امام زین العابدین علیہ السلام

سعدیہ کریم

حضرت امام زین العابدین امام حسین علیہ السلام کے صاحبزادے اور امام امت ہیں۔ آپ ائمہ اہل سنت میں سے چوتھے امام ہیں۔ آپ کا نام علی، کنیت ابو محمد اور لقب سجاد اور زین العابدین ہے۔ آپ کی ولادت کی خوشخبری رسول اکرم ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں ہی دے دی تھی۔

ولادت باسعادت:

آپ مدینہ منورہ میں ہجرت کے تینتسویں (33) سال پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی امام حسینؓ ابن ابی طالب ہیں۔ والدہ ماجدہ شہر بانو ہیں جو شہنشاہ فارس خسرو پرویز کی بیٹی تھیں۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ابوالزبیرنے کہا کہ ہم سے جابر بن عبداللہ نے بیان کیا کہ امام حسینؓ تشریف لائے تو حضور اکرم ﷺ نے ان کا سر اور ماتھا چوما اور سینے سے لگایا پھر اپنے پاس بٹھا کر فرمایا کہ میرے بیٹے حسین کے گھر اللہ تعالیٰ بیٹا دے گا جس کا نام علی ہوگا اور زین العابدین ہوگا قیامت کے دن حاملین عرش فرشتوں میں سے ایک فرشتہ آئے گا اور کہے گا کہ سیدالعابدین کھڑا ہو تو وہ زین العابدین ہوگا۔ (البدایۃ والنہایۃ)

امام زین العابدینؑ کی امامت:

آئمہ اہل بیت کی تعداد بارہ ہے جن میں امام زین العابدین علیہ السلام چوتھے نمبر پر ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد منصب امامت پر فائز ہوئے۔ امام حسین علیہ السلام نے انہیں میدان جنگ میں جانے سے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ:

’’اے جان بدر تم ہر گز میدان جنگ کا قصد نہ کرو۔ تم اہل بیت کی مستورات کے محرم ہو۔ میرے باپ اور نانا کی امانتوں کے اہل ہو میری نسل اور حسینی سیدوں کے امام ہو میرے جانشین ہو میری ساری امیدیں تمہاری ذات سے وابستہ ہیں۔ امام زین العابدین نے عرض کیا کہ آپ کے بعد میرا سینہ شدت غم سے پھٹ جائے گا تو امام حسینؑ نے فرمایا تم امام کے بیٹے ہو ضبط اور صبر سے کام لو، امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ صبر دے گا پھر انہوں نے حضرت زین العابدین علیہ السلام کو بہت سی وصیتیں فرمائیں اور اپنے سینے کے باطنی علم علوم و اسرار سے انہیں سرفراز فرماکر اپنا جانشین بنایا۔

غرض آپ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد منصب امامت پر امام زین العابدین علیہ السلام فائز ہوئے اور آپ ہی طریقت طریقت و ولایت کے چوتھے امام ہیں۔

امام زین العابدین اور واقعہ کربلا:

امام زین العابدین علیہ السلام واقعہ کربلا کے اصل راوی ہیں اور ان کی صحیح سند کے ساتھ ہی یہ پورا واقعہ امت تک پہنچا ہے۔ آپ کی زندگی پر سب سے زیادہ اثر واقعہ کربلا نے ڈالا تھا کیونکہ شروع سے لے کر آخر تک اب تمام حالات کے عینی گواہ اور شاہد ہیں۔ واقعہ کربلا کے بعد جو اثرات تھے وہ بھی امام زین العابدین کی وساطت سے ہی امت تک پہنچے ہیں۔

ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے امام زین العابدین سے کہا کہ آپ ہمیشہ غمزدہ رہتے ہیں کبھی آپ کے آنسو خشک نہیں ہوئے تو انہوں نے جواب دیا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام گم ہوئے تو ان کی جدائی میں ان کی آنکھیں رو رو کر سفید ہوگئیں تھیں میں نے تو اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے گھر کے افراد کو ذبح ہوتے دیکھا میں کیسے غمزدہ نہ ہوں۔ اس غم کی وجہ سے میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ہے۔ (البدایۃ والنہایۃ)

آپ نے لوگوں سے ملنا جلنا کم کردیا اور سیاسی حالات و واقعات سے بھی خودکو الگ کردیا تھا۔

امام زین العابدین علیہ السلام کی عبادت:

آپ بہت بڑے عابد اور زاہد تھے امام مالک فرماتے ہیں کہ آپ کو کثرت عبادت کہ وجہ سے ہی زین العابدین کہا جاتا ہے کہ آپ عبادت کرنے والوں کی زینت ہیں۔ ایک دن اور ایک رات میں ہزار رکعت نماز نفل پڑھا کرتے تھے۔

ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جب آپ وضو کرتے تو آپ کا رنگ زرد ہوجاتا۔ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو خوف خدا کی وجہ سے آپ کے جسم مبارک پر کپکپی طاری ہوجاتی جب لوگوں نے پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ میں کس کی بارگاہ میں حاضر ہورہا ہوں۔

ایک مرتبہ آپ نماز ادا کررہے تھے تو آپ کے کمرے میں آگ لگ گئی آپ حالت سجدہ میں تھے۔ لوگوں نے چیخنا شروع کردیا۔ لیکن آپ نے سر تک نہ اٹھایا آگ بجھا دی گئی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد دریافت کیا کہ کیا بات ہے تو لوگوں نے پورا واقعہ بیان کیا امام صاحب نے جواب دیا مجھے تو اس سے بڑی آگ نے مشغول کر رکھا تھا۔

آپ کی کنیز سے آپ کی عبادت کے متعلق پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ دن کو ہمیشہ روزہ رکھتے اور پوری رات عبادت میں رہتے کبھی بھی آرام نہیں فرماتے تھے۔

طاؤس بن کیسان سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے رات کو حجر اسود کے قریب امام زین العابدین علیہ السلام کو نماز پڑھتے دیکھا آپ نے بہت طویل سجدہ کیا میں نے سننے کی کوشش کی تو آپ درج ذیل دعا پڑھ رہے تھے۔

عبدک و بغنائک ومسکینک وبغنائک سائلک وبغنائک وفقیرک بغنائک.

آپ کی یہ دعا حل مشکلات کے لیے مجرب ہے۔ طاؤس نے کہا اللہ کی قسم جب بھی مجھے کوئی مشکل پیش آتی تو میں ان الفاظ کے ساتھ دعا مانگتا تو اللہ تعالیٰ میری مشکل کو حل فرمادیتا ہے۔ امام زین العابدین کثرت سے مناجات فرماتے تھے۔ آپ کی مناجات سننے والوں کے دل بھی خوف الہٰی اور رقت سے جھک جاتے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’مناجات امام زین العابدین‘‘ کے عنوان سے چند آپ کی مناجات کو کتابی شکل میں جمع کیا ہے۔ جن میں چند ذیل میں پیش کی جارہی ہیں جو رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ہماری بخشش و رحمت کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔

مناجاتِ مستغفرین

اے بخشنے والے! تیرے ہی نور سے ہمیں ہدایت ملی، تیرے فضل سے ہم مالا مال ہوئے اور تیری نعمت کے ساتھ ہم صبح و شام کرتے ہیں، ہمارے گناہ تیرے سامنے ہیں، اے اللہ! ہم تجھ سے ان کی بخشش چاہتے ہیں اور تیرے حضور توبہ کرتے ہیں۔

تو نعمتوں کے ذریعے ہم سے محبت کرتا ہے اور اس کے مقابل ہم تیری نافرمانی و گناہ کرتے ہیں، تیری بھلائی ہماری طرف آ رہی ہے اور ہماری برائی تیری طرف جا رہی ہے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عزت والا بادشاہ ہے، تیرے پاس ہمارے برے اعمال جاتے ہیں تو بھی وہ تجھے ہم پر اپنی نعمتوں کی بارش سے روک نہیں سکتے اور تو ہم پر اپنی عطائیں بڑھاتا رہتا ہے، پس تو پاک تر ہے، تو کیسا بردبار ہے، کتنا عظیم ہے کتنا معزز ہے، ابتداء کرنے اور پلٹانے میں تیرے نام پاک تر ہیں، تیری ثناء برتر ہے اور تیری نعمتیں اور تیرے کام بلند تر ہیں۔

اے معبود! تو فضل میں وسعت والا اور بردباری میں عظیم تر ہے، اس سے کہ تو میرے فعل اور خطا کے بارے میں قیاس کرے، پس معافی دے، معافی دے، معافی دے، میرے سردار، میرے سردار، میرے سردار۔

اے اللہ! ہمیں اپنے ذکر میں مشغول رکھ ہمیں اپنی ناراضی سے پناہ دے۔

ہمیں اپنے عذاب سے امان دے، ہمیں اپنی عطاؤں سے رزق دے، ہمیں اپنے فضل سے انعام دے، ہمیں اپنے گھر (کعبہ) کا حج نصیب فرما اور ہمیں اپنے نبی کے روضہ کی زیارت کرا، تیرا درود، تیری رحمت، تیری بخشش اور تیری رضا ہو، تیرے نبی کے لئے اور ان کے اہل بیت کے لئے اور ان کے اصحاب کے لئے، بے شک تو نزدیک تر قبول کرنے والا ہے اور ہمیں اپنی عبادت بجا لانے کی توفیق دے، ہمیں اپنی ملت اور اپنے نبی کی سنت پر موت دے۔

میرے معبود! تیرا فضل وسیع تر ہے اور تیری بردباری عظیم تر ہے، اس سے کہ تو مجھے میرے عمل کے ساتھ تو لے یا میرے گناہ کے باعث مجھے گرا دے اور اے میرے آقا! میں کیا اور میری اوقات کیا مجھے اپنے فضل سے بخش دے، میرے سردار اور اپنے عفو کے صدقے میں مجھے اپنے پردے میں لے لے اور اپنے خاص کرم سے مجھے سرزنش سے معاف رکھ۔ اے راہِ سلوک پر چلنے والوں میں سے سب سے بہترین۔

مناجات المستغیثین

میرے اللہ اور میرے آقا! تیری عزت و جلال کی قسم! کہ اگر تو میرے گناہوں کی باز پرس کرے گا تو میں تیرے عفو کی خواہش کروں گا، اگر تونے میری پستی پر پوچھ گچھ کی تو میں تیری مہربانی کی تمنا کروں گا، اگر تو مجھے دوزخ میں ڈالے گا تو میں وہاں کے لوگوں کو بتاؤں گا کہ میں تجھ سے محبت کرتا رہا ہوں۔

میرے معبود میرے سردار! اگر تونے اپنے پیاروں اور فرمانبرداروں کے سوا کسی کو معافی نہ دی تو گناہ گار لوگ کس سے فریاد کر سکیں گے، اور اگر تو صرف اپنے وفاداروں کو عزت عطا فرمائے گا تو پھر خطاکار لوگ کس سے داد خواہ ہوں گے۔

میرے معبود! اگر تو مجھے جہنم میں ڈالے گا تو اس میں تیرے دشمنوں ہی کو خوشی ہوگی، اور اگر تو نے مجھے جنت میں داخل کیا تو اس میں تیرے نبی کو مسرت ہوگی، اور قسم بخدا! کہ میں یہ جانتا ہوں کہ تجھے اپنے دشمن کی خوشی کی نسبت اپنے نبی کی خوشی منظور ہوگی۔

اے اللہ! میں سوالی ہوں تجھ سے کہ میرے دل کو اپنی محبت سے، اپنے رعب سے، اور اپنی کتاب کی تصدیق سے بھردے، نیز میرے دل کو ایمان، خوف اور شوق سے پُر کردے۔ اے بزرگی اور عزت کے مالک میرے لئے اپنی حضوری محبوب بنا اور مجھ سے ملاقات کو محبوب رکھ اور میرے لئے اپنی ملاقات کو خوشی، کشادگی اور فخر و عزت کا ذریعہ بنا۔

اے معبود! مجھے گزرے ہوئے نیک لوگوں سے ملحق فرما دے اور موجودہ نیک لوگوں میں شامل کر دے۔

میرے لئے نیکو کاروں کا راستہ مقرر کر دے اور میرے نفس کے بارے میں میری مدد کر، جیسے تو اپنے نیک بندوں کی ان کے نفسوں پر مدد فرماتا ہے، میرے عمل کا انجام خیر کے ساتھ کر اور اپنی رحمت سے اس کے ثواب میں مجھے جنت عطا فرما اور جو نیک عمل تونے مجھے عطا کیا ہے اس پر مجھ کو ثابت قدم رکھ۔ اے پالنے والے اور جس برائی سے مجھے نکالا ہے اس کی طرف نہ پلٹا۔ اے جہانوں کے پروردگار!

اے معبود! میں تجھ سے وہ ایمان مانگتا ہوں جو تیرے حضور میری پیشی سے پہلے ختم نہ ہو، مجھے زندہ رکھنا ہے تو اسی پر زندہ رکھ اور موت دینی ہے تو اسی پر دے۔ جب مجھے اٹھائے تو اسی پر اٹھا کھڑا کر۔ اور میرے دل کو دین میں دکھاوے، شک اور ستائش طلبی سے پاک رکھ، یہاں تک کہ میرا عمل تیرے لئے خاص ہو جائے۔

اللہ پاک ہمیں بھی اپنے حضور توبہ و استغفار کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین