ادب اور ثقافت قوموں کی پہچان ہے

سُمیَّہ اسلام

قوموں کی پہچان اُن کے ادب اور ثقافت سے کی جاتی ہے۔ کسی بھی معاشرے کی اقدار و روایات اس کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس معاشرے کے لیے روح کی حیثیت رکھتی ہے۔اخلاقی و معاشرتی رسوم، علوم و فنون، عقائد و افکار کے مجموعے کو ثقافت خیال کیا جاتا ہے۔ علاقے کا رہن سہن، کھانا پینا، اُٹھنا بیٹھنا، لوگوں سے میل جول اور انداز گفتگو ، شعرائے کرام، موسم، کھیل کود ،شادی بیاہ و دیگر رسومات بھی ثقافت میں شمار ہوتی ہیں۔ ثقافت کو اتحاد کی علامت بھی قرار دیا جاتا ہے۔ جن قوموں کی ثقافت ختم ہو جاتی ہے وہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ کسی بھی قوم کو کمزور کرنے کے لئے سب سے پہلے اس کی ثقافت پر حملہ کیا جاتا ہے۔ہر قوم کی الگ ثقافت ہوتی ہے۔ کسی قوم کی ثقافت کبھی ہو بہو دوسری قوم کی ثقافت نہیں ہوتی ہے البتہ ثقافت پر دوسری قوموں کی اقدار کا اثر ضرور ہو سکتا ہے۔ ثقافت انسان کا اظہار ہے۔

ثقافت کی تعریف:

ثقافت ایک ایسی اصطلاح ہے کہ جس کی حتمی تعریف کرنا انتہائی مشکل ہے کیوں کہ اس کا اصطلاحی مفہوم اپنی ذات میں تنوع لیے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور کے علماء نے اس کی مختلف تعریفیں کی ہیں۔ سب سے بہتر اور آسان فہم تعریف المجمع اللغوی نے کی ہے اور وہ یہ ہے کہ

ثقافت سے مراد وہ تمام علوم، معارف اور فنون ہیں جن پر دسترس اور جن میں مہارت مطلوب ہے۔

ثقافت اکتسابی یا ارادی یا شعوری طرز عمل کا نام ہے۔ اکتسابی طرز عمل میں ہماری وہ تمام عادات، افعال، خیالات اور رسوم اور اقدار شامل ہیں جن کو ہم ایک منظم معاشرے یا خاندان کے رکن کی حیثیت سے عزیز رکھتے ہیں یا ان پرعمل کرتے ہیں یا ان پر عمل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ایک ماہر سماجیات ، گسٹوف کلائم ثقافت کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے:

رسوم و روایات، امن و جنگ کے زمانے میں انفرادی اور اجتماعی رویے دوسروں سے اکتساب کیے ہوئے طریقہ ہائے کار، سائنس، مذہب اور فنون کا وہ مجموعہ ثقافت کہلاتا ہے جو نہ صرف ماضی کا ورثہ ہے بلکہ مستقبل کے لیے تجربہ بھی ہے۔

ثقافت عقیدہ، فکر، عادات اور اخلاق واطوار کے ساتھ ساتھ سیاسی، اجتماعی اور معاشرتی اداروں حتیٰ کہ بین الاقوامی میدانوں میں بھی اپنے آثار چھوڑتی ہے، جس کے نتیجے کے طور پر مختلف علوم وفنون وجودپذیر ہوتے ہیں، آرٹ کی متنوع شکلیں معرضِ ظہور میں آتی ہیں، فن تعمیر کے گوناگوں شاہ کار انسانی نگاہوں کو خیرہ کیے دیتے ہیں، معاشی ادارے تشکیل پاتے اور سیاسی نظام بنتے ہیں؛ اسی مجموعی تشخص کو ثقافت کا نام دیا جاتا ہے اور علوم عُمرانی کی اصطلاح میں ایک کو Mentafacts ذہنی تشکیل کہا جاتا ہے اور دوسرے کوArtefactsسماجی مظاہر لیکن یہ دونوں باہم مربوط ہوتے ہیں اور ایک کا تصور دوسرے کے بدون غیرممکن ہے۔

ثقافت کے بنیادی عناصر:

کسی بھی ثقافت کے بنیادی طور پر چار عناصر ہوتے ہیں:

(1) اقتصادی ذرائع

(2) سیاسی نظام

(3) اخلاقی اقدار وروایات

(4) مختلف علوم وفنون پر گہری نظر

نیز جس طرح کسی بھی ثقافت کے آگے بڑھنے اور ترقی کے منازل طے کرنے کے متعدد عوامل ہوتے ہیں: کچھ جغرافیائی، کچھ اقتصادی اور کچھ نفسیاتی جیسے مذہب، زبان اور اصول تعلیم وتربیت، بالکل اسی طرح کسی بھی ثقافت کے زوال کے بھی چند ایک اسباب ہوتے ہیں، جو اس کی بقا اور ترقی کی راہوں میں گامزن کرنے کے ذرائع سے معارض ہوتے ہیں مثلاً اخلاقی وفکری زبوں حالی، بدنظمی، ظلم وجور اور فقر وتنگدستی کا شیوع، مستقبل کے بارے میں لاپروائی اور باصلاحیت راہ نما اور مخلص قائدین کی نایابی۔

انسانی ثقافت کی تاریخ اور ادوار ثلاثہ:

انسانی ثقافت کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے، جتنا قدیم اس خاک دان ارضی میں خود انسان کا وجود ہے ، دراصل یہ سلسلہ ایسا ہے جو اوّل دن سے تا امروز دراز ہے۔دنیا کی ثقافتی تاریخ کو عموماً تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔عہد قدیم، قرونِ وسطیٰ، اور عہدِ حاضر۔

ثقافت انسانی کا حیطہ عمل:

کسی بھی ثقافت کا تعلق کسی خاص خطہ ارضی یا کسی خاص نسلِ انسانی سے نہیں ہوتا بلکہ وہ تمام دنیا اور دنیا کی تمام نسلوں کو محیط ہوتی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ظہور پذیر ہونے والی ہر قوم ثقافت وتمدن کے باب میں کچھ نہ کچھ صفحات رقم کرتی ہے، گو بعض ثقافتیں اپنی ٹھوس بنیادیں زبردست اثر انگیزی اورافادہ عام کی بنا پر دیگر ثقافتوں سے ممتاز ہوجاتی ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ ہر وہ ثقافت جس کا پیغام عالم گیر ہو،جس کا خمیر انسانیت نوازی پر اٹھا ہو، جس کی ہدایات وتوجیہات اخلاقی قدروں کے پاسدار ہوں اور جس کے اصول وضوابط حقیقت پسندی پر مبنی ہوں تاریخ میں ایسی ثقافت کو بقائے دوام حاصل ہوتی ہے، مرورِ ایام کے باوصف انسانی زبانیں اس کے ذکر میں سرگرم رہتی ہیں اور ہر زمانے میں اسے قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔

اسلامی ثقافت:

اسلامی ثقافت کی بنیاد براہ راست وحی پر ہے، چاہے وحی متلو ہو یا غیر متلو۔ اس مضبوط بنیاد کی وجہ سے جو خصائص اسلامی ثقافت کو حاصل ہیں دنیا کی کوئی اور ثقافت ان کے حصول کی تمنا تو کر سکتی ہے لیکن کبھی ان سے بہرہ ور نہیں ہو سکتی۔ اسلامی ثقافت کی اس مضبوط بنیاد نے اسے وہ دوام بخشا کہ آج مسلم و غیر مسلم دنیا کے تمام ہی اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ اسلامی ثقافت دنیا کی واحد قدیم ترین ثقافت ہے جو آج بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نہ صرف موجود ہے بلکہ محفوظ بھی ہے۔

اسلامی ثقافت بھی، انسانی ثقافتوں کے دراز سلسلہ کی ایک کڑی ہے، اس سے قبل بھی بہت سی ثقافتیں رونما ہوئیں اور اس کے بعد بھی تاقیامت ابھرتی رہیں گی۔ہماری ثقافت کے ابھرنے، چمکنے اور عالم پر چھاجانے کے متعدد محرکات تھے اوراس کے گمنام وبے نشان ہونے کے بھی مختلف اسباب ہیں، جن کی تفصیل میں جانا ہمارے موضوع سے خارج ہے، ہمارا مقصد تو صرف انسانی ارتقاء کی تاریخ میں اسلامی ثقافت کے عظیم الشان کردار اور دنیا کے مختلف اقوام پر علوم وفنون، عقائد، اخلاقیات، فلسفہ وحکمت اور ادب کے باب میں اس کے ناقابلِ فراموش احسانات کو ذکر کرنا ہے۔

اسلامی ثقافت کی خصوصیات:

اسلامی ثقافت اپنے جلو میں ہزارہا خوبیوں اور خصوصیات کو سموئے ہوئے ہے؛ جن میں سے اہم، مرکزی اور بنیادی خصوصیات درج ذیل ہیں:

پہلی خصوصیت:

اسلامی ثقافت کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی اساس کامل وحدانیت پر ہے، یہی ایک ایسی ثقافت ہے، جو یہ تصور پیش کرتی ہے کہ کائنات کی ایک ایک شے صرف اور صرف ایک ذات کی خلق کردہ ہے،اسی کے لیے عبادت اور پرستش ہے اور اسی سے اپنی حاجات وضروریات بیان کرنا چاہیے، وہی عزت عطا کرتا ہے اور اسی کے ہاتھ میں کسی کو بھی ذلیل وخوار کردینا ہے، وہی دیتا ہے اور وہی محروم بھی رکھتا ہے اور زمین کی بے کراں وسعتوں اور آسمان کی بے پایاں بلندیوں پر جو کچھ ہے سب اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اسی عقیدے کی وجہ سے اسلامی ثقافت گزشتہ تمام ثقافتوں میں نمایاں رہی اور آئندہ بھی اس کی انفرادیت باقی رہے گی۔

دوسری خصوصیت:

اسلامی ثقافت کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اہداف اور پیغامات تمام کے تمام آفاقی ہیں، ارشاد ربانی ہے:

یَا اَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَاُنْثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقَاکُمْ (حجرات)

قرآن کریم نے تمام عالم کے انسانوں کو حق، بھلائی اور خلقی شرافت وکرامت کی بنیاد پر ایک کنبہ قرار دیا، پھر اس نے اپنی لائی ہوئی ثقافت کو ایک قلادے کے درجہ میں رکھا، جس میں ان تمام قبائل واقوام کے عمدہ گراں مایہ جواہر کو پرودیا جنھوں نے مذہب اسلام قبول کیا، پھر اس کی اشاعت و ترویج میں کوشاں رہے، یہی وجہ ہے کہ دیگر تمام ثقافتیں کسی ایک نسل اور قوم کے مردانِ کارپرناز کرتی ہیں، مگر ثقافت اسلامی میں وہ تمام افراد مایہ افتخار ہیں، جنھوں نے اس کے قصر عظمت کو بلند کیا؛ چنانچہ ابوحنیفہؒ، شافعیؒ، واحمدؒ، خلیلؒ وسیبویہؒ، کندیؒ وغزالیؒ اور فارابی وابن رشدؒ (جن کی نسلیں بھی مختلف تھیں اور جائے سکونت بھی الگ) کے ذریعہ اسلامی ثقافت نے پورے عالم کو انسانی فکر سلیم کے عمدہ نتائج سے ہم کنار کیا۔

تیسری خصوصیت:

اسلامی ثقافت کی تیسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس نے اعلیٰ اخلاقی قدروں کو اپنے تمام ضابطہ ہائے حیات اور زندگی کی سرگرمیوں میں اولیت کا مقام عطا کیا اور ان قدروں سے کبھی بھی خالی نہ رہی؛ چنانچہ علم وحکمت، قوانین شرعیہ، جنگ، مصالحت، اقتصادیات اور خاندانی نظام، ہر ایک میں ان کی قانوناً بھی رعایت کی گئی اور عملاً بھی اوراس معاملے میں بھی اسلامی ثقافت کا پلڑا تمام جدید وقدیم ثقافتوں پر بھاری نظر آتا ہے؛ کیونکہ اس میدان میں ہماری ثقافت نے قابل فخر آثار چھوڑے ہیں اور دیگر تمام ثقافتوں سے انسانیت نوازی میں سبقت لے گئی ہے۔

چوتھی خصوصیت:

ہماری ثقافت کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے سچے اصولوں پر مبنی علم کو خوش آمدید کہا اور پکے مبادیات پر مبنی عقائد کو اپنی توجہ کا مرکز قرار دیا چنانچہ عقل وقلب دونوں اس کے مخاطب ہیں اور فکر وشعور دونوں اس کی جولان گاہ اور یہ بھی ثقافت اسلامی کی ایسی خصوصیت ہے جس میں پوری انسانی تاریخ میں اس کا کوئی شریک نظر نہیں آتا، اس کے باعثِ افتخار ہونے کا راز یہ ہے کہ اسی کے ذریعہ سے اسلامی ثقافت نے ایسا نظام حکومت قائم کیا جو حق وانصاف پر مبنی ہو اور دین وعقیدے کی پختگی جس کا محور ہو، ایسا نہیں کیاکہ دین کو حکومت اور ثقافت کی ترقیات سے الگ رکھے بلکہ ہر قسم کی ترقی میں دین کو اہم عامل کی حیثیت حاصل رہی۔ اسلامی ثقافت تنہا ایسی ثقافت ہے جس میں دین وسیاست کا امتزاج بھی رہا۔

پانچویں خصوصیت:

ہماری ثقافت کی ایک اور اہم ترین خصوصیت اس کی کشادہ ظرفی اور انتہا سے زیادہ مسامحت ہے جو مذہب کی بنیاد پر قائم کسی بھی ثقافت میں ناپید ہے۔ کسی ایسے شخص کا جو نہ کسی مذہب کا پیرو ہو اور نہ کسی معبود کی پرستش کرتا ہو، تمام مذاہبِ عالم کو ایک نگاہ سے دیکھنا اور ان کے اَتباع کے ساتھ معاملہ عدل کرنا، کوئی تعجب خیز امر نہیں ہے ہماری تو پوری ثقافت کی بنیاد ہی مذہب اور اس کے وضع کردہ اصولوں پر ہے لیکن یہ ایک ناقابل انکار سچائی ہے کہ تاریخ میں سب سے زیادہ مسامحت، انصاف، رحم وکرم اور انسانیت کی علمبردار صرف اور صرف ہماری ثقافت ہے اور ہمارے لیے یہ موجبِ صد افتخار ہے کہ ہماری ثقافت کا قِوام صرف ایک مذہب پر ہے مگر اس کی لامحدود وسعتوں میں مذاہبِ عالم کی ثقافت کی سمائی ممکن ہے۔

عالمی ثقافتوں کی تاریخ میں ہماری ثقافت کی یہ چند امتیازی خصوصیات ہیں جب دنیا حکومت وسلطنت، علم وحکمت اور قیادت وسیادت ہر میدان میں ہمارے زیر نگیں تھی تو انھیں خصوصیات کی بنا پر ہماری ثقافت ہر قوم ومذہب کے باشعور اور ذہنِ رسا رکھنے والے افراد کے قلوب کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی تھی لیکن جب اس کا زور جاتا رہا اس کے بالمقابل دوسری ثقافتیں رونما ہوئیں تو ہماری ثقافت کی قدر وقیمت پر دنیا کی نگاہیں مختلف انداز سے اٹھنے لگیں۔

پاکستان کی ثقافت:

فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ

ثقافت زندگی سے الگ کوئی چیز نہیں ہوتی ، یہ داخلی اقدار کا نام ہے اور ظاہری طور پر طریقِ زندگی کا بھی۔

پاکستان ایک وسیع اور متنوع ثقافت رکھنے والا ملک ہے۔ پاکستان کے علاقے قدیم دنیا میں وہ علاقے تھے جن میں مہر گڑھ اور وادی سندھ کی تہذیب پنپی تھی۔ اس علاقے پر یونانی، ایرانی، عرب، ہندو، سکھ، افغان، منگول اور ترکوں کی بھی حکومت رہی۔ یہ علاقہ مختلف سلطنتوں جیسے موریا، ہخامنشی سلطنت، عربوں کی خلافت امویہ، منگول سلطنت، مغلیہ سلطنت، درانی سلطنت، سکھ سلطنت اور برطانوی راج کا اہم حصہ رہا ہے۔ اس کے بعد محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کامیاب ہوئی اور 14اگست 1947ء کو ہندوستان کے مشرق اور مغرب میں دو حصوں میں ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ریاست قائم ہوئی۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہماری قوم جس ثقافت کو بیان کرتی ہے، وہ صدیوں پرانی ہے اور یہ ہمیں ہمارے آباو اجداد سے وراثت میں ملی ہے۔

آج کا پاکستان ایک کثیرالمذہبی، کثیراللسانی اور کثیر القومی ریاست ہے۔ پاکستانی ثقافت کی سب سے بڑی اور خاص بات یہ ہے کہ مختلف تہذیبوں نے شامل ہو کر اس کے رنگ کو مزید نکھار ا ہے، کہیں کشمیری رنگ، کہیں بلوچی رنگ، کہیں وادی مہران کا صوفیانہ رنگ، کہیں گندھارا (پشتون) تہذیب کا رنگ اور کہیں پنجاب کا رنگ نظر آتا ہے۔

پاکستانی ثقافت کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ قومی زبان اُردو کے ساتھ ہر علاقے میں مختلف زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ کہیں پشتو، کہیں بلوچی، سندھی، پنجابی، سرائیکی، ہندکو، تو کہیں کوئی اور زبان بولی جاتی ہے۔ 2016ء میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق، پاکستان میں کم و بیش76مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ مزید برآں ہر زبان کی کئی اقسام ہیں، مثال کے طور پر سندھ میں بولی جانے والی سرائیکی زبان پنجاب کی سرائیکی سے کچھ مختلف ہے۔ اسی طرح پنجاب میں بولی جانے والی ہندکو خیبر پختونخوا میں بولی جانے والی ہندکو سے مختلف ہے۔ وطن عزیز کی ایک خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ یہاں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو فروغ اتحاد کے لئے کوشاں ہیں۔

یقیناً پاکستان کی شان سمجھے جانے والے شمالی علاقے کی فطری خوبصورتی اور برف پوش پہاڑوں کا ذکر کیے بغیر وطنِ عزیز کی ثقافت کی بات ادھوری سمجھی جائے گی۔ پاکستان کا شمالی خطہ یعنی بالائی خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان نہ صر ف اونچے اونچے کوہساروں اور بلندوبالا پہاڑوں پر مشتمل ہے، جو کہ زمانہ قدیم سے سالہاسال سفید برف کی چادر اوڑھے آرہے ہیں جبکہ ان پہاڑوں میں قطبین سے باہر کی دنیا کا سب سے بڑا گلیشیئرکا ذخیرہ بھی موجود ہے۔ یہ پہاڑی خطے اپنے دامن میں انتہائی قدیم اورمنفرد ثقافتوں کا مسکن رہے ہیں۔ دنیا کی قدیم ترین ثقافت یعنی کیلاش، ان پہاڑی خطوں میں اپنا وجود برقراررکھے ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان کئی قدیم تہذیبوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جس میں سرِفہرست چار لاکھ سال پرانی پوٹھوہار کی سُواں تہذیب ہے، جو راولپنڈی کے قریب سُوان ندی کے کنارے قائم تھی ۔ پاکستان میں موجود دوسری قدیم تہذیب،درّہ بولان بلوچستان کی مہرگڑھ تہذیب ہے جو ساڑھے چھ ہزار سال قبلِ مسیح میں قائم تھی۔ علاوہ ازیں پاکستان میں ساڑھے تین ہزار قبلِ مسیح سے تعلق رکھنے والی امری و نل، کلّی، رانا گندھائی، ژھوب اور کوٹ ڈی جی تہذیبیں بھی پائی جاتی ہیں۔پاکستان میں موجود پانچ ہزار سال قدیم ہڑپائی تہذیب بھی اپنے وقت کی حددرجہ ترقی یافتہ تہذیب شمار کی جاتی ہے۔اس کو وادی سندھ کی دراوڑی تہذیب بھی کہا جاتا ہے۔ اس تہذیب کے آثار صوبہ سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختونخوا تک پھیلے ہوئے ہیں۔

اقوام عالم میں وہی غیور قومیں زندہ رہتی ہیں جو اپنی پہچان، سماجی و ثقافتی اقدار اور سیاسی و معاشی دانش کو پختہ عزم سے اپناتی ہیں۔ آزادی کی نعمت کی قدر کرنا نہ صرف قوم کے ملی جذبے کو ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ دُنیا میں قوم کی غیرت و حمیت کا بھی عکاس ہے۔ پاکستان کی قومی ثقافت میں ہر صوبے اور ہر نسلی گروہ کا اپنا ایک خاص رنگ ہے، جو ملّی تصویر کو اور بھی خوشنما بنا دیتا ہے۔

ہمیں بطور شہری یہ عہد کرنا ہوگا کہ اس قوم کے متنوع ثقافتی رنگ ہمیشہ زندہ رکھیں گے اور آپس میں کسی قسم کی رنجشوں کو پنپنے کا موقع نہیں دیں گے۔ ہمیں ملک میں کلچر اکیڈمی قائم کرنا ہو گی جہاں پر سینئر ہنر مند نیو ٹیلنٹ کو پڑھائیں اور نیو ٹیلنٹ کو سامنے لائیں۔ ثقافتی پروگراموں کو ضلعی ،تحصیل اور یونین کونسل کی سطح تک توسیع دی جا ئے تاہم ثقافت کے نام پر فحاشی و عریانی سے بچاجائے اور اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر پروگراموں کو سپورٹ کیا جائے تاکہ ملک و قوم کے ثقافتی ورثہ کو سنبھالا جاسکے۔