کا باہمی تعلق

ڈاکٹر شفاقت علی البغدادی الازہری

بلاشک و شبہ کتاب اختراع و ایجاد، اصلاح و فلاح اور ہدایت و رشد کے حصول کے لیے لازوال علوم و معارف کا خزانہ ہوتی ہے کیونکہ ماہر و خبیر وار تجربہ کار مؤلف اپنی پوری زندگی پر محیط تجارب و مساعی کے لب لباب اور نچوڑ کو منظم اور مخطط انداز و صورت سے کتاب کے ہر قرطاس کو سجاتا ہے بایں وجہ کتاب قاری (Reader)کے لیے زندگی کے ہر گوشہ میں راہنمائی دینے کے اعتبار سے مصدر و منبع کا درجہ رکھتی ہے۔ اسی طرح ایک کتاب حیات انسان سے متعلقہ جملہ شعبہ جات اور میادین میں مفید و مؤثر معلومات فراہم کرتی ہے۔

بنی نوع انسان اور کتاب کے مابین تعلق انتہائی پختہ اور مضبوط ہے۔ حضرت انسان ہر حوالہ سے کتاب سے مربوط نظر آتا ہے کسی صورت میں بھی وہ کتاب کے بغیر (Survive) نہیں کر سکتا۔یہ دونوں ایک دوسرے سے اس حد تک مربوط ہیں کہ یہ کہنا خلاف قیاس و حقیقت نہیں ہے کہ کتاب انسان کی رشد و ہدایت کے لئے مرشد و راہبر کا درجہ رکھتی ہے۔

کتاب کی اس حیثیت و مرتبے کو جاننے کے لیے تاریخ انسان پر عمیق و گہری نظر ڈالنے اور غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں اللہ جل مجدہ کی طرف سے عطا کردہ وحی وکتاب مرشدو راہبر کا درجہ رکھتی تھی۔ ان کے بعد آدم ثانی حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں کتاب الہی ذریعہ ہدایت تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں ابراہمی صحیفے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں تورات، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں انجیل حتی کہ آخری نبی کے دور میں قیامت تک کتاب قرآن مجید انسانیت کی مرشد ہے۔

یہ چند الہامی کتب کے حوالہ سے ایک امختصر سا تذکرہ و خلاصہ بیان کیا گیا ہے کیونکہ یہ فی زمانہ ذریعہ ہدایت و راہنمائی رہی ہیں۔ انتہائی غور طلب امر ہے کہ اللہ رب العزت نے ان الہامی کتب میں موجود احکام و عبر کو مختلف امتوں اور افراد تک پہچانے کے لیے عالی المرتبت ہستیوں یعنی انبیا و رسل کا انتخاب فرمایا ہے۔جنہوں نے اپنی اپنی امت کو کتاب کے ساتھ تعلق مضبوط کرنے اور اس کے احکام فہم و تعلیم دینے کی کاوشیں سر انجام دیں ہیں۔

انہی کتب میں سے بلاشک و شبہ قرآن حکیم ایک ایسی الہامی کتاب ہے جو ہر قسم کی تحریف و تبدیلی سے محفوظ ہے اورر قیامت تک اللہ جل جلالہ اس کی حفاظت خود فرما رہا ہے۔

جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ.

(الحجر: 09)

بیشک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔

قرآن حکیم کا امتیاز ہے کہ یہ وہ کتاب ہے جو تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلقہ معلومات و معارف کا مجموعہ ہے بلکہ یہ انسانیت کو ہر جہت و پہلو سے متعلق راہنمائی فراہم کرتی ہے۔ دوسری طرف عظیم مسلم مفکرین اور علماء اسلام نے اس میں مسلسل غوروفکرتدبر کر کے مختلف موضوعات پر الگ الگ کتب تحریر فرما دیں ہیں جن سے امت مرحومہ استفادہ کر رہی ہے۔

کتاب اور انسان کے مابین مضبوط تعلق کو کا اس مثال سے بھی جانا جا سکتا ہے کہ جب ایک بچہ توتلی زبان بولنا شروع کرتا ہے تو اسے کتاب دی جاتی ہے۔ پھر وہ بچہ کتاب بینی کے ذریعے اپنے مراحل تعلیم مکمل کرتا ہے۔ جتنا زیادہ کتاب کے درک و تبحر حاصل کرتا ہے، اتنا ہی عظیم انسان بنتا ہے کوئی سائنسدن، کوئی قانون دان، صحافی، پروفسیر، آفیسریا عظیم شخصیت بن کر معاشرے میں اپنی خدمات سر انجام دیتا ہے۔

جب ہم انسان اور کتاب کی تاریخ پر غور و فکر کرتے ہیں تو ہمیں انتہائی قدیم اور بہت پرانی نظر آتی ہے اور ان کا باہمی تعلق بھی بہت قدیم ہے تاریخ کے تناظر میں انسان اور کتاب کے باہمی تعلق کو بیان کرتے ہوئے قرآن مجید میں ہمیں درج ذیل شواہد و دلائل ملتے ہیں۔

اگر ہم انبیاء کرام علیہم السلام کی حیات قدسیہ پر نظر دوڑائیں تو بخوبی علم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی اللہ کے احکام کے عین مطابق گزر رہی ہے اور وہ کل مخلوقات میں افضل و اعلیٰ مخلوق ہیں اللہ نے ان کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے کتابیں نازل فرمائی ہیں۔ اللہ نے انبیاء علیہم السلام پر وحی نازل فرمائی اور بعض کو صحف و کتب عطا فرمائیں سورۃ نساء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

إِنَّا أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ کَمَا أَوْحَیْنَا إِلَی نُوحٍ وَالنَّبِیِّینَ مِن بَعْدِهِ وَأَوْحَیْنَا إِلَی إِبْرَاهِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإْسْحَقَ وَیَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِیسَی وَأَیُّوبَ وَیُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَیْمَانَ وَآتَیْنَا دَاوُودَ زَبُورًا.

(نساء، 163)

(اے حبیب!) بیشک ہم نے آپ کی طرف (اُسی طرح) وحی بھیجی ہے جیسے ہم نے نوح (علیہ السلام) کی طرف اور ان کے بعد (دوسرے) پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی۔ اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل اور اسحاق و یعقوب اور (ان کی) اولاد اور عیسٰی اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان (علیھم السلام) کی طرف (بھی) وحی فرمائی، اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو (بھی) زبور عطا کی تھی۔

اللہ رب العزت نے سورۃ اعلیٰ میں آخرت کا ذکر اور تعلیم خیر کا بیان فرماتے ہوئے سابقہ الہامی صحائف و کتب کا طرف اشارہ فرمایا ہے۔

إِنَّ هَذَا لَفِی الصُّحُفِ الْأُولَی. صُحُفِ إِبْرَاهِیمَ وَمُوسَی.

(اعلٰی: 19-18)

بیشک یہ (تعلیم) اگلے صحیفوں میں (بھی مذکور) ہے. (جو) ابراہیم اور موسٰی (علیہما السلام) کے صحائف ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے کتاب عطا فرمائی اور صراحت فرمادی۔

وَإِذْ آتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّکُمْ تَهْتَدُونَ.

(البقرة، 53)

اور جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب اور حق و باطل میں فرق کرنے والا (معجزہ) عطا کیا تاکہ تم راهِ ہدایت پاؤ۔

اللہ رب العزت نے یہود و نصاریٰ کو اہل کتاب کا لقب دیا ہے اور کثیر مقامات پر اس نے انہیں اس لقب سے پکارا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یَا أَهْلَ الْکِتَابِ قَدْ جَاءَکُمْ رَسُولُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیرًا مِّمَّا کُنْتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْکِتَابِ وَیَعْفُواْ عَن کَثِیرٍ قَدْ جَاءَکُم مِّنَ اللّهِ نُورٌ وَکِتَابٌ مُّبِینٌ.

(المائدة: 15)

اے اہلِ کتاب! بیشک تمہارے پاس ہمارے (یہ) رسول تشریف لائے ہیں جو تمہارے لئے بہت سی ایسی باتیں (واضح طور پر) ظاہر فرماتے ہیں جو تم کتاب میں سے چھپائے رکھتے تھے اور (تمہاری) بہت سی باتوں سے درگزر (بھی) فرماتے ہیں۔ بیشک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

ان ابن عباس رضی الله عنهما قال:" کیف تسالون اهل الکتاب عن شیء وکتابکم الذی انزل علی رسول الله صلی الله علیه وسلم احدث تقرء ونه محضا لم یشب؟ وقد حدثکم ان اهل الکتاب بدلوا کتاب الله وغیروه وکتبوا بایدیهم الکتاب، وقالوا هو من عند الله لیشتروا به ثمنا قلیلا (سورۃ البقرۃ آیۃ 79) الا ینهاکم ما جاء کم من العلم عن مسالتهم؟ لا والله ما راینا منهم رجلا یسالکم عن الذی انزل علیکم.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ تم اہل کتاب سے کسی چیز کے بارے میں کیوں پوچھتے ہو جب کہ تمہاری کتاب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی وہ تازہ بھی ہے اور محفوظ بھی اور تمہیں اس نے بتا بھی دیا کہ اہل کتاب نے اپنا دین بدل ڈالا اور اللہ کی کتاب میں تبدیلی کر دی اور اسے اپنے ہاتھ سے از خود بنا کر لکھا اور کہا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعہ دنیا کا تھوڑا سا مال کما لیں۔ تمہارے پاس (قرآن و حدیث کا) جو علم ہے وہ تمہیں ان سے پوچھنے سے منع کرتا ہے۔ واللہ! میں تو نہیں دیکھتا کہ اہل کتاب میں سے کوئی تم سے اس کے بارے میں پوچھتا ہو جو تم پر نازل کیا گیا ہو۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس بھی ایک کتاب تھی جس میں انہوں نے احادیث مبارکہ لکھی ہوئیں تھی۔ چنانچہ ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا رسول اللہa نے آپ کو کوئی خاص بات بتائی ہے جو عام لوگوں کو نہ بتائی ہو؟ تو وہ بولے :

لا إلا ما فی کتابی هذا، قال مسدد: قال: فاخرج کتابا، وقال احمد: کتابا من قراب سیفه، فإذا فیه: المؤمنون تکافا دماؤهم وهم ید علی من سواهم ویسعی بذمتهم ادناهم الا لا یقتل مؤمن بکافر ولا ذو عهد فی عهده،

نہیں، سوائے اس چیز کے جو میری اس کتاب میں ہے۔ مسدد کہتے ہیں: پھر انہوں نے ایک کتاب نکالی، احمد کے الفاظ یوں ہیں اپنی تلوار کے غلاف سے ایک کتاب (نکالی) اس میں یہ لکھا تھا: سب مسلمانوں کا خون برابر ہے اور وہ غیروں کے مقابل (باہمی نصرت و معاونت میں) گویا ایک ہاتھ ہیں، اور ان میں کا ایک ادنی بھی ان کے امان کا پاس و لحاظ رکھے گا، آگاہ رہو! کہ کوئی مومن کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا، اور نہ ہی کوئی ذمی معاہد جب تک وہ معاہد ہے قتل کیا جائے گا۔

چوتھی صدی ہجری میں اصفہان شہر کے عظیم الشان ایک مشہور ادیب لغوی و ادیب اور ناقد مشہور ادیب و ناقد ابن طباطبا علوی نے کتاب کے بارے میں خوبصورت اور شاندار قول فرمایا ہے۔ آپ نے کتابوں کو قلعہ اور باغات قرار دیا ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔

الکتب حصونُ العقلاء التی یلجأون إلیها، وبساتینهُم التی یتنزهون فیها.

کتابیں عقلمند لوگوں کے لیے مضبوط قلعے ہیں جن میں وہ پناہ لیتے ہیں اور ان کے باغات سیرگاہیں ہیں جس میں وہ سیر وتفریح کرتے ہیں۔

آج سے کئی سو سال قبل اپنے اسلاف، علمائے کرام، مسلم مفکرین اور دانشوروں کی زندگیوں کا جب ہم بغور مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے شب و روز کا بیشتر حصہ مطالعۂ کتب اور تصنیف و تالیف میں گزرتا تھا، کتابیں اُن کا اوڑھنا اور بچھونا ہوتی تھیں۔

الغرض علم کی فضیلت میں کوئی شک نہیں ہے، علم نافع کی حاجت ہر کسی شخص کو رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلاف نے ہمیشہ کتاب کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط بنایا اور اپنے طلباء کو بھی کتاب کا ادب کرنے اور اسے اپنا دوست بنانے کی ہمیشہ تلقین کی۔ لہذا مذکورہ بالا گفتگو سے یہ ثابت ہوا کہ انسان اور کتاب کا تعلق قدیم ہے اور ایک اچھا اور باوقار اور مفید فردِ معاشرہ بننے کے لیے کتاب کے ساتھ تعلق مضبوط کرنا اور اسے اپنی زندگی کا جزولاینفک بنانا انتہائی اہم اور ضروری امر ہے۔ اللہ رب العزت ہم سب کو اپنی کتاب کے ساتھ بالخصوص اور تمام مفید کتابوں کے ساتھ بالعموم مضبوط تعلق قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین۔