سر سید احمد خان، کاروانِ آزادی کے اولین سالار

ڈاکٹر انیلہ مبشر

برصغیر پاک وہند کے ہر دور میں مسلمانوں میں بڑے بڑے مجاہد، ذی علم، دانشور اور مدبر پیدا ہوئے مگر ان کا دائرہ عمل کسی ایک شعبے تک محدود رہا۔ جبکہ انیسویں صدی کے نصف آخر میں سر سید احمد خان ایک ایسے مرد حق ثابت ہوئے جن کے میدان عمل نے قومی زندگی کے تمام شعبوں کو متاثر کیا اور مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کا فریضہ سرانجام دیا۔ آپ نے 1857ء کی جنگ آزادی میں شکست خوردہ، نیم بسمل قوم کی مسیحائی کی اور اسے حیات نو بخشی۔ آپ کی جاری کردہ تحریک بھی علی گڑھ ایک ایسی ہمہ گیر اور جامع تحریک تھی جس نے مسلمانانِ برصغیر پاک و ہند کی سماجی، مذہبی، تعلیمی اور سیاسی و ادبی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے اسے اس طرح متاثر کیا کہ بیسویں صدی میں مسلمان قوم ایک نئے جوش اور ولولے سے بیدار ہوئی اور جہد مسلسل کے ذریعے منزل مراد کو پالیا۔

آپ 17 اکتوبر 1817ء میں دہلی میں پیدا ہوئے اور اپنی وفات 1898ء تک قوم کی بے لوث خدمت کرتے رہے۔ آپ نے قوم کو اس حالت میں پایا کہ ان کا ایک ہزار سالہ دور حکومت اختتام پذیر ہوچکا تھا۔ معاشی ناہمواری اور مذہبی تعصبات کے ساتھ ساتھ نظامِ حیات درہم برہم ہوچکا تھا۔ مسلمان سرکاری مدارس میں جانے کے لیے تیار نہ تھے جہاں ذریعہ تعلیم اب انگریزی تھا۔ ہندوستان کے نئے حکمران انگریز تھے جنہوں نے ہندوؤں سے اچھے تعلقات استوار کرلیے تھے۔ ملازمتوں اور تجارت پر ہندوؤں کا قبضہ بڑھتا چلا جارہا تھا۔ انگریزوںکا رویہ مسلمانوں سے سرد مہری پر مبنی تھا۔ ولیم ہنٹر نے اپنی رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ

’’سچ تو یہ ہے کہ جب ملک ہمارے زیر نگیں آیا تو مسلمان ایک برتر نسل تھے وہ نہ صرف شجاعت اور سپاہیانہ صلاحیت کے اعتبار سے برتر تھے بلکہ سیاسی نظم اور عملی حکومت کے علم کے لحاظ سے بھی فوقیت رکھتے تھے مگر اب مسلمان نہ صرف سرکاری ملازمتوں سے بلکہ غیر سرکاری اعلیٰ پیشوں سے بھی بے دخل کردیئے گئے ہیں۔‘‘

ان حالات میں سر سید احمد خان نے قوم کو ایک نئی امید اور نئے مقصد کا فہم دیا۔ آپ کا مطمع نظر مسلم قوم میں تعلیمی بیداری پیدا کرکے جذبہ خودشناسی سے روشناس کروانا تھا۔ اس نئے دور میں آپ مسلم نوجوان طبقے کو تعلیم کے ہتھیار سے مسلح کرکے اُن میں ذہنی و قومی شعور اور بیداری پیدا کرنا چاہتے تھے کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی توانائیاں پھر سے حاصل کرنے کے قابل ہوں اور اپنے قومی و سیاسی شعور کو بیدار کرکے گذشتہ عظمت کو دعوت دے سکیں۔ آپ ایک ایسی نسل تیار کرنا چاہتے تھے جو مذہب اسلام کے ساتھ اپنی بنیادی وفاداری کو قائم رکھتے ہوئے جدید مغربی تعلیم سے بہرا مند ہو۔ سائنس اور مغربی علوم سے واقفیت قائم کرے تاکہ ترقی یافتہ اقوام کا مقابلہ کرسکے۔ آپ نے خود اپنی تعلیمی حکمت عملی سے متعلق فرمایا:

’’ہمارے دائیں ہاتھ میں سائنس ہوگی، بائیں ہاتھ میں فلسفہ اور ہمارے سر پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا تاج ہوگا۔‘‘

چنانچہ 1859ء سے آپ نے تعلیمی مدارس قائم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ مسلمانوں میں مغربی علوم و فنون، سائنس و ادب سے واقفیت پیدا کرنے کے لیے آپ نے 1864ء میں غازی پور میں سائنٹیفک سوسائٹی کی بنیاد رکھی جس کا مقصد انگریزی کتب کے تراجم شائع کرنا تھا۔ چنانچہ علم تاریخ، معاشیات، زراعت اور کیمیا پر مشتمل بہت سی کتابوں کے ترجمے کیے گئے۔ اسی سوسائٹی نے ایک اخبار 1866ء میں علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے نام سے جاری کیا جبکہ یہ سوسائٹی علی گڑھ منتقل ہوچکی تھی۔ یہ اخبار پہلے ہفت روزہ تھا بعد میں سہ روزہ کردیا گیا۔ اس کا ایک کالم انگریزی میں اور ایک اردو میں ہوتا۔ اس میں معاشرتی، اخلاقی، سیاسی اور عملی مضامین شائع کیے جاتے۔

سر سید احمد خان کی خواہش تھی کہ مسلمانوں کے لیے ایک ایسی جامعہ قائم کی جائے جو برصغیر کے مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہو جو اپنے اندر جدید مغربی علوم اور اسلامی اقدار کا گراں بہا امتزاج رکھتی ہو اور طلبہ کی کردار سازی کرکے مستقبل کے معمارِ قوم پیدا کیے جاسکیں۔ آپ کو اپنے بیٹے سید محمود کے ہمراہ 1869-70ء کے دوران انگلستان تشریف لے جانے کا موقع ملا۔ آپ نے آکسفورڈ اور کیمرج یونیورسٹی کا دورہ کیا اور ان کے طریقہ تعلیم کا بغور جائزہ لیا۔ واپس آکر ایک سوسائٹی خواستگاران ترقی تعلیم مسلمانان قائم کی جس کا مطمع نظر مسلمانوں کے لیے ایک اعلیٰ درجہ کا تعلیمی ادارہ قائم کرنا اور اس کے لیے رقم کا بندوبست کرنا تھا۔ فنڈ کمیٹی کے ذریعے یہ ہدف پورا کرلیا گیا۔ آپ کی روز و شب کی کاوشوں سے 1857ء میں علی گڑھ میں ایک سکول قائم کردیا گیا جس کو 1877ء میں کالج کا درجہ دے دیا گیا۔ اس کالج کا سنگ بنیاد وائسرائے ہند لارڈ لٹن نے رکھا اس کا نام محمڈن اینگلو اورینٹل کالج تجویز کیا گیا۔

سر سید احمد خان اس جامعہ کو برصغیر میں مسلمانوں کی پہلی مسلم یونیورسٹی بنانا چاہتے تھے ان کا یہ خواب ان کی زندگی میں پورا نہ ہوا لیکن عالم اسلام کی اس جدید درسگاہ کو 1920ء میں مسلم یونیورسٹی کا درجہ مل گیا۔ یہ ایک ایسا مسلم تعلیمی ادارہ تھا جہاں وقت کے بہترین قابل اساتذہ درس و تدریس سے منسلک تھے۔ اس اقامتی درسگاہ میں دینی ماحول کا انتظام کیا گیا تھا۔ طلبہ کی کردار سازی پر زور دیا جاتا۔ علی گڑھ کالج ایک ایسا ادارہ تھا جو مسلمانوں کی تعلیمی، سماجی اور سیاسی تحریک کا مرکز قرار پایا۔ مولوی طفیل احمد بنگلوری اپنی تصنیف ’’مسلمانوں کا روشن مستقبل‘‘ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ علی گڑھ کالج جدید علوم کی ایسی درسگاہ تھی جس نے مسلمانوں میں قومی ولولہ اور امنگ پیدا کی۔

سر سید مسلم قومی تعلیم کی تحریک کو پورے برصغیر میں پھیلانے اور مسلمانوں کو بحیثیت قوم منظم کرنے کے خواہاں تھے چنانچہ اس ضمن میں آپ نے ایک تعلیمی، اصلاحی و تعمیری انجمن ’’محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس‘‘ کے نام سے قائم کی۔ مسلمانوں کی تنظیم نو میں اس ادارے نے ایک مرکزی حیثیت اختیار کرلی نہ صرف تعلیم کے فروغ کو ایک مشن سمجھتے ہوئے پورے ہندوستان میں پھیلایا گیا بلکہ اسی انجمن کے ایک اجلاس میں 1906ء میں مسلم لیگ قائم کی گئی جس نے بعد ازاں مسلم مفادات کے تحفظ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ تحریک علی گڑھ ایک ایسی موثر تحریک ثابت ہوئی جس نے مسلمانوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ذہنی سکون اور بیدار مغزی عطا کی۔ مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں اور باعزت پیشوں کے قابل بنایا۔ اصلاح معاشرت اور جدید اردو ادبیات کا آغاز ہوا۔ یہاں سے فارغ التحصیل طلبہ تحریک پاکستان کا ہراول دستہ ثابت ہوئے۔

آپ نے مسلمانوں کے مذہبی تعصبات دور کرنے اور سماجی رجحانات کو بہتر بنانے کے لیے کئی ایک کتب تحریر کیں اور رسائل جاری کیے۔ انگریزوں اور مسلمانوں کی مذہبی کشیدگی دور کرنے کے لیے بائبل کی مختصر تفسیر ’’تبین الکلام‘‘ کے نام سے تحریر کی اور ایک رسالہ ’’احکام طعام اہل کتاب‘‘ کے نام سے لکھا۔ مشہور مستشرق سرولیم میور نے رسول اللہa کی حیات طیبہ پر ایک زہر آلود کتاب ’’لائف آف محمد‘‘ تحریر کی۔ آپ نے اس متعصبانہ کتاب کا جواب تحقیق اور دلیل کے ساتھ ’’خطبات احمدیہ‘‘ کی صورت میں دیا۔ یہ کتاب عشقِ رسول اور دینی جوش و جذبہ کی آئینہ دار ہے۔ 1870ء میں آپ نے ایک رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا جس کے مضامین کا مقصد مسلمانوں کے مذہبی اور سماجی خیالات کی اصلاح تھی۔ اس رسالہ نے قوم کی نشاۃ ثانیہ میں موثر کردار ادا کیا۔

سر سید احمد خان نے اپنے سیاسی نظریات کی بدولت قوم کی بھرپور رہنمائی کی۔ 1858ء سے 1898ء تک سر سید کی شخصیت ایک ایسے مدار کی حیثیت رکھتی تھی جس کے گرد برصغیر کی مسلم سیاست نصف صدی تک گردش کرتی رہی۔ سرسید کی سیاسی زندگی کا آغاز ’’رسالہ اسبابِ بغاوت ہند‘‘ لکھنے سے ہوا جس کا مقصد مسلمانوں اور انگریزوں میں موجود غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا تھا۔ آپ نے ایک طرف برطانوی عہدے داروں کو ہندوستانی معاشرے اور مذاہب کا احترام کرنے کا مشورہ دیا تو دوسری طرف اپنے ہم وطنوں کو یہ باور کروایا کہ انگریزوں کا مستقبل قریب میں ہندوستان چھوڑ کر جانے کا ارادہ نہیں۔ اس لیے ان سے بہتر تعلقات استوار کرنا ہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

آپ نے بطور قوم مسلمانوں کی سیاسی پسماندگی دور کی اور خود اعتمادی کا جذبہ بیدار کیا۔ آپ کی کوششوں کا مثبت نتیجہ برآمد ہوا۔ مسلمان آپ کے قائم کردہ تعلیمی اداروں میں انگریزی زبان پڑھنے،جدید علوم و فنون سیکھنے اور مغربی تعلیم سے بہرہ مند ہونے پر آمادہ ہوگئے۔ معاشی خوشحالی کے دروازے اُن پر واہ ہونے لگے۔ دوسری طرف برطانوی حکومت بھی مسلمانوں کو مراعات دینے پر آمادہ نظر آنے لگی۔ آپ کی کوششوں سے پہلی مرتبہ 1861ء میں مجلس قانون ساز میں ہندوستانیوں کو رکنیت کا حق مل گیا۔ آپ چار سال تک وائسرائے ہند کی کونسل کے ممبر رہے۔

سر سید احمد خان کا سیاسی اعتبار سے دوسرا اہم کارنامہ ہندوستان میں مسلمانوں کو ایک جداگانہ قوم قرار دینا ہے۔ اگرچہ اپنے ابتدائی دور میں آپ نے کبھی ہندو مسلم کا امتیاز نہ رکھا۔ لیکن 1867ء میں بنارس سے شروع ہونے والی اردو ہندی تنازعے کی تحریک سے وہ دلبرداشتہ ہوگئے۔

’’حیاتِ جاوید‘‘ میں الطاف حسین حالیؔ فرماتے ہیں کہ یہ وہ پہلا موقع تھا جب سر سید کو یقین ہوگیا کہ ہندوستان میں دونوں قوموں کا اشتراک ممکن نہیں۔ آپ وہ مدبر اور دور اندیش سیاست دان تھے جنہوں نے مسلمانوں کے لیے پہلی مرتبہ قوم کا لفظ استعمال کیا۔ 1882ء میں طلبہ سے خطاب میں آپ نے فرمایا:

’’مسلمان ایک قوم ہیں۔ اسلام کے دائرہ میں شامل تمام افراد مسلم قوم ہیں۔ یاد رکھئے کہ یہ اسلام سے وابستگی ہی ہے جو ہمیں ایک قوم کا درجہ دیتی ہے۔‘‘

اسی بنیاد پر آپ نے برطانوی پارلیمانی نظام جمہوریت کی مخالفت کی۔ آپ کا نظریہ تھا کہ ہندوستان ایک براعظم کی مانند ہے جس میں مختلف اقوام اور مذاہب کے لوگ بستے ہیں۔ ان کو آبادی کے لحاظ سے قانونی اور جمہوری اداروں میں نمائندگی دی گئی تو ہندوؤں کی اکثریت کے مقابلے میں مسلمان مستقل اقلیت بن جائیں گے۔

سر سید احمد خان کا سیاسی میدان میں تیسرا بڑا کارنامہ مسلمانوں کو 1885ء میں قائم ہونے والی انڈین نیشنل کانگرس کے مطالبات اور سیاسی لائحہ عمل کے پیش نظر، مکمل طور پر الگ رہنے کا مشورہ دینا تھا۔ ہندوستان کی تاریخ کا یہ دور مسلمانوں کے لیے بڑا نازک تھا۔ہندو مسلمانوں سے زیادہ تعلیم یافتہ اور سیاسی طور پر باشعور ہوچکے تھے پھر وہ ملک میں عددی اکثریت رکھتے تھے۔ اسی اعتبار سے وہ کانگرس کے ذریعے ہندوستان میں نمائندہ اور جمہوری طرز حکومت کا مطالبہ کررہے تھے جس کا مقصد مستقبل میں ہندو تسلط اور غلبہ تھا۔

تحریک پاکستان کی ابتدائی راہیں متعین کیں۔ آپ کا قائم کردہ دو قومی نظریہ قیام پاکستان پر منتج ہوا۔ قصرِ پاکستان کی بنیاد میں سب سے پہلی اینٹ اسی مدبر رہنما نے رکھی۔ انیسویں صدی میں سر سید احمد خان مسلمانوں کے سب سے بڑے محسن، دانشور، مدبر اور سیاسی لیڈر تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ہم آپ کا بجا طور پر کاروانِ آزادی کا اولین سالار قرار دے سکتے ہیں۔