اسیرانِ کربلا ابن زیاد اور یزید کے دربار میں

سدرہ کرامت

واقعہ کربلا کے بعد جب اہل بیت کا قافلہ دربار ابن زیاد میں لایا گیا تو دربار سجا ہوا تھا صاحبان اقتدار اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ ابن زیاد نہایت رعونت سے اسیروں کو دیکھ رہا تھا کہ اس کی نظر ایوان کے آخری حصہ میں ایک باوقار خاتون پر پڑی جو تمام تر پریشانیوں اور غریب الوطنی کے باوجود پرسکون بیٹھی تھیں۔ اس نے نہایت تلخ لہجے میں پوچھا یہ خاتون کون ہے مجمع خاموش رہا اس نے آپے سے باہر ہوگیا بتاتے کیوں نہیں ایک خاتون (حضرت فضہؓ) نہایت متانت سے گویا ہوئیں۔ یہ علیؓ کی بیٹی سیدہ زینبؓ ہیں۔

سیدہ زینبؓ کا نام سنتے ہی ہیبت طاری ہوگئی پھر سنبھل کر نہایت تلخ لہجے میں بولا:

’’خدا کا شکر! اس نے تمہیں رسوا کیا موت کے گھاٹ اتارا ، تمہارے ناپسندیدہ ارادوں کو بے نقاب کیا‘‘۔

یہ سننا تھا کہ فاتح خیبر اور صاحب ذوالفقار کی بیٹی تاجدار کائنات ﷺ  کی نواسی نے اقتدار شکن اور سلطنت فشار انداز میں یوں خطاب فرمایا:

’’شکر ہے اللہ کا جس نے اپنے محبوب نبی کی نسبت سے ہمیں عزت بخشی اور ہمارے گھرانے کو کمال طہارت کا شرف عنایت کیا۔ بے آبرو و رسوا وہ ہوتا ہے جو آئین کی خلاف ورزی کرے یاد رکھ وہ ہم نہیں کوئی اور ہوگا۔‘‘

تلوار کی باڑھ جیسے اس تیز جواب سے خدا کے دشمن کی آنکھوں میں خون اتر آیا گستاخی سے کہا:

دیکھا اللہ نے تمہارے کنبے اور تمہارے بھائی پر کیسا حشر توڑا؟

ابن زیاد انتہائی شقاوت سے بنی ہاشم کے طہارت نسبت، عزت مآب خاندان اور فخر کائنات شہید کربلا کے بارے میں ہرزہ سرائی کررہا تھا۔ ثانی زہراؓ نے دلیری سے جواب دیا۔

کوفیو! تم نے وہ کام کیا جس کے سبب کچھ دور نہیں کہ آسمان پھٹ پڑے، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں تمہاری برائیاں آفاق گیر ہیں تمہاری بداعمالیوں نے پوری دنیا کوگھیرے میں لے رکھا ہے۔

سنو تم حیران ہو کہ اس واقعہ سے آسمان نے خون کیوں نہ برسایا؟ ٹھہرو! عذاب آخرت اس سے زیادہ تمہیں رسوا کرے گا اور بھی اس وقت جبکہ نہ کوئی تمہارا حامی ہوگا نہ مددگار۔

ہاں! یقین مانو یہ مہلت کے لمحے تمہارے بوجھ کو ہلکا نہیں کرسکتے۔ وقت قبضہ قدرت سے باہر نہیں ہے۔ انتقام کی گھڑیوں کو قریب سمجھو اور داور محشر، گنہگاروں کی گھات میں ہے۔

پھر آپ نے فرمایا: کوفیو! تم اس وقت کیا جواب دو گے جب پیغمبر خدا ﷺ  تم سے کہیں گے کہ تم آخری امت ہو تم نے میری اولاد میرے اہل بیت میری حرمت اور میری ناموس کے ساتھ کیا کیا۔ میرے گھرانے کی ہستیوں کو اسیر بنایا اور قتل کیا۔ کیوں! میرے احسانات رشد و ہدایت کی یہی جزا تھی؟ یہی صلہ تھا کہ میرے بعد میرے عزیزوں اور میری آل اولاد کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا؟ اہل کوفہ! اندیشہ ہے کہ کہیں تمہارا وہی حشر نہ ہو جو شداد اور اس کی امت کا ہوا۔

ابن زیاد! تو نے ہمارے بڑوں کو تہ تیغ کیا۔ ہمارے عزیزوں میں سے کسی کو نہ رہنے دیا۔ ہمارے سایہ دار درخت کی شاخیں کاٹ دیں۔ ہمارے پھلے پھولے درختوں کو جڑ سے نکال ڈالا۔ اب اگر قلب و جگر کی آگ یونہی بجھتی ہے تو پھر سمجھنے کو تو سمجھ لے کہ ٹھنڈک پڑگئی حقیقت روز حشر آشکار ہوگی اس وقت تم ہوگے اور آتش جہنم کے انگارے ہوں گے۔

تو حقائق پر پردہ ڈالنے کے لے بدکلامی پر تل گیا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جو میرے دکھی دل کی آواز ہے ہماری ہر بات حقیقت کی ترجمان ہے۔ فوجِ یزید نے قافلہ حسینی کو بدترین مصائب میں مبتلا رکھا مگر علی کی بیٹی نے ایسا فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا کہ دنیا آج تک حیران ہے۔

کربلا کی جرات مند سپہ سالار نے خوفناک فضا میں ابن زیاد کی اسلام دشمنی سے پردہ اٹھایا اور ناپاک طینت شخص کو اس کے ہی ایوان اقتدار میں رسواکردیا۔ جس کا مشاہدہ وہاں بیٹھے ہوئے افراد نے کیا جو ابن زیاد کی دہلیزسلطنت پر اپنی پیشانی رگڑ رگڑ کر احساس آدمیت سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

اس کے بعد مایوس ہوکر ابن زیاد امام زین العابدین کی جانب اشارہ کرکے دریافت کرتا ہے انکا منہ توڑ جواب سن کرغصے سے کہنے لگا تیری کیا مجال میرے سامنے گستاخی کرے جلاد کو بلا کر کہنے لگا اس نوجوان کی گردن اڑادو۔ سیدہ زینبؓ ابن زیاد کی بربریت کا مظاہرہ دیکھ رہی تھیں اس کی بدکلامی سن کر ظالم و ستمگر حکمران کی پرواہ کیے بغیر امام سے لپٹ کر ابن زیاد سے مخاطب ہوئیں:

کیا آل محمد ﷺ  کے ناحق خون میں اپنے ہاتھ رنگین کرنے سے تیرے دل کو تسکین نہیں ہوئی۔ اب یہ ہی ہمارے خاندان کی نشانی بچ گیا ہے۔ اس کی طرف بری آنکھ اٹھا کر مت دیکھنا ورنہ تجھے میری لاش سے گزرنا پڑے گا اور جب تک میری جان میں جان ہے تو زین العابدینؓ کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔

ابن زیاد نے رسول زادی کی بے مثال جرات و شجاعت کے سامنے ہتھیار ڈال دیا اور جلاد کو حکم دیا۔

اسے کچھ نہ کہو ورنہ زینب کے خون میں ہاتھ رنگین کرنا پڑیں گے جو ہمارے لیے دشوار ہے اور اس کے سنگین نتائج ہم برداشت نہیں کرسکیں گے۔

تاریخ گواہ ہے کہ ابن زیاد کو اس کے بعد کبھی آرام نصیب نہ ہوا۔ کیونکہ کربلا کے قافلے کی ترجمان سیدہ زینبؓ نے اسلامی فکر اور انسانی ضمیر کو کچھ اس طرح جگادیا تھا کہ یہ بیداری ایک باقاعدہ تحریک بن گئی اور کوفہ سے لے کر شام تک تمام محلوں میں پھیل گئی اور سارے شبستانوں کے چراغ گل ہوتے نظر آنے لگے۔

یہ عقیلہ بنی ہاشم کی تقریروں اور سیدہ زینبؓ کے جرات مندانہ کلام کا اثر تھا کہ صحابی رسول عبداللہ ابن عفیفؓ بھرے مجمع میں سراپا احتجاج بن گئے۔ اسی طرح خاندان غامد اور بنو وائلہ کے جیالے بھی حکومت مخالفت میں سرگرم عمل ہوگئے۔ ابن قتیبہ لکھتے ہیں:

عبیداللہ ابن زیاد کو جلد ہی یہ برا وقت دیکھنا پڑا کہ بصرہ جیسے شہر میں جہاں وہ گورنر تھا جب وہ تقریر کرنے کھڑا ہوتا تو عوام اس پر اینٹوں اور پتھروں کا مینہ برساتے تھے۔

دربار یزید میں:

سیدہ زینبؑ نے دربار یزید میں ایک فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ نے تاریخ کی تلخ حقیقتوں کو آشکار کرتے ہوئے یزید کی بربریت کو بے نقاب کر ڈالا۔ آپ کے خطبہ سے ظالموں کے سر جھک گئے اور دربار میں بیٹھنے والوں اور سننے والوں کے دلوں میں یزید کے خلاف نفرت کی آگ بھڑک اٹھی۔

آپ جلال میں آکر کھڑی ہوئیں اور خطبہ ارشاد فرمایا:

آپ کا خطبہ جاری رہا۔ دربار میں سناٹا چھاگیا۔ ایسا سناٹا کہ سوئی گرنے کی آواز سنائی دے۔ حاضرین حیرانی سے حقیقت حال سے واقف ہوتے رہے۔ حقیقت حال پر اب تک جو پردہ تھا جناب زینبؑ کے خطاب سے چاک ہونا شروع ہوا اور خطبہ ختم ہوتے ہوتے حقیقت حال کھل کر سامنے آگئی۔

اپنے خطبہ میں خواہر حسین نے مقصد حسینؑ کی وضاحت کی تو مجمع حیران و ششدر رہ گیا۔ بیان سننا تھا کہ غصہ سے پیچ و تاب کھانے لگا غصے نشہ اقتدار میں اسیران کربلا کو قید خانہ بھجوادیا۔

امام ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں روایت کیا ہے کہ حضرت ام لقمانؓ نے جب سیدہ زینبؑ کو لٹے ہوئے قافلے کے ساتھ مدینہ واپس دیکھا تو اپنے خاندان کی عورتوں کے ساتھ باہر آگئیں اور روتے ہوئے یہ اشعارپڑھے۔

’’لوگو! کیا جواب دو گے جب نبی کریم ﷺ  تم سے پوچھیں گے کہ تم نے آخری امت ہونے کے باوجود کیا کیا؟ میرے بعد میری اولاد اور اہل بیت کے ساتھ کہ ان میں سے بعض کو تم نے اسیر کرلیا اور بعض کا خون بہایا۔ میں نے تم کو جو نصیحت کی تھی کہ میرے بعد میرے قرابت داروں سے برا سلوک نہ کرنا اس کی جزا یہ تو نہ تھی۔‘‘

میں نے تمہیں شرک کی آلودگیوں سے نکال کر توحید کا نور دیا۔ گمراہی اور ضلالت سے نکال کر ایمان اور اسلام کی روشنی عطا کی میں نے گری ہوئی انسانیت کو عظمت کا بام عروج عطا کیا۔ میں نے تمہیں اللہ سے ملایا۔ تمہیں پوری دنیا کا فاتح بنایا۔ ایمان، اسلام،احسان، تقویٰ اور زہد کی منزلیں عطا کیں۔ ہدایت دی۔ قرآن دیا اور قیامت تک تمہیں آخرالامم اور خیرالامم بنایا۔

سارا کچھ کرکے اس تبلیغ رسالت کے بعد میں نے کہا میری قربت کا حیا کرنا، میں دیکھوں گا میرے بعد میرے شہزادوں سے کیا سلوک کرتے ہو۔ اگر رسول اللہ ﷺ نے تم سے پوچھ لیا کہ حسینe وہ تھا جس کو میں نے اپنا بیٹا کہا۔ اگر حضور ﷺ  نے تمہارے اس سلوک اور احسان کے بارے میں پوچھ لیا تو کیا جواب دو گے؟

آقا علیہ السلام نے فرمایا: اللہ نے جو نعمتیں دی ہیں ان کے حیا سے اللہ سے اللہ کی محبت کے حیا سے مجھ سے محبت کرو اورمیری محبت کے سبب میرے اہل بیت سے محبت کرو۔

حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں:

حب ال محمد یوما خیر من عبادة سنة.

اہل بیت محمد ﷺ  کسی محبت میں ایک دن گزارنا پورے سال کی نفلی عبادات سے افضل ہے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے عقائد درست کریں۔محبت الہٰی، محبت رسول، محبت اہل بیت محبت صحابہ اورمحبت اولیاء صالحین ان پانچ محبتوں پر خود کو جمع رکھیں۔ خارجیت کی فکر سے خود کو متاثر نہ ہونے دیں۔

ایمان کا جو راز امت کے جمیع ائمہ، اولیاء و صلحاء کے ہاں صدیوں سے چلا آرہا ہے اسی طریقے کو ہمیشہ زندہ رکھیں، سیدہ زینبؓ کے کردار کو اپنائیں، ان کی جرات، تقویٰ، طہارت، صبر، شکر، شجاعت و بہادری پر خدا کی رضا میں راضی رہنا اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ ہر حال میں ادا کرنا اس کردار کو اپنائیں۔