عظیم قومیں عظیم لیڈر شپ سے تشکیل پاتی ہیں

تحریم رفعت

کسی بھی قوم کی ترقی، خوشحالی اور روشن مستقبل کی ضمانت اعلیٰ تربیت یافتہ سیاسی قیادت ہوتی ہے جو قوم کے اجتماعی مقاصد کے حصول کیلئے مصائب و آلام سے لڑتے ہوئے نہ صرف اپنے حوصلے بلند رکھتی ہے بلکہ پوری قوم کی امیدوں کو بھی پروان چڑھانے کا عزم مصمم رکھتی ہے۔ معاشرے میں اللہ تعالیٰ کے چنیدہ اشخاص ہی اوصاف حمیدہ سے مزین ہوتے ہیں جو قوموں کی رہبری کیلئے مخصوص ہوتے ہیں۔

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح بیسویں صدی کے نامور مدبر اور بلندپایہ سیاست دان تھے۔ قائداعظم نے برصغیر کے مسلمانوں میں آزادی اور خود مختاری کا نیا جذبہ اور ولولہ پیدا کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ انہوں نے زندگی کے ہر دور طوفان حوادث کے ہر ابتلا میں خیالات و جذبات کی ہر رو میں مسلم قائدین اور کانگریس کے ہندو ناخداؤں کے درمیان امتیازی حیثیت حاصل کرلی۔ قائداعظم محمد علی جناح کا مزاج بنیادی طور پر سیکولر اور قوم پرستانہ تھا۔ آپ دین اسلام پر کامل یقین رکھتے تھے اور پاکستان کو خلافت راشدہ کا عملی نمونہ بنا کر مسلمانوں کو آزاد وطن سونپنا چاہتے تھے۔ چنانچہ آپ پاکستان کی بقا، استحکام اور قومی یک جہتی کیلئے ہمہ تن جدوجہد میں رہے۔

قائداعظم کا فرمان ہے کہ ہم جتنی زیادہ تکلیفیں سہنا اور قربانیاں دینا سیکھیں گے، اتنی ہی زیادہ پاکیزہ، خالص اور مضبوط قوم کی حیثیت سے ابھریں گے جیسے سونا آگ میں تپ کر کندن بن جاتا ہے۔

قائداعظم کی سیاسی بصیرت اور سیاسی تربیت میں برطانوی پارلیمنٹ کا کردار بھی رہا جن کے اجلاس کی کاروائی سننے اکثر جایا کرتے تھے اور اس زمانے کے سیاسی مدبرین اور اکابرین کے ساتھ بھی اٹھنا بیٹھنا ہو چکا تھا۔ قائداعظم کی سیاسی بصیرت کا اعتراف ہم عصر سیاستدان بھی کرتے تھے اور آپ کی ذہانت و حاضر جوابی کے بھی معترف تھے۔ آپ نے ساری زندگی محنت شاقہ کو اپنا ہمسفر بنائے رکھا اور وطن عزیز پاکستان کیلئے جدوجہد میں اپنی صحت کو بھی آڑے نہیں آنے دیا۔

18جون 1944ء کو قائداعظم نے فرنٹیر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام اپنے پیغام میں کہا تھا:

آزادی وہ مسلم نظریہ ہے جس کو ہم نے اپنانا اور اس کی حفاظت کرنا ہے کیونکہ آزادی ہمارے لئے انمول خزانہ ہے۔ ہمیں امید رکھنا چاہئے کہ تمام شہری ہم سے استفادہ کرینگے۔ ہمیں اپنی منزل کا خود تعین کرنے کیساتھ دنیا کے سامنے ایسا معاشی نظام پیش کرنا ہوگا جسمیں سماجی انصاف و انسانیت کو ترجیح دی جائے ان حالا ت میں ہی ہم اپنی ذمہ داریوں سے صحیح طور پر عہدہ برآہونے کیساتھ دنیا کو باور کراسکیں گے کہ ہم امن کے قائل ہیں امن ہی درحقیقت انسانیت کی بہتری اور ترقی وخوشی کا ضامن ہے۔

تشکیل پاکستان کے بعد قائداعظم کے پیش نظر سب سے پہلا اور اہم مقصد اس سرزمین کی سرحدوں کا تحفظ تھا۔ قائداعظم کی زندگی کا ایک روشن اور تابندہ پہلو ان کی اسلامی فکر کی عکاسی کرتا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح ایک ایسے نابغہ روزگار، منفرد اور واحد شخصیت تھے جو نہ صرف بیسویں صدی کے سب سے بڑے سیاستدان تھے بلکہ دنیائے سیاست اور تاریخ عالم ان کا ثانی مہیا کرنے سے قاصر ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تحریک پاکستان کی کامیابی قائداعظم کے بغیر ممکن نہ تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس عظیم مقصد کیلئے منتخب کیا تھا اور وہ بہت کم عرصے میں مسلمانوں میں جوش و خروش پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے اور پوری لگن سے قومی و ملی خدمات سرانجام دے کر سرخرو ہوئے۔ قائداعظم کی شخصیت کا ایک جاذب پہلو یہ ہے کہ انہوں نے قلیل عرصے میں صرف اپنی قوت استدلال سے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے علیحدہ، آزاد اور خود مختار ملک پاکستان قائم کیا۔

قائداعظم کی سیاسی زندگی کا مطالعہ کرتے ہوئے تحریک پاکستان کے دوران ایسے مسلمان سیاستدان بھی نظر آتے ہیں جنہوں نے قائداعظم کے خلاف تقریریں کیں۔ قائداعظم کو عجیب و غریب القابات سے بھی نوازا گیا، سیاسی طور پر آپ کا تمسخر بھی اڑایا جاتا مگر آپ نے کبھی بھی ان فضول گوئیوں کا جواب دینے میں وقت ضائع نہیں کیا، قائداعظم محمد علی جناح چونکہ ایک حقیقت پسند انسان تھے اور تاریخ اسلام پر گہری نظر رکھتے تھے ہمیشہ یہی فرماتے مسلمانوں کی وحدت کی بنیاد ایک خدا، ایک رسول اور ایک کتاب پر ہے۔

قائداعظم کی زندگی دنیا بھر کے سیاستدانوں اور رہبروں کیلئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ کا طرز عمل، مسلم و غیر مسلموں کے ساتھ برتاؤ، آپ کی سیاسی جدوجہد، آپ کے افکار و نظریات الغرض زندگی کے دیگر شعبہ بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ بدقسمتی سے قائداعظم اور آپ کے زمانے کے دیگر سیاستدانوں کے بعد وطن عزیز پاکستان کے تڑپ اور درد رکھنے والے بے لوث سیاستدان ناپید ہونا شروع ہو گئے اور رفتہ رفتہ حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ سیاست کا دوسرا نام کاروبار، لوٹ مار اور چور بازاری پڑ گیا۔ اب ملک و قوم کی خدمت کے فقط نعرے ملتے ہیں اور پس پردہ اپنے خاندان اور کاروبار کو پروان چڑھانے کے حیلے بہانے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اب الیکشن میں پانی کی طرح پیسہ بہانے، سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والوں کی چاندی ہے۔ ملک بنانے والے تو ملک بنا کر چلے گئے اب الا ماشاء اللہ ملک کو لوٹنے والے ہی حکومت میں آتے ہیں، پھر اگلے الیکشن میں ایک دوسرے کو گراتے ہیں اور یہی کھیل برسوں سے جاری ہے۔ بیرون ملک جائیدادیں، کاروبار اور بینک بیلنس بنائے جاتے ہیں۔ جبکہ وطن عزیز پاکستان میں فقط سیاست پارٹیاں اور سیاسی وابستگیاں باقی رہ گئی ہیں۔ اگر یہی حکمران قائد اعظم کو اپنا رول ماڈل مانتے ہوئے پاکستان اور غریب عوام کو سوچتے تو ان کی جائیدادیں اور کاروبار باہر ممالک میں ہونے کی بجائے پاکستان میں ہی بنتیں اور ملک و قوم کی خوشحالی میں کردار ادا کرتیں۔

قائداعظم محمد علی جناح عظیم لیڈر اسی وجہ سے تھے کہ انہوں نے اپنے خاندان کو پروان چڑھانے کی بجائے ملک و قوم کا سوچا تھا۔ انتھک محنت پر یقین رکھتے تھے اور زندگی کے آخری سانس تک ملک و قوم کے نام کر رکھی تھی۔ آج اسی جذبہ اور ولولے کی ضرورت ہے۔ اگر آج کے سیاستدان قائداعظم کے فرامین اور سیرت و کردار سے سبق حاصل کرتے ہوئے ملک و قوم کا سوچیں تو پاکستان قرضوں کی دلدل سے نکل کر معاشی طور پر بھی خوشحال نظر آئے گا اور بہت جلد ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں بھی اول درجہ میں شمار کیا جائے گا۔ پاکستان کے بیشتر مسائل کا حل فقط قائد اعظم کو رول ماڈل مان کر ان کی سیاست کی پیروی کرنے میں ہے۔