تخلیقِ کائنات کی بنیاد الوہی محبت پر ہے

مرتبہ: ہاجرہ قطب اعوان

اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات اور اپنی تخلیق کے اعتبار سے آزاد ہے جبکہ دیگر اشیا ایک کڑے نظام کے تحت چل رہی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی.

(الزمر، 39: 5)

’’اور اسی نے سورج اور چاند کو (ایک نظام میں) مسخّر کر رکھا ہے ہر ایک (ستارہ اور سیّارہ) مقرّر وقت کی حد تک (اپنے مدار میں) چلتا ہے‘‘۔

کائنات کی تمام چیزیں انسان کے فائدے کے لیے بنائی۔ جبکہ انسان اپنے چھوٹی چھوٹی خواہشات کی تکمیل کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ اس کے باوجود اللہ نے اسے اختیار دیا ہے کہ اگر اس سے غلطی سرزد ہوجائے تو میری بارگاہ میں معافی کا خواستگار ہو تو اسے معافی عطا کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ انسان کو کائنات میں غوروفکر کی دعوت دیتا ہے کہ اس کائنات کو دیکھو جس میں کسی قسم کا کوئی نقص نہیں اس میں کسی قسم کی خرابی نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے اسے کامل محبت سے بنایا ہے۔

اب ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو تخلیق کیوں فرمایا؟ اس کا جواب حدیث قدسی میں ملتا ہے۔

اللہ کی تخلیق کردہ کائنات میں محبت کی موجودگی حدیث قدسی سے ملتی ہے۔ فرمایا: میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ میں جانا جاؤں اس لیے میں نے کائنات تخلیق کی تاکہ میری معرفت حاصل کی جائے۔

(ابی عربی، الفتوحات المکیة، 3: 167)

تخلیق کائنات کی بنیاد الوہی محبت پر ہے۔ اللہ نے ساری کائنات کو بہت محبت سے تخلیق کیا۔ اس لیے ہر شے میں ہمیں ایک ربط نظر آتا ہے۔

اللہ کی مخلوق کے درمیان محبت:

اللہ تعالیٰ نے نوع انسانی کو عدل و انصاف سے کام لینے کی تلقین فرمائی تاکہ نفرت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جاسکے اور پرامن معاشرہ تشکیل پاسکے۔ کوئی شخص کسی شے سے محبت کرتا ہے تو اس کے بہت سارے عوامل ہیں۔ ایک صورت یہ ہے اگر وہ اس کا حصہ بن جائے اس کے ساتھ جڑ جائے۔ جیسے ماں اپنے بچوں سے اس لیے محبت کرتی ہے وہ اس کا حصہ ہیں۔ اس کا جز ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ﷺ فرماتے ہیں:

اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے 100 حصے پیدا فرمائے۔ ننانوے حصے اپنے پاس رکھے۔ صرف ایک حصہ زمین پر نازل فرمایا۔ اسی جزو کی وجہ سے مخلوق ایک دوسرے سے محبت کرتی ہے۔

(بخاری الصحیح، کتاب الادب، 5: 2236)

اس طرح ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے نور کا جز ہیں۔ اسی وجہ سے ہم ساری کائنات سے زیادہ آپ ﷺ سے محبت کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ہمیں جینے کا ڈھنگ سکھایا۔

اللہ اور مخلوق کا تعلق:

کوئی بھی جزو اپنے کل کے قریب ہونا چاہتا ہے کیونکہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں مگر یہ کلیہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر صادق نہیں آتا کیونکہ وہ ایک ہستی ہے جس نے انسان کو پیدا فرمایا۔

جس نے انسان اور اپنے درمیان دو طرفہ تعلق قائم فرمایا۔ اس کے ساتھ خالق اور مخلوق کے درمیان گہری محبت کا رشتہ بھی قائم ہے۔ وہ دن رات بندے کو اپنی طرف بلاتا ہے تاکہ اس کے گناہ معاف کردیئے جائیں اور وہ گناہوں سے پاک پرامن زندگی بسر کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَّاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْهِ یُمَتِّعْکُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی.

(هود، 11: 3)

’’اور یہ کہ تم اپنے رب سے مغفرت طلب کرو پھر تم اس کے حضور (صدق دل سے) توبہ کرو وہ تمہیں وقت معین تک اچھی متاع سے لطف اندوز رکھے گا ۔‘‘

مزید ارشاد فرمایا:

ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّیَزِدْکُمْ قُوَّةً اِلٰی قُوَّتِکُمْ.

(هود، 11: 52)

’’پھر اس کی جناب میں (صدقِ دل سے) رجوع کرو، وہ تم پر آسمان سے موسلادھار بارش بھیجے گا اور تمہاری قوت پر قوت بڑھائے گا ۔‘‘

بندہ کی خالق سے محبت:

اللہ کی ذات سے محبت ایک ایسی نعمت ہے جو انسان کو قابلِ رشک بنادیتی ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس اللہ کے فرشتے حضرت عزرائیل، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی روح قبض کرنے آئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان سے پوچھا: کیا انہوں نے کبھی ایسے شخص کو دیکھا ہے جو دوست کی جان لیتا ہو۔ حضرت عزرائیل نے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اس سوال کی رہنمائی حاصل کی پھر انہوں نے واپس آکر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے عرض کیا: کیا انہوں نے ایسا شخص دیکھا ہے جو اپنے دوست سے ملنے سے انکار کرے۔ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ اس سے ملنے کا خواہش مند ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ملک الموت کو اپنی روح قبض کرنے کی اجازت دے دی۔ لہذا اللہ تعالیٰ کی ذات سے عشق ایک ایسا جذبہ ہے جو اس کے بندے سے موت کی سختی کو دور کردیتا ہے۔

حضرت محمد ﷺ کا نور:

حضرت آدم علیہ السلام کے دل میں حضرت محمد ﷺ کا نور تھا۔ اس نور نے ساری کائنات کو روشنی بخشی۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کے نور کو حضرت آدم علیہ السلام کی صلب میں رکھا پھر وہ نور ہر آنے والے نبی میں منتقل ہوتا رہا۔ جب بھی کسی نبی کو وہ نور منتقل ہوتا تو وہ ان کی پیشانی کو خصوصی چمک عطا فرمادیتا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے نور سے محمد ﷺ کو بنایا ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی محبت نبی نوع انسان میں رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے کائنات کی ہر شے سے بڑھ کر آقا علیہ السلام سے محبت کریں کیونکہ وہ ان کا کل ہیں۔ انسان جزو ہے۔ جہاں تک آپ ﷺ کی ذات کا تعلق ہے آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کی اعلیٰ ترین محبت کے ہمہ وقت خواہشمند رہتے ہیں۔

کائنات کی ہر شے محبت کے دم سے قائم ہے یہی بات امتیوں اور حضور نبی اکرم ﷺ کے باہمی تعلق پر صادق آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکت کل ہے اگر کلیت کی صفت کافی ہوتی تو اللہ تعالیٰ نہ کائنات تخلیق فرماتا نہ اس کے جز۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے اجزاء کی تخلیق ایسی فرمائی جو کل کی تسکین کا باعث ہوں لیکن کوئی بھی جز کل کی تمام تر صفات کا حامل نہیں ہوسکتا جیسا کہ ہمارا بدن جن صفات کا حامل ہے وہ ساری کی ساری اس کے کسی ایک جز آنکھ، ہاتھ یا پاؤں میں نہیں پائی جاتیں۔ ایسے ہی حضور نبی اکرم ﷺ رسالت کے تمام جہاں کا کل ہیں ان کی تمام تر صفات، فضائل اور معجزات دوسرے کسی نبی یا پیغمبر میں ایک ساتھ ظہور پذیر نہیں ہوسکتیں۔

مگر حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ اعزاز حاصل ہے۔ وہ ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کو اپنے دھیان میں رکھتے اور خلق خدا کی رہنمائی بھی فرماتے کیونکہ آپ ﷺ کل ہیں باقی انبیاء اسلام ان کے جزو ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ زندگی کے تمام شعبوں میں سب انبیاء کے سردار ہیں۔ اگر کوئی ولی کسی نہ کسی نبی کے نقش قدم پر چلتا ہوا ولادت کے درجے پر پہنچتا ہے وہ جزوی فضائل سے فیض یاب ہوتا ہے لیکن شیخ عبدالقادر جیلانی نے آپ ﷺ کی ہمہ گیر صفات سے فیض پایا۔ پس اللہ تعالیٰ کے یہ ولی اپنے شاگردوں کو اسلامی علوم کی تعلیم و تربیت دینے کے ساتھ ساتھ یاد الہٰی سے ایک لمحے کے لیے غافل نہیں رہنے دیتے تھے، آپ کے دل و دماغ میں یاد الہٰی سمائی رہتی تھی جبکہ آپ کا جسم خدا کی بھلائی کے کاموں میں لگا رہتا تھا۔

بندگان خدا اپنے کل یعنی ذات خدا کے قریب کے خواہش مند ہوتے ہیں اور اس سے ملنا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی اپنی راہ کے سالکین کے جذبہ اور شوق کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے لیکن یہ فرماتا ہے کہ اس تک پہنچنے کے لیے تمھیں موت کا مزا چکھنا پڑے گا۔

اللہ فرماتا ہے اے بندے ہم سے اپنی نفسانی خواہشات کے خلاف جدوجہد کا متقاضی ہے کہ یہی عبادت کا سب سے بڑا مقصود ہے۔ بے شک انسان اپنے نفس سے لڑ کر ہی زہد و تقویٰ کی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے کہ جہاں موت کا خوف بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔ جب زندگی کا واحد مقصد اللہ تعالیٰ کی محبت کا حصول بن جائے موت کا انسان مشتاق رہتا ہے۔

اس منظر کی عکاسی امام غزالیؒ کرتے ہیں کہ حضرت وہب بن منابیح روایت کرتے ہیں۔ موت کے فرشتے کی ایک مومن سے ملاقات ہوئی جسے اس نے سلام کیا اس نے بھی اسے جواباً سلام کیا۔ اُس نے فرشتے سے کہا مجھے آپ سے درخواست کرنی ہے جو میں آپ کے کان میں کہوں گا۔ اس مومن نے اپنا کان اس کے آگے کردیا کہا: کہ مجھے سناؤ۔ اس نے اپنا راز سنایا۔ میں موت کا فرشتہ ہوں وہ شخص بولا خوش آمدید۔ اس کو خوش آمدید جو اتنا عرصہ میری آنکھوں سے اوجھل رہا۔ اللہ کی قسم! اس دنیا میں کوئی ایسا نہ تھا جس سے میں ملنا چاہ رہا ہوں۔ اس پر موت کے فرشتے نے کہا: تم جس کام سے نکلے ہو اسے پورا کرلو۔ لیکن اس نے جواب دیا کہ مجھے ایسا کوئی کام نہیں جو مجھے اپنے رب کی ملاقات سے زیادہ عزیز ہو۔ تب فرشتے نے اس سے کہا پھر تم خود ہی ایسی ا حالت کا انتخاب کرلو جس میں تمہاری روح قبض کی جائے۔

اس شخص نے پوچھا کہ تم ایسے کرسکتے ہو؟ فرشتے نے جواب دیا جی مجھے ایسا ہی کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ اس پر مومن آدمی نے کہا پھر بس مجھے اس قدر مہلت دو کہ میں وضو کرکے نماز ادا کرسکوں اور تم میری روح اس وقت قبض کرلینا جب میں سجدہ میں ہوں۔ اس فرشتے نے ایسا ہی کیا۔

(غزالی احیاء علوم الدین، 4: 467)

ثابت ہوا کہ موت کا فرشتہ ایک ایسے شخص کی روح قبض کرنے سے پہلے اس کی اجازت طلب کرتا جو ہر دم یاد الہٰی میں مصروف رہتا ہے اور محبت ایک ایسی قوت ہے جو کسی کو اپنے مقصد کے حصول اور منزل مراد پانے کی بے پناہ توانائی بخش دیتی ہے۔ اگر ہم اللہ کی محبت میں فنا ہوجائیں اور ہمارے دل اس کی محبت سے لبریز ہوجائیں تو یہ کیفیت ہمیں اس دنیا میں جنتیوں کی طرح زندگی گزارنے والا بناسکتی ہے۔