انسدادِ غربت کے لیے اسلام کی تعلیمات

رابعہ فاطمہ

عام طور پر غربت کو معاشی اور معاشرتی حالت کی بدتری سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن اب اس میں دیگر چیزیں بھی شمار ہوتی ہیں۔ جیسے علاج معالجے کی عدم دستیابی صاف پانی، تعلیم کا نہ ہونا وغیرہ آسان لفظوں میں کہا جائے تو ایک انسان کو دنیا میں جن بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا نہ ملنا یا زیادہ تر کا نہ ملنا غربت کہلاتا ہے۔

17 اکتوبر کو پاکستان سمیت پوری دنیا میں ہر سال غربت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ بڑے بڑے سیمینارز اور کانفرنسز کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں ہر سال غربت کی شرح اور اس سے متاثرہ غریبوں کے اعداد و شمار بتائے جاتے ہیں جس میں پچھلے سال کی نسبت ہمیشہ اضافہ ہی ہوا ہوتا ہے۔ UNO اور دیگر NGOs یہ اعداد و شمار بتاتی ہیں کہ اتنے ملکوں میں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ اتنے لوگوں کو صاف پانی، مناسب علاج، بنیادی تعلیم میسر نہیں ہے وغیرہ وغیرہ لیکن ان کے خاتمے کے لیے جو پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہیں وہ ایسی ہوتی ہیں کہ وہی اگلے سال مزید غربت کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں کیونکہ ان پالیسیوں سے صرف امیر طبقہ ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ غریب تو مزید غریب ہوجاتا ہے۔

ان پالیسیز میں سے ایک ہوتی ہے کہ ترقی پذیر ملک کو بھاری سود پر قرض دیا جاتا ہے۔ قرض تو غربت ختم کرنے کے لیے دیا جاتا ہے لیکن اصل قرضہ کو ادا کی نوبت ہی نہیں آتی کیونکہ غریب عوام سے جو بھاری ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں وہ سود کی مد میں چلا جاتا ہے پھر مزید قرضہ اور اس پر مزید سود اسی طرح یہ چکر چلتا رہتا ہے جس سے غریب غربت کی گہری کھائی میں گرتا چلا جاتا ہے۔ اس طرح سے غریب اور پسماندہ ملکوں کا استحصال ہوتا ہے۔

غربت میں اضافے کے عوامل:

پاکستان سمیت پوری دنیا میں غربت کے بے شمار عوامل کارفرما ہیں۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

گرانی: جب ریاست ملکی پیداوار سے زیادہ خرچ کرلیتی ہے تو پھر ملک کے اخراجات پورے کرنے کے لیے قرضے لیتی ہے اور ان قرضوں کو بھی بہتر مصارف کے لیے استعمال کرنے کی بجائے اللوں تللوں میں ضائع کردیتی ہے پھر قرض کی ادائیگی اور اس کا سود بھرنے کے لیے غریب و نادار عوام پر بھاری بوجھ ٹیکسوں کی صورت میں ڈالتی ہے تو غربت کا دیو مزید بے قابو ہوجاتا ہے۔

دولت و وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم:

اللہ رب العزت نے یہ دنیا اور اس میں موجود اشیاء انسان کے لیے بنائی ہیں لیکن چند لوگوں نے ان وسائل پر غاصبانہ قبضہ کررکھا ہے اور اس کا بے دریغ اور ناجائز استعمال کرتے ہیں جبکہ ضرورت مند طبقہ ان سے محروم ہے وہ اپنی بنیادی ضروریات کو بھی پورا نہیں کرسکتے۔ پاکستان میں بھی حکومتی وسائل کا یا قومی وسائل کا اختیار چند خاندانوں کے پاس ہے جو کہ ان کو ضائع کرتے ہیں لوٹتے ہیں اور دوسرے ملکوں میں جائیدادیں بناتے ہیں اور عوام کو غربت کی ایسی دلدل میں دھکیل دیتے ہیں جن سے نکلنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔

علوم و فنون کی کمی:

پاکستان میں تعلیمی ڈھانچہ انتہائی بوسیدہ ہوچکا ہے اس کا نصاب وقت جدید کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتا اسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے جو لوگ اپنی تعلیم مکمل کرلیتے ہیں ان کے پاس اپنے علم سے مطابقت کا تجربہ نہیں ہوتا کیونکہ ہمیں صرف کتابیں رٹائی جاتی ہیں پریکٹیکل نہیں بنایا جاتا جن کے پاس علم و ہنر ہوتا ہے وہ دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کا رخ کرلیتے ہیں کیونکہ وہاں اپنے علم و فن کو دکھانے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔

جنگیں اور قدرتی آفات:

جب کسی غریب ملک پر طاقتور چڑھائی کرتا ہے تو وہاں مزید غربت جنم لیتی ہے کیونکہ وہاں کے لوگوں کو غلام بنالیا جاتا ہے۔ ان کے وسائل پر قبضہ کرلیا جاتا ہے اور انہیں بنیادی حقوق سے بھی محروم کردیا جاتا ہے۔ اس سے جنگیں بھی غربت کا سبب ہوتی ہیں۔ قدرتی آفات مثلاً سیلاب، زلزلے، طوفان یا وبائی امراض سے مکمل طور پر بچنا ناممکن ہوتا ہے۔ ان سے بہت سا جانی و مالی نقصان ہوجاتا ہے جن کی تلافی کرنا پسماندہ ملکوں کے لیے انتہائی مشکل ہوجاتی ہے۔

ان وجوہات کے علاوہ بے روزگاری، کرپشن و بدعنوانی، ناانصافی، شہروں کی آبادی میں اضافہ وغیرہ بھی غربت میں اضافے کا سبب بنتے ہیں ان سب کا حل تلاش کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اس وقت تک جتنی بھی غربت کو ختم کرنے کی پالیسیاں وضع کی گئی ہیں وہ سب کی سب سرمایہ دارانہ نظام کو ہی سہارا دیتی ہیں نہ کہ غریب طبقے کو اس لیے امیر، امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے۔ اس لیے ان طبقاتی فرق کو مٹانے کے لیے بہتر حل کی اشد ضرورت ہے اور وہ ہمیں اسلام نے چودہ صدیاں پیشتر دے دیا ہے۔ اسی کے مطابق عمل کیا جائے گا تو ہر انسان کو بنیادی حقوق مل سکیں گے اور ایک خوشحال معاشرہ وجود میں آئے گا۔

انسدادِ غربت کے لیے اسلام کی حکمت عملی:

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات دین ہے یہ ہماری زندگی کے ہر معاملے میں مکمل رہنمائی کرتا ہے یہ ہمیں افراط اور تفریط سے منہ موڑ کر میانہ روی کا سبق دیتا ہے۔ اس کے ہر حکم میں بے شمار حکمتیں ہیں جیسے جیسے اہل دنیا کو شعور آتا ہے ویسے ویسے وہ اسلام کے دیئے ہوئے احکامات میں پوشیدہ حکمتوں کو جانتے ہیں تو اسلام کی حقانیت روز روشن کی طرح واضح ہوتی جاتی ہے۔ دین اسلام ہمیں بے جا نمود و نمائش دکھاوے اور فضول خرچی سے منع کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰـطِیْنِ ط وَکَانَ الشَّیْطٰـنُ لِرَبِّهٖ کَفُوْرًا.

(الاسراء، 17: 27)

’’بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔‘‘

یعنی جس قدر ضرورت ہو خرچ کرو اور باقی زائد از ضرورت اپنے ان بھائیوں کی مدد کرو جو تنگ دست ہیں تاکہ وہ بھی بنیادی حقوق حاصل کرسکیں۔ اسلام نے زکوٰۃ، عُشر، صدقہ وغیرہ پر بہت زور اسی لیے دیا ہے تاکہ ہر بندے کو یکساں سہولیات مل سکیں۔ بعض لوگ آبادی میں اضافے کو غربت کا سبب قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ انتہائی غلط بات ہے کیونکہ اللہ رب العزت نے اس کائنات کو اپنی حکمت سے بالکل درست بنایا ہے اگر فرض کیا جائے کہ ایک صدی پہلے آبادی 5 ارب تھی تو اس وقت لوگ جانوروں کے ذریعے کھیتی باڑی کیا کرتے تھے تو اس کے مطابق یعنی آبادی کے مطابق خوراک حاصل ہوتی تھی اور اب 18 ارب آبادی ہے تو جدید مشینوں اور کھادوں کے ذریعے فصلیں بھی کئی گنا زیادہ پیدا ہوتی ہیں۔

اللہ کریم کسی بچے کی پیدائش سے پہلے ہی اس کی ضروریات کا سامان مہیا کردیتا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ وسائل پر صرف چند لوگوں کی اجارہ داری ہے اور وہ ہر مستحق تک اس کا حق نہیں پہنچنے دیتے۔

جب مہاجرین مدینہ طیبہ آئے تو آقا کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ہر مہاجر کو ایک ایک انصار کا بھائی بنادیا تاکہ وسائل بانٹے جائیں اور سب کو بنیادی سہولیات میسر ہوسکیں۔ چاہے کوئی حکمران ہو یا عام عوام سب کو برابرکے حقوق دیئے جائیں کوئی بھی اپنے آپ کو اعلیٰ سمجھتے ہوئے دوسروںکو حقیر جان کر ان کے حقوق نہ ضبط کرے۔

بڑے شہروں جیسی سہولیات دیہات والوں کو بھی میسر ہوں تاکہ شہر مزید بڑے نہ ہوں۔ ہر کسی کو انصاف، علاج، خوراک، تعلیم ان کی دہلیز پر مل سکے تاکہ وہ خوشحال ہوسکیں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ ہی ہنر کو بھی عام کیا جائے تاکہ وہ بوجھ بننے کی بجائے ہاتھ بٹانے والے باشعور انسان بن سکیں۔ بدعنوانی، رشوت، سود، کرپشن جیسی لعنتوں سے پاک معاشرہ تشکیل دیا جائے ہر اہل کو اس کی اہلیت کی بنیاد پر اعلیٰ عہدے دیئے جائیں نہ کہ اقرباء پروری یا رشوت کی بنا پر نااہل لوگوںکو مسلط کیا جائے۔

عورتوں کو بھی تعلیم کے ساتھ ساتھ باہنر بنایا جائے۔ اگر کوئی اپنا کاروبارکرنا چاہے تو اسے بلاسود آسان شرائط پر قرض دیا جائے تاکہ اور زیادہ لوگوں کو روزگار میسر ہوسکے۔ درآمدات کی بجائے برآمدات کو بڑھایا جائے تاکہ ملکی پیداوار کو بڑھوتری مل سکے۔ ٹیکسز میں کمی کی جائے۔ عوام میں شعور بیدار کیا جائے کہ وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرکے کمائے اور کھائے تاکہ لوگوں کے سامنے اپنی عزت نفس مجروح نہ ہونے دیں۔ ویسے بھی اپنے ہاتھ سے محنت کرنے والے کو اللہ رب العزت نے اپنا دوست فرمایا ہے۔ محنت میں عظمت ہے۔

بھوکوں کو کھانا کھلانا ثواب کا کام ہے لیکن اس سے بھی بڑا کام لوگوں کو کوئی کام، کاروبار یا ہنر دینا ہے تاکہ وہ اپنے ہاتھ سے کماسکے۔

’’آقا کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ میں ایک بے روزگار صحابی آئے تو آپ نے ان کی وقتی مدد کرنے کی بجائے اس کا کمبل اور پیالہ بازار میں دو درہم کا فروخت کرواکر ایک درہم کا گھر کا سامان خرید کردیا اور دوسرے درہم سے کلہاڑی خریدی خود اپنے دست مبارک سے اس کا دستہ لگاکر دیا اور فرمایا جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بازار میں فروخت کرکے گزر بسر کرو۔‘‘

آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ کریم اپنے محبوب کریمa کے صدقے سے ہر کسی کو وسیع و حلال رزق کمانے اور کھانے کی توفیق دے۔ آمین