اسلامی ریاست میں زکوٰۃ کی اہمیت

ڈاکٹر فرخ سہیل

اسلام معاشرے کے تمام افراد کو سماجی تحفظ فراہم کرتا ہے کیونکہ اسلام کا نصب العین فلاحی ریاست کا قیام ہے جہاں ہر شخص کی بنیادی ضروریات کی ذمہ داری اور ضمانت ریاست کا فرض ہے۔ بیماری، بے روزگاری، خوراک، لباس اور بنیادی ضروریات چونکہ ہر انسان کی بنیادی ضروریات ہیں۔ لہذا اسلامی ریاست پر فرض ہے کہ وہ ان ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ اس کے علاوہ اسلام معاشرہ کے بااثر افراد کو اس سلسلے میں ذمہ دار بناتا ہے کہ وہ اپنے اردگرد ضرورتمندوں کی مدد کرتے رہیں اور اسلام اس بات کی بیخ کنی کرتا ہے کہ دولت معاشرے کے چند بااثر افراد کے خزانوں میں اضافہ نہ کرتی چلی جائے بلکہ دولت کی گردش اور تقسیم ہی میں معاشرے کی بقا و دوام ہے۔

اسلام ایک ایسا جامع دین ہے کہ جس میں اجتماعی بھلائی اور فلاح و بہبود کا مکمل نظام موجود ہے اگرچہ اسلام نہ صرف انسان کو اس کی انفرادی زندگی میں مختلف فرائض اور حقوق کا اہل بناتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اخلاق حسنہ، زہد و تقویٰ اور خدمت انسانیت کا ضامن بھی قرار دیتا ہے۔ فرائض عبادات کی انجام دہی کے علاوہ نفلی عبادات کا تصور بھی پیش کرتا ہے تاکہ اس کے فرائض میں ہونے والی کوتاہیوں کا ازالہ ہوسکے۔ لہذا اسلام نے فرض زکوٰۃ کے علاوہ نفلی صدقات و خیرات کو بھی مستحب قرار دیا ہے۔

زکوٰۃ اور خیرات و صدقات صرف مالی قربانی نہیں بلکہ اس کے اندر ایک جذبہ بھی پنہاں ہے اور اسی مثبت جذبے کو حیات انسانی کی بقا کے لیے رضائے الہٰی کے حصول اور نسبت رسول پر عمل پیرا ہونے کے لیے اہم قرار دیا ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کے دلوں سے مال و دولت کی محبت کو نکالنے کی ترغیب دیتا ہے۔ دنیوی زندگی کی محبت کی بجائے اخروی زندگی کی اہمیت اور قدرو منزلت کا احساس پیدا کرنا چاہتا ہے اور مال و دولت جمع کرنے والے کو عذاب کی وعید سناتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اے ایمان والو! بے شک اہل کتاب میں اکثر علماء و درویش لوگوں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور جو لوگ سونا اور چاندی ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں درد ناک عذاب کی خبر سنادیں۔ جس دن اس (سونے، چاندی اور مال) پر دوزخ کی آگ میں تاپ دی جائے گی پھر اس (تپے ہوئے مال) سے ان کی پیشانیاں اور ان کے پہلو اور ان کی پشت داغی جائیں گی اور ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہی مال ہے جو تم نے اپنی جانوں کے لیے جمع کیا تھا سو تم اس کا مزہ چکھو جو تم جمع کررہے تھے۔‘‘

جبکہ پروردگار عالم نے اپنے مال کو اللہ کی میں (فرض اور نفل) خرچ کرنے کونیکی قرار دیا ہے جیسا کہ ارشاد ہورہا ہے کہ

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ.

(آل عمران، 3: 92)

’’کہ تم ہرگز نیکی کو نہیں پاسکتے جب تک کہ تم اپنی ان چیزوں میں سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو جو تمہیں محبوب ہیں۔‘‘

زکوٰۃ کی ادائیگی سے تزکیہ نفس بھی ہوجاتا ہے، اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ایک انسان جب اپنے ہاتھ سے اپنے مال میں سے زکوٰۃ کا حصہ نکالتا ہے تو اس عمل سے انسان کے دل سے مال کی محبت کم ہوجاتی ہے اور اس کے علاوہ بخل اور کنجوسی جیسے منفی جذبات کا غلبہ کم پڑ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے محبت اور تعلق استوار ہونا شروع ہوجاتا ہے کیونکہ مال کی بے تحاشا محبت انسانی طبیعت میں بہت سے اخلاقی برائیوں کو پیدا کرتی ہے اور اسی لیے انسان کو مال کو پاک کرنے کے لیے حکم ہورہا ہے:

خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِهَا.

(التوبة، 9: 103)

’’اے نبی! ان کے اموال میں سے صدقہ، زکوۃ لیجئے تاکہ اس کے ذریعے سے آپ اس کے مال کو پاک کریں اور ان کا تزکیہ کریں۔‘‘

اسکے علاوہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ بڑھوتی ہی ہوتی ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے مال کے حوالے سے پروردگار کا وعدہ ہے کہ

اِنْ تُقْرِضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعِفْهُ لَکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ.

(التغابن، 64: 17)

’’کہ اگر تم اللہ کو قرض حسن دو تو وہ یقینا تمہارے مال کو دوگنا کردے گا اور تمہاری مغفرت کرے گا۔‘‘

زکوٰۃ کی ادائیگی کی دو صورتیں ہیں ایک انفرادی طور پر زکوٰۃ ادا کرنا اور دوسرے اجتماعی منصوبہ بندی کے تحت زکوٰۃ ادا کی جائے۔ اگرچہ زکوٰۃ کی ادائیگی کی دونوں صورتوں کے بہت فوائد ہیں لیکن اجتماعی منصوبہ بندی کے تحت زکوٰۃ کی ادائیگی اور اس کی تقسیم کے بہت زیادہ فوائد حاصل ہوتے ہیں کیونکہ تاریخ اسلام کے مطالعے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ عہد رسالت اور مابعد کے ادوار میں زکوٰۃ کی تقسیم کا کام ریاست کی ذمہ داری تھا جس میں مرکزی سطح پر زکوٰۃ وصول کرکے حکومتی سطح پر اسے ضرورتمندوں میں تقسیم کردیا جاتا تھا۔

اسلامی ریاست میں زکوۃ کی اجتماعی وصولی اور تقسیم کی ذمہ داری خلیفہ وقت پر تھی جب حضرت ابوبکر صدیقؓ پہلے خلیفہ راشد منتخب ہوئے تو انہیں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان میں سے ایک فتنہ منکرین زکوۃٰ کا تھا۔ کیونکہ اس وقت ایسے لوگوں کا گروہ پیدا ہوچکا تھا جو زکوٰۃ کے منکر ہوگئے ان لوگوں میں مختلف نظریات پائے جاتے تھے۔ ایک گروہ تو ایسا تھا جو زکوۃ کی ادائیگی کا سرے سے منکر ہوگیا اور دوسرا گروہ وہ تھا جس کا نقطہ نظر یہ تھا کہ اگر کوئی شخص نماز کی ادائیگی مکمل اور صحیح طور پر کرتا ہے تو اسے زکوٰۃ کی ادائیگی کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اس کے علاوہ ایک گروہ کا موقف یہ تھا کہ جب ہماری زرعی زمینوں کی پیداوار سے عشر وصول کرلیا جاتا ہے تو ہمارے ذاتی اموال میں سے زکوٰۃ کا مطالبہ بے معنی ہے۔

لہذا اس معاملے کی خبرجب خلیفہ راشد تک پہنچی تو انہوں نے علی مرتضیٰؓ سے مشورہ طلب کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر آپ نے ان سے زکوٰۃ وصول نہ کی تو یہ سنت رسولa کی صریحاً مخالفت ہوگی۔ لہذا حضرت ابوبکر صدیقؓ نے منکرین زکوٰۃ کے خلاف جہاد کرنے کا فیصلہ کرلیا لیکن بعض صحابہ کرامؓ نے منکرین زکوٰۃ سے نرمی برتنے کا مشورہ دیا لیکن حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ

’’وحی کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے اور اب دین مکمل ہے تو کیا میرے ہوتے ہوئے دین میں کوئی کمی ہوجائے گی۔ خدا کی قسم میں زکوٰۃ اورنماز کے درمیان فرق کرنے والوں سے ضرور جہاد کروں گا۔‘‘

لہذا حضرت ابوبکر صدیقؓ نے منکرینِ زکوٰۃ کے خلاف اعلان جہاد کردیا۔ ایک روایت کے مطابق جب منکرین زکوٰۃ کے خلاف حضرت ابوبکر صدیقؓ بذات خود گھوڑے پر سوار ہوکر تلوارلہراتے ہوئے نکلے تو حضرت علی المرتضیٰؓ آپ کے گھوڑے کی لگان تھام کر فرمانے لگے کہ اے خلیفہ رسول آج میں آپ سے وہی بات کہوں گا جو میدان احد میں آپ کو اللہ کے محبوب نے فرمائی تھی۔ اپنی تلوار نیام میں کرلیں اور ہمیں اپنی جان کے خطرے سے نہ ڈرائیں اورمدینہ واپس لوٹ جائیں اگر آپ شہید ہوگئے تو ہمارا سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ یہ بات سن کر صدیق اکبرؓ واپس لوٹ آئے۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ جب مدینہ واپس لوٹے تو سب سے پہلے ایک خط لکھوایا اور اس کی متعدد نقول کرواکر قاصدوں کے ذریعے منکرین زکوٰۃ کی طرف بھیجا اور اس کے بعد خلیفہ وقت نے گیارہ یا آٹھ جھنڈے تیار کئے اور گیارہ سپہ سالار منتخب فرماکر ہر ایک سپہ سالار کو ایک ایک جھنڈا عطا کیا اور ہر ایک سپہ سالار کی سرکردگی میں ایک ایک دستہ روانہ کیا۔ ان میں سے کچھ دستے منکرین زکوٰۃ کی طرف روانہ کئے اور کچھ دستے جھوٹے مدعیان نبوت کے خاتمے کے لیے مقرر فرمائے اور یوں سب دستے اپنے اپنے مقرر کردہ علاقوں کی طرف روانہ ہوگئے اور مرتدین کے خلاف جہاد کا آغاز ہوگیا اور یوں کم و بیش ایک سال کے عرصے میں امیرالمومنین نے ملک عرب سے فتنہ ارتداد کو مکمل طور پر ختم کردیا۔

پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جس میں گذشتہ چند برسوں سے زکوٰۃ کا نظام نافذ العمل ہوچکا ہے لیکن ابھی تک مختلف حکومتیں اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل نہیں کرسکی اور نہ ہی معاشرے کے افراد کو کسی قسم کا سماجی تحفظ حاصل ہے۔ بہت سے لوگ بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ بیروزگاری کی وجہ سے جرائم میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ جاگیردارانہ اور سرمایہ داری کے جاری نظام کی وجہ سے امرا اپنے معاشرے کے غرباء و نادار لوگوں کے ساتھ بے حس اور لاپرواہ ہوچکے ہیں۔

زکوٰۃ کا نظام اگر حکومت کی وساطت سے اجتماعی بنیادوں پر چل رہا ہو تویہ بات یقینی ہے کہ پاکستان صحیح معنوں میں فلاحی ریاست بن جائے گا۔ کیونکہ ملکی سطح پر زکوٰۃ کی اہمیت و افادیت اور اسکے بابرکت اثرات سے معاشرے کے نادار و مفلس افراد کے بہت سے مسائل حل ہوسکیں گے۔ مرکزی سطح سے لوکل سطح تک محکمہ زکوٰۃ میں جو بھی لوگ کام کریں ان میں جذبہ خدمت خلق کے ساتھ ساتھ تقویٰ اور امانت داری جیسی خصوصیات موجود ہوں ناکہ زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم کا عمل موثر بنایا جاسکے۔