ولادتِ مصطفی ﷺ اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے

سعدیہ کریم

ماہ ربیع الاول حضورنبی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت کی نسبت سے ایک انفرادی حیثیت کے ساتھ سال کے باقی تمام مہینوں پر نمایاں فضیلت اور امتیاز رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف افراد کو افراد پر، بعض ایام کو دوسرے ایام پر، کچھ مہینوں کو دوسرے مہینوں پر مختلف نسبتوں سے شرف و امتیاز عطا فرمایا ہے۔ قرآن مجید سے ثابت ہے کہ بعض انبیاء علیہم السلام کو بھی ایک دوسرے پر مختلف جہتوں اور نسبتوں سے فضیلت حاصل ہے۔ رمضان المبارک کو نزول قرآن کی وجہ سے شرف و امتیاز ملا ہے اور لیلۃ القدر بھی سال کی باقی راتوں سے افضل قرار دی گئی ہے۔

جس طرح قرآن مجید اللہ تبارک و تعالیٰ کا پاکیزہ کلام ہونے کی حیثیت سے دنیا کے تمام کلاموں میں منفرد اور فضیلت والا ہے۔ اسی طرح اس ہستی کی عظمتوں کا کیا عالم ہوگا جن کی وجہ سے انسانیت کو قرآن کریم جیسا عظیم ذخیرہ علم و حکمت اور مصدر ہدایت میسر آیا۔ جب نزول قرآن کی وجہ سے رمضان کو اتنی فضیلت ملی کہ اس کی صرف ایک رات ہزار مہینوں سے افضل ٹھہری تو پھر ماہ ربیع الاول کی عظمت و فضیلت کا کیا عالم ہوگا جس میں صاحب قرآن ﷺ کی آمد ہوئی۔ ان حقائق کو تسلیم کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن حکیم کی قدر و منزلت کا اعتراف کرنے سے پہلے صاحب قرآن کی قدر ومنزلت کو ماننا ہوگا اور ان مبارک ساعتوں کے تقدس کا اعتراف کرنا ہوگا جن میں صاحب قرآن ﷺ کی تشریف آوری ہوئی۔

ماہ ربیع الاول کے مبارک دن یعنی 12 ربیع الاول کو عید میلاد النبی ﷺ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ عید شرعی نہیں ہے لیکن یہ عید شرعی سے بھی زیادہ قدر و منزلت والی عید ہے کیونکہ عید کا مفہوم ہے ’’خوشی و مسرت والا دن‘‘ اور صاحب قرآن کی اس کائنات میں تشریف آوری سے بڑی خوشی اور مسرت ہوہی نہیں سکتی۔ یوم ولادت مصطفی ﷺ معروف معنی میں عید کا دن ہے جیسے کسی قریبی دوست یا محبوب کی آمد پر کہا جاتا ہے کہ آپ کا آنا عید ہے۔ آپ کا ملنا عید ہے عربی میں مشہور ہے کہ

عید وعید وعید صرن مجتمعة
وجه الحبیب و عید الفطر و الجمعة

’’یعنی ہمارے لیے تین عیدیں اکٹھی ہوگئی ہیں، محبوب کا چہرہ، عیدالفطر اور یوم جمعہ‘‘۔

آپ ﷺ کا یوم ولادت مسلمانوں کے لیے عید کا دن ہے اس کے دلائل قرآن و سنت میں موجود ہیں۔ ذیل میں ان کا تجزیہ پیش خدمت ہے:

جشن نزولِ قرآن سے استدلال:

قرآن کریم کا نزول انسانیت کے لیے بہت بڑی نعمت ہے اس کے ذریعے انسانیت کو ایسا نور ملا ہے جس سے جہالت کی تاریکیاں دور ہوگئی ہیں اور انسان کو شرف و تکریم سے نوازا گیا جب نزول قرآن کے ذریعے انسان کو لامتناہی عظمتیں عطا کی گئی ہیں تو جس ہستی کے قلب اطہر پر اس قرآن کا نزول ہوا ان کی شان کتنی بلند ہوگی۔ آپ ﷺ کے بلند مقام کا ادراک کون کرسکتا ہے۔ حقیقت میں قرآن کریم نبی ﷺ کے اسوہ کامل اور آپ ﷺ کے فضائل خصائل اور شمائل کے ذکر جمیل کا مجموعہ ہے۔ قرآن کریم جیسی عظیم نعمت پر شکر خداوندی ادا کرنا اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس سے محبت کے اہم ترین تقاضوں میں سے ہے لیکن نعمت قرآن کا شکر ادا کرنا اس وقت تک مقبولِ خدا نہیں جب تک اس نبی کی ولادت باسعادت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہ کیا جائے جن کے وسیلے اور واسطے سے انسانیت کو قرآن کریم جیسی عظیم نعمت میسر آئی ہے۔ اس لحاظ سے یوم میلاد مصطفی ﷺ مسلمانوں کے لیے خوشی اور مسرت یعنی عید کا دن ہوتا ہے اور اسے بطور عید منانا چاہیے۔

لیلۃ القدر کی فضیلت سے استدلال:

جس مبارک رات میں کلام الہٰی (قرآن) لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اتارا گیا اسے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس رات کو قیامت تک کے انسانوں کے لیے بلندی درجات کا وسیلہ اور تمام راتوں کی پیشانی کا جھومر بنادیا ہے۔ تو جس رات صاحبِ قرآن کا ظہور ہوا اور اس کائنات کو آپ ﷺ کے وجودِ مسعود سے شرف بخشا گیا، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس شب ولادتِ مصطفی ﷺ کی قدرو منزلت کیا ہوگی کیونکہ اگر حضور ﷺ نہ ہوتے تو نہ تو قرآن نازل ہوتا اور نہ ہی شب قدر ہوتی بلکہ یہ کائنات ہی تخلیق نہ کی جاتی۔ در حقیقت یہ ساری نعمتیں اور فضیلتیں ولادتِ مصطفی ﷺ کا صدقہ ہیں۔

پس ثابت ہوا کہ شب ولادت مصطفی ﷺ شب قدر سے بھی افضل ہے۔ بہت سے ائمہ و محدثین اور اہل علم و معرفت نے شب میلاد مصطفی ﷺ کو شب قدر سے افضل قرار دیا ہے۔

امام قسطلانیؒ، شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ، امام زرقانیؒ اور امام نبہانیؒ نے بڑی وضاحت و صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ سب راتیں فضیلت والی ہیں مگر شب ولادت مصطفی ﷺ سب سے افضل ہے۔ اس لحاظ سے یوم ولادت مصطفی ﷺ عید کا دن ہے۔

جشن نزولِ خوان نعمت سے استدلال:

پہلی امتوں پر جب اللہ تعالیٰ اپنی کوئی نعمت نازل فرماتے تو وہ اس دن کو بطور عید مناتے اور اللہ تعالیٰ کے حضور شکر اداکرتے تھے۔ جیسا کہ سورہ المائدہ میں عیسیٰ علیہ السلام کی اس دعا کا ذکر موجود ہے جس میں انھوں نے مائدہ کی نعمت طلب کی تھی انہوں نے یوں عرض کیا:

’’اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے خوانِ نعمت نازل فرما کہ ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے وہ عید کا دن ہوجائے اور وہ خوان تیری طرف سے تیری قدرت کاملہ کی نشانی ہو۔‘‘

اس آیت مبارکہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سابقہ امتیں نعمتوں کے نزول کے دن کو بطورِ عید مناتی تھیں اور قرآن کریم میں اس عمل کا ذکر موجود ہے تو امت مسلمہ کے لیے ان کے نبی ﷺ کی اس کائنات میں تشریف آوری اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت بلکہ احسان عظیم ہے۔ اس لیے اس عظیم نعمت کے حصول کے دن کو بطور عید منانا لازم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا خود حکم دیا ہے۔ سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

’’اور اپنے اوپر کی گئی اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا فرمادی۔ پس تم اس نعمت کی وجہ سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔‘‘

اس آیت مبارکہ میں جس نعمت کو یاد کرنے اور اس پر شکر ادا کرنے کا حکم دیا جارہا ہے وہ ذاتِ مصطفی ﷺ ہے جن کے ذریعے سے بندوں کو ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑا گیا جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے انھیں ایک دوسرے کا ہمدرد اور غمخوار بنادیا گیا۔ ان کی نفرتوں اور عداوتوں کو محبتوں سے بدل دیا گیا۔ اس لحاظ سے آپ ﷺ کا اس دنیا میں تشریف لانا انسانیت کے لیے خوشی اور مسرت کا مقام ہے اور اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم یومِ میلاد مصطفی ﷺ کو بطور عید منائیں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سراپا تشکر بن جائیں۔

ولادتِ مصطفیؐ کو بطور عید (خوشی) منانے کا حکمِ خداوندی:

اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا ایک مقبول عام طریقہ خوشی و مسرت کا اعلانیہ اظہار ہے۔ ولادت مصطفی ﷺ سے بڑی نعمت اور کیا ہوسکتی ہے یہ وہ نعمت عظمیٰ ہے جس کا شکر ادا کرنے اور جس پر خوشیاں منانے کا حکم خود رب کائنات دے رہا ہے۔ سورہ یونس میں ارشاد ہوتا ہے:

’’فرمادیجئے (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدیؐ کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ (خوشی منانا) اس سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘

اس آیہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمارہے ہیں کہ پوری امت کو یہ پیغام دے دیا جائے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی جو رحمت نازل ہوئی ہے وہ یہ تقاضا کرتی ہے کہ جس قدر ممکن ہوسکے خوشی اور مسرت کا اظہار کریں اور جس دن حبیب خدا ﷺ کی ولادت مبارکہ ہوئی اسے شایان شان طریقے سے منائیں۔ اس آیت میں حصول نعمت کی خوشی امت کی اجتماعی خوشی ہے جسے اجتماعی طور پر عید اور جشن کی صورت میں ہی منایا جاسکتا ہے۔ اس لحاظ سے آیہ مبارکہ یہ پیغام دے رہی ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ یوم ولادت مصطفی ﷺ کو عید میلاد النبی ﷺ کے طور پر منائیں۔

احادیث مبارکہ سے عید میلاد النبی ﷺ پر استدلال:

حضور نبی اکرم ﷺ عالم انسانیت کے لیے اللہ تعالیٰ کا فضل، رحمت، نعمت اور احسانِ عظیم ہیں۔ امت مسلمہ کو اس نعمت عظمیٰ پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا واجب ہے کیونکہ شکر اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے اور اس کے انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔ یوم ولادت مصطفی ﷺ ثقافتی، تاریخی، اسلامی اور معاشرتی حوالوں سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیے اسے عید کی طرح جوش و جذبے کے ساتھ منایا جانا چاہیے۔

یہودی یوم عاشورہ کو یوم عید کے طور پر مناتے تھے کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون کے ظلم و ستم سے نجات بخشی تھی۔

دور جاہلیت میں قریش مکہ یوم عاشورا کا روزہ رکھتے تھے اور اس کو بطور عید مناتے تھے۔ اس دن کو بطور عید منانے کی وجہ یہ تھی کہ اس دن کعبۃ اللہ پر پہلی مرتبہ غلاف چڑھایا گیا تھا۔ وہ دس محرم کا دن تھا آپ ﷺ کی ولادت کے بعد بھی مکہ میں 10 محرم کو عید منائی جاتی تھی آپ ﷺ نے بھی اس کا معمول اپنایا کعبہ پر غلاف چڑھانے کو ’’کسوۃ الکعبۃ‘‘ کہا جاتا ہے۔

ان روایات سے یہ جواز ملتا ہے کہ جن خاص دنوں میں انسانیت کو کوئی شرف یا نعمت نصیب ہو اسے بطور عید منانا جائز ہے تو رسول خدا ﷺ کا اس کائنات میں تشریف لانا ہر شرف سے بڑا شرف اور تمام نعمتوں سے بڑی نعمت ہے۔ اس لحاظ سے یو م ولادت مصطفی ﷺ کو بطور عید منانا جائز اور مستحسن عمل ہے۔

حاصلِ کلام:

انبیائے کرام علیہم السلام کی ولادت اللہ تبارک وتعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ ہرنبی کی ولادت کے وسیلے سے اس کی امت کو باقی ساری نعمتیں نصیب ہوتی ہیں۔ ولادت مصطفی ﷺ کے وسیلے سے امت محمدی کو قرآن مجید، ماہ رمضان، جمعۃ المبارک، عیدالفطر، عیدالاضحی جیسی نعمتیں شرف و فضیلت اور سنت و سیرت مصطفی ﷺ کی نعمتیں ایک تسلسل کے ساتھ عطا ہوئی ہیں۔ ان تمام نعمتوں کا اصل موجب ربیع الاول کی وہ پرنور اور پرمسرت ساعت ہے۔ جس میں آپ ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی ہے۔ لہذا اس دن میں خوشی منانا اور جشن منانا ایمان کی علامت ہے اور ہمارے ایمان کا لازمی جزو ہے۔ یہ دن مسلمانوں کی عید کا دن ہے۔