دعوتِ دین اور داعی کی زندگی

انیلہ الیاس

دعوت دین ایک اہم فریضہ ہے جو بحیثیت امت مسلمہ ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ دعوت دین ایک ایسی عظیم سنت ہے کہ دیگر سنتیں اس کے ذیل میں آتی ہیں تو بے جانہ ہوگا مگر اس امر سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ دعوت دین حکمت پر مبنی ہو تو اثر رکھتی ہے۔

دعوت کا معنی و مفہوم:

دعوت کا مطلب پکارنا، بلانا لیکن اصطلاحی معنی سے مراد، اللہ کی طرف بلانا کیونکہ بشری کمزوریوں کی بدولت انسان کا تعلق اللہ سے کمزور پڑ جاتا ہے۔ اس تعلق کو بحال کرنے کے لیے دعوت دینا ناگزیر ہے۔ دعوت صرف اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرنے کا نام نہیں بلکہ ان تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا داعیہ پیدا کرنا دعوت ہے۔ دراصل دعوت ایک ذمہ داری ہے جو محویت کا عالم طاری کردیتی ہے پھر آدمی پہلے جیسا نہیں رہتا پھر اس کی نشست و برخاست انداز گفتگو اور معاملات و معمولات بدل جاتے ہیں اور وہ نیا انسان بن جاتا ہے۔ اس کی زندگی دعوت کے تقاضوں کے مطابق طے پاتی ہے پھر اس کے اندر ایک ہی سوچ گھر کرجاتی ہے کہ کس طرح مخلوق خدا کو اپنے خدا کی طرف متوجہ کیا جاسکے۔ جب یہ جذبہ کسی کو قریہ قریہ اور بستی بستی لیے پھرے تو پھر دعوت، دعوت بنتی ہے۔

دعوت میں بیک وقت تبلیغ، نصیحت، خوشخبری اور انداز کی کیفیات شامل ہونی چاہیے۔ اس لیے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّـآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا۔

(الاحزاب، 33: 45)

’’بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے‘‘۔

دعوت کی اہمیت کے پیش نظر قرآن میں اس کا بار بار تذکرہ کیا گیا ہے۔ گویا اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے قول و فعل حتی کہ حرکات و سکنات سے جو کچھ ظاہر ہو وہی دعوت ہے۔

داعی اور مدعو کا تعلق:

امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں کہ تبلیغ سے مراد کسی چیز کو اس کے مدعا و منشاء کی آخری حد تک پہنچا دینا محض تبلیغ ایک تقریر کرکے وما علینا الا البلاغ کہہ کر فارغ نہیں ہوتا بلکہ اس کی ذمہ داری بن جاتی ہے وہ لوگوں کی قدم بقدم منزل مقصود تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دے۔ جس طرح والدین بچے کو پال کر جوانی کے کمال تک پہنچاتے ہیں اس طرح داعی انسان کی روحانی قوتوں کو درجہ کمال تک پہنچاتا ہے۔ یہ بڑا محنت طلب کام ہے مخاطبین کا ذہنی ارتقاء مسلسل توجہ کا متقاضی ہوتا ہے۔ داعی اور مدعوئیں کے تعلق کو بخاری شریف کی حدیث مبارکہ سے سمجھا جاسکتا ہے۔

الذی یربی الناس بصغار العلم ثم بکبارھا.

’’جو لوگوں کی تربیت پہلے چھوٹے پھر بڑے سے کرے۔‘‘

دراصل رب اسے کہتے ہیں جو رفتہ رفتہ درجہ کمال تک پہنچائے۔ گویا داعی اللہ کی صفت ربوبیت کا مظہر بن جائے۔ لہذا محنت، جدوجہد، اہتمام اور انتظام کے بغیر دعوت اسلامی صحیح معنوں میں دعوت نہیں بن سکتی۔ اسلامی دعوت جان سوزی، دلسوزی اور خون جگر کا تقاضا کرتی ہے بقول شاعر

؎کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

مقصدِ دعوت:

دعوت کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کو اللہ کی بندگی کی طرف مائل کرنا ہے۔ ارشاد باری ہے:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ.

(الذاریات، 51: 56)

’’اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لیے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں۔‘‘

صحیح معنوں میں اللہ کا بندہ بننے کے لیے ضروری ہے پاکیزہ فضا اور ماحول میسر آئے جس کے لیے جاہلانہ اور طاغوتی آلودگی کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ لہذا غلبہ اسلام کی بحالی کی جدوجہد مقصد دعوت کے حصول کے لیے لازمی ٹھہری۔ اس کی کامیابی چند شرائط پر منحصر ہے:

1۔ احیائے اسلام کے لیے فکری ونظری، علمی و عملی، اخلاقی و روحانی اور معاشی و سماجی سطح پر کام کرنا۔

2۔ دعوت انسانی زندگی کے تمام اطراف و جوانب کو اپنے گھیرے میں لے لے۔

3۔ جمود کو توڑنے کے لیے اسلام کی سائنسی اور عقلی تعبیر کے ساتھ اجتہادی صلاحیتوں سے کام لینا۔

4۔ مذہبی تعلیمات کو زندگی کے ہر میدان میں فیصلہ کن عامل کی حیثیت دینا۔

5۔ اتحاد امت کے لیے کام کرنا۔

دعوت کی اہمیت:

اسلام دین دعوت ہے جو دعوت و تبلیغ کا صحیح تصور بھی عطا کرتا ہے۔ قرآن مجید میں رسول اللہ ﷺ کی داعیانہ حیثیت کو اجاگر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

یٰـٓاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّـآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا. وَّ دَاعِیًا اِلَی اللهِ بِاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا.

(الاحزاب، 33: 45-46)

’’اے نبِیّ (مکرّم!) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)‘‘۔

آپ ﷺ حکمراں، سپہ سالار، سیاستدان، مدبر، مفکر، مفسر، جج، تاجر غرض کہ سبھی کچھ تھے لیکن اللہ نے کہا میں نے آپ کو داعی بناکر بھیجا ہے گویا آپ کے فرائض نبوت میں دعوت کا پہلو بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔

امت مسلمہ کو بہترین امت کہا گیا کیونکہ وہ نیکی کا حکم دیتی ہے اور برائی سے منع کرتی ہے۔ اگر یہ فریضہ کماحقہ نہ نبھایا گیا تو اعزاز چھن بھی سکتا ہے۔ دعوت کی ذمہ داری کسی اور کو بھی دی جاسکتی ہے۔

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَهِیْدًا.

(البقرة، 2: 143)

’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول ( ﷺ ) تم پر گواہ ہو۔‘‘

یہ گواہی اللہ کی توحید کی گواہی ہے۔ ایک مسلمان تادم مرگ اس ذمہ داری سے فارغ نہیں ہوسکتا۔ کوتاہی کی صورت میں اللہ کے ہاں پکڑ ہے۔ دعوت الی اللہ کو قول احسن سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ بات کرنے والا جو بہترین بات کرسکتا ہے وہ اللہ کی طرف سے دعوت ہے۔

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ.

(فصلٰت، 32: 33)

’’اور اس شخص سے زیادہ خوش گفتار کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے بے شک میں (اللہ اور رسول ﷺ کے) فرمانبرداروں میں سے ہوں‘‘۔

یعنی داعی عاجزی و انکساری کا پیکر بن جائے۔ اپنی بڑائی کا اظہار نہ کرے۔ اپنے آپ کو خصوصی ادب و احترام کا مستحق نہ جانے اور دوسروں کی اصلاح کے جوش میں اعمال صالح کو نہ بھول جائے۔

یٰٓاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ.

(المائدة، 5: 67)

’’اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارالوگوں کو) پہنچا دیجیے، اور اگر آپ نے (ایسا) نہ کیا تو آپ نے اس (ربّ) کا پیغام پہنچایا ہی نہیں۔‘‘

غور کیجئے کہ دعوت و تبلیغ کے بارے میں کتنی شدید تاکید کی گئی ہے۔

اس ضمن میں نبی اکرم ﷺ کی فکر مندی اور شب و روز محنت کا یہ عالم تھا کہ اللہ کو کہنا پڑا:

طٰهٰ. مَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓی.

(طٰهٰ، 20: 1-2)

’’طٰہٰ، (حقیقی معنی اللہ اور رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں)۔ (اے محبوبِ مکرّم!) ہم نے آپ پر قرآن (اس لیے) نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑجائیں۔‘‘

باری تعالیٰ کی طرف تسلی پر مبنی یہ پیار بھرے الفاظ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ ﷺ دعوت کے کام میں اس قدر محو ہوچکے تھے کہ اپنی صحت کا خیال تک نہ تھا بس ایک ہی غم کھائے جارہا ہے کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے۔

ایسی ہی دیگر سینکڑوں آیات اس امر پر موجود ہیں کہ دعوت دین کا کام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ جسے ہر حال میں جاری رہنا چاہیے بحیثیت امت یہ سب مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ عدم ادائیگی کی صورت میں کسی بستی کو تباہ کرنے کا فیصلہ ہوا تو فرشتے نے عرض کیا باری تعالیٰ اس بستی میں تیرا ایک نیک شخص بھی ہے تو حکم ہوا اسے پہلے تباہ کرو کیونکہ اس کے سامنے برائی ہوتی ہے لیکن وہ کسی کو منع نہیں کرتا۔

دعوت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ حضور ﷺ کی زندگی کا ایک لمحہ بھی دعوت دین سے خالی نہ تھا بلکہ ذاتی و نبوی حیثیت کے فرق ختم ہوگئے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وما ینطق عن الهوی.

(النجم: 3)

’’وہ تو اپنی مرضی سے بولتے بھی نہیں۔‘‘

خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے لوگوں کو گواہ بناکر فرمایا کیا میں نے تبلیغ کا حق ادا کردیا۔ لوگوں نے جواب دیا:

ہم گواہی دیں گے آپ نے تبلیغ کا حق ادا کردیا اور ہمارے ساتھ خیر خواہی و ہمدردی کی تھی۔ (بخاری شریف)

اپنے مشن کے ساتھ محبت، لگن اور محنت کی اس سے بہتر مثال ممکن نہیں۔ معلوم ہوا دعوت و تبلیغ کا کام کوئی اضافی ذمہ داری نہیں کہ دل چاہے تو کہیں تقریر کرلی پھر مدتوں خاموشی اختیار کرلی بلکہ یہ ایک مسلسل ذمہ داری ہے جو اوقات کی پابند نہیں بلکہ حسب موقعہ ہر جگہ نبھانے کی گنجائش نکالنا پڑتی ہے۔ کبھی خاموش رہ کر، کبھی بول کر، کبھی حرکات و سکنات کے ذریعے جیسے بھی بن پڑے اسے جاری رکھنا ہے۔

میری اور میری امت کی مثال اس طرح ہے کہ جیسے آدمی نے آگ جلائی تو اس میں کیڑے، مکوڑے، پتنگے گرنے لگے میں تمہاری کمروں کو پکڑے ہوئے ہوں اور تم ہو کہ اس میں گرتے پڑتے ہو۔ (مسلم شریف)

یہ غلط فہمی بھی دور ہونی چاہیے کہ دعوت و تبلیغ صرف علماء کی ذمہ داری ہے البتہ یہ بات درست ہے کہ یہ فریضہ کماحقہ اہل علم ہی ادا کرسکتے ہیں لیکن عام انسان بھی اس ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

بلغوا عنی ولو آیة. (بخاری شریف)

’’میری طرف سے لوگوں تک پہنچادو خواہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

دعوت و تبلیغ اس قدر موکدہ سنت ہے کہ اس پائے کی کوئی اور سنت نہیں۔ امت مسلمہ پندرہ سو سال سے اس سنت کو زندہ رکھے ہوئے ہے جس میں کبھی انقطاع واقع نہیں ہوا یہ کام تاقیامت جاری رہے گا۔ جب تک کرہ ارض پر بسنے والا آخری غیر مسلم بھی اسلام قبول نہیں کرلیتا۔ بطور داعیہ ہمارے اندر یہ صلاحیت پیدا ہونی چاہیے کہ ہم دین کی دعوت کو پورے لوازمات کے ساتھ آگے پہنچائیں اور اسے زندگی میں اولین مقصد قرار دیں۔ (ماخوذ ازکتاب: دعوت کا انقلابی طریقِ کار)