فکرِ شیخ الاسلام: حضور نبی اکرم ﷺ سلطانِ انبیاء، بادشاهِ کائنات ہیں

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ اِذْ اَخَذَ اللهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَةٍ ثُمَّ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٗ ط قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ ط قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا ط قَالَ فَاشْهَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَo

(آل عمران، 3 : 81)

’’اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اللہ نے انبیاء سے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول (ﷺ) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔‘‘

جب ابھی عالم بشریت پیدا ہی نہیں ہوئی تھی، سلسلہ نبوت ابھی زمین پر جاری ہی نہیں ہوا تھا، ہر نبی سوچ رہا تھا، ابھی تو زمین پر سلسلہ تخلیق انسانی شروع ہی نہیں ہوا تھا اللہ رب العزت انبیاء سے حضور ﷺ پر ایمان لانے کا میثاق لے رہا ہے۔ ہر نبی حضور ﷺ کی زیارت کا مشتاق ہو گیا، ہر ایک کو آرزو ہو گئی کہ کاش! اُس کے زمانے میں تاجدارِ کائنات ﷺ آجائیں اور وہ حضور ﷺ کی بیعت کر لے۔ اُن ﷺ کا امتی بن جائے۔ چنانچہ حدیث پاک میں آتا ہے۔

ہر پیغمبر کی امت جب تک اس کی دعوت پر لبیک کہتی تو وہ سلسلہ دعوت جاری رکھتا۔ جب اُمت اُس کی دعوت کو رد کر دیتی تو اللہ پاک اس قوم پر عذاب نازل کرتے وہ نبی وہاں سے ہجرت کر جاتے، حضور ﷺ کا امتی بننے کے لئے سفر کر کے مکہ آجاتے۔

حضرت عبد الرحمن بن ثابتؓ جو جلیل القدر ثقہ فقیہ تابعی ہیں وہ کہتے ہیں جس نبی کی امت ہلاک ہو جاتی دعوت نبوت کو رد کر نے کے بعد وہ نبی وہاں سے ہجرت کر کے شہر مکہ آجاتے اور عمر بھر آمد مصطفی ﷺ کے دیدار میں انتظار میں مکہ رہتے، یہیں عبادت کرتے، یہیں وفات ہو جاتی اور یہیں دفن ہوجاتے۔

عبداللہ بن ضمرۃ سلولی روایت کرتے ہیں:

ما بَیْنَ الرُّکْنِ إلی المَقَامِ إلی زَمْ زَمْ قَبْرُ تِسْعَةٌ وَتِسْعِیْنَ نَبِیًّا.

(ازرقی، اخبار مکة، 1: 68)

’’ننانوے (99) انبیائے کرام کے مزارات مقام زَم زَم اور مقام حجر اسود کے درمیان ہیں۔‘‘

آپ کی نبوت و رسالت اتنی معروف تھی اس وقت کے بادشاہ جو یہودی یا نصرانی بادشاہ تھے جو پرانی کتابیں پڑھتے تھے، انھوں نے اپنے نبیوں کی زبان سے نسلاً بعد نسلاً سن رکھا تھا کہ سلطانِ کائنات ﷺ، سلطانِ انبیاء اور بادشاهِ کائنات تشریف لانے والے ہیں۔

نجاشی کے دربار میں حضرت جعفرؓ نے خطاب کیا اور حضور علیہ السلام کی سیرت و صورت اور کمالات بیان کئے۔ نجاشی نے تخت پر بیٹھ کر جب حضور علیہ السلام کا تذکرہ سنا تو اعلان کیا:

وأنه الرسُول اَلَّذِیْ بَشَّر بِهٖ عیسیٰ بن مریم.

خدا کی قسم! یہ محمد مصطفی ﷺ وہی رسول آخر الزماں ہیں جن کی بشارت ہمارے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی۔

نجاشی نے اعلان کر کے شہادت دی اور کہا:

و الله لولا ما أنا فیه من الملک لأتیته حتّیٰ أکون أنا أحمل نعلیه.

خدا کی قسم! میں اس وقت بادشاہی کی زنجیروں میں جکڑا ہوں، اگر یہ مجبوریاں میرے پاؤں میں نہ ہوتیں اور مجھے موقع مل گیا میں مصطفی علیہ السلام کی بارگاہ میں پہنچ جاؤں گا اور صبح و شام مصطفی علیہ السلام کے جوڑے اٹھاؤں گا۔

(احمد بن حنبل، المسند، 1: 461)

آقا علیہ السلام نے قیصر روم کی طرف بھی ایک وفد بھیجا۔ اس نے آقا علیہ السلام کے بارے میں تذکرہ سنا تو صحابہ کرام سے چند سوالات کئے۔

1۔ اُس نبی کا حسب و نسب کیا ہے؟

2۔ اُس نبی کی تعلیم کیا ہے؟

ان سوالات کے بعد تو اس نے اپنے دربار میں اعلان کیا کہ: لوگو! سنو میں تمہیں گواہی دیتا ہوں، اے صحابی رسول! جو کچھ تم نے بتایا ہے اگر وہ سب کچھ حق ہے تو میرا اعلان ہے۔

فَسَیَمْلِکُ مَوْضِعَ قَدَمَیَّ هَاتَیْنِ.

جس تخت پر میرے اس وقت قدم ہیں یہ ساری زمین مصطفی ﷺ کی سلطنت میں ہو گی۔

فَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَیْهِ، لَتَجَشَّمْتُ لِقَائَهُ، وَلَوْ کُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمِهِ.

(بخاری، الصحیح، کتاب بدء الوحی، 1: 8، رقم: 7)

’’اگر مجھے کبھی حضور علیہ السلام کی زیارت اور دید ہو گئی تو خدا کی قسم! میں اپنے ہاتھوں سے اُن کے قدموں کو غسل دوں گا۔‘‘

آقا علیہ السلام کی شان و عظمت کے تذکرے آج کے مسلمان ہونے کی عقیدت کی وجہ سے نہیں یہ حضور علیہ السلام کی ولادت سے ہزار ہا سال پہلے کتابوں میں چلے آرہے تھے۔

ولادتِ مصطفی ﷺ سے پہلے بھی حضور ﷺ بادشاہ تھے اور ولادت کے بعد بھی قیامت تک بادشاہی حضور ﷺ کی ہے۔ قرآن کہتا ہے:

فَـلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّیٰ یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ.

(النساء، 4: 65)

’’پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنا لیں۔‘‘

صہیب روم سے، بلال حبشہ سے اور سلمان فارس سے آئے۔ یہ سب وہ ملک ہیں یہاں کے لوگ آپ ﷺ کے تذکرے پڑھ کر حضور ﷺ کی غلامی میں آئے اور خلفائے راشدین کے دور میں یہ سب ملک اسلامی سلطنت کا حصہ بنے۔

ابو یعلٰی روایت کرتے ہیں:

آقا علیہ السلام کی خدمت میں ایک وفد بربریوں کا مکہ میں آیا اور آقا علیہ السلام نے یہ جان کر کہ یہ بربری قوم کے لوگ ہیں افریقہ کے علاقے سے آئے ہیں، حضور ﷺ نے اُن سے بربری زبان میں گفتگو فرمائی۔

کیونکہ آپ ﷺ کو، تو کل زبانیں عطا کی گئی تھیں۔

وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ.

(ابراهیم، 14: 4)

’’اور ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان کے ساتھ۔‘‘

یہ قرآن مجید کا اصول ہے۔ جس قوم کی طرف اللہ رسول کو بھیجتا ہے اُس قوم کی زبان اُس رسول کو عطا فرماتا ہے۔ چونکہ کل اقوام عالم کی طرف حضور ﷺ رسل تھے سب کی زبانیں حضور ﷺ کو عطا ہوئیں۔

سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

یقدم علی في مدینتي هذه في یوم واحد وفدان أحدهما و افد السند والآخرة واقد أهل افریقیة.

(ابن کثیر، البدایة والنهایة، 10: 60)

میرے شہر مدینہ میں ایک ہی دن میں دنیا کے مختلف ملکوں سے دو وفد آئے ایک کا پاکستان کی سر زمین پر جو اُس وقت ہند تھی۔ صوبہ سندھ کے وفد نے اُس وقت اسلام قبول کیا، صحابی بنے اور اسلام پاکستان جس خطے میں ہے (ہند) میں اُس وقت داخل ہوا جب ابھی آقا علیہ السلام کا وصال نہیں ہوا تھا۔ آقا علیہ السلام نے انہیں پہنچانا اور فرمایا: یہ وفد سندھ سے آیا ہے۔ حضور ﷺ نے کبھی سندھ کی طرف سفر نہیں کیا تھا مگر آپ سلطانِ کائنات تھے، ہر شے ہتھیلی پر میرے آقا ﷺ کے رکھ دی گئی تھی۔

دوسرا وفدا فریقہ سے آیا اور انہوں نے آقا علیہ السلام کے دست ِاقدس پر بیعت کی اور مسلمان ہوئے۔

سلطنتِ مصطفی ﷺ صرف انسانی طبقات تک محدود نہیں۔ دوسرا طبقہ جنات کا ہے۔ جنات کے بھی حضور علیہ السلام سلطان بنائے گئے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ سے باہر ہم ایک جگہ پر تھے، ایک بوڑھا شخص آیا وہ انسانی شکل میں جن تھا، اُس کے ہاتھ میں لاٹھی تھی۔ اُس نے آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں سلام عرض کیا۔ پوچھا: اے شخص! تم جنات کے کس طبقے، کس قوم، اور کس قبیلے سے ہو؟ اُس نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ !

میرا نام ھامۃ ہے، میرے باپ کا نام ھیم، میرے دادا کا نام لاقیس اور میرے پر دادا کا نام ابلیس تھا۔

لا أری بینک وبین إبلیس إلا أبوین.

اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمہارے اور ابلیس کے درمیان صرف دو پشتیں ہیں۔

فرمایاـ: بتاؤ تمہاری عمر کتنی ہے؟ اُس نے جواب دیا: ہابیل نے جب قابیل کو قتل کیا تھا اُس وقت میری عمر چند سالوں کی تھی، میں بات سمجھتا تھا۔ اب آقا علیہ السلام نے فرمایا: کہ میرے پاس کیسے آئے ہو؟ اُس نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ ! میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر بھی ایمان لایا اور میں حضرت یوسف کے ساتھ بھی رہا اور حضرت موسیٰ کے ساتھ رہا، حضرت یعقوب کے ساتھ رہا۔ پھر حضرت یوسف کے پاس رہا اور پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس حاضری دیتا رہا پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا۔ اُس نے کہا: آقا ﷺ ! میں ایک پیغام اٹھائے پھرتا ہوں میں انبیا علیہ السلام کی خدمت میں جاتا، میں حضرت عیسی السلام کے پاس گیا تھا۔

اور حضرت عیسی علیہ السلام نے مجھے انجیل پڑھائی تھی۔

اور یا رسول اللہ ﷺ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آپ کے لیے ایک پیغام دیا تھا وہ لایا ہوں۔

عیسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا: کہ اے ھامۃ بن ھیم اگر مصطفی ﷺ کی بارگاہ میں تیرا جانا ہو تو اُن کی بارگاہ میں میرا سلام پیش کرنا۔

میں سیدنا عیسی ﷺ کا سلام لے کر آیا ہوں۔ آقا علیہ السلام کی آنکھیں بھر آئیں سلام کا جواب دیا آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: کوئی حاجت ہے تو مجھے بتاؤ۔ عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے قرآن کی تعلیم دیں، میں آپ کا شاگرد بننے کے لئے تیار ہوں۔

آقا علیہ السلام نے اُسے دس سورتوں کی تعلیم دی۔

وعلمه سورة الواقعة وعَمَّ یتسائلون، و إذ الشمس کورت و قل یایھا الکفرون و سورة اخلاص و المعوزتین.

سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اُس کے بعد پھر ہماری ملاقات اُس سے نہیں ہو سکی۔ اُس وقت دیکھا تھا معلوم نہیں کہ وہ اب زندہ ہے یا فوت ہو گیا۔

(رازی، تفسیر کبیر، 28: 28)

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے گارڈ تھے، فاروق اعظمؓ، عثمان غنیؓ، علی شیر خداؓ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کثیر صحابہ یکے بعد دیگرے رات اور دن کو سکیورٹی گارڈ بن کر پہرہ دیتے تھے، پھر آیت اُتری

وَ اللهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ.

(المائدة، 5: 67)

’’اور اللہ (مخالف) لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا۔‘‘

اللہ پاک نے فرمایا: اے محبوب! آج کے بعد اللہ نے آپ کی حفاظت اپنے ذمے لے لی ہے پھر ملائکہ مصطفی ﷺ کے سکیورٹی گارڈ بن گئے۔ حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، فرماتے ہیں:

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا: حضور نبی اکرم ﷺ ایک غزوہ کے لئے نکلے تو اپنے صحابہ کرامث سے فرمایا: میرے آگے آگے چلو اور میری پشت کو ملائکہ کے لئے چھوڑ دو۔

حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مَا مِنْ مُسْلِمٍ سَلَّمَ عَلَيَّ فِي شَرْقٍ وَلَا غَرْبٍ إِلَّا أَنَا وَمَـلَائِکَۃُ رَبِّي نَرُدُّ عَلَیْهِ السَّـلَامَ.

(ابو نعیم، حلیة الأولیاء، 6: 349)

مشرق و مغرب میں (جہاں کہیں بھی) جو مسلمان مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو میں اور میرے ربّ کے فرشتے اسے اس کے سلام کا جواب دیتے ہیں۔

یہاں لفظ بولا: سَلَّمَ عَلَيَّ جو حضور ﷺ پر سلام اللہ پاک نے آپ کی شان اور عظمت کو اجاگر کرنے کے لیے ملائکہ کو الگ سے مقرر کر رکھا ہے۔ درود و سلام براهِ راست بھی پہنچتا ہے اور ملائکہ بھی مقرر ہیں۔ روئے زمین پر بھی اور قبر انور کے اردگرد بھی۔ گنبدِ خضریٰ کے اردگرد بھی۔ فلاں شخص، فلاں کا بیٹا اُس نے آپ ﷺ پر درود و سلام بھیجتا ہے، فرشتے درود و سلام پڑھتے ہیں، پروں سے قبر انور چھوتے ہیں۔

امام جلال الدین سیوطی نے روایت کیا۔

جانور بھی آقا علیہ السلام کا ادب و احترام کرتے۔ حضرت انس بن مالکؓ راوی ہیں۔

انصاریوں کا ایک گھر تھا مدینہ پاک میں اُن کا اونٹ پاگل ہو گیا اور ہر ایک کو کاٹنے کے لیے بھاگتا تھا۔ وہ انصاری آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں آگئے۔

عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ ! ہمارا اونٹ پاگل ہو گیا ہے، ہر شخص کی طرف حملہ کرتا ہے، آپ ﷺ تشریف لائیے اس کو ٹھیک کر دیجیے۔ یہ عقیدے تھے صحابہ کرامؓ کے۔ اُنہیں پتہ تھا جانور بھی مصطفی ﷺ کے غلام ہیں۔ آقا علیہ السلام اُن کے ساتھ چل پڑے۔ جب اُن کے گھر گئے، اندر داخل ہونے لگے جس حویلی میں اونٹ تھا۔

انصاری نے آپ ﷺ سے درخواست کی آپ اکیلے اندر داخل نہ ہوں، اونٹ حملہ کر دے گا اور آپ ﷺ کو تکلیف پہنچائے گا۔

آپ ﷺ نے فرمایا: اونٹ مجھے کچھ نہیں کہتا۔

جب آقا علیہ السلام اونٹ کے سامنے گئے، اُس کی نظر مصطفی ﷺ پر پڑی وہ دوڑا اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر سجدہ ریز ہوگیا۔

آقا علیہ السلام نے اُس کے ماتھے کے بال پکڑ کے کھینچے، جھٹکا دیا اور فرمایا: جاؤ کام کرو۔ اونٹ سر کو نیچے کر کے اُسی وقت کام پر لگ گیا۔ صحابہ کرام دنگ رہ گئے یہ منظر دیکھ کر اور وہ بول اُٹھے یا رسول اللہ!

هٰذِهٖ بَهِیْمَةٌ لَا تَعْقِلُ تَسْجُدُ لَکَ.

اجازت دیں آپ ﷺ کو ہم بھی سجدہ کریں۔ اس پر آقا علیہ السلام نے جواب دیا: میری امت کے لیے اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ جائز نہیں۔

جب قیامت ختم ہو جائے گی، حضور ﷺ جنت میں جائیں گے اور حضور ﷺ کی سلطنت اور حکومت جنت میں بھی قائم دائم ہوگی۔

جب جنت میں سب چلے جائیں گے تو آقا علیہ السلام کا قیام آپ کی شان کے مطابق ہر سو ہو گا ایک ہزار محلات حضور ﷺ کے خادموں کے لئے الگ بنائے گئے ہوں گے۔ جنت میں صرف میرے آقا علیہ السلام کے خداموں اور غلاموں کے لئے ایک ہزار محلات ہوں گے اور وہ جنت کے موتیوں کے ساتھ بنے ہوئے ہوں گے اور مٹی کا گارا مسک کا، کستوری کا ہو گا۔ ہزار نوری محلات میرے آقا علیہ السلام کے خادموں، نوکروں اور غلاموں کے لئے ہوں گے۔

(سیوطی، الدر المنثور، 8: 542)

قرآن مجید میں آتا ہے:

وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰیo

(الضحیٰ، 93: 5)

’’اور آپ کا رب عنقریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔‘‘

پس سلطنت مصطفی ﷺ جیسی کوئی سلطنت نہ پہلے تھی اور نہ اب ہے۔ حضور ﷺ سلطان ہیں، بادشاہ ہیں، آقا ﷺ شہنشاہ ہیں، حاکم کل کائنات ہیں، خدا کے نائب ہیں۔

لہذا دنیا کی شہنشاہی میں کچھ نہیں ہے۔ مادیت میں کچھ نہیں ہے۔ ساری عزتیں حضرت محمد ﷺ کے قدموں میں آجانے میں ہیں۔ ساری بلندیاں مصطفی ﷺ کی اتباع و اطاعت میں ہیں۔