رسول کریم ﷺ کی ولادت اور محافل میلاد کی برکات

تحریم رفعت

اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر کرنا اور شکر بجالانا فلاح و نجات اور خیر و برکت کا باعث اور تحدیث نعمت ہے۔ رسالت مآب ﷺ وجہ تخلیق کائنات ہیں اور آپ ﷺ کی آمد جمیع انسانیت کیلئے عظیم نعمت ایزدی کی حیثیت رکھتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت کے علاوہ بھی بعض انبیاء کرام کی ولادت کا تذکرہ کیا ہے جس سے انبیاء عظام کی عظمت اور شان نبوت کا واضح اشارہ ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں رسول اکرم ﷺ کی ولادت مبارکہ کا تذکرہ جمیل تمام مخلوقات کیلئے رحمت اور اپنا احسان عظیم کہہ کر کیا ہے۔ سنت خیرالانام، اقوال اہل بیت و فرمودات صحابہ سمیت جمیع محدثین کی روایتوں سے بھی مولدالنبی ﷺ اور آپ کے معجزات و کمالات کا حسین ذکر ثابت ہیں۔

ولادت مصطفی ﷺ کی برکات کا ظہور آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ علیہا السلام پر تب سے شروع ہو چکا تھا جب آپ رحم مادر میں تھے۔ امام محمد بن اسحاق اور ابو زکریا یحیٰ بن عائد کی روایات ہیں کہ سیدہ آمنہ علیہا السلام کو کبھی بھی ویسے رغبت اور عوارض کا سامنا نہیں ہوا جو عام طور پر حاملہ خواتین کو ہوتا ہے۔ صاحب خصائص الکبریٰ ولادت رسول اکرم ﷺ کا تذکرہ جمیل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جس سال نور محمدی ﷺ حضرت سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ودیعت ہوا وہ فتح و نصرت تر و تازگی اور خوشحالی کا سال کہلایا۔ اس سے پہلے اہل قریش بدحالی، عسرت و قحط سالی میں مبتلا تھے ولادت کی برکت سے اس سال اللہ تعالیٰ نے بے آب و گیاہ زمین کو شادابی اور ہریالی عطا فرمائی اور (سوکھے) درختوں کی شاخوں کو ہرا بھرا کرکے انہیں پھلوں سے بھر دیا۔ اہل قریش اس طرح ہر طرف سے کثیر خیر آنے سے خوشحال ہو گئے۔

معجزہ ولادت مصطفی ﷺ کی برکات کے حسین ذکر سیرت ابن ہشام اور طبقات ابن سعد میں حضرت سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے بے شک مجھ سے ایسا نور نکلا جس کی ضیاء پاشیوں سے سر زمین شام میں بصریٰ کے محلات میری نظروں کے سامنے روشن اور واضح ہو گئے۔ ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ اس نور سے شام کے محلات اور وہاں کے بازار اس قدر واضح نظر آنے لگے کہ میں نے بصریٰ میں چلنے والے اونٹوں کی گردنوں کو بھی دیکھ لیا۔ امام زرقانی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان بن ابی العاص کی والدہ فاطمہ بنت عبداللہ ثقیفہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب آپ ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی میں خانہ کعبہ کے پاس تھی میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے منور ہو گیا ہے اور ستارے زمین کے اتنے قریب آ گئے کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ کہیں وہ مجھ پر نہ گر پڑیں۔

ولادت طیبہ سے قبل عرب معاشرہ ظلمت و تاریکی اور برائیوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ کعبۃ اللہ کو کھلم کھلا بت پرستی کا گڑھ بنایا ہوا تھا۔ لڑکی کی ولادت کو نحوست قرار دیا جاتا تھا اور زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ آپ کی آمد برکات سے جہاں دنیا روشن و منور ہوئی وہیں ظلم و بربریت کے صنم کدے ہمیشہ کیلئے منہدم ہو گئے۔ کفر روانہ ہو چکا اور سلسلہ جود و کرم کا عظیم الشان آغاز جمیع انسانیت کیلئے مژدہ جانفزا بن کر مطلع دنیا پر طلوع ہوا۔ کائنات رنگ و بو میں آمد رسول اکرم ﷺ کے وقت سے ہی پرمسرت اور خوشگوار واقعات رونما ہونا شروع ہو گئے تھے، چنانچہ انسانیت کو ظلمت و تاریخی سے نجات اور ظالم و جابر طاغوتی قوتوں کو ہمیشہ کیلئے دفن کر دینے والا مسیحا مل گیا تھا۔ خطہ عرب جو شدید قحط سالی اور تنگدستی کا شکار تھا ولادت رسول اللہ ﷺ کی برکات سے باران رحمت کے نزول نے اس خطہ کو سرسبز و شاداب اور تر و تازہ کر دیا۔ آپ ﷺ کی ذات مبارکہ قاسم نعمت کی حیثیت رکھتی ہے جس کا مقابلہ دنیا کی دیگر کوئی نعمت نہیں کر سکتی۔

ولادت مصطفی ﷺ کی برکات کا تذکرہ کرتے ہوئے صحیح بخاری کی حدیث ہے جسے امام جلال الدین سیوطی نے بھی نقل کیا ہے کہ آپ ﷺ کے چچا ابولہب کو جب آپ کی لونڈی ثویبہ نے آپ کی ولادت کی خبر سنائی تو ابولہب نے اپنے بھتیجے کی پیدائش کی خوشی میں اسے آزاد کر دیا، ابولہب کی وفات کے بعد حضرت عباسؓ نے جب ابولہب کو خواب میں دیکھ کر حال دریافت کیا تو ابولہب کہتا ہے تم سے جدائی کے بعد میں نے کوئی بھلائی نہیں دیکھی سوائے اس کے کہ مجھے ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے مشروب پلایا جاتا ہے۔ اس واقعہ کی تاویل میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی مدارج النبوۃ میں بیان کرتے ہیں کہ وہ ابولہب جس کیلئے قرآن مجید میں وعید نازل ہوئی اسکے ہمیشہ کفر پر رہنے کے باجود ولادت مبارکہ کی خوشی میں لونڈی آزاد کرنے کا اجر اور جزا ملتی ہے تو رسول اکرم ﷺ کے امتی کا ولادت مصطفی ﷺ پر خوشی منانا اور مال خرچ کرنے کا اجر کیا ہوگا؟

امام جلال الدین سیوطیؒ بیان کرتے ہیں کہ مولدالنبی ﷺ کی خوشی منانا بھی آپ ﷺ کی تعظیم کا حصہ ہے اور رسول اکرم ﷺ یقیناً اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانی اور نعمت عظمیٰ ہیں لہٰذا آپ ﷺ کی تعظیم و توقیر افضل ترین عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ رسالت مآب ﷺ کی ذات مبارکہ پر نذرانہ دورود و سلام بھیجنے کی برکات میں سے ہے کہ انسان دینی و دنیاوی اور الغرض اخروی برکات بھی حاصل کرتا ہے اور اس اندازِ تشکر کے مستقل عمل کی برکت سے بارگاہ نبوی ﷺ کا قرب خاص بھی نصیب ہوتا ہے جس پر دلیل رسول اکرم ﷺ کے فرمان عالی شان کا مفہوم ہے کہ بروز قیامت تم میں سے میرے سب سے زیادہ قریب مجھ پر کثرت اور خلوص نیت سے دورد و سلام پڑھنے والا ہوگا۔

امام قسطلانی، امام نبہانی، امام طحاوی اور امام زرقانی سمیت مختلف آئمہ و مفسرین نے شب قدر اور شب نصف شعبان سمیت فضیلت والی راتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے شب ولادت رسول اللہ ﷺ کو سب سے افضل ترین رات قرار دیا ہے، کیونکہ اس رات وجہ تخلیق کائنات، صاحب قرآن مجید، امام الانبیا و خاتم المرسلین ﷺ دنیا میں مبعوث ہوئے۔ ان آئمہ کا مقصد ان مقدس اور بابرکت راتوں کی فضیلت کا انکار نہیں شب ولادت رسول اللہ ﷺ کی عظمت اور تقدس بیان کرنا ہے۔ بعینیہ قرآن مجید کی قدر و منزلت کا اعتراف کرنے سے پہلے صاحب قرآن کی قدر و منزلت کو صدق دل سے تسلیم کرنا ناگزیر ہے۔ لیلۃ القدر جسے قرآن مجید میں ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا گیا وہ بھی آپ کو عطا کی گئی۔ اگر آپ کی ذات گرامی نہ ہوتی تو نہ تو قرآن ہوتا اور نہ ہی دیگر فضیلت والی راتیں بلکہ اس کائنات ہست و بود کا وجود بھی نہ ہوتا۔ مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے شب قدر کی فضیلت کی بھی ایک حد مقرر فرمائی ہے جبکہ شب میلاد النبی ﷺ کی فضلیت اور عظمت و شرف زمان و مکان کے اعتبار سے لامحدود ہے۔

ولادت مبارکہ کی برکات کا تذکرہ کرتے ہوئے شیخ عبدالحق محدث دہلوی مدارج النبوہ میں لکھتے ہیں کہ احادیث میں آیا ہے کہ شبِ میلاد مبارک کو عالم ملکوت (فرشتوں کی دنیا) میں ندا کی گئی کہ سارے جہاں کو انوارِ قدس سے منور کر دو۔ زمین و آسمان کے تمام فرشتے خوشی و مسرت میں جھوم اٹھے اور داروغہ جنت کو حکم ہوا کہ فردوس اعلیٰ کو کھول دے اور سارے جہان کو خوشبوؤں سے معطر کر دے۔ جبکہ طبقات ابن سعد میں درج ہے کہ جب سرور کائنات ﷺ کا ظہور ہوا تو ساتھ ہی ایسا نور نکلا جس سے مشرق تا مغرب سب آفاق روشن ہو گئے۔ ایک دفعہ آقائے دوجہاں سرور کون مکان ﷺ کے گرد صحابہ کرام اس طرح جھرمٹ بنائے ہوئے بیٹھے تھے جیسے چاند کے گرد نور کا ہالہ ہوتا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ اپنی ولادت کے بارے میں کچھ ارشاد فرمائیے تو آپ ﷺ نے فرمایا میں اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور حضرت عیسی علیہ السلام کی بشارت ہوں۔

شیخ عبدُالعزیز دَبّاغؒ اکثر اپنے مریدین کو ولادت رسول کریم ﷺ کی مبارک گھڑی کے متعلق دعا اور قیام اللیل کی تلقین کرتے تھے۔ آپ کہا کرتے تھے کہ یہ دعا کی قبولت کا وقت ہے اور یہ وصف قیامت تک رہے گا۔ اس گھڑی میں رُوئے زمین کے غوث و قُطب اور دیگر اولیاء کِرام غارِ حِرا کے پاس جمع ہوتے ہیں۔ جس کی دُعا اُن (اولیائے کِرام)کی دُعا کے موافِق ہو جائے اللہ پاک اُس کی دعا کو قبول فرماتا اور اس کی ضَرورت پوری کرتا ہے۔

وہ مکان بڑی برکتوں کا خَزِینہ ہے کہ جہاں آپ ﷺ دنیا میں جلوہ گَر ہوئے، اسی لئے عُلَما و مُحَدِّثِین یہاں حاضری دیتے اور بَرَکات پاتے ہیں۔ حضرت علّامہ ابو الُحُسین محمد بن احمد جُبیر اُندَلُسیؒ اس مکانِ اَقدس کا ذِکْر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ مقدّس جگہ جہاں ایک ایسی سعادت والی بابرکت گھڑی میں نبی پاک ﷺ کی ولادت ہوئی جنہیں اللہ کریم نے تمام جہانوں کے لئے رَحْمت بنا دیا، اس بابرکت جگہ پر چاندی چڑھائی گئی (یہ جگہ یوں لگتی ہے) جیسے پانی کا چھوٹا سا حَوض ہو جس کی سَطْح چاندی کی ہو۔ یہ مبارک مکان ربیعُ الاوّل میں پیر کے دن کھولا جاتا ہے کیونکہ ربیعُ الاوّل حُضورِ اکرم ﷺ کی وِلادت کا مہینہ اور پیر ولادت کا دن ہے، لوگ اس مکان میں برکتیں لینے کے لئے داخل ہوتے ہیں۔ مکّہ مکرّمہ میں یہ دن ہمیشہ سے یومِ مَشْہود ہے، یعنی اس دن لوگ جمع ہوتے ہیں۔ اس مبارک مکان سے بہت سے لوگوں نے برکت پائی،عاشقانِ رسول یہاں حاضر ہوتے، اس کا ادب و احترام کرتے، ذِکر و اَذکار کرتے، محفلِ میلاد شریف منعقد کرتے، نبی پاک ﷺ کے فضائل و کمالات بیان کرتے، خُوب صلوٰۃ و سلام پڑھتے اور اللہ کریم کی رحمتوں کا مشاہدہ بھی کرتے تھے۔

حضرت امام عبدُالرّحیم بن حسین عِراقیؒ سے منقول ہے کہ خلیفہ ہارونُ الرّشید کی والدہ خَیْزُرَان نے ولادتِ مصطفیٰ ﷺ والا مکان خرید کر مسجد بنائی، اس سے پہلے جو لوگ اس میں رہتے تھے اُن کا بیان ہے کہ اللہ پاک کی قسم اس گھر میں ہمیں نہ کوئی مصیبت آئی نہ کسی چیز کی حاجت ہوئی، جب ہم یہاں سے چلے گئے تو ہم پر زمانہ تنگ ہوگیا۔

شارحِ بُخاری امام احمد بن محمد قَسْطَلانی المواہب اللدنیہ میں بیان کرتے ہیں کہ ولادتِ باسعادت کے دنوں میں محفلِ میلاد کرنے کے فوائد میں سے تجرِبہ شدہ فائدہ ہے کہ اس سال امن و امان رہتا ہے۔ اللہ پاک اُس شخص پر رَحمت نازِل فرمائے جس نے ماہِ وِلادَت کی راتوں کوعید بنا لیا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کو جمیع انسانیت کیلئے نعمت، رحمت، سرچشمہ ہدایت و نور اور اسوہ حسنہ بنا کر کائنات ہست و بود میں مبعوث فرمایا گیا۔ متعدد آیات مبارکہ، احادیث نبویہ اور اقوال و افعال سلف صالحین سے یہ بات صراحتاً ثابت ہے کہ کسی اللہ تعالیٰ کی نعمت، فضل و کرم اور احسان پر شکر بجا لاتے ہوئے صدقہ و خیرات کرنا اور امورِ خیر کرنے سے نہ صرف اجر و ثواب ملتا ہے بلکہ اَن گنت برکات کا حصول بھی ہوتا ہے تو رسول کریم ﷺ کی آمد کی خوشی میں ایسے اعمال بجا لانا سب سے بہترین وظیفہ ہے۔