فریدِ ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ

محمد شفقت اللہ قادری

کاملینِ تصوف کے نزدیک جب تک بندۂ مومن نفس کے پل صراط پر چڑھ کر ہفت منازلِ نفس عبور نہیں کرتا، قطعی طور پر ثمر ولایت نصیب نہیں ہوتا۔ فریدِ ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ جیسے راہ نوردِ تصوف نے بطریقِ احسن اپنے تقویٰ کامل کے باعث تصوف کی منازلِ ہفت عبور کیں۔ آپ نفس کی وادیٔ پرخار سے باہر آئے تو صدیقین و صالحین کی صف میں کھڑے ہوگئے۔ جہاں آپ دولتِ بے نیازی اور اطمینانِ قلب سے بہرہ ور ہوئے۔

فریدِ ملت کے قلبِ سلیم میں نہ جنت کا لالچ تھا اور نہ ہی جہنم کا خوف طاری تھا کیونکہ اس مقام پر طلب گار دیدارِ مولا عبدالصالح کے دل میں جنت و جہنم کسی قسم کی لالچ یا خوف پیدا نہیں کرسکتیں۔

ایسے ہی مردانِ حق کے بارے میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللهِ لَاخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَاهُمْ یَحْزَنُوْنَ.

(یونس، 10: 62)

’’خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔‘‘

فریدِ ملتؒ اور تزکیۂ نفس کی منازلِ ہفت:

فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ نے نفس کے پل صراط پر چڑھ کر تزکیۂ نفس کی مندرجہ ذیل سات منازل طے کیں:

  1. مقامِ نفس امارہ سے گزرے
  2. مقام نفسِ لوامہ پر پڑاؤ ڈالا
  3. مقام نفسِ ملھمہ نصیب ہوا
  4. مقام نفسِ مطمئنہ پر فائز ہوئے
  5. مقام نفسِ راضیہ پر متمکن ہوئے
  6. مقام نفسِ مرضیہ پر براجمان ہوئے
  7. مقام نفسِ کاملہ اور صافیہ مقدر میں لکھ دیا گیا۔

فریدِ ملت انہی منازلِ ہفت کی بدولت ساری زندگی طلبِ جستجو ربِ رحمن میں نظارہ دیدارِ الہٰی کے عکس منور میں گم و سرشار رہے۔

خصوصی پرہیزگاری:

فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کی روحانی کیفیات زہد و ورع، تقویٰ، پرہیزگاری، سجود نیم شبی، حکمت و دانش اور سخن پردازی اور انشا پروری کھوجنے اور روحانیت کی کسوٹی پر پرکھنے کے لیے کامل ایمانی آنکھ، وجدانی کان اور ارتقائی سوچ مطلوب ہے۔

میرے مطابق! پراگندہ سوچوں اور خیالات کو خوفِ خدا یعنی خشیتِ ایزدی کے پانی سے وضو کروانے کی ضرورت ہے۔

فقرِ مصطفوی کے حامل:

فریدِ ملتؒ فقرِ مصطفوی کے خیرات یافتگان میں سے تھے۔ پیروی فقرِ مصطفی میں فقیر یار غار حضرت ابو بکر صدیقؓ کے طریق پر گامزن تھے۔ آپ فرید ملتؒ ملبوس لباسِ اتقیا، فخرِ فقیراں، قلی نشیں، درویش اور گدڑی پوش شریعت محمدی تھے۔

میرا ذاتی مشاہدہ خلوت نشینی ہے کہ آپ ہمہ وقت مثل مشہور ’’ہتھ کار ول دل یار ول‘‘ کے مصداق دیدارِ یار میں مستغرق رہتے۔

ایسے نفوسِ صالح کے لیے اور حامل روح مطہر کے لیے ربِ محمد ﷺ فرماتے ہیں:

لَهُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِ ط لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللهِ ط ذٰلِکَ هُوَ الفَوْزُ الْعَظِیْمُ.

(یونس، 10: 64)

’’ان کے لیے دنیا کی زندگی میں (بھی عزت و مقبولیت کی) بشارت ہے اور آخرت میں (بھی مغفرت و شفاعت کی/یا دنیا میں بھی نیک خوابوں کی صورت میں پاکیزہ روحانی مشاہدات ہیں اور آخرت میں بھی حُسنِ مطلق کے جلوے اور دیدار)، اللہ کے فرمان بدلا نہیں کرتے، یہی وہ عظیم کامیابی ہے۔‘‘

’’دنیا اور زندگی میں عزت اور قبولیت کی بشارت ہے اور آخرت میں معرفت اور شفاعت کی۔ دنیا میں نیک خوابوں کی صورت میں پاکیزہ روحانی مشاہدات میں بھی حسن مطلق کے جلوے اور دیدار ہیں۔

اللہ رب العزت کے فرمان بدلا نہیں کرتے، یہی وہ عظیم کامیابی ہے۔

گدڑی پوش قلندر:

لاریب فریدِ ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کلی نشیں، گدڑی پوش قلندر و قادری درویش تھے۔

معلوم ہے گدڑی کیا ہے؟ گدڑی فقیر اور درویش کی خرقہ کو کہتے ہیں۔ خرقہ؛ درویشوں کی اوڑھنی و کملی اور جھُلی کو کہتے ہیں جس میں سیکڑوں رنگ برنگے پیوند لگے ہوتے ہیں۔ درحقیقت گدڑی فقیر کی روح کا لباس ہوا کرتا ہے جو اس کو اپنی جان سے بھی پیاری ہوتی ہے۔

ہم نشینو! فقیر کی گدڑی اس کی ہم رازِ شب و روز ہوتی ہے۔ بلا مبالغہ فریدِ ملتؒ گدڑی پوش شریعت محمدی ﷺ تھے۔ گدڑی کے نیچے لگی نفسِ امارہ کی چادر کو رب ذوالجلال نے صبغۃ اللہ یعنی کہ اپنے رنگ و نورِ الوہیت سے اماروی سیاہی کے دھبے دھوکر سفیدی میں بدل دیئے تاکہ یہ شیطانی حملوں سے محفوظ رہے۔

یاد رہے کہ منبع جود و سخا فریدِ ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ نے علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین کے دھاگوں سے گدڑیٔ فقر کی سلائی اپنے دست التجا سے رات کے پچھلے پہر دہلیزِ مناجاتِ مولا پر نورِ ایمانی کی روشنی میں توبۃ النصوح کی سوئی سے کی۔ پھر خوشبوئے جوہرِ عطرِ نفس ملھمہ اور پھر خوشبوئے جوہر عطر نفس مطمئنہ لگائی اور پھر خوشبوئے جوہر عطر نفس راضیہ لگائی اور پھر خوشبوئے جوہر نفس مرضیہ لگائی۔ پھر خوشبوئے جوہر عطر نفس کاملہ لگائی۔

فریدِ ملتؒ نے تطہیر شدہ عطائی گدڑی فقرِ مصطفوی میں پھر پیوندِ فطری ہدایت لگایا، پیوندِ عقلی ہدایت لگایا، پیوند حسی ہدایت لگایا، پیوندِ نبوی ﷺ ہدایت لگایا، پیوندِ الہامی ہدایت لگایا، پیوندِ اختیاری جستجوئی ہدایت لگایا، پیوندِ قرآنی ہدایت لگایا اور پیوند ایمانی ہدایت لگایا۔ جب ہدایتی پیوند کاری ہوچکی تو فریدِ ملتؒ نے بارگاهِ رب العزت میں التجا کی کہ مولا کریم! مجھے اپنا ہدایت یافتہ بندہ بنادے۔

خدا کی قسم ربِ محمد ﷺ نے فریدِ ملت کی التجا کو قبولیت بخشی اور آپ کو ہدایت یافتگان میں سے کردیا۔

فقرِ مصطفی، عشقِ مصطفیؐ اور اشد حباللّٰہ کا حسین امتزاج:

فریدِ ملتؒ فقرِ مصطفی، عشقِ مصطفی اور اشد حبا للہ کا حسین امتزاج تھے عشاقِ مصطفی اور عشاقِ الہٰیہ کے لیے نسخہ کیمیا تھے بلکہ کشتۂ سہ آتشۂ عشق تھے جو آج بھی عشاقِ مصطفی ﷺ کے قلوب و اذہان کو عشقی قوت و رعنائی بخشے ہوئے ہے۔

اتباع و اطاعتِ الہٰی، اطاعتِ رسالت مآب اور اشد حبا للہ کی عملی تفسیر:

قادریٔ قلندر منہاج القرآن فریدِ ملتؒ کی درویشانہ، فقہیانہ، قلندرانہ اور صوفیانہ عملی زندگی کا محور و مرکز یہ عناصر اربعہ تھے جنہوں نے آپ کو اشدّ حبا للہ کی عملی تفسیر بنادیا:

  1. تعلیمِ محبتِ قرآن
  2. اطاعتِ الہٰی
  3. عشقِ مصطفی ﷺ
  4. اتباع و اطاعتِ رسول ﷺ

کیونکہ فریدالدین قادریؒ ان عملی عناصرِ اربعہ کو ہی ایمانِ عشق کا صراطِ مستقیم سمجھتے تھے۔

فرید ملتؒ کے ایمانِ کامل کی امتیازی خصوصیات:

فرید ملتؒ کے علم و عمل کی روشنی میں اطاعتِ الہٰی، اطاعتِ رسالت، عشقِ الہٰی پر استقامت ہی تقویٰ اور ہدایت کی معراج ہے اور ایمان کامل کی ضمانت ہے۔

اطیعو اللّٰہ واطیعو الرسول کا پیکر:

فریدِ ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ اطیعو اللہ واطیعو الرسول ﷺ کے حکم قرآن پر عمل پیرا ہوکر پیکرِ ایمان بنے۔ فرماتے تھے قرآن ایمانی جلا اور رشد و ہدایت کا واحد سرچشمہ اور رجوع الی القرآن ہی صراط مستقیم ہے۔

فریدِ ملتؒ اور مقامِ صبر:

ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ بلاشبہ صبر باللہ، صبر للہ، صبر مع اللہ کے مقامِ عظیم پر متمکن تھے۔ یعنی کہ:

  1. صبر باللہ: صبر صرف اللہ کے لیے
  2. صبر ِللہ۔ صبر رضائے الہٰی کے لیے
  3. صبر مع اللہ۔ انسان مقام مطمئنہ پر پہنچ کر اپنے آپ کو احکام خداوندی کے تابع کردیتا ہے۔

زبدۃ الحکماء اور نباضِ اجل:

فریدِ ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ زبدۃ الحکماء اور نباضِ اجل تھے۔ لکھنو سے واپسی پر جھنگ میں بالخصوص اور پنجاب میں بالعموم شہرت کی بلندیوں پر بطورِ حاذق طبیب اور مایہ ناز نباضِ دوراں آپ کا طوطی بولنے لگا۔

آپ کی قوتِ حافظہ، دسترس فنِ طب اور کشفی و روحانی شخصیت نے گردو نواح میں دھوم مچادی۔

عطائے گولڈ میڈل اور اعزاز زبدۃ الحکماء:

فریدِ ملتؒ نے زبدۃ الحکماء کی اعلیٰ ڈگری امتیازی حیثیت سے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے پرائیویٹ حاصل کی اور ملکی اخبارات میں تہلکہ مچ گیا کیونکہ یہاں طب میں سب سے بڑی ڈگری زبدۃ الحکماء تھی اور آپ اوّل پوزیشن اور گولڈ میڈل سے نوازے گئے۔

امتیازی اعزاز:

فریدِ ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ نے لاہور میں نبض کے موضوع پر علمی اور منطقی مقالہ تحریر کیا جو چالیس صفحات پر مشتمل ہونے کے باعث ایک ادبی شہ پارہ بن گیا اور کم عمری میں تقریب میں صاحبِ صدر عبدالقادر نے جب فریدِ ملتؒ کے مقالہ کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ لگتا ہے یہ کسی طالب علم کا مقالہ نہیں بلکہ نبض پر کسی امام کی کمال کتاب معلوم ہوتی ہے۔

بے مثل عاشقِ مصطفی ﷺ :

فریدِ ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کی طلب چاہت کے بحرِ بیکراں میں عشقِ مصطفی ﷺ اور شدتِ دیدار چہرہ والضحیٰ کی گہرائی ناپنا ناممکن ہے۔

مستانے عاشقو! عشق میں عقل کا عمل دخل ہرگز ہرگز نہیں ہوتا، عقل و دانش کا عمل دخل اس وقت تک رہتا ہے جب تک عشق عقل پر غالب نہیںآجاتا۔ محبت کا آتش فشاں پھٹتا ہے تو اس میں سے عشق چنگاریوں کی صورت آسمان کو چھوتا ہے۔

عشق فہم و ادراک پر غلبہ اختیار کرلیتا ہے۔ عشق کی آگ بھڑک اٹھتی ہے تو خرد و دانش کی حدود و قیود سے تجاوز کرجاتی ہے۔ کیونکہ جلوۂ جاناں ہمہ وقت روبرو ہوتا ہے۔ عشق حقیقی کی یہی واردات فرید ملتؒ کے قلب و ذہن پر غالب تھی۔

سخن وری، انشا پردازی:

شعر و ادب میں نامور ادیب شاعر شکیل مینائی سے فنِ شعر و ادب میں رہنمائی لی اور بہت جلد لکھنو کے بڑے بڑے مشاعرے آپ کے نام ہونے لگے۔

فریدِ ملتؒ کا لکھنوی طرزِ معاشرت اور تہذیب و تمدن میں رہ کر مثبت ادبی علم و سخن سے شغف رہا۔

انشا پردازی اور شعرو سخن میں لکھنوی علمی اور ادبی ماحول نے کمال شخصی نکھار پیدا کیا اور آپ کی شخصیت کو چار چاند لگادیئے۔

فریدِ ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کم عمر مگر نامور لکھنوی علمی ادبی حلقوں کی جان بن گئے تھے۔

کنگ جارج میڈیکل کے اعلیٰ اعزازات:

فریدِ ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ نے ڈاکٹر اور طب یونانی کی باقاعدہ تعلیم جوائنٹ طبیہ کالج اور کنگ جارج میڈیکل کالج میں حاصل کی اور اعلیٰ اعزازات کے ساتھ کامیابیاں سمیٹیں۔

فرنگی محل لکھنومیں باقاعدہ تعلیم:

تعلیمِ طب کے دوران ہی فرنگی محل لکھنو میں ہونہاری اور ذہانت و فطانت کے باعث داخلہ مل گیا۔ یاد رہے فرنگی محل ایشیاء کا معروف ترین مرکزِ علم و فن تھا۔ آپ کی طلبِ جستجو نے یہاں بھی فرنگی محل کے اکابر علمی اور فضلاء کی توجۂ خاص حاصل کرلی، یہی وجہ ہے کہ آپ نامور اکابرین علماء سے قلیل مدت میں طویل المدت علوم سے فیضیاب ہوئے اور نمایاں کامیابی حاصل کی۔

حکیم عبدالوہاب نابینا انصاری سے باقاعدہ استفادۂ نبض:

لکھنو طبیہ کالج سے فراغت کے بعد نابغۂ عصر ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کو جناب پرنسپل طبیہ کالج شفاء الملک حکیم عبدالحکیمؒ نے اپنے سفارشی خط کے ساتھ نبض کی تشخیص کے لیے برصغیر پاک و ہند کے نامور شہرت یافتہ حکیم نباض اور ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کے معالج جناب حکیم عبدالوہاب نابینا انصاریؒ کے پاس بھیجا تاکہ باقاعدہ فن نبض شناسی میں بھی ملکہ حاصل ہوجائے۔

حیرت انگیز طور پر یہاں بھی ذہانت و فطانت کے جوہر دکھائے۔ زہد و تقویٰ اور طبعی بصیرت کے امتزاج نے ڈاکٹر صاحب کو سونا سے کندن بنادیا۔

حکیم عبدالوہاب نابینا انصاریؒ کی علمی اور روحانی شخصیت اور صحبت نے آپ میں قلبی و روحانی بصیرت کا حسین امتزاج پیدا کردیا جو عمر بھر فریدِ ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ کا سرمایۂ زیست رہا ہے۔

پاکستان میں مسکن نشینی:

پاکستان جھنگ میں مسکن نشین ہوئے اپنے بھائیوں کو علم کی دولت سے سرفراز کیا اور نہ صرف اعلیٰ روزگار فراہم کیا بلکہ اچھا انسان اور بہترین مسلمان بنایا۔

علم دوست اور غریب دوست شخصیت:

فریدِ ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ جھنگ پاکستان میں قیام کے بعد علمی و ادبی حلقوں کی جان بن گئے تھے۔ غریبوں اور بے سہارا لوگوں سے ہمدردی اور غمگساری آپ کی فطرت میں ودیعت تھی۔

سادگی میں کمال:

سادگی میں باکمال تھے تاہم فرش پر رہ کر عرشِ عظیم پر لو لگی ہوئی تھی۔

خوابوں کی تعبیر میں خاص ملکہ:

فرید ملت ڈاکٹر فریدالدین قادریؒ مشفق باپ اور بہترین انسان تھے۔ آپ کو خوابوں کی تعبیر میں خاص دسترس اور قدرت تھی۔

حرفِ آخر:

فریدِ ملتؒ میری نظر میں روحانی طور پر رجال الغیب میں سے لگتے تھے۔ میں نے خود مشاہدہ کیا ہے کہ بڑے سے بڑے عہدے پر متمکن اعلیٰ شخصیات پہلی نشست میں فقط گرویدہ ہی نہیں ہوجاتی تھیں بلکہ مریدی اختیار کرنے پر بضد ہوجاتیں جبکہ آپ ایسا نہیں کرتے تھے لیکن اپنی شفقت اور حلقۂ محبت میں شامل کرکے انہیں روحانی صحبت فراہم کرتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مردِ صالح کے روحانی فیوضات سے بہرہ ور فرمائے۔ آمین