خوشحال خاندان پرامن معاشرے کی اساس

تحریم رفعت

لوگوں کے رہن سہن کے انداز یا افراد کے باہمی تعلقات کے تانے بانے کو معاشرہ کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت کو جوڑا پیدا فرمایا ہے، اسلام نے ان کے بنیادی حقوق و فرائض مقرر کیے ہیں۔ انہیں مختلف رشتوں میں پرو دیا ہے اور ان رشتوں کو استوار اور برقرار رکھنے کی اساس باہم محبت و فرض شناسی کے بے لوث جذبہ میں پوشیدہ رکھی ہے۔ مردوں کو قوام کہہ کر خاندان کا کفیل، عزت و احترام، محبت و آشتی اور تحفظ و نگرانی کا فریضہ بھی سونپا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی معاشرے کی بنیادی اساس خاندان ہوتا ہے جبکہ خاندان کی بنیادی اساس مرد اور عورت ہوتے ہیں۔ یہی بنیادی اکائیاں خاندان کی عمارت میں ستون کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کی مضبوطی اور توازن میں ہی خاندان کی بقا اور خوشحالی کا راز مضمر ہوتا ہے۔ باہمی افہام و تفہیم اور شراکت داروں کے احترام کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی ہے۔ اخلاص اور دیانت داری شراکت داروں کے مابین تعلقات کی شفافیت اور طہارت کی کنجی ہے۔معاشرے کا حسن اور پہچان انسانی رشتوں میں موجود احساس، ہمدردی، غمگساری اور پیار و محبت کی بدولت وجود میں آتا ہے۔

اسلامی تعلیمات کے تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام نے خواتین کی بجائے مردوں کو خاندان کا کفیل بنایا ہے، اور عورت کے نان و نفقہ، حق مہر اور وراثت وغیرہ کے ذریعے اس کو مالی طور پر مستحکم کیا ہے، مگر مرورِ زمانہ حالات کے پیش نظر عورت کو بھی خاندان کو مستحکم و مضبوط کرنے کے لئے اولاد کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ معاشی استحکام کیلئے بھی کوشش کرنا پڑتی ہے نیز بہترین تعلیم و تربیت اور ہنرمندی کی بدولت اس کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف خاندان کی خوشحالی کا باعث بنے بلکہ ملک و قوم کیلئے بھی ترقی اور خوشحالی کا سبب بنے۔

معاشرتی خوشحالی کے توازن کو برقرار رکھتے ہوئے حکومتی سطح پر بھی مردوں کے شانہ بشانہ خواتین کی معاشی خود انحصاری اور زندگی کے دیگر شعبہ جات میں بھی خواتین کو نمائندگی دی جا رہی ہے اور وہ بھی اپنے خاندان کے روشن مستقبل کیلئے کوشاں نظر آتی ہے۔

فکری تربیت کی کمی اور اخلاقی اقدار کے فقدان نے تعلیم یافتہ خاندانوں کو بھی مسائل کی دلدل میں ایسا پھنسایا ہے کہ وہ محض رسمی تعلیم حاصل کر لینے اور مال و دولت جمع کرنے کو ہی خوشحالی اور ترقی کا ذریعہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ جبکہ پرامن معاشرے کے قیام کیلئے نہایت ضروری ہے کہ خاندان کو فکری بالیدگی، شعودی پختگی اور اخلاقی و روحانی اقدار کو بھی ترجیحاً اپنی تربیت کا حصہ بنانا چاہیے۔ خاندان کی خوشحالی کا راز اس امر میں پوشیدہ ہے کہ والدین نئی نسل کے سامنے صبر و براشت، تحمل و بردباری کا مظاہرہ عملی طور پر پیش کریں، بلاشبہ اولاد کی اولین درسگاہ گھر کی چار دیواری ہی ہوتی ہے اور سب سے پہلے وہ جن اوصاف و کردار کو دیکھتا اور سیکھتا ہے وہ اسے اپنے والدین کی شکل میں میسر ہوتے ہیں۔ لہٰذا سربراہ خاندان جس روش پر گامزن ہوگا عین ممکن ہے کہ اولاد بھی اسی راستے کو اپناتے ہوئے اولاد کی عادات و اطوار کی تشکیل، طرز عمل اور مزاج میں والدین کی زندگی سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔

معاشرے کو پرامن بنانے میں بلاشبہ خوشحال خاندان بنیادی کردار ادا کرتا ہے، اور خاندان کو خوشحال بنانے میں اس گھر کے تمام افراد برابر کردار ادا کرتے ہیں جو اس خاندان کی خوشحالی کے توازن کا ضامن ہوتا ہے۔ معاشرتی امن کو برقرار رکھنے کیلئے یہ بھی لازم امر ہے کہ ہر سطح پر نصاب تعلیم میں حضور نبی اکرمaکی تعلیم و سیرت کی روشنی میں حضور نبی اکرمaکو بحیثیت سربراہ خاندان، اسوہ صحابہ و صحابیات کے ذریعے اہل خانہ کی تعلیم و تربیت کے مضامین شامل کیے جانے چاہیں جن کی بدولت خاندان کو رشتہ داروں سے حسن سلوک کی ترغیب، امور خانہ داری کی دیکھ بھال اور پرامن خاندان کی اہمیت و افادیت کو سبقاً پڑھایا جانا چاہیے۔

معاشرے کو خوشحال اور پرامن بنانے کیلئے صرف مرد یا صرف عورت پر کوئی الگ سے ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ ہی اس کیلئے کوشاں ہوں بلکہ یہ پورے خاندان کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کو خوشحال بنانے کیلئے اپنا بنیادی کردار ادا کرے اور خاندان کو احساس دلانے کیلئے نہ صرف تدریسی نظام کافی ہے بلکہ بعینہ یہ ذمہ داری میڈیا پر بھی آتی ہے کہ وہ معاشرتی اصلاح کے پہلوؤں کو اجاگر کرے، مرد و عورت کو متحارب بنا کر پیش کرنے کی بجائے خاندان میں باہمی پیار و محبت، اتفاق و یگانگت اور راشتہ داروں سے حسن سلوک کیلئے بچوں سے لیکر بڑوں تک کیلئے مختلف طرز کے پروگرامز ترتیب دے اور معاشرے کے امن کو تشکیل دینے سے لیکر اس کی بقاء اور استحکام میں بھی ہراول دستہ کا فریضہ سرانجام دے۔