فکرِ شیخ الاسلام: قرآن اور فہمِ قرآن

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

آقا علیہ السلام کی جملہ اسلامیان عالم جنہیں امتی ہونے کا شرف حاصل ہے ان کے لیے یہ پیغام ہے کہ قرآن کو بڑی محبت کے ساتھ سننا اور قرآن کو بڑی گہرائی کے ساتھ سمجھنا قرآن مجید کو بڑے اہتمام کے ساتھ اپنی زندگیوں میں اتارنا اور قرآن کے پیغام کو سمجھ کر آگے دوسروں تک پہنچانا بہت بڑی برکت اور سعادت کی بات ہے۔ قرآن مجید کی قرات مخلوق ہے۔متلو اس کہتے ہیں جس کی قرات کی گئی ہو وہ مخلوق نہیں بلکہ وہ اللہ کی صفت ہے۔ قرآن کے الفاظ و حروف، آواز و لہجہ مخلوق ہے مگر جو سنا گیا وہ مخلوق نہیں وہ اللہ کی صفت ہے۔ یہ بڑا عظیم برزخی رشتہ ہے جو اپنے ظاہر کے اعتبار سے مخلوق سے جڑا ہوا ہے۔

اللہ کی جملہ صفت اسی طرح غیر مخلوق ہیں جس طرح اللہ کی ذات قدیم ہے اس ذات کا فیض ہم میں منتقل ہوا ہے جب قرآن کو اپنے اندر اتارتے ہیں، روزانہ پڑھتے ہیں۔ اس میں غوروفکر کرتے ہیں، اس کی گہرائیوں میں اترتے ہیں، اس کی معارف کی وادیوں میں اترتے ہیں، اس کے پیغامات کی وادیوں میں چلتے ہیں، اس کے سمندروں میں ڈوبتے ہیں اس کی لہروں میں بہتے ہیں، تو دل، ذہن اور روح حتی کہ سارا باطن منور سے منور تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے امت قرآن سے کٹ گئی۔ دنیا میں خوبصورت آواز کے ساتھ کلام پڑھنے والا جیسے گانا گانے والا اگر (کسی کلام کو) ترنم سے پڑھتا ہے تو قلب و باطن کو کتنا سرور ملتا ہے یہ سرور، لذت، کیفیت و حلاوت اور اثرات ان کلمات کا ہے جو ایک انسان نے لکھے، پڑھے اور گائے ہیں تو ان کلمات کے ظاہری و باطنی کلمات کا اثر کیا ہوگا؟ جو اللہ نے کہے ہیں جس کو اس نے لوح محفوظ پر محفوظ رکھا تھا۔ جس کو اس نے لوح محفوظ سے بیت العزت (یعنی آسمان دنیا) پر منتقل کرکے رکھا تھا جسے اس نے جبرائیل امین کے ذریعے آقا علیہ السلام کے قلب اطہر پر نازل کیا تھا اور آقا علیہ السلام کی زبان مبارک سے امت تک پہنچا۔ آقا علیہ السلام کا قلب اطہر وہ مقام ہے جو لوح محفوظ سے بھی عظمت تر ہے۔

قرآن مجید وہ بیان ہے جو حضور علیہ السلام کی زبان مبارک سے ادا ہوا ہے۔ قرآن کتابی صورت میں مخلوق ہے مگر جو کلام اپنے لفظ اور معنی میں محفوظ کرتا ہے وہ مخلوق نہیں وہ اللہ کی صفت ہے۔ قرآن سے جڑنا دراصل اللہ کی صفت سے جڑنا ہے کیونکہ قرآن کی صفات اللہ کی ذات کے ساتھ جوڑ دیتی ہیں۔ قرآن ایک ایسی چیز ہے جو فرشی کو عرشی بنادیتی ہے۔ اللہ رب العزت کے صفات و تجلیات کے سمندروں میں غوطہ زن کرتی ہے۔

اس لیے منہاج القرآن کے عظیم تر اہداف میں سے ایک ہدف رجوع الی القرآن ہے۔ قرآن سے ٹوٹے ہوئے تعلق کو جوڑنا، طبیعتوں کو قرآن کے رجوع کی طرف آمادہ کرنا۔ قرآن کی تلاوت ، قرآن کے فہم، قرآن کے معنی و مفہوم، قرآن کے معارف اور قرآن کی تبلیغ پر لوگوں کو آمادہ کرنا تاکہ انوار قرآن سے انفردی زندگیاں بھی منور ہوں اور معاشرے کی اجتماعی زندگی بھی منور ہوں۔ ہر روز ایک رکوع، 10 آیتیں، 7 آیتیں جتنی فرصت ملے قرآن مجید کو یکسوئی کے ساتھ تنہائی میں بیٹھ کر معنی و ترجمہ کے ساتھ تلاوت کیا کریں۔ تمام امت مسلمہ کے لیے پیغام ہے کہ وہ اپنے ظاہرو باطن کو قرآن مجید کے ساتھ جوڑیں۔ اپنے اور قرآن کے درمیان فاصلے کو ختم کریں۔ قرآن کو اپنی زندگیوں میں اتاریں۔ قرآن مجید کو اپنا محبوب بنالیں۔ قرآن سے عشق کریں۔ قرآن کو دیکھیں تو آنکھوں کو راحت ملے۔ قرآن کو پڑھیں تو لذت ملے، قرآن کو سمجھیں تو کیفیت ملے۔

ایسا رشتہ قرآن کے ساتھ استوارکرلیں جو کبھی نہ ٹوٹے، ہر رفیق جو حق رفاقت ادا کرنا چاہتاہے۔ ہر رکن اور کارکن جو مجھ سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے، میرے ساتھ محبت کو نبھانا چاہتا ہے تو مرتے دم تک جتنی فرصت ملے۔ قرآن کو باوضو ہوکر یکسوئی کے ساتھ محبت کی نگاہ ڈالیں یہ جانتے ہوئے کہ محبوب حقیقی کا کلام ہے جیسے محبوب ترین دوست کا خط پڑھ کر لذت و کیفیت ہوتی ہے، بار بار پڑھتے اور جھومتے ہیں اس طرح قرآن محبوب حقیقی اللہ تعالیٰ کے خطوط کا مجموعہ ہے جو اس نے اپنے محبوب ﷺ کو ہمارے لیے بشکل قرآن بھیجے۔ اس کو ترجمہ سے پڑھیں اور سمجھیں۔ بڑے دکھ کی بات ہے امت مسلمہ بالعموم اور عشق کا دعویٰ کرنے والے اہل سنت، غلامی رسول ﷺ کا دم بھرنے والے بالخصوص قرآن سے عملاً کٹ گئے ہیں۔ زبان کے دعویٰ سے کچھ نہیں ہوتا۔ دعویٰ بے معنی ہے اگر عملی حقیقت کے طور پر سامنے نہ آئے۔

قرآن کریم کو اپنی زندگیوں کا وظیفہ بنالیں تو آپ کا میرے اور تحریک منہاج القرآن سے وابستگی کا حق ادا ہوگا۔ اس میں تدبرکرنا، اس کا فہم اور معرفت حاصل اس قرآن کو محبت سے دیکھنا، اللہ کی صفات کی معرفت میں ڈوبنا کیونکہ یہ ذات الہٰی، بارگاہ الہٰی سے جوڑ دیتا ہے۔ یہ فرش اور عرش تک کا فاصلہ کم کردینے والی حقیقت ہے۔ تلاوت قرآن، فہم قرآن، تدبر قرآن، عمل بالقرآن، رجوع الی القرآن یہ میرا پیغام ہے کہ تنظیمات کے عہدیداران، دعوت کا کام کرنے والے، تنظیموں کے ذمہ داران، یوتھ لیگ، MSM، ویمن لیگ مشن سے منسلک ہر گھرانہ ہر شخص تلاوت قرآن کو زندگی کا معمول بنائے۔ قرآن مجید سے محبت کریں، جڑ جائیں، روزانہ پڑھیں، تلاوت کریں، اس کو زندگی میں اتاریں اور دیکھیں کہ قرآن آپ کی زندگی میں کتنا آگیا ہے، آپ کی زندگی اور قرآن کے معنی و معارف کے درمیان کتنا فاصلہ کم سے کم تر ہوتا جارہا ہے۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے کسی نے سوال کیا کہ آقا علیہ السلام کی سیرت کیا تھی؟ آقا علیہ السلام کے آداب زندگی کیا تھے؟ فرمایا کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟ کیونکہ سارا قرآن مصطفی ﷺ کی سیرت ہے۔ (احمد بن حنبل، المسند، 6، ص 91)

اللہ رب العزت نے کلام کی صورت میں قرآن اتارا۔ آقا علیہ السلام کی سیرت کی صورت میں قرآن کا پیکر انسانیت کو عطا کیا۔ آپ قرآن کو اپنی زندگی میں اتاریں گے تو واللہ آقا علیہ السلام کی سیرت کے ساتھ بھی جڑ جائیں گے، مسلک اہل سنت میں اس کی بہت بڑی کمی ہے جبکہ عرب دنیا میں لوگ نماز کے وقفے میں بھی آتے ہیں تو قرآن کو پڑھتے ہیںکیونکہ وہ عرب ہیں تو وہ سمجھتے بھی ہیں۔ تلاوت ان کا بالعموم معمول ہے۔ فہم ان کو بآسانی دستیاب ہے۔ ٹھیک ہے گہرائی مفاہیم تک وہ صحیح نہیں پہنچتے ہوں گے۔ لیکن عام احکام تو سمجھ میں آتے ہیں چونکہ ہماری زبان عربی نہیں ہے اس لیے ضروری ہے کہ ترجمہ کے ساتھ پڑھا جائے، سمجھ بھی تو آئے وہ کیا پڑھ رہے ہیں۔ اللہ حکم کیا دے رہا ہے۔اللہ ہم سے طلب کیا فرمارہا ہے اور ہم کیا کریں؟ قرآن اس فاصلہ کو کم کردینے والی حقیقت ہے۔ قرآن کو زندگی میں اتاریں، تادم مرگ قرآن سے پڑھنے اور سمجھنے کا رشتہ نہ توڑیں۔ اللہ رب العزت ہمیں قرآن سے ایسا تعلق قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین