عظمت و فضیلت شیخ سید عبدالقادر جیلانیؒ

سعدیہ کریم

حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؒ

محبوب سبحانی غوث الثقلین حضور غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ گیلان کے رہنے والے تھے۔ آپ کا لقب محی الدین ہے۔ محی الدین کا مطلب ہے دین کو زندہ کرنے والا، اس لقب کی وجہ تسمیہ کے متعلق ایک واقعہ ہے جو یوں ہے کہ ایک دن حضور غوث پاک کہیں جارہے تھے۔ راستے میں ایک کمزور مریض کو دیکھا جو اٹھ نہیں پارہا تھا اس نے آپ کو آواز دی کہ مجھے سہارا دے کر اٹھائیں۔ آپ نے اسے اٹھایا اور پوچھا کہ تو کون ہے؟ تو اس نے کہا کہ میں آپ کا دین ہوں۔ ضعیف اور ناتواں (مردہ) سا ہوگیا ہوں۔ آپ کی بدولت ہی مجھے زندگی ملے گی اور ملی ہے جب آپ جامع مسجد میں تشریف لے گئے تو تمام لوگ آپ کو عبدالقادر کے بجائے محی الدین کے لقب سے پکارنے لگے۔

آپ نے فرمایا کہ میں امام حسینؓ کی اولاد سے ہوں اور مخدع (قرب خاص) میرا مقام ہے اور میرا قدم تمام اولیاء کی گردنوں پر ہے۔ آپ نسب نامہ کے مطابق والد کی طرف سے حسنی اور والدہ کی طرف سے حسینی ہیں۔

آپ فرماتے ہیں کہ میرا مشہور نام عبدالقادر ہے اور میرے نانا حضور نبی اکرم ﷺ چشمہ کمال کے مالک ہیں۔ یہاں پر جد کا لفظ آپ ﷺ کے لیے ہی بولا گیا ہے۔

تعلیم:

حضور غوث پاک نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں حاصل کی پھر بغداد کا رخ کیا اور وہاں کے معروف عالم دین ابو سعید المخزومی اور ابوبکر بن المظفر بن سوس سے ظاہری اور باطنی علوم میں کمال حاصل کیا اور شیخ حمادالدباس کی صحبت سے مستفید ہوئے۔ آپ کی شخصیت بڑی پروقار اور بارعب تھی چہرے پر جلال دیکھ کر لوگ مرعوب ہوجایا کرتے تھے۔ آپ نے 10 ربیع الثانی 561ھ کو بغداد میں انتقال فرمایا۔

آپ درویش صفت انسان تھے۔ تمام ظاہری اور باطنی علوم میں یدطولیٰ اور مجتہدانہ ملکہ رکھتے تھے۔ خصوصاً تفسیر، حدیث، فقہ اور تصوف پر دقائق و حقائق بیان فرمایا کرتے تھے۔ آپ کی مجالس میں دور دور سے نامور فضلاء اور علماء حاضر ہوکر حلقہ درس میں شامل ہوتے۔ جب آپ وعظ فرماتے تو فصاحت و بلاغت آپ پر نثار ہوتی۔ عربی اور فارسی دونوں زبانوں پر ملکہ حاصل تھا آپ کا مذہب حنبلی تھا۔ شافعی و حنبلی فقہاء کے مقتداء و امام تھے۔ آپ اپنے بارے میں فرماتے تھے کہ

’’پہلے لوگوں کے سورج غروب ہوگئے لیکن ہمارا سورج ہمیشہ بلندی کے کناروںپر رہے گا اور کبھی غروب نہیں ہوگا۔‘‘

شان سید عبدالقادر جیلانی بزبان مولانا عبدالرحمن جامیؒ:

مولانا عبدالرحمن جامی بیان کرتے ہیں:

’’جس وقت حضور غوث پاک نے یہ ارشاد فرمایا کہ میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کے دل پر ایک تجلی ہوئی اور حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف سے ملائکہ مقربین کی ایک جماعت ان کے پاس ایک لباس لے کر آئی جو تمام اولیاء متقدمین اور متاخرین کی موجودگی میں انھیں پہنایا گیا۔ زندہ اولیاء کرام تو اپنے اجسام کے ساتھ وہاں حاضر تھے لیکن جو وصال پاچکے تھے ان کی ارواح موجود تھیں اور اس وقت ملائکہ اور رجال الغیب نے اس مجلس کو گھیرے میں لیا ہوا تھا اور ہوا میں صف بستہ کھڑے تھے۔ اس اعلان کے بعد روئے زمین کا کوئی ولی ایسا نہ تھا جس نے اپنی گردن کو نہ جھکادیا ہو مگر ایک عجمی نے انکار کیا تو اسکا حال محو ہوگیا۔ (ولایت سلب کرلی گئی)۔‘‘

شان سید عبدالقادر جیلانی بزبان حضرت خلیفہ بن موسیٰؒ:

حضرت خلیفہ بن موسیٰؒ کا ایک خواب حضور غوث الثقلین کی جلالت شان کی زبردست دلیل ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو خواب میں دیکھا تو عرض کیا کہ حضور غوث پاک نے فرمایا ہے:

قدمی هذه علی رقبه کل ولی اللہ.

تو حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: شیخ عبدالقادر نے سچ کہا اور وہ کیوں نہ سچ کہیں کہ وہ خود قطب ہیں اور میں ان کا نگہبان ہوں۔

شانِ سید عبدالقادر جیلانی بزبان شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ:

آپ فرماتے ہیں: اولیائے امت اور ارباب سلاسل میں سے راہ جذب کی تکمیل کے بعد جو اس نسبت اویسیہ کی طرف سب سے زیادہ مائل اور اس مرتبہ پر بدرجہ اتم فائز ہوئے ہیں وہ حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی ہیں۔ اسی لیے مشائخ نے کہا ہے کہ وہ اپنی قبر میں زندوں کی طرح تصرف کرتے ہیں۔ اپنی ایک اور کتاب تفہیمات میں وہ لکھتے ہیں:

’’شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کو عالم میں اثرو نفوذ کا ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اس لیے کہ انھیں وصال کے بعد مالائے اعلیٰ کی ہئیت حاصل ہوگئی ہے اور ان میں وہ وجود منعکس ہوگیا ہے جو تمام عالم میں جاری و ساری ہے۔ لہذا ان کے طریقے (سلسلہ قادریہ) میں بھی ایک خاص روح اور زندگی پیدا ہوگئی ہے۔‘‘

شان شاہ جیلاں بزبان شاہ جیلاں:

سید عبدالقادر جیلانی کو شاہ جیلاں کہہ کر بھی پکارا جاتا ہے انھوں نے اپنے لیے ایک منظوم قصیدہ کہا جو قصیدہ غوثیہ کے نام سے مشہور و معروف ہے۔

اس قصیدے میں ان کے معجزات و کرامات کا اظہار ہے تاکہ لوگ ان کے بارے میں جان سکیں اور ان کے علوم سے فائدہ اٹھائیں۔ اس قصیدہ میں انھوں نے جن کمالات و کرامات کا اظہار کیا ہے وہ قرآن کریم سے ثابت ہیں۔ مثلاً مردوں کا زندہ کرنا، دریائوں کا خشک ہوجانا، پہاڑوں کا ریزہ ریزہ ہوجانا، زمانہ کی اطلاع کرنا، آگ کا بجھ جانا وغیرہ۔ ان تمام باتوں کا ظہور انبیاء و مرسلین کے ہاتھوں پر ہوا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسانوں میں ایسی کرامات کا ظہور ممکن ہے۔

شیخ سید عبدالقادر جیلانی کا شرف و عظمت:

اپنے منظوم قصیدے کے پہلے حصے میں آپ نے اپنی عظمت و شرف کو بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبت کی وجہ سے مجھے وصال الہٰی حاصل ہوا کیونکہ جب محبت ہو تو وصال نصیب ہوتا ہے یعنی عاشق اپنے معشوق سے مل جاتا ہے یا جڑ جاتا ہے جب وصال حق ہوا تو میں اس قابل ہوگیا کہ فیضان الہٰی اللہ تعالیٰ سے طلب کروں پھر میں اس نشہ کا متحمل ہوگیا یعنی حق تعالیٰ سے وصال کے بعد انسان کو خاص استعداد اور طاقت نصیب ہوتی ہے جو قبل از وصال حاصل نہیں ہوسکتی۔

جب مجھے وصال الہٰی حاصل ہوگیا تو میرا کاسہ دل فیضان الہٰی کا ظرف بن گیا۔ جس طرح پانی نشیب کی طرف جلدی جاتا ہے اسی طرح فیضان الہٰی میری طبعی کشش کی وجہ سے میری طرف دوڑتا ہوا آیا۔ یعنی میں جس چیز کا طالب تھا وہ مجھے مل گئی اور میں اس کو پی کر مست و مدہوش ہوگیا لیکن میری مستی کی یہ کیفیت چھپی ہوئی نہ رہی بلکہ میرے احباب نے بھی میری مستی کا مشاہدہ کرلیا۔

اللہ تعالیٰ کے انعامات کا تذکرہ:

غوث پاک خود پر اللہ تعالیٰ کے انعامات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں یعنی خدا نے مجھے وہ لباس پہنایا ہے جس پر عزم (مستحکم ارادے) کا بیل بوٹا تھا اور میرے سر پر کمالات کے تاج رکھے گئے ہیں۔ عزم ایک ایسی قوت ہے جس کی وجہ سے منازل عرفان طے کرنے میں عارف مسلسل کوشش کرتا ہے اور تھکتا نہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے عرفان و بصیرت کا وہ لباس عطا فرمایا ہے جس میں عزم کے پھول بوٹے ہیں اس وجہ سے میرے ارادے میں کبھی لغزش نہیں ہوتی اور مجھے ہر ایک طریقہ ولایت کا تاج کمال عطا کیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے میں ہر ایک طریق میں بیعت کرسکتا ہوں اور خدا نے مجھے اپنے قدیم راز پر مطلع فرمایا اور میری گردن میں رضا و تسلیم کا گلوبند ڈالا اور جو کچھ میں نے مانگا وہ مجھے عطا کردیا۔

یہاں پر جس سر قدیم کا تذکرہ ہے وہ قرآن کریم کے اسرار کی معرفت اور اسرار علم الغیب ہیں جو ان کو عطا کیے گئے ہیں۔ ان کے حصول کے لیے رضا و تسلیم کی ضرورت ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے پہلے عطا کردی اور مجھے صبرو تحمل کا پیکر بنادیا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام اقطاب پر حاکم و سردار بنایا ہے اور میرا حکم ہر حال میں جاری ہے کیونکہ ان کو سر قدیم مل گیا تھا اور جن کو سر قدیم مل جائے اسکی حکومت اور حکم ہمیشہ جاری رہتا ہے اسے کبھی زوال نہیں آتا۔ اسی لیے آپ ہمیشہ تمام اولیاء کے سردار رہیں گے۔ اسی سر قدیم کا فیض تھا کہ آپ قرآن کریم کی ایک ایک آیت کی 40 تفاسیر بیان کیا کرتے۔

اپنے خوارق و کرامات کا تذکرہ:

یعنی اگر میں اپنا راز دریائوں اور سمندروں پر ڈالوں تو کل دریا اور سمندر تہ نشیں زوال ہوجائیں یعنی جو سر قدیم مجھے عطا کیا گیا ہے۔ اس کی تاثیر اور طاقت اتنی زیادہ ہے کہ اگر اس کو دریائوں پر ظاہر کردیا جائے تو ان کا پانی زمین میں جذب ہوکر خشک ہوجائے اور ان کو ایسا زوال آجائے کہ ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہے۔ اور اگر میں اپنا راز پہاڑوں پر ڈال دوں تو وہ پِس کر ریت جیسے باریک ہوجائیں اور دکھائی بھی نہ دیں یعنی میرے علم کی طاقت اس قدر زیادہ ہے کہ پہاڑ بھی اس کی تاثیر سے پاش پاش ہوکر ریت کے ذرے بن جائیں۔

اور اگر میں اپنا راز آگ پر ڈالوں تو میرے راز کے اثر سے آگ بھی بجھ کر خاکستر ہوجائے۔ یہاں پر یہ جاننا چاہیے کہ یہ راز کیا ہے؟ جب عارف کسی منزل کو طے کرتا ہے تو ذوق حاصل ہوتا ہے اور وہ منزل اس کا حال ہوتا ہے اور اس حال سے جو قوت پیدا ہوتی ہے وہ راز کہلاتی ہے اور غوث پاک اپنے راز کی شدت تاثیر کا تذکرہ کررہے ہیں۔ اسی راز سے وہ دریائوں کو خشک، پہاڑوں کو ریزہ ریزہ اور آگ کو سرد کرسکتے ہیں۔

مزید فرماتے ہیں اگر میں اپنے راز کو کسی مردہ پر ڈال دوں تو وہ فوراً اللہ تعالیٰ کے حکم سے کھڑا ہوجائے اور چلنے پھرنے لگ جائے۔ ہم جانتے ہیں کہ مظاہر فطرت میں دو بڑی چیزیں ہیں۔ آگ اور پانی اور سب سے زیادہ جسامت پہاڑوں کی ہوتی ہے اور مردہ انسان کا زندہ ہونا بظاہر ناممکن ہوتا ہے مگر حضور غوث پاک کے سر قدیم کی تاثیر ان تمام موجودات پر غالب ہوتی ہے جس کی دلیل قرآن میں موجود ہے کہ ابراہیم علیہ السلام پر نار گلزار ہوگئی، موسیٰ علیہ السلام کے لیے دریا خشک ہوگیا، کئی پہاڑ اٹھا لیے گئے اور ان کا وجود باقی نہیں رہا۔ عیسیٰ علیہ السلام نے مردے زندہ کیے اور یہ تمام کام دراصل خدا کی قدرت کاملہ کا مظہر ہیں۔

وہ فرماتے ہیں کہ اے منکر کرامات میرے ساتھ جھگڑے کو ختم کر حقیقت تو یہ ہے کہ جو مہینے اور زمانے گزر گئے ہیں یا گزر رہے ہیں یہ سب میرے پاس آتے ہیں اور مجھے اپنا حال سناتے ہیں اور مجھے گزشتہ اور آئندہ واقعات کی خبر اور اطلاع دیتے ہیں۔

مریدوں پر اپنی نوازشات اور مہربانیوں کا بیان:

حضور غوث پاک اپنے مریدین اور ماننے والوں کو بھی اپنے قصیدے میں شامل فرماتے ہوئے ان پر اپنی نوازشات اور مہربانیوں کو بھی ظاہر فرماتے ہیں۔

یعنی اے میرے مرید اللہ تعالیٰ سے عشق کرو اور خوش رہو کیونکہ جب تم عشق الہٰی سے سرشار ہوتے ہو توپھر تم جو چاہے وہ کرسکتے ہو اللہ تعالیٰ اس عشق کی وجہ سے تمھیں قوتیں اور طاقتیں عطا فرماتا ہے اور میرا نام بزرگی ہے۔ میں اپنے مریدوں کو منازل عرفان طے کرنے کی ہدایت کرتا ہوں کیونکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے وما تشائون الا ان یشاء اللہ یعنی اللہ سے عشق کرنے والوں کی مرضی اور ارادہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور ارادہ ہوتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ تنگی اور خوشی دونوں حالتوں میں خوش رہنا چاہئے اور خدا کے اسرار کو اس کی حمد کے طور پر بیان کرنا چاہئے۔

اپنے مریدین کی ذمہ داری لیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرے مریدو! تمھیں کبھی ناکامی نہیں ہوگی اور کوئی خوف کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ تم سب میرے مرید ہو اور اللہ تعالیٰ مجھ پر راضی ہے۔ میرا مالک اور محافظ ہے اور میں اسی کی عطا کردہ توفیق سے اپنے مریدین کی دستگیری کرتا ہوں اور ہر مشکل میں مریدوں کا ساتھ دیتا ہوں۔

اولیاء پر اپنی فضیلت اور شوکت کے اظہار کا بیان:

یعنی آسمان اور زمین میں میرے نام کے ڈنکے بجائے جاتے ہیں اور نقیب سعادت میرے لیے ظاہر ہورہے ہیں۔ آسمانی ملائکہ اور زمین کے انسانوں میں اولیاء کرام میں میرے نام کی شہرت ہے اور رہے گی۔ کیونکہ سعادت ازلی کے نقیب جو بادشاہ کے آگے پروٹوکول کے لیے چلتے ہیں وہ میرے آگے آگے چل رہے ہیں جہاں پر بھی میں جاتا ہوں راستوں میں للکارتے ہیں اور میرا چرچا عام ہورہا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے تمام شہر میری ملکیت ہیں اور میرے حکم کے تابع ہیں اورمیرا دل میری پیدائش سے پہلے ہی کشف الہٰی کے لیے پاک صاف کرکے منتخب کرلیا گیا تھا۔

میں اللہ تعالیٰ کے تمام شہروں کی طرف دیکھتا ہوں تو وہ مجھے رائی کے دانے کے برابر نظر آتے ہیں۔ علم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں کہ میں ظاہری و باطنی علوم حاصل کرتے کرتے قطب بن گیا اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ مدد و نصرت سے منزل سعادت کو پہنچ گیا ہوں۔ یعنی مجھے جو کچھ بھی ملا ہے علم کی وجہ سے ملا ہے بغیر علم کے کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

مریدین کی صفات کا تذکرہ:

اپنے مریدین کی صفات کا تذکرہ بھی انتہائی دلنشین انداز میں کیا ہے۔ فرماتے ہیں۔ یعنی میرے مرید تو وہ ہیں جو صائم الدہر اور قائم اللیل ہیں یعنی دن کو روزہ رکھتے ہیں اور راتیں اللہ کے حضور سجدہ ریزی میں بسر کرتے ہیں ان کی عبادتوں اور ریاضتوں اور اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے ان کی پیشانیاں رات کے اندھیروں میں موتیوں کی طرح چمکتی ہیں۔

ہر ایک ولی میرے قدم بقدم ہے اور میں خود پیغمبر علیہ السلام کے نقش قدم پر ہوں جو آسمان رسالت کے بدر کمال ہیں۔ یہاں پر وہ اتباع مصطفی ﷺ کا تذکرہ کرتے ہیں کہ زمین کے تمام اولیاء شریعت اور معرفت کے طریقوں میں میرے تابع ہیں اور میں حضور اکرم ﷺ کے تابع ہوں۔ اسی اتباع کی وجہ سے میرا قدم تمام اولیاء کی گردنوں پر ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اے میرے مریدو! تم کسی چغل خور (بدعقیدہ) سے مت ڈرو کیونکہ وہ میرا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ میں جنگ میں ثابت قدم ہوں اور دشمنوں کو قتل کرنے والا ہوں۔ یہاں پر ان بدعقیدہ لوگوں کا رد کیا گیا ہے جو حضور غوث پاک کی شان میں گستاخی کرتے ہیں۔ وہ اپنے مریدوں کو ان سے نہ ڈرنے کا حکم دے رہے ہیں کہ بتارہے ہیں کہ وہ کتنی ہی چالیں کیوں نہ چلیں میرا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ میں خود انھیں تہ تیغ کردوں گا۔ میں خدا کا بندہ اور اس کی جماعت ہوں اور دنیا میں فتح صرف خدا کے بندوں اور اس کی جماعت کو ہی حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے میں ہمیشہ فاتح رہوں گا۔