صالحاتِ اُمت کا کردار

خرم نواز خان گنڈاپور

عورت معاشرے کا اہم رکن اور بنیادی ستون ہے۔ اس کے بغیر یہ کائناتِ ہستی ناتمام ہے۔ نسلِ انسانی عورت کی وجہ سے ہی وجود میں آئی ہے حتیٰ کہ انسانیت کی رُشد و ہدایت کا پیغام لانے والے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیہ السلام نے بھی اسی کے وجود سے جنم لیا ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت کا محافظ اور سائبان بنایا ہے مگر یہ ذہنی، فکری، تعلیمی، تحقیقی اور انتظامی امور میں نمایاں صلاحیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اپنی ذات میں اس قدر مضبوط ہے کہ ہر طرح کے حالات کا عزم و ہمت اور صبر و استقامت سے مقابلہ کرتی ہے۔

قبل از اسلام عورت کی حالت قابلِ رحم تھی۔ اسلام نے عورت کو بحیثیت ماں، بہن، بیوی، بیٹی نہ صرف پاکیزگی و تقدس اور عظمت و رفعت جیسی عظیم نعمتوں سے سرفراز کیا بلکہ اسے ذلت و رسوائی کی عمیق گہرائیوں سے نکال کر اعلیٰ درجات پر متمکن کیا اور ان تمام قبیح رسومات کا خاتمہ کیا جو عورت کے انسانی وقار کے خلاف تھیں۔ اسلام نے عورت کو مرد کی طرح معاشرے کا باعزت شہری بنا کر اسے تمام حقوق عطا کیے اور واضح اعلان کیا کہ تکوینِ انسانی میں دونوں ایک جان سے پیدا کیے گئے ہیں۔ سورۃ النساء کی پہلی آیت میں ہی ارشاد ہوتا ہے:

یَٰٓأَیُّهَا لنَّاسُ تَّقُواْ رَبَّکُمُ لَّذِی خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٖ وَٰحِدَةٖ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالا کَثِیراً وَنِسَآءَ.

(النساء، 4: 1)

’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء ) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔ ‘‘

اسلام نے عورت اور مرد کو اجر کے استحقاق میں بھی برابری کا درجہ دیا اورکامیابی کو ایمان و عمل سے مشروط کیا۔ یعنی دنیا اور آخرت میں کامیابی اسی کا مقدر ہو گی جو حسنِ عمل سے آراستہ ہو گا۔ سورۃ النحل کی آیت نمبر 97 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

مَنْ عَمِلَ صَٰلِحا مِّن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَیٰ وَهُوَ مُؤْمِن فَلَنُحْیِیَنَّهُ حَیَوٰة طَیِّبَة وَلَنَجْزِیَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ.

(النحل، 16: 97)

جو کوئی نیک عمل کرے (خواہ) مرد ہو یا عورت جبکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے اور انہیں ضرور ان کا اجر (بھی) عطا فرمائیں گے ان اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے تھے۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عورت کے بغیر معاشرے کی تکمیل ناممکن ہے۔ رب کائنات نے عورت کو سب سے بڑا مقام ماں کی صورت میں دیا ہے۔ اگر مائیں نیک و صالح سوچ کی حامل ہوں تو اپنے بچوں کی تربیت بھی نیکی اور تقویٰ کی بنیاد پر کرسکتی ہیں۔ یہی تربیت معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ ایک نیک اور صالح ماں ہی نیک اور صالح کردار کے حامل بیٹے عطا کرتی ہے۔ انبیاء کرام اور کتابوں کا نزول انسان کی سیرت اور کردار سازی کے لئے شروع کیا گیا۔ جس میں پہلی ذمہ داری عورت کے سپرد کی گئی۔ ماں جس کی آغوش میں انبیاء کرام، اولیاء کرام اور تمام عظیم شخصیات نے تربیت حاصل کی ہے۔ ماں کی تربیت ہی اولاد کو اعلیٰ مقام پر پہنچاتی ہے۔ ماں کی گود اولین درسگاہ ہے۔ گود اگر سیدہ کائنات کی ہو تو اولاد امام حسن اور امام حسین سلام اللہ علیہم بن کر دین حق کا نام سربلند کرتی ہے۔

اُمت کی تشکیل کا کام ماؤں کی تربیت سے ہی طے پاتا ہے۔ عورت اپنے مثبت کردار اورپختہ ارادے سے اپنی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھا جائے تو ظلم و جبر کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں میں خواتین بھرپور کردار اداکرتی رہی ہیں۔ عورت اگر اپنے اندر انقلابی سوچ پیدا کرلے تو قوموں کی تقدیر بدلتے دیر نہیں لگتی۔

اسی بنا پر رسول اللہ ﷺ نے اپنی دعوتی وتبلیغی جد وجہد کا مرکز جس طرح مردوں کو بنایا اسی طرح عورتوں کو بھی بنایا۔ آپ کی تعلیم وتربیت کے نتیجے میں جس طرح خدا پرستی اور خدمتِ دین کا مثالی جذبہ مردوں میں پیدا ہوا اسی طرح خواتین میں بھی انقلابی روح پیدا ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ سے جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تربیت پائی اس طرح صحابیاتؓ بھی آپ ﷺ کے فیضِ صحبت اور مثالی تربیت کے زیور سے آراستہ پیراستہ ہوکر دیگر خواتین کے لیے نجوم ہدایت بن گئیں۔

عصرِ حاضر میں اگر ہماری عورتوں کے سامنے اسلام کی ان بر گزیدہ خواتین کا نمونہ پیش کردیا جائے تو ان کی فطری لچک ان سے اور زیادہ متاثر ہوسکے گی اور وہ موجودہ دور کے اثرات سے بے نیاز ہوکر خالص اسلامی اخلاق، اسلامی معاشرت اور اسلامی تمدن کا نمونہ بن جائے گی۔ آج جب کہ زمانہ بدل رہاہے، یورپی تمدن اور مغربی طرز معاشرت سے ہمارے جدید تعلیم یافتہ لوگ بھی بے زاری کا اظہار کررہے ہیں۔ ایسے حالات میں اسلام کی قدیم تاریخ مسلمان عورت کا بہترین اور اصلی نمونہ پیش کرتی ہے۔ فروغ اسلام میں خواتین کا ہمیشہ معیاری اور شاندار کردار رہاہے۔

ابتدائے اسلام میں دعوت و تبلیغ دین کا فریضہ جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ادا کیا اُسی طرح یہ فریضہ صحابیات نے بھی اُسی جذبہ اور لگن سے سر انجام دیا۔ یہ وہ فریضہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے اِعلانِ نبوت کے اَوّل روز سے لے کر آخری سانس تک اس میں کوئی اِنقطاع واقع نہیں ہوا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد یہ اَہم ذمہ داری اُمتِ مسلمہ کو منتقل کر دی گئی۔ یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے جس سے تاقیامت سبکدوش نہیں ہوا جا سکتا۔ یہ فریضہ مرد اور عورت کے درمیان کسی تفریق کا حامل نہیں ہے۔ عورت کی ذمہ داری صرف اُمورِ خانہ داری، شوہر اور بچوں کی خدمت تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ فریضہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں وہ مرد کے ساتھ یکساں شامل ہے۔ اس پر قرآنِ حکیم شاہد ہے، سورہ التوبہ کی آیت نمبر 71 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَلْمُؤْمِنُونَ وَلْمُؤْمِنَٰتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِیَآء ُ بَعْضٖ یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْهَوْنَ عَنِ لْمُنکَرِ.

(التوبة، 9: 71)

اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں۔

مذکورہ آیت مبارکہ کی رُو سے مرد کے ساتھ دین کی ترویج و اقامت میں عورت کا کردار نہایت اَہمیت کا حامل ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ تبلیغِ اسلام میں مردوں کے ساتھ عورتوں نے بھی ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور دینِ اسلام کو پھیلانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ فروغِ دعوت و تبلیغ میں تاریخ کے اوراق نامور خواتین کے عظیم کارناموں سے بھرے پڑے ہیں۔ ان میں اُمہات المومنین اور صحابیات کرام جیسے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا، حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا، حضرت اُمِ عمارہ رضی اللہ عنہا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا، حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا، حضرت فاطمہ بنتِ خطاب رضی اللہ عنہا کا شمار صفِ اول میں ہوتا ہے۔ یہ خواتین جذبہ دعوت و تبلیغ سے اس طرح سرشار تھیں کہ بہت سے جید صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان کی دعوت دین سے متاثر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ اس فریضہ کی انجام دہی میں خواتین کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا، انہیں اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلق ہونا پڑا حتیٰ کہ انہیں اپنے ایمان کی حفاظت کی خاطر گھر بار کو خیر باد کہنا پڑا مگر انہوں نے راہِ حق میں آنے والے ہر طرح کے مصائب و آلام کا صبر و استقامت سے مقابلہ کیا اور فروغِ اسلام میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔ اس جدوجہد میں خواتین صحابیات نا صرف مردوں کے شانہ بشانہ تھیں، بلکہ بعض اوقات وہ اُن سے سبقت بھی لے گئیں۔ جیسا کہ قبولِ اسلام میں اُم المؤمنین سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سب پر سبقت لے گئیں۔ اسی طرح اسلام میں سبقت لے جانے والوں اور اولین اسلام قبول کرنے والوں میں حضرت سمیہؓ حضرت ام ایمنؓ بھی شامل ہیں۔

قبولیتِ اسلام میں سبقت لے جانے کے بعد اسلام میں دوسرا بڑا اعزاز اور شرف ہجرت میں سبقت لے جانا ہے۔ اس شرف میں بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ صحابیات بھی شریک تھیں۔

یہاں چند جلیل القدر صالحاتِ اُمت کا تذکرہ ضروری ہے کہ جن کے کردار کی بدولت دینِ اسلام دنیا میں رائج ہوا اور اُس کی تبلیغ و اشاعت کا فریضہ احسن طریقے سے سرانجام دیا جا سکا:

1۔ اُم المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا:

اسلام کو سب سے پہلے قبول کرنے کی سعادت حاصل کرنیوالی، رسول اللہ ﷺ کی راز دار، ہمسفر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی ذات گرامی ہے۔ حضرت خدیجہؓ نے نہ صرف سب سے پہلے اسلام قبول کیا بلکہ سب سے پہلے عمل کیا اور اپنی پوری زندگی جان و مال سب کچھ دین اسلام کے لئے وقف کر دیا۔ حضرت خدیجہؓ نے3 سال شعب ابی طالب میں محصوررہ کر تکالیف اور مصائب برداشت کئے اور جب 3 سال کے بعد مقاطعہ ختم ہوا تو آپؓ اس قدر بیمار اور کمزور ہو گئیں کہ اسی بیماری کے عالم میں خالق حقیقی سے جا ملیں۔

2۔ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا:

حضرت عائشہؓ کو آپ ﷺ کی ازواج میں منفرد مقام حاصل ہے۔ آپؓ اپنے ہم عصرصحابہ کرام اور صحابیاتِ عظام ؓمیں سب سے زیادہ ذہین تھیں۔ اسی ذہانت و فطانت اورو سعتِ علمی کی بنیادپر منفرد مقام رکھتی تھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میرا آدھا دین عائشہؓ کی وجہ سے محفوظ ہو گا۔ متعدد صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے شاگرد ہیں۔

3۔ سیدہ کائنات فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا:

خاتون جنت، سردارانِ جنت کی ماں اور دونوں عالم کے سردار کی بیٹی حضرت فاطمہؓ کی زندگی بھی بے مثال ہے۔ آپ ﷺ کی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہؓ ایک عظیم اور ہمہ گیر کردار کی مالکہ تھیں جو ایک بیٹی کے روپ میں، ایک ماں کی شکل میں اور ایک بیوی کے کردار میں قیامت تک آنے والی خواتین کیلئے نمونہ حیا ت ہیں جنہوں نے اپنے عظیم باپ ﷺ کی محبت کا حق ادا کرتے ہوئے بچپن میں سرداران قریش کے ظلم و ستم کا بڑی جرات مندی، شجاعت، ہمت اور متانت سے سامنا کیا۔ حضرت فاطمہؓ چھوٹی تھیں۔ ایک دن جب نبی اکرم ﷺ صحن کعبہ میں عبادت الٰہی میں مشغول تھے کہ ابوجہل کے اشارہ پر عقبہ بن ابی معیط نے مذبوحہ اونٹ کی اوجھڑی کو سجدہ کے دوران آپ ﷺ کی گردن پر رکھ دیا، حضرت فاطمہؓ دوڑتی ہوئی پہنچیں اور نبی اکرم ﷺ سے اذیت وتکلیف کو دور کیا۔

4۔ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا:

حضور نبی اکرم ﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نہایت بہادر اور نڈر خاتون تھیں۔ آپ دوران جنگ بے خوف وخطر زخمیوں کو میدان جنگ سے باہر لاتیں اور ان کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔ انہوں نے غزوہ خندق کے موقع پر نہایت بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جب دوران جنگ ایک یہودی مسلمان خواتین پر حملہ آور ہوا تو آپؓ نے اس پرزوردار وار کیا جس سے اس کا کام تمام ہو گیا۔

5۔ حضرت اُم عمارہ رضی اللہ عنہا:

حضرت ام عمارہؓ مشہور صحابیہ تھیں۔ انہوں نے غزوہ احد میں جبکہ کفار مکہ نے یہ افواہ پھیلا دی کہ نعوذ باللہ آپ ﷺ شہید ہو گئے ہیں ایسی انتہائی نازک حالت میں آپ ﷺ کا دفاع کیا اور شمشیر زنی کا ناقابل فراموش مظاہرہ کیا۔

6۔ حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنہا بنتِ علی:

حضرت زینب بنتِ علی رضی اللہ عنہا گلستانِ نبوت کا مہکتا پھول اور درخشندہ ستارہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے اپنے نانا کے دین خاطر راہِ دعوت و عزیمت میں قربانیوں کے ایسے اَن مِٹ نقوش ثبت کیے کہ آج بھی تاریخِ طبقہ نسواں آپ رضی اللہ عنہا جیسا عظیم کردار کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔

حضرت زینب رضی اللہ عنہا تاریخ اسلام کی وہ مہتم بالشان شخصیت ہیں جن کی ہمسری کا دعوی کوئی خاتون بھی نہیں کرسکتی۔ جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اپنے عہد خلافت میں کوفہ کو اپنا مستقر بنایا تو سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نہایت تن دہی سے خواتین کو دعوت و تبلیغ کرنے میں مشغول ہوگئیں۔ درس و تدریس اور وعظ و نصیحت کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہا کے علم و فضل کا شُہرہ جلد ہی گرد و نواح میں پھیل گیا۔ آپ رضی اللہ عنہا نے حق گوئی و بے باکی اور صبر و استقامت سے خود کو داعیانِ حق کے لیے ہمیشہ مشعلِ راہ بنایا۔

سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے دعوت دین کی راہ میں پے در پے اس قدر غم اُٹھائے کہ آپ رضی اللہ عنہا کی کنیت ہی اُم المصائب مشہور ہوگئی۔ 40ھ میں حضرت علی g کو شہید کر دیا گیا اور اس کے چند سال بعد آپ رضی اللہ عنہا کو اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام کی شہادت کا صدمہ پہنچا۔ 60ھ میں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سیدنا امام حسین علیہ السلام اور اپنے اہل و عیال کی معیت میں کوفہ روانہ ہوئیں۔ وہاں اَہلِ بیتِ اطہار f کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا گیا وہ کسی سے مخفی نہیں۔ سیدنا امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد پُر آشوب لمحات میں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ آپ رضی اللہ عنہا نے اپنے اہل خانہ اور دیگر خواتین کی دلجوئی کر کے اُن کی ہمت بندھائی اور قافلہ حسینی کی قیادت کرتے ہوئے یزید کے دربار میں کلمہ حق بلند کیا۔

یزید کے دربار میں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے جو خطبہ دیا وہ آج بھی تاریخ کے صفحات میں زندہ و جاوید ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے باطل کے چہرے سے نقاب ہٹا کر حق و باطل کے درمیان امتیاز قائم کیا۔ آپ کی اس جدوجہد کی بدولت ہی مسلمانانِ عالم کو واقعہ کربلا کے حالات و واقعات سے آگاہی ہوئی۔

ان مقدس ہستیوں اور ان جیسی لاتعداد صالحاتِ اُمت کے تذکرے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ آج کی خواتین اِن عظیم ہستیوں کی زندگی کو اپنا آئیڈیل بنائیں، اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں، دین کی اشاعت اور ملکی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد بہت سی تنظیمیں خواتین کے لئے خدمات سر انجام دیتی رہی ہیں اور اب تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔

منہاج القرآن ویمن لیگ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے ہر شعبہ بالخصوص تعلیم و تربیت، قیام امن اور معاشرتی اصلاح میں اپنا متحرک کردار ادا کیا اور پوری دنیا میں اسلام کے بنیادی عقائد اور اقدار کے تحفظ کے ساتھ خواتین میں بیداری شعور کے حوالے سے گرانقدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ الحمد للہ تین دہائیوں میں منہاج القرآن ویمن لیگ نے اپنے شاندار تنظیمی وتحریکی کردار اور فکری و نظریاتی جدوجہد سے منہاج القرآن ویمن لیگ کو عالم اسلام کی تنظیمی نیٹ ورک کے اعتبار سے خواتین کی سب سے بڑی نمائندہ اصلاحی فورم ثابت کیا جو دنیا کے 30سے زائد ممالک میں اپنا موثر وجود رکھتی ہے سماجی اصلاح کا فریضہ ہو یا محبت الہی کا حصول عوامی تحریک کا سیاسی سفر ہو یا عشق و ادب رسول ﷺ کا فروغ، امر بامعروف ونہی عن المنکر کی دعوت ہو یا معاشی فلاح و بہبود کی ذمہ داری، مجالس علم و فکر ہوں یا حقوق و فرائض کے ضمن میں بیداری شعور مہم، منہاج القرآن ویمن لیگ نے ہر سطح پر خود کو منوایا۔ اندرون و بیرون ملک ویمن لیگ کا پھیلا ہوا وسیع نیٹ ورک بہترین علمی، فکری، ذہنی اور عملی صلاحیتوں کے ساتھ ایک روشن مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے یہ واحد اصلاحی اور خدمت دین کی تحریک ہے جس میں ہر طبقے سے خواتین شامل ہو تی ہیں اور اپنا اصلاحی و دینی کردار بخوشی ادا کرتی ہیں جس نے پاکستان جیسے روایت پسند معاشرے میں خدمت دین کو ایک نئے رنگ آہنگ اور اسلوب سے ہر گھر تک پہنچایا ہے۔ کانفرنسز، علمی و تحقیقی منصوبہ جات اور اصلاحی سرگرمیوں کے ذریعے ملک بھر میں خواتین کا ایک وسیع حلقہ قائم کیا ہے۔ اصلاح احوال معاشرہ اور احیائے دین کے مقاصد کے حصول کیلئے منہاج القرآن ویمن لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کے سوسائٹی میں واضح اثرات بھی موجود ہیں۔ منہاج القرآن ویمن لیگ نے مردوں کے شانہ بشانہ اپنا اصلاحی، تعلیمی، تحقیقی اور دینی کردار ادا کیا ہے۔ منہاج القرآن ویمن لیگ کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ اس نے علمی، فکری، روحانی اور عملی کاوشوں سے خواتین کو اپنی طرف راغب کیا۔