عیدالفطر کی فضیلت و اہمیت

اللہ رب العزت نے بطور مسلمان جہاں ہمارے لیے عبادات کی بجا آوری کی تلقین فرمائی وہیں ان عبادات کو پورے اہتمام کے ساتھ ادا کرنے والوں کے لیے انعامات کا بھی ذکر فرمایا۔ رمضان المبارک میں بندہ اللہ کی خاطر بھوک و پیاس اور قیام اللیل کے ذریعے اس کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہتا ہے جب وہ کماحقہ اس ماہ مبارک کا حق ادا کرتا ہے تو اللہ رب العزت عیدالفطر کی صورت میں انعام سے نوازتا ہے۔

عیدالفطر کے حوالے سے چند روایات ذیل میں پیش کی جارہی ہیں:

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ نے دو دن کھیل کود کے لیے مقرر کر رکھے تھے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: یہ دو دن کیا (اہمیت رکھتے) ہیں؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عرض گزار ہوئے: (یا رسول اللہ !) ہم ان دو دنوں میں ایامِ جاہلیت میں کھیلتے کودتے (اور خوشی مناتے) تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان دونوں کی جگہ ان سے بہتر دن مرحمت فرمائے ہیں: عید الفطر اور عید الاضحی۔ (احمد ابن حنبل فی المسند، 3/ 250، رقم: 13647)

حضرت سعید بن اوس انصاری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب عید الفطر کا دن آتا ہے توفرشتے راستوں کے کناروں پر کھڑے ہو کر پکارتے ہیں: اے گروہِ مسلمین! کرم والے رب کی بارگاہ کی طرف چلو! وہی تمہیں نیکی کی توفیق عطا فرما کر احسان فرماتا ہے۔ پھر اس نیکی پر بہت بڑا ثواب عطا فرماتا ہے۔ تمہیں راتوں کو قیام کا حکم دیا گیا تو تم نے قیام کیا، دن کے روزے رکھنے کا حکم دیا گیا تو تم نے روزے بھی رکھے، اور تم نے اپنے پروردگار کی اطاعت و فرمانبرداری کی۔ اب جزائیں سمیٹ لو۔ پھر جب لوگ نماز پڑھتے ہیں تو ایک ندا دینے والا ندا دیتا ہے: سن لو! تمہارے رب نے تمہیں بخش دیا ہے، خیرات و برکات سمیٹتے ہوئے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ کیونکہ یہ انعام و اکرام کا دن ہے۔ آسمانوں میں اس دن کا نام یوم الجائزہ (انعام کا دن) ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب شب قدر ہوتی ہے تو جبریل علیہ السلام فرشتوں کی جماعت کے ساتھ اُترتے ہیں، اور ہر اس شخص پر سلام بھیجتے ہیں جو کھڑا یا بیٹھا ذکر میں مشغول ہوتا ہے۔ جب ان کی عید کا دن یعنی عید الفطر ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان عبادت گزار بندوں پر فرشتوں کے سامنے فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے: اے میرے فرشتو! اُس مزدور کی اُجرت کیا ہونی چاہیے جو اپنا کام پورا کر دے؟ وہ عرض کرتے ہیں: الٰہی! اس کی اُجرت یہ ہے کہ اسے پورا پورا اجر دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے فرشتو! میرے بندوں اور بندیوں نے اپنے ذمہ واجب الادا میرا فریضہ ادا کر دیا ہے۔ پھر جب وہ مجھ سے دعا کرتے ہوئے دستِ طلب دراز کریں تو مجھے اپنی عزت، اپنے جلال، اپنی سخاوت، اپنی بلند شان اور رفعتِ مکانی کی قسم! میں ان کی دعا ضرور قبول کروں گا۔ پھر (اپنے بندوں سے) فرماتا ہے: لوٹ جاؤ، میں نے تمہیں بخش دیا اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: پھر یہ لوگ بخشش یافتہ ہو کر لوٹتے ہیں۔

اسی طرح حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں عید الفطر کے دن حکم فرمایا کرتے تھے کہ ہم اپنے فقراء بھائیوں کو کھانا کھلائیں۔ آپ ﷺ فرماتے تھے: جس نے کسی ایک کو کھانا کھلایا اسے جہنم سے آزاد کر دیا جائے گا، جس نے دو کو کھانا کھلایا اس کے لیے شرک اور نفاق سے پاک ہونا لکھ دیا جائے گا اور جس نے تین کو کھانا کھلایا اس کے لیے جنت واجب ہو جائے گی۔ آپ ﷺ ہمیں حکم فرمایا کرتے تھے کہ ہم روٹی اورگوشت، روٹی اور زیتون کا تیل،روٹی اور دودھ کھلائیں۔ آپ ﷺ فرماتے تھے: تم سالن کے ساتھ کھانا کھایا کرو، تمہاری زندگی تمہارے لیے اُلفت کا باعث ہوگی۔

عثمان بن ابی العاتکۃ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے عید الفطر کے خطبہ میں فرمایا: (لوگو!) کیا تم جانتے ہو کہ آج تم کیوں اپنے گھروں سے باہر نکلے ہو؟ تم نے تیس دن روزے رکھے ہیں اور تم نے تیس راتیں قیام کیا ہے۔ لہٰذا آج تم اپنے رب سے سوال کرنے آئے ہو کہ وہ تمہاری ان عبادات کو قبول فرمائے۔

حضرت عائشہ صدیقہ j سے مروی ہے کہ اُنہوں نے فرمایا: حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں انصار نے جنگ بُعاث میں جو بہادری دکھائی تھی وہ بیان کر رہیں تھیں وہ فرماتی ہیں کہ یہ (پیشہ ور) گانے والی نہ تھیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے گھر میں شیطانی باجہ! یہ عید کے دن کی بات ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے ابو بکر! ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

امام مسلم کی روایت میں ہے کہ وہ دونوں لڑکیاں دف بجا رہی تھیں۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: جب حضور نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہلِ حبشہ نے آپ ﷺ کی آمد کی خوشی میں اپنے سامانِ حرب کے ساتھ رقص کیا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی مدینہ منورہ تشریف آوری کا دن ان کے نزدیک (تمام خوشیوں اور) عید کے دنوں سے بڑھ کر تھا۔

(عسقلانی، فتح الباری، 2: 443)