امامِ حسین علیہ السلام کا مقام و مرتبہ

ڈاکٹر فرخ سہیل

امام عالی مقام کی ولادت باسعادت ہجرت کے چوتھے برس تین شعبان المعظم کو ہوئی۔ جب رسالتمآب کو آپ کی پیدائش کی خوشخبری سنائی گئی تو آپ تشریف لائے اور نومولود کو گود میں لے کر دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت فرمائی اور اپنی زبان مبارک کو نومولود کے منہ میں دے دیا۔ ساتویں دن امام عالی کا عقیقہ کیا گیا۔نبی کریم کی پُرشفقت گود میں حضرت امام حسین علیہ السلام نے پرورش پائی۔ یہ وہ گود تھی جو اسلام کا گہوارہ تھی وہ حسنین رضی اللہ عنہما کی تربیت کا گہوارہ بنی، دوسری طرف علی مرتضیٰ علیہ السلام جو اپنے عمل سے خدا کی مرضیوں کے خریدار بن چکے تھے ایسے والد کے زیر سایہ حضرت امام حسین علیہ السلام پرورش پارہے تھے اور والدہ جو کہ جنت کی تمام خواتین کی سردار ٹھہری ان کے دامن عفت مآب کی خوشبو آپ کے کردار و عمل میں رچ بس چکی تھی۔

حضرت امام حسین علیہ السلام امام کی منزل پر تیسرے مقام پر متمکن تھے اور رسول خدا ﷺ کی حضرت امام حسین علیہ السلام امام عالی مقام سے محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ نے دعا فرمائی کہ اے اللہ اس کو اپنا محبوب بنالے جس نے حسین علیہ السلام سے محبت رکھی اور رسول خدا ﷺ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ ﷺ اپنے نواسے کو گود میں بٹھا کر لبوں کو بوسہ دیتے اور ساتھ یہ فرماتے کہ

الہٰی میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت رکھ اور جو ان سے محبت رکھے اس کو اپنا محبوب بنالے۔ (جامع ترمذی)

امام طبرانی روایت کرتے ہیں کہ جب جنتی حضرات جنت میں سکونت پذیر ہوں گے تو جنت معروضہ کرے گی پروردگار! از راہ کرم کیا تو نے وعدہ نہیں فرمایا تھا کہ تو دو ارکان سے مجھے ا ٓراستہ فرمائے گا؟ تو رب العزت ارشاد فرمائے گا کیا میں نے تجھے حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے مزین نہیں کیا یہ سن کر جنت دلہن کی طرح فخر و ناز کرنے لگے گی۔

اسی طرح سنن ابن ماجہ میں حسنین کریمین کے فضائل کے حوالے سے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے حسنؑ اور حسینؑ سے محبت کی اس نے درحقیقت مجھ ہی سے محبت کی اور جس نے حسن اور حسین سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔

ایک موقع ایسا آیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے دوران نماز حضرت امام حسین علیہ السلام کی وجہ سے اپنے سجدے کو طول دیا جس کو امام نسائی نے حضرت عبداللہ بن شداد سے روایت کو نقل کیا ہے کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ عشاء کی نماز کے لیے ہمارے پاس تشریف لائے اس حال میں کہ آپ حضرت حسن علیہ السلام یا حسین علیہ السلام کو اٹھائے ہوئے تھے اسی حال میں رسول اکرم ﷺ آگے تشریف لے گئے اور انہیں بٹھادیا پھر آپ نے نماز کے لیے تکبیر فرمائی اور نماز ادا کرنے لگے۔ دوران نماز آپ نے سجدہ کو طویل فرمایا۔ میرے والد کہتے ہیں کہ میں نے سر اٹھاکر دیکھا کہ حضور اکرم ﷺ حالت سجدہ میں اور شہزادہ آپ کی پشت انور پر سوار ہیں تو میں پھر سجدہ میں چلا گیا۔ جب حضرت نماز سے فارغ ہوئے تو صحابہ کرامؓنے عرض کیا:

یارسول اللہ! آپ نے نماز میں سجدہ اتنا دراز فرمایا کہ ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں کوئی واقعہ پیش تو نہیں آگیا یا آپ پر وحی الہٰی کا نزول ہورہا ہے تو حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس طرح کی کوئی بات نہیں سوائے یہ کہ میرا بیٹا مجھ پر سوار ہوگیا تھا اور جب تک وہ اپنی خواہش سے نہ اترتے مجھے عجلت کرنا ناپسند ہوا۔

اسی طرح ایک مرتبہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی خاطر خطبہ موقوف فرمادیا۔ یہ سنن ابی دائود اور سنن نسائی نے نقل کیا ہے کہ:

حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابو بریدہؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حبیب کبریا ہمیں خطاب فرمارہے تھے کہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سرخ دھاری دار قمیض زیب تن کیے لڑکھڑاتے ہوئے آرہے تھے حضرت رسول خدا ﷺ منبر سے نیچے تشریف لائے اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو گود میں اٹھا لیا اور دوبارہ منبر پر رونق افروز ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ:

اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک امتحان ہے میں نے ان دونوں بچوں کو دیکھا کہ سنبھل سنبھل کر چلتے لڑکھڑاتے ہوئے آرہے ہیں مجھ سے صبر نہ ہوسکا یہاں تک کہ میں نے اپنے خطبہ کو موقوف کرکے انہیں اٹھالیا۔

اپنے دونوں لاڈلے نواسوں کے آنسو حضور اکرم ﷺ سے برداشت نہیں ہوئے تھے جیسا کہ ایک روایت ہے کہ:

حضرت رسول اکرم ﷺ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ مبارک سے باہر تشریف لائے اور خانہ حضرت فاطمہ کی طرف سے گزر ہوا تو آپ ﷺ نے حسین علیہ السلام کے رونے کی آواز سنی تو ارشاد فرمایا کہ بیٹی کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ ان کا رونا مجھے تکلیف دیتا ہے۔

یہ تو تھی اللہ کے رسول کی اپنے پیارے نواسے حسین علیہ السلام کے ساتھ محبت کا عالم کہ بچپن میں آپ ﷺ ان کی تکلیف برداشت نہیں کرسکتے تھے لیکن قابل غور بات تو یہ ہے کہ کربلا میں جب یزیدیوں نے اسی پیارے نواسے پر مظالم کی انتہا کردی اور اس کے علاوہ آپ ﷺ کے اہل بیت کو سر عریاں بازاروں اور درباروں میں پھرایا گیا تو حضور کی روح پر نور پر کیا کیفیت گزری ہوگی اور پروردگار عالم کا یہ ارشاد اس موقعے کی وضاحت اس طرح کرتا ہے:

’’بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول اکرم ﷺ کو تکلیف دیتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں اللہ نے لعنت کی ہے اور ذلت آمیز عذاب ان کے لیے لکھ دیا گیا ہے۔‘‘

حضرت امام حسین علیہ السلام شکل و صورت میں اپنے والد محترم حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شباہت رکھتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں حسنین کریمین رضی اللہ عنہما جوان تھے اور امور ملکت میں اپنے والد محترم کے شانہ بشانہ رہتے یہاں تک کہ جنگ صفین میں بھی یہ دونوں صاحبزادے مولا علی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تھے۔ مولا علیؑ کی شجاعت و بہادری کا پرتو تھے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ کے زمانہ مبارک میں جناب فاطمہ آپ کے پاس تشریف لائیں اور دونوں شہزادے بھی آپ کے ہمراہ تھے جناب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے عرض یا: یارسول اللہ ﷺ یہ آپ کے شہزادے ہیں انہیں اپنی وراثت میں سے کچھ عطا فرمائیں تو حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: حسن علیہ السلام میرے جاہ و جلال اور سرداری کا وارث اور حسین علیہ السلام میری جرات و شجاعت کا۔

حضور نبی اکرم ﷺ کی بہت سے احادیث میں امام حسینؑ کی ولادت اور شہادت کی پیشین گوئی موجود ہے ایک روایت جو مشکوۃ المصابیح میں درج ہے کہ حضرت ام الفضل بنت حارثؓ فرماتی ہیں کہ انہوں نے نبی محترمؐ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کی کہ یارسول اللہ میں نے آج رات کو ایک خوفناک خواب دیکھا ہے۔ سرکار کے معلوم فرمانے پر مزید عرض کرنے لگیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کے جسم اطہر سے ایک ٹکڑا کاٹ دیا گیا اور میری گود میں رکھ دیا گیا۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے۔ ان شاء اللہ حضرت فاطمہd کے ہاں صاحبزادے کی ولادت ہوگی جو آپ کی گود میں آئیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام تولد ہوئے اور میری گود میں آئے۔ جس کی بشارت رسول اللہ ﷺ نے فرمائی تھی۔پھر ایک روز بعد حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی تو میں دیکھتی ہوں کہ حضور ﷺ کی آنکھیں اشکبار ہیں میں نے سبب دریافت کیا تو آپ ﷺ فرمانے لگے کہ

جبرائیل علیہ السلام نے میری خدمت میں حاضر ہوکر مجھے آگاہ کیا ہے کہ عنقریب میری امت کے کچھ لوگ میرے اس بیٹے کو شہید کردیں گے میں نے عرض کی کہ یارسول اللہؐ کیا وہ اس شہزادے کو شہید کردیں گے تو سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ ہاں اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ جبرائیل امیں نے مجھے اس مقام کی سرخ مٹی لاکر دی ہے۔

اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ جو مسند احمد میں نقل کی گئی ہے کہ دوپہر کے وقت اللہ کے رسول ﷺ ہمیں خواب میں نظر آئے اس حال میں کہ بال اور چہرہ مبارک غبار آلودہ ہیں اورآپ کے ساتھ ایک شیشی ہے جس میں خون ہے۔ہم سے عرض کی اے اللہ کے رسول ﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں یہ کیا چیز ہے آپ ﷺ نے فرمایا یہ حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے۔

حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ہم جب قریش کی جماعت سے ملتے اور وہ باہم گفتگو کررہے ہوتے تو گفتگو روک دیتے ہم نے حضور اکرم ﷺ کی بارگاہ میں اس امر کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جب میرے اہل بیت سے کسی کودیکھتے ہیں تو گفتگو روک دیتے ہیں۔ اللہ رب العزت کی قسم کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہوگا جب تک میرے اہل بیت سے اللہ تعالیٰ کے لیے اور میری قرابت کی وجہ سے محبت نہ کرے۔

وہ حضرت امام حسین علیہ السلام جن کو حضور اکرم ﷺ اپنے پاس بلاتے انہیں سینے سے لگاتے اور ان کی خوشبو سونگھتے اور جن کے لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر جس نے ان دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا پس اس نے مجھ سے بغض رکھا اور بے شک وہ حسن و حسین رضی اللہ عنہما ہیں۔وہ حسین علیہ السلام جن کے رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ

الحسین منی وانا من الحسین.

لیکن مولا علی رضی اللہ عنہ اور امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام حسینؑ اور ان کے اہل بیت پر مظالم کی انتہا کردی۔ جن کے لے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ میرا یہ بیٹا حضرت حسین علیہ السلام عراق کے ایک علاقہ میں شہید کردیا جائے گا جسے کربلا کہا جائے گا تو افراد امت میں سے جو اس وقت موجود ہوا اسے چاہیے کہ ان کی حمایت کے لیے کھڑا ہو۔ افسوس کہ بعد رسول اللہ ﷺ ظالموں نے معرکہ کربلا میں امام عالی مقام پر مظالم کی ایسی انتہا کی کہ جس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ لیکن حسینؑ نے جس بہاری و سرفروشی سے اپنے نانا کے دین کی بقا کے لیے قربانی دی تاریخ اس کی مثال دینے سے قاصر ہے۔