منہاج القرآن ویمن لیگ کے وفد کی شمالی علاقہ جات کی سیر

عائشہ مبشر

ہر انسان سب سے پہلے اپنی ذات کا اسیر ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسیری کا دائرہ کار وسیع ہوتا جاتا ہے۔ اس دائرہ کار کی جہات کہیں رشتوں، دوستانوں، کہیں تمناؤں، کہیں حسرتوں، کہیں رسائیوں اور کہیں نا رسائیوں کے آفاق تک پھیلی ہوتی ہیں۔ کم ہی خو ش نصیب ہوتے ہیں جن کے سفر حیات میں ایک ایسا حسین موڑ آتا ہے جہاں یہ تمام جہات ایک محور پر منسلک ہوکر اپنا وجود کھو دیتی ہیں۔ اور اسی موڑ سے پہچان کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوتا ہے پرانے دوستانے نیا پیرہن پہنتے ہیں تمنائیں اور حسرتیں اپنے محور ومرکز کے گرد طواف کرنے لگتی ہیں۔ ہم پر بھی یہ لمحہ اس وقت سے وارد ہے جب سے اک مرد حق کا دامن تھاما ہے۔ اس دامن بے کراں کی وسعت اور طاقت نے ہم ابابیلوں کے پروں کو وہ طاقت دی ہے کہ چہار عالم کا پھیلاؤ بھی اس جذبہ اڑان کے آگے ہیچ نظر آتا ہے۔ آج آپ کو ایک ایسی ہی اڑان کی سرگزشت سنانی ہے جو ویمن لیگ کی تحریکی زندگی میں ایک الگ ہی پہچان رکھتی ہے۔

سال بھر ویمن لیگ کا لشکر دعوت، تنظیم اور تربیت کے خوان سجائے وطن عزیز کے ہر گوشہ میں اپنے اپنے محاذ پر اترتا ہے متلاشیان و طلبگاران کو علم، عمل، تحقیق، تزکیہ، تربیت، ذکر الہٰی و ذکر رسول ﷺ، صلحاء و عرفاء کے اسوہ سے لبریز کرتا ہے۔ مگرسال کے بارہ مہینوں میں ایک مہینہ ایسا بھی آتا ہے جب یہ سب سپاہیات غوث الوریٰ باہم پلاننگ سے اپنے رخ شمالی علاقہ جات کی جانب کردیتی ہیں اور اپنے شفیق مربی حضور سیدی شیخ الاسلام کی گولڈن جرنی کی یادیں تازہ کرتی ہیں۔ سال 2021 میں بھی اپنے اہداف کی تکمیل کا تنقیدی و تعمیری جائزہ لینے کے بعد باہم مشورہ ہوا کہ اب وقت ہے کہ جب پہاڑوں کی پکار سنی جائے۔ سلسلہ مشاورت شروع ہوا اور دومقامات کے درمیان ٹاس ہوگیا کہ کشمیر کی سرسبز وادیوں اور جھنجھناتے جھرنوں میں اترا جائے یا سکردو کے سنگلاخ پہاڑوں سے ہوکر سکردو کی زرد وادیوں اور ست رنگی جھیلوں میں اپنا عکس اتارا جائے۔ بے شک کشمیر جنت نظیر ہے پر شایدہمیں ہمارا جنوں کہیں اور ہی کھینچ رہا تھا تبھی قرعہ فال سکردو کے نام نکلا اور اکثریتی رائے سے سکردو جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ سکردو تو بس حجت تھی اصل کشش تو اس ملکہ پربت کی تھی جو جب بھی چلاس سے گزرتے تو رائے کوٹ پل عبور کرتے ہوئے ہمیں اپنی جھلک دکھلاتی اور للچاتی تھی۔ سو اس بار یہ طے پایا کہ اب اس حسیں سے روبرو ملاقات کرکے ہی لوٹیں گے۔ ہمیشہ کی طرح ہر پہلو کا جائزہ لیکر Three Musketeers نے روٹ کنفرمیشن سے لیکر کوسٹر، رہائش، جیپس، بریک فاسٹ، لنچ اور ڈنر سب کی پلاننگ کنفرم کرلی۔ 20 جون کی رات 12 بجے ہم سب اپنے اپنے سامان سے لیس مرکز منہاج القرآن جمع ہوئے جہاں ایک ترو تازہ، آرام دہ کوسٹر ایک عدد تھکے ہوئے ڈرائیور کے ساتھ ہماری منتظر تھی۔ سامان لوڈکرواتے ہوئے تو محترم ڈرائیور صاحب کافی ہوشیار اور چست لگ رہے تھے مگر اس بظاہر چستی اور پھرتی کا عقدہ آدھی رات کے بعد کھلا۔ رات 11:30 سے 12:00 بجے کے درمیان ہمارے سفر کا آغاز ہوا ارادہ تھا کہ صبح ناشتہ بالا کوٹ حسب روایت دریائے کنہار کے کنارے کریں گے۔ آدھی سے ذیادہ رات گزر چکی تھی سب اپنی اپنی نشستوں پر اونگھ رہے تھے کہ اچانک کلر کہار عبور کرنے کے بعد ڈپٹی ڈائریکٹر ایگرز جو ڈرائیور کی پچھلی نشستوں پر انتظامی کمیٹی کے ہمراہ براجمان تھیں یک دم ایک نعرہ حق بلند کرتیں اور ہاتھ آگے کرکے زور سے تالی بجاتیں اپنی سیٹس پر اونگھتی بہنیں تلملا جاتیں کہ آخر باجی کو یہ کیا سوجھ رہی ہے کہ پانچ منٹ نہیں گزرتے کسی کا بھی نام لیکر اونچی آواز سے پکارتیں اور زورسے تالی بجاتیں ہیں۔ یقین کیجیے تادم سحر یہی ہمارے تلملانے کا اور باجی کے نعرہ لگا کر تالی بجانے کا سلسلہ جاری رہا۔ بس ان کے ہر عمل پر اعتماد اور ہماری ٹیم کا باہمی مروت و اخلاص حاوی رہا کہ ہم نے انہیں نہیں روکا اور کہا جب کہیں رکیں تو خیریت اچھی طرح دریافت کریں گے۔ خیر سے اللہ اللہ کرکے بالا کوٹ آیا ناشتہ کرنے بیٹھے تو باجی کو ہاتھوں ہاتھ لیا کہ بہن خیر تھی رات کو کونسے راگوں کی مشق ہو رہی تھی۔ کہنے لگیں آپ راگوں کو روتی ہیں شکر کیجیے میں راگ لگارہی تھی اور کوسٹر کسی گڑھے میں اترنے سے محفوظ رہی ہوا یہ چونکہ باجی ڈرائیور کہ پیچھے والی سیٹ پر بیٹھی تھیں تو ان کی نظر مسلسل فرنٹ پر تھی باجی نے دیکھا کہ ڈرائیور گاڑی چلاتے چلاتے اونگھنے لگتا تو وہ زورسے کسی کو پکارتیں اور ڈرائیور کے کان کے پاس کر کے تالی بجاتیں یہ تو ہمارے ساتھ آئے گارڈ نے بعد میں بتایا کہ چونکہ ڈرائیور ہمارے ساتھ آنے سے قبل کہیں اور لمبے سفر سے آیا تھا تو اس لئے بیچارہ تھکا ہوا تھا۔ اللہ اللہ کرکے ہم ناران پہنچے۔

اگلا دن خوابوں کے سفر پر روانہ ہونے کا دن تھا وہ خواب جو ہم گزشتہ تین سال سے دیکھ رہے تھے مگر تعبیر اس سال پانے کا عزم کیا۔ ناران سے نکلے لولوسر جھیل کو سلام محبت ادا کرنے رکے اور پھر بابو سر ٹاپ کی برف باری میں جاکر ہی ٹھہرے۔ چونکہ اب تک سفر پلاننگ کے مطابق تھا لہذا بابو سرٹاپ کی سردی اور برف باری کو رگ وپے میں خوب ذخیرہ کرنے کے بعد چلاس کی گرم فضاؤں کی جانب عازم سفر ہوئے۔ طے یہ پایا تھا کہ دوسرے دن کا قیام چلاس میں کر کے ملکہ پربت کے نگر کو تازہ دم ہوکر نکلیں گے۔ شومئی قسمت بابو سرٹاپ کی سردی کے اثر نے چلاس کی گرم آب وہوا کو بھی خوش گورا کردیا۔ امیر قافلہ نے ہمارے لیے ہوٹل بھی کیا خوب چنا تھا ہمارے کمروں کے سامنے انار، انجیر اور خوبانی سے لدے درخت تھے بس پھل پکنے کی کثر تھی لہذا ہماری طبع آزمائی سے محفوظ رہے ورنہ ہمارے دہن کے چکھنے کا شرف ضرور حاصل کرتے۔ خوب مزیدار ڈنر کے بعد کھلے ڈلے کمروں میں سفید چادروں والے بستروں میں خواب خرگو ش کے مزے لینے کے بعد اگلے دن کی مشکل مگر افسانوی منزل کی جانب رواں دواں ہوئے۔

پریوں کی کہانیاں بڑے ہونے کے بعد بھی اپنا سحر قائم رکھتی ہیں تبھی تو ہم نے پریوں کی وادی یعنی فیری میڈوز میں جاکر ملکہ پربت کو اس کے نگر میں ملنے کا تہیہ کیا۔ رائے کوٹ بریج پر جاکر ہم نے اپنی سامان بمع کوسٹر ڈرائیور صاحب کے سپرد کیاجو پہلی رات کے بعد سے انتہائی مہارت اور ذمہ داری سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ دودن کے قیام کیلئے ہم نے مختصر شولڈر بیگ چلاس میں ہی تیار کر لئے تھے جس میں ایک ایک ایکسٹرا سوٹ کیساتھ گرم شال جیکٹ یا کوٹ، چاکلیٹس جن کی بلندی پر چڑھائی کے وقت اپنی افادیت ہے سنیکس جو ہم لاہور سے ساتھ ہی لائے تھے اور پانی کی بوتلیں شامل تھیں۔

رائے کوٹ سے فیری میڈوز کے سفر کا ظاہر تو ہم نے آنے سے قبل مختلف ٹریولرز کے وی لاگز دیکھ دیکھ کر کچھ ڈر کچھ ایکسائٹمنٹ اور بہت سے جوش کے ساتھ اپنا لیا تھا مگر اس سفر کا باطن ہم پر اس راہ پر چلنے کے بعد ہی کھلا۔ فیری میڈوز نانگا پربت کا بیس کیمپ ہے جو سطح سمندر سے 3300 میٹر بلند ہے۔ رائے کوٹ بریج دائیں جانب ایک کچا راستہ فیری میڈوز کو جاتا ہے ہم نے اپنے بیگز لئے اور پہلے سے بک جیپیں میں جا بیٹھے رائے کوٹ سے تتو گائوں تک جیپ ٹریک کم وبیش ایک گھنٹے کا ہے۔شروع میں منظر بہت دل نشین تھا مگر یکا یک ہم ایک تنگ سی سڑک پر آ گئے۔

ہمارے دائیں جانب پہاڑ کی دیوار جب کہ بائیں جانب گہری کھائیاں تھیں اور اس کچی سڑک پر ایک وقت میں ایک جیپ ہی چل سکتی تھی۔ اب ہم نانگا پربت کے رحم و کرم پر تھے۔ ہمیں پندرہ کلومیٹر کا سفر طے کر کے تتو گاؤں پہنچنا تھا۔یہ سفر ایک گھنٹہ میں مکمل ہوا مگر کچھ سمجھ نہیں آئی ہم زمین پر تھے یا عالمِ برزخ میں۔ جب سامنے سے آنے والی جیپ کو اوور ٹیک کرنا ہوتا اور ہماری جیپ کھائی کی سمت ہوتی تو ہمارے اور کھائی کے درمیان صرف خدا ہی تھا۔ سخت پتھریلا راستہ اچھلتی کودتی جیپ، جیپ کے پہیوں کے نیچے سے سرکتے پتھر کھائی میں گرتی ریت اور جیپ میں آیۃالکرسی کا ورد کرتے ہم واللہ اس ٹریک کا شمار دنیا کے خوف ناک جیپ ٹریکس میں کیا جا سکتا ہے۔ اس راستے کو پل صراط سے تعبیر کرنا کچھ غلط نہیں۔ بالآخر ہم تتو گاؤں پہنچے جہاں گرم پانی کا ایک چشمہ بھی پایا جاتا ہے۔ بقول جیپ ڈرائیور اس گرم چشمہ کا پانی اسقدر گرم ہوتا ہے کہ اس میں انڈا ابالا جاسکتا ہے۔ تتو ولیج سے ہمارا قافلہ دو حصوں میںمنقسم ہوگیا کچھ وہ جنہوں نے فیری میڈوز کا سفر گھوڑوں پر کرنے کا فیصلہ کیا اور باقی ہم جنہوں نے گھوڑوں کو ناقابل اعتبار گردانتے ہوئے اپنے پیروں پر اس ٹریک کو مکمل کرنے کی ٹھانی۔ تتو گائوں سے فیری میڈوز کا سفر انسانی زندگی کے سفر کے بمطابق ہے۔ جب آپ ٹریک پر قدم رکھتے ہیں تو بہت پر اعتماد اور پر جوش ہوتے ہیں اور اپنی ایک چھلانگ میں افلاک کو طے کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ جیسے جیسے ٹریک تنگ ہوتا جاتا ہے ایک جانب سیدھے پہاڑ اور دوسری جانب گہری کھائی اور مضبوطی سے جمائے قدموں کے نیچے سے سرکتی ریت ایک عجیب سا احساس پیدا کرتی ہے۔ زندگی کے سفر میں لازمی نہیں کہ کسی بڑی خطا یا غلطی کے نتیجے میں ہی سزا ملے کبھی کبھار ایک ننھے سے کنکر جتنی غلطی یا نادانی بھی منہ کہ بل گرا دیتی ہے۔ مگر آپ کی صحبتوں اور سنگتوںکا اخلاص ایسے ہی راستوں پر ثابت ہوتا ہے۔ جب آپ گرنے لگیں اور کوئی آپ کے گرنے سے پہلے آپ کو بڑھ کر تھام لیتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوا لاکھ قدم لڑکھڑانے کے باوجود بھی ہم ایک دوسرے کو سنبھالتے چڑھائیاں چڑھتے رہے اور کم وبیش 3 گھنٹے کی ٹریکنگ کے بعد جب پہلا قدم فیری میڈوز میں رکھا تو ٹانگیں بے جان تھیں اور ہم سطح سمندر سے 10 ہزار 8 سو فٹ بلندی پر تھے۔ کہتے ہیں نا کہ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے، سو ہم نے بھی ذہن اور دل کا سکون پانے کے لیے جسم کا سکون کھویا تھا۔

وہاں کا نظارہ دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ کالے پہاڑوں پر اچانک سے ایک سبزے کی چادر بچھا دی گئی ہے، جس کے دامن میں جھرنے بہہ رہے اور خوبصورت گھوڑے اس سبز وادی میں آزادانہ پھر رہے ہیں۔ ہمارے لکڑی کے کاٹیج ایک چھوٹی پہاڑی کی اترائی میں بنائے گئے تھے۔ لکڑی کے بنے کاٹیج سردی کی شدت کو روکنے میں قطعی ناکام رہتے اگر ان کو گرم رکھنے کے لئے کمرے کے وسط میں بڑے سائز کے ہیٹر نصب نہ ہوتے۔ کمروں میں اپنے بیگ پھینک کر ہم دیوانہ وار ملکہ پربت کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور اسکی سفید و شفاف چوٹی نے ہمیں اپنے قبضے میں کر لیا گویا اس سے نظر ہٹانا اس سے بے وفائی کے مترادف ہو۔ نانگا پربت کا نظارہ فیری میڈوز سے بھی کم حسین نہیں مگر اس کے حسن کو اور قریب سے دیکھنے کے لئے ہم نے بیال کیمپ جانے کی ٹھانی بیال کیمپ کاراستہ خوبصورت جنگلوں سے ہوکر گزرتا ہے۔ ان جنگلوں میں کئی قسم کے خوبصورت درخت، سبزہ زار، پھول، جھرنے اور چشموں کے پانی پر مشتمل ندی اور نہایت سریلی آواز میں گیت گاتے خوبصورت پرندے روح تک کو نئی تازگی نئی زندگی بخشتے ہیں۔ دل کر رہا تھا ہاتھ میں ایلف شفک کے Forty Rules of Love پکڑ کسی جھرنے کے کنارے اگے درخت کے تلے مطالعے میں گم ہوجائیں مگر بیال کیمپ میں ہمیں ملکہ پربت پکار رہی تھی۔ بیال کیمپ تک کا راستہ حسین ترین نظاروں کی گزرگاہ ہے۔ دائیں طرف نانگا پربت کے دامن سے نالے کی صورت اُترتا ہوا پانی اور چیڑ کے جنگلات سے بہتی ہوئی ندی اور چشمے، بائیں طرف نالے میں گر کر عجیب سماں پیدا کرتے ہیں۔ یہ راستہ پرخطر ہونے کے باوجود دنیا کی خوبصورت ترین راستوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

نانگا پربت دنیا کا وہ واحد آٹھ ہزار میٹر سے بلند پہاڑ ہے جس کے دامن میں پائن کا اتنا گھنا جنگل ہے۔ (آٹھ ہزار میٹر سے بلند چوٹیوں کی کل تعداد 14 ہے جن میں سے پانچ پاکستان میں ہیں)۔ دنیا میں تمام ایسی چوٹیوں کے ارد گرد گلیشیئرز اور برفانی چوٹیاں ہوتی ہیں، جبکہ نانگا پربت کے ایک طرف دیوسائی کا دلکش میدان ہے تو دوسری جانب فیری میڈوز میں اس قدر گھنا جنگل ہے۔مگر افسوس راستے میں پانچ میں سے ہر ایک درخت کٹا ہوا تھا ہم سوچنے لگے کہ اگر یہی حال رہا تو اس جنگل کاحسن کیسے برقرار رہے گا۔ لیو ٹالسٹائی ایک جگہ لکھتا ہے کہ پُرمسرت زندگی گزارنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ انسان اور فطرت کا بندھن ٹوٹنے نہ پائے۔ انہی خواہشوں اور تفکرات میں راستے کے حسن کو سراہتے ہم جب بیال کیمپ پہنچے تو پلکیں جھپکنا بھول گئے۔ ملکہ پربت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ہمارے سامنے جلوہ گر تھی اس کی چوٹی پرجمی شفاف برف سے نور کا انعکاس ہماری آنکھوں کو خیرہ کیے دے رہا تھا۔ کچھ ساتھیوں کو بھوک ستائی تو پھر کہیں ہمیں لکڑی کے بنے چھوٹے کیبن نظر آئے جہاں چپس اور نوڈلز مل رہے تھے ہم نے بھی بیال کیمپ کی اس سوغات سے خوب فائدہ اٹھایا۔ دل تو واپس آنے کو نہیں چاہ رہا تھا مگر بادل نخواستہ واپسی کو سفر اختیار کیاشام تک واپس فیری میڈوز پہنچے رات کو کھلے آسمان تلے کہکشاں دیکھنے کی آس تھی مگر واپسی پر ہی موسم ابر آلود ہوگیا اور رات خوب بارش ہوئی ٹھند کئی گنا بڑھ گئی ہم اپنے اپنے کاٹیج میں مقید ہو گئے۔ آخر بارش کچھ رکی تو ہمارے کاٹیجز میں تمام ممبران قافلہ آبراجمان ہوئے اور پھر رات گئے فیری میڈوز کی فضائیں درود پاک، ذکر الہٰی، نعت خوانی اور بعد میں اپنے شیخ کے ذکر سے گونجتی رہیں اور رات گئے تک یہ سلسہ جاری رہا۔

اگلی صبح پر تکلف ناشتے کے بعد واپسی کا سفر شروع ہوا۔ اور ہم بھاری دل لئے ملکہ پربت سے جدا ہوئے۔ قصہ اگلے سفر کا بھی قابل ذکر ہے مگر فیری میڈوز کی وادیوں کے آگے پھیکا لگتا ہے۔ اس سفر نے ہمیں جسمانی تکان مگر ذہنی و روحانی اطمینان دیا آج بھی ایسا لگتا ہے جو فیری میڈوز کے رستے کو سمجھ لیتا ہے اور دل کے قدموں سے عبور کرتا ہے وہ اپنی زندگی میں سنگتوں کی قدر کرنا اور چھوٹی چھوٹی لاپرواہیوں سے بچنا اور ہر قدم سنبھال کے اٹھانا سیکھ جاتا ہے مشکل فیصلے لینے کا خوف اس کے دل سے جاتا رہتا ہے اور زندگی کی طویل اور پر خظر پگڈندیوں پر بھی اطمینان قلب ساتھ رہتا ہے۔

مشہور اسکاٹش کوہ پیما، ماہر ارضیات اور مصنّف جان موئر کے الفاظ ہیں ’’پہاڑ مجھے پکارتے ہیں تو مجھے جانا ہی پڑتا ہے۔‘‘ کچھ یہی حال ہمارا بھی ہے تمام سال کی ورکنگ کے بعد پہاڑ ہمیں بھی پکارتے ہیں تو ہمیں بھی جانا پڑتا ہے۔ زندگی رہی تو اگلے سال پہاڑوں سے ملاقات کا حال سنانے پھر آجائیں گے۔