روزہ کا بڑا مقصد روح کی پاکیزگی ہے

محمد سجاد فیضی

روز وشب کی گردش اپنی ہمیشہ کی رفتار کے مطابق چلتے ہوئے پھر رمضان المبارک کے مقدس مہینہ تک آپہنچی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ کو اور اس مہینہ کے دن اور اس کی راتوں کو دوسرے دنوں اور راتوں سے ایک خاص امتیاز بخشا ہے۔ یہ نیکیوں کی سوداگری کا مہینہ ہے، اس ماہ میں ہر نیکی اور طاعت کا بھاو بڑھادیا جاتا ہے، اور بڑھانے والا وہ ہے جس کے یہاں لامحدود خزانہ ہے، جس کے یہاں لیت ولعل نہیں ہے، جس کے یہاں بخل وامساک نہیں ہے، جس سے عہد شکنی کا کوئی اندیشہ نہیں ہے، جس کے یہاں سود وزیاں کا کوئی مسئلہ نہیں۔ اس کے دربار سے جو وعدہ صادر ہوتا ہے وہ بڑھ چڑھ کر پورا ہوتا ہے، عالم قدس میں اس مہینہ کا خاص اہتمام ہے، اہل ایمان کی دائمی قیام گاہ جنت کو اس ماہ میں نیا رنگ وروغن بخشا جاتا ہے، یہ مہینہ ایمان وعمل کی بادبہاری کا مہینہ ہے، اس مہینہ میں صرف آنے والوں کا ہی اعزاز واکرام نہیں کیا جاتا، بلکہ منہ موڑنے والوں کو بھی پکار پکار کر بلایا جاتا ہے، کہ برائی کی طرف دوڑنے والے ٹھہرو، ذرا دیکھو تمہارے لئے کیا کیا انتظام ہے؟

اللہ اللہ! کیا شانِ کریمی ہے کہ جو آقا ہے، خالق ومالک ہے، قادر مطلق ہے، سب کچھ اختیار رکھتا ہے، سب سے بے نیاز ہے، وہ اپنے بندوں کو، غلاموں کو، بندیوں کو، باندیوں کو پکارتا ہے، بلاتا ہے، ان کو بلاتا ہے جو بے بس اور محتاج ہیں، لیکن مالک کی شانِ رحیمی نے ایک محدود اور مختصر سا اختیار بخش دیا ہے، تو اسی کے بل پر لگتے ہیں سر کشی کرنے، انھیں بھاگنے والے غلاموں کو اپنے لطف وکرم سے بلاتا ہے کہ آ ئو میں تمہیں معاف کرنے کے لئے تیار ہوں۔

قربان ہونے اور مرمٹنے کا مقام ہے! کہاں ہیں بوجھ سے دبے ہوئے بندے ؟ کہاں ہیں آفت کے مارے ہوئے غلام ؟ کہاں ہیں روزی سے پریشان بھوکے؟ کہاں ہیں رحم وکرم کی آس لگائے ہوئے مساکین؟ کہاںہیں زمانے کے ٹھکرائے ہوئے فقراء ؟ آئیں، آگے بڑھیں، قریب ہوجائیں، ہاتھ بڑھائیں، دامن پھیلائیں، مانگتے جائیں اور پاتے جائیں، بخشش عام ہے، رحمت تمام ہے، محروم وہی ہے جو اس دریائے فیض کو بھی پاکر محروم رہے، بد قسمت وہی ہے جو رب عالی کی پکار پر بھی سوتارہے اور اس کی آنکھ نہ کھلے۔

اس ماہ مبارک میں جو روزے ہم پر فرض کیے گئے ان کا بڑا مقصد ہماری روح کو پاکیزگی کی لذت سے آ شنا کرنا۔ ہمارے دلوں میں جذبہ احساس و جذبہ انفاق کی شمع جلانا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

یَٰٓأَیُّهَا لَّذِینَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ لصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی لَّذِینَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ.

(البقرة، 2: 183)

اس آ یات مبارکہ کے آ خر میں اس مقصود کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے روزے فرض کیے۔ وہ ہے کہ تم متقی بن جاؤ۔ یعنی ہر وہ کام جو اللہ اور اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ناپسندیدہ اس کو پس پشت ڈال کر ہر اس کام کی طرف جانا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ہاں محبوب ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اک سائل نے تقویٰ کے متعلق دریافت کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:کیا آپ کو کسی خاردار راستے سے گزرنے کا اتفاق ہوا؟ سائل نے کہا: جی ہاں! بار بار، آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: وہاں سے آپ کیسے گزرتے ہیں؟ سائل نے کہا: اپنے دامن کو بچاکر اس انداز میں گزرتا ہوں کہ کہیں کانٹوں میں دامن الجھ نہ جائے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ذالک التقوی یہی تقویٰ ہے، کیا مطلب؟ یعنی دنیا ایک خاردار وادی ہے، یہاں ہرقدم پر معصیت و نافرمانی کے کانٹے بکھرے ہوئے ہیں اور یہاں سے دامن اس طرح بچا کر گزر جانا کہ اُن کانٹوں میں دامن الجھنے نہ پائے دراصل تقوی ہے۔

جب یہ مقدس و مبارک ماہ اپنی رحمتوں کے ساتھ سایہ فگن ہوتا تو آپ ﷺ اپنے اپنے صحابہ کو اس کی آمد کی مبارک دیتے۔ امام احمد اور امام نسائی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے آپ کامبارک معمول ان الفاظ میں نقل کیا ہے۔

کان النبی صلی الله علیه وسلم یبشر أصحابه یقول: ( قد جاء کم شهر رمضان شهر مبارک کتب الله علیکم صیامه فیه تفتح أبواب الجنان وتغلق فیه أبواب الجحیم وتغل فیه الشیاطین فیه لیلة خیر من ألف شهر من حرم خیرها فقد حرم.

حضور ﷺ اپنے صحابہ کو یہ کہتے ہوئے مبارک باد دیتے کہ تم پر رمضان کا مہینہ آیا ہے جو نہایت با برکت ہے اس کے روزے تم پر اللہ نے فرض فرمائے ہیں اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اوردوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ شیطانوں کو باندھ دیا جاتا ہے۔ اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینہ سے افضل ہے جو اس سے محروم ہو گیاوہ محروم ہی رہے گا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا روزہ دار کے لیے دو خوشیا ں ہیں:

فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ وَفَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّهِ.

(مسند احمد، 4: 110)

ایک خوشی بوقت افطار اور دوسری اپنے رب تعالیٰ سے ملاقات کے وقت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت کو رمضان کے حوالے سے ایسی پانچ چیزیں عطا ہوئی ہیں جو سابقہ کسی امت کو نصیب نہیں ہوئیں۔

1. خلوف فم الصائم أطیب عند الله من ریح المسک

روزہ دار کے منہ کی خوشبو اللہ تعالی کے ہاں کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہوتی ہے۔

2. تستغفر لهم الحیتان حتّی یفطروا

افطار تک سمندر کی مچھلیاں روزہ داروں کے لئے دعا کرتی ہیں۔

3. یزین الله عزوجل کل یوم جنة

ہر روز جنت کو مزین کیا جاتا ہے۔

4. تصفد فیه مرده الشیاطین

شیاطین کو رمضان میں قید کر دیا جاتا ہے۔

5. یغفرلهم فی اخر لیلة

آخری رات امت کی بخشش کر دی جاتی ہے۔

مذکورہ روایت میں ہی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا سحری کرو اگرچہ پانی کے گھونٹ پر ہو۔

فان الله و ملائکته یصلون علی المتسحرین

اللہ تعالی اور اس کے فرشتے سحری کرنے والوں پر رحمتیں نازل کرتے ہیں۔

(مسند احمد، 3: 12)

سحری کے ساتھ ساتھ سحری کرنے والوں کو بھی اپنی مبارک دعا سے نوازا، امام طبرانی نے حضرت ابو سوید رضی اللہ عنہ سے آپ ﷺ کی یہ دعا روایت کی ہے۔

اللهم صلی علیٰ المستحرین.

(اتحاف، 166)

اے اللہ! سحری کرنے والوں پر اپنی رحمتوں کا نزول فرما۔

ہم روزہ رکھتے ہیں تو صبح سے شام تک اپنے جسم کے جائز مطالبات تک کو بھوک پیاس جیسے مطالبات تک کو پورا کرنے سے اللہ کی رضا کی خاطر رک جاتے ہیں اور اس کے اجروانعام کی خاطر اپنی جائز خواہشات بھی قربان کر دیتے ہیں۔رات آتی ہے تو کھڑے ہو کر اس کا کلام سنتے ہیں۔

روزہ انسانی خواہشات خیالات واحساسات کا رخ اللہ تعالی کی طرف پھیر دیتا ہے۔روزے دار اپنے روزے کے ذریعے شیطان کو مغلوب کرتا ہے اور اپنے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتا ہے۔روزہ مشکلات کو برداشت کا عادی بناتا ہے اور وہ برائی کا حکم دینے والے نفس پر غلبہ پانے کا ایک موثر ذریعہ ہے۔جب کوئی بندہ روزہ رکھتا ہے تو وہ اپنی نفسانی خواہشات کی مخالفت کرتا ہے اور آخر کا ر وہ ان خواہشات پر غلبہ پا لیتا ہے۔

علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں:

اعمال کے ثواب کا اندازہ لوگوں پر منکشف ہو جاتا ہے۔ وہ اعمال ثواب کے لحاظ سے دس گنا سے لے کر سات سو گنا یا پھر جتنا زیادہ اللہ چاہے بڑھا دیئے جاتے ہیں مگر روزے کا ثواب اللہ تعالی روزے دار کو بے حساب دے گا۔ اس موقف پر یہ حدیث دلالت کرتی ہے۔

کل عمل ابن آدم یضاعف الحسنة بعشره أمثالها إلی سبع ماءة ضعف الی ماشاء الله، قال الله: إلا الصوم فإنه لی وأنا أجزی به.

ابن آدم کا ہر عمل اس کے لئے بڑھایا جاتا ہے نیکی دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک اللہ کی مشیت سے بڑھا دی جاتی ہے۔اللہ نے فرمایا مگر روزہ میرے لئے ہے اور میں اس کا جزادوں گا۔

اَلصَّوْمُ لِیْ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ روزہ تمام عبادات میں سے مجھے زیادہ پسند ہے اور میرے نزدیک یہ زیادہ مقدم ہے۔

اللہ تعالی کا یہ فرمان اَلصَّوْمُ لِیْ کہ روزہ میرے لئے ہے تمام عبادات پر روزے کی فضیلت ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔

امام نسائیؒ نے ابوامامہ کے حوالے سے مر فوع حدیث بیان کی ہے۔جس کے الفاظ یہ ہیں۔

عَلَیْکَ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَاعِدْلَ لَهُ

تم روزے کو لازم پکڑو اس کی کوئی مثال نہیں۔

اَلصَّوْمُ لِیْ میں روزے کی نسبت اللہ تعالی نے اپنی ذات کی طرف کی ہے اس نسبت سے روزے کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔جس طرح خانہ کعبہ کو بیت اللہ کہا جاتا ہے یوں تو سبھی گھر اللہ کے ہیں جس گھر کو خاص طور پر بیت اللہ کہا گیا اس سے اس گھر کی عظمت واضح ہوتی ہے۔

جیسا کہ صحیح احادیث میں وار ہو ا ہے کہ اللہ تعالی نے جنت میں ایک دروازہ بنایا ہے جس کا نام (بابُ الرَّیَّانَ) رکھا ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے اس کے بارے میں یہ اشاد فرمایا ہے۔

إن فی الجنة بابا یقال له: الرَّیَّانُ، یدخل منه الصائمون یوم القیامة، لا یدخل منه أحد غیرهم، یقال: أین الصائمون؟ فیقومون لا یدخل منه أحد غیرهم، فإذا دخلوا أغلق فلم یدخل منه أحد.

جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو ریان کہا جاتا ہے۔ قیامت کے دن صرف روزے دار اسے جنت میں داخل ہوں گے۔ ان کے علاوہ کوئی اور داخل نہیں ہوگا۔کہا جائے گاروزے دار کہاں ہیں؟تو وہ کھڑے ہوں گے ان کے علاوہ اس میں کوئی اور داخل نہیں ہو گا۔ جب وہ جنت میں داخل ہو جائیں گے تو وہ دروازہ بند کر دیا جائے گاتو اس میں کوئی داخل نہیں ہوگا۔

اس ضمن میں حضور نبی اکرم ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَ لَه مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِه.

جس نے ایمان اور ثواب کی نیت سے روزہ رکھا اس کے سارے پہلے گناہ معاف کر دیئے گئے۔

روزے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہی لگا لیجیے کہ اس فعل پر عمل پیرا ہونے والوں کو اللہ تعالیٰ خود یہ خبر سنا رہا ہے کہ اس عمل کی جزاء میں ہی دو گا ۔مسلمان جو بھی عبادت کرتا ہے اپنے مولا کے حضور تو کسی عبادت پر رب العالمین دس تو کسی پر ستر، کسی پر ہزاروں نیکیوں کا وعدہ فرمایا مگر روزہ جس پر خالق کائنات نے اس کے جزاء پر فرمایا کہ اس عمل کی اجرت کا تمہیں اندازہ ہی نہیں ہے ۔یہ فقط میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ماہ مبارک کے فیوض وبرکات نصیب فرمائے اور اپنے مقربین بندوں میں شامل فرمائے۔