علماء اسلام کو سائنسی انداز میں پیش کریں

مرتبہ: فاطمہ سعید

آج کا پڑھا لکھا ذہن، نوجوان اور دانشور طبقہ دور جدید میں معاصر علوم و فنون کا مطالعہ تنقیدی اور تقابلی انداز سے کررہا ہے جس سے اس کے قلب و ذہن پر ایسے گہرے اور دور رس اثرات مرتسم ہورہے ہیں جو اس امر کے متقاضی ہیں کہ اسلام کو روایتی انداز کی بجائے سائنسی انداز سے پیش کیا جائے اور ہر بات کا غیر جذباتی انداز سے تجزیہ اور چھان پھٹک کرکے حقیقت تک پہنچا جائے اور اسلام کو فلسفیانہ انداز، منطق اور دلائل کے ساتھ اتنی قوت اور مضبوطی سے غیر مبہم انداز میں تقابلی اور تنقیدی اسلوب میں پیش کیا جائے کہ باطل افکار، نظریات و تصورات اور استدلال کی ساری قوت اس طرح سے ٹوٹ جائے کہ اس کے پاس پسپا ہونے کے سوا اور کوئی راستہ نہ ہے اگر موجودہ تعلیم یافتہ طبقے کو اسلام کی صحیح روح سے جدید علمی و منطقی انداز سے روشناس کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ مغربی یلغار کا اس طرح منہ موڑ دیا جائے کہ اس کے قدم اکھڑ کر رہ جائیں اور اسلام کی آفاقی اور ابدی حقانیت کو تسلیم کرنے کے سوا اس کے لیے اور کوئی چارہ نہ ہو۔

جدید فکر اور نظریے کے سوتے مادیت سے پھوٹتے ہیں جبکہ اسلامی نظریے اور فکر کا سرچشمہ اور ماخذ گنبد خضریٰ کی ذات گرامی اور وہ بنیادی و اساسی تعلیمات ہیں جن کا سرچشمہ قرآن ہے۔ قرآن اور سنت مصطفوی ﷺ پر مبنی نظریے کا موازنہ جدید سائنسی فکر سے کریں تو یہ حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ اسلام کے پاس ہر موقف کے لیے دلیل کی قوت ہے۔

لہذا اس امر کی ضرورت آج پہلے سے کہیں زیادہ ہے کہ اسلام کو اس طریقہ سے پڑھا، سمجھا اور پیش کیا جائے۔ مسلمان نوجوان کے عقائد کی بنیادیں متزلزل ہونے کی بجائے مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جائیں۔

استدلال کی اہمیت:

اسلام میں استدلال کی اہمیت کا اندازہ حضور ﷺ کے اعلان نبوت کے بعد ہوجاتا ہے جب کفار و مشرکین نے آقائے دو جہاں ﷺ سے آپ کی بعثت مبارکہ کے بعد دلیل طلب کی۔ اگر آپ چاہتے تو کوئی امر مانع نہیں تھا کہ آپ اسی وقت کوئی معجزہ دکھا دیتے ہیں جس سے کافروں کی زبانوں پر مہر سکوت لگ جاتی۔ لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا اور عقیدہ توحید کو حکمت وتدبر کے علمی انداز سے سمجھانے کی کوشش کی۔

قبل از نبوت چالیس سالہ زندگی کی سیرت کے حوالے سے اپنے بچپن سے بلوغت اور پختگی کی عمر تک جلوت و خلوت کے تمام شب و روز پیش کردیئے جو ایک کھلی کتاب کی طرح ان کے سامنے تھے۔ آپ ﷺ نے کھلا چیلنج دیا کہ میری زندگی کے کسی ورق پر کوئی دھبہ ثابت کرو ورنہ میرے دعویٰ توحید سے انکار کردینا۔

سائنسی انکشافات کی تصدیق۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں:

یہ ایک بدیہی امر ہے کہ آج سے چودہ سو سال پیشتر قرآن مجید اور احادیث نبوی ﷺ میں بہت سی ایسی حقیقتیں منکشف کردی گئی تھیں جن کی توثیق و تصدیق حقائق کے موجودہ سائنسی مطالعے سے ممکن ہے۔ جدید تحقیق سے سائنس نے ثابت کیا ہے کہ یہ فضا جو کم و بیش دو ہزار میل پر محیط ہے اس میں مختلف فضائی طبقات پائے جاتے ہیں۔ انہیں سائنسی اصطلاح میں (Atmospheric Layers) سے موسوم کیا جاتا ہے۔ نظام شمسی سے دو قسم کی شعاعیں آتی ہیں۔ سورج سے آنے والی شعاعیں کرہ ارضی کو حرارت و توانائی فراہم کرتی ہیں جو انسانی زندگی کے لیے مفید اور ناگزیر ہیں جبکہ نظام شمسی سے بھی اوپر کی فضا سے آنے والی شعاعیں جو انسانی زندگی کے لیے مضر اور خطرناک ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ اور شان ربوبیت ملاحظہ ہو کہ جب یہ نقصان دہ اور مہلک شعاعیں مذکورہ بالا فضائی طبقات میں سے گزرتی ہیں تو وہ ان شعاعوں کو اپنے اندر جذب کرلیتے ہیں جبکہ مفید اور بے ضرر شعاعیں ان سے بے روک ٹوک گزر کر زمین تک پہنچ جاتی ہیں۔ اس طرح فضائی طبقات میں پائی جانے والی یہ شعاعیں گویا فلٹر کا کام کرتی ہیں۔ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ سات طبقات جن کا انکشاف سائنس نے اب کیا ہے قرآن حکیم نے آج سے صدیوں پہلے انسان کو ان لفظوں میں بیان کردیا تھا:

وَ بَنَیْنَا فَوْقَکُمْ سَبْعًا شِدَادًا.

(النباء، 78: 12)

’’اور (اب خلائی کائنات میں بھی غور کرو) ہم نے تمہارے اوپر سات مضبوط (طبقات) بنائے۔‘‘

تخلیق کائنات کے باب میں بہت سے حقائق جن تک سائنس کو کافی عرصہ بعد رسائی حاصل ہوئی۔ ہر شے سے پہلے نورالوہیت سے نور محمدی ﷺ کا ظہور ہوا۔ آج تک جس قدر کائنات کی تخلیق کے باب میں تحقیق ہوئی ہے اس سے آج کا انسان اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اس کائنات کی ابتدا روشنی کے ایک ہیولے سے ہوئی۔ گویا تصور تخلیق یہ ہے کہ تخلیق کائنات کا آغاز ایک تحقیقی وحدت سے ہوا۔ جب شکست و ریخت کا شکار ہوئی تو اس کے مختلف حصے جدا ہوکر اس مادی کائنات کو وجود میں لائے۔ قرآن حکیم میں اس حقیقت کی نشان دہی ان الفاظ میں کی گئی ہے:

اَوَلَمْ یَرَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا.

(الانبیاء، 21: 30)

’’اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا۔‘‘

اس آیہ کریمہ میں دو الفاظ رتق اور فتق قابل غور ہیں۔ جبکہ فتق کا مفہوم اس کے برعکس جڑے ہوئے وجودوں کو پھوڑ دینا اور ایک دوسرے سے جدا کرنا ہے۔ آئن سٹائن نے 1915ء میں نظریہ اضافت کے ذریعے مادے، توانائی، کشش ثقل، مکان و زمان کے باہمی تعلق کو واضح کرکے ساکن کائنات کے نظریے کو رد کردیا۔ لیکن کائنات میں مسلسل توسیع کے عمل کو جو اس کے معرض وجود میں آنے سے اب تک جاری ہے اور ہمیشہ جاری و ساری رہے گا، یہ نظریہ بھی زیادہ واضح نہ کرسکا۔

ایڈون ہبل پہلا امریکی سائنس دان تھا جس نے Big Bang Theory پیش کرکے فتق کے بارے میں قرآنی بیان کی تصدیق کی ہے اور اس کی تحقیق کی رو سے یہ کائنات غیر متغیر نہیں بلکہ مسلسل وسعت پذیر (Ever Expanding) وحدت ہے۔

آج سے کوئی پچیس (25) سال پہلے دو امریکی سائنسدانوں آرنو پینزیار اور رابرٹ ولسن نے پیش کی جس کی رو سے کائنات کی ابتداء ایک تخلیقی وحدت سے ہوئی جو غیر معمولی توانائی کی حامل تھی اور جس کے یکا یک پھٹ جانے سے اس کائنات زیریں و بالا کے مختلف حصے میں زمینی و آسمانی طبقات، کہکشائیں وغیرہ شامل ہیں وجود میں آئے۔

اس مادی کائنات کی تخلیق سے پہلے جب سوائے خلائے کے کچھ بھی نہ تھا ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ قرآن حکیم میں اس حقیقت کو یوں بیان کیا گیا:

وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ.

(الانبیاء، 21: 30)

’’اور ہم نے (زمین پر) ہر پیکرِ حیات (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی۔‘‘

اس آیہ کریمہ سے ثابت ہے کہ مظاہر زندگی کا آغاز پانی سے ہوا اور چیز اپنے نمو کے لیے پانی کی مرہون منت ہے۔

سائنس اور قرآن کا تقابلی جائزہ:

سائنسی علم اور ایجادات و اکتشافات تو اس دور کی پیداوار ہیں لیکن قرآن نے آج سے چودہ صدیاں پہلے یہ حقائق منکشف کردیں جب سائنس کے نام سے دنیا آشنا نہ تھی۔ تخلیق کائنات سے پہلے گیسوں اور دھویں کے سوا اور کچھ نہ تھا اور اسی طرح جب یہ کائنات اپنے انجام کو پہنچے گی تو سائنسی تحقیق کی رو سے تب دھویں کی پہلی حالت یعنی Gaseous state کی کارفرمائی ہوگی۔ قرآن مجید میں دھویں کی اس حالت کو ’’دخان‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ.

(الدخان، 44: 10)

’’سو آپ اُس دن کا انتظار کریں جب آسمان واضح دھواں ظاہر کر دے گا۔‘‘

خلائی سائنس پر آج مغربی اور اشتراکی دنیا میں جو تحقیقات ہورہی ہیں اس کے مطابق اس کائنات کا انجام آج سے پینسٹھ ارب سال بعد ہوگا یعنی جسے ہم قیامت کہتے ہیں وہ سائنسی اندازے کے مطابق اتنے عرصے بعد برپا ہوگی۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ جب کائنات اپنے انجام کو پہنچے گی توجیسے شروع میں دھماکہ (Explasion) ہوا تھا ویسے ہی کائنات کے اجرام فلکی آپس میں ٹکرا جائیں گے۔

کتنے نادان ہیں وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ کو آنے والے کل کا علم نہیں ہے جبکہ سائنس آج سے پینسٹھ ارب سال بعد کی بات کررہی ہے۔ اگر اسلام کا یہ چہرہ لے کر ہم اغیار کے سامنے جائیں گے تو لامحالہ نبوت کا علم سائنس کے مقابلے میں کم تر ٹھہرے گا۔ حالانکہ سائنس کا انحصار تو محض ظن و تخمین اور قیاسی علم پر ہے جبکہ قرآن اور ہمارے نبی کا علم علم الیقین بلکہ عین الیقین کے درجے پر ہے اور جو کچھ کتاب اللہ اور احادیث پاک میں بیان فرمایا گیا ہے اس کی حقانیت اور صداقت میں ذرہ بھر شک کی گنجائش نہیں لیکن اس حتمی و قطعی علم پر یقین رکھنے والے عملاً بے یقینی، کج فہمی اور بے بصیرتی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ افسوس ہم نے تحقیق و تفکر چھوڑ دیا ورنہ ایسا نہ ہوتا۔

جدید سائنسی تحقیقات پر قرآنی استدلال کی حکمت:

سائنس کہتی ہے کہ کائنات کے خاتمے کے ساتھ گیسیں ختم ہوجائیں گی اور چاند، سورج ستارے سب بے نور ہوجائیں گے۔ قرآن حکیم میں اس ہونے والے واقعے کا ذکر یوں بیان فرمادیا گیا ہے:

اِذَا السَّمَآءُ انْفَطَرَتْ. وَ اِذَا الْکَوَاکِبُ انْتَثَرَتْ.

(الانفطار، 82: 1-2)

’’جب (سب) آسمانی کرّے پھٹ جائیں گے۔ اور جب سیارے بکھر جائیں گے۔

سائنس سے اسلام کے تقابل کا منشا و مدعا یہ ہے کہ اگر اسلام اور قرآن و حدیث کامطالعہ سائنس کے حوالے سے کیا جائے اور اسے سائنٹیفک انداز سے پیش کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ باطل کا وہ حملہ پسپا نہ ہوجائے جو عقل و شعور اور استدلال کے راستے سے آج کے نوجوان کے ایمان پر کیا جارہا ہے۔

اسلام ہر مہذب دور کی تعلیمات سے اعلیٰ ہے:

آج کی مہذب دنیا میں شہادت پیش کرنے کا یہی عدالتی طریقہ رائج ہے کہ جب ایک فریق اپنا دعویٰ پیش کرتا ہے تودوسرا اپنی صفائی میں جواب دعویٰ پیش کرتا ہے۔ جو بات قانون کے تقاضے پورے کرنے کے لیے آج کے عدالتی نظام میں بیان کردی گئی ہے اسے آقائے دو جہاں ﷺ نے چودہ سو سال پہلے بیان فرمایا تھا:

البینة علی المدعی والیمین علی من انکر.

’’گواہی ہے اس کے مدعی پر اور قسم ہے اس کے انکار کرنے والے پر۔‘‘

آج کا نوجوان جس نے سارے تصورات مغربی قانون کی کتابوں سے پڑھے ہیں اس کا ذہن اسلام کے بارے میں اس لیے متزلزل ہے کہ اس کے نزدیک یہ سب کچھ مغرب کی پیداوار ہے۔ اگر وہ یہ جان لے کہ ان مسائل کا حل قرآن و حدیث میں موجود ہے تو اس کے خلاف اسلام تصورات کی طرف لپکنے کے امکانات باقی نہ رہیں۔ موجودہ نسل کی گمراہی پر قصور وار ان کے بزرگ ہیں جنہوں نے ان کو یہ تعلیم ہی نہیں دی۔

اسلام میں نظریہ دولت:

اسلام کے تصور معیشت میں ارتکاز زر یعنی دولت کے چند ہاتھوں میں سمٹ آنے کی مطلقاً کوئی گنجائش نہیں وہ تو اس بات کا حامی ہے کہ فلاحی اور خوشحالی معاشرے کے قیام کے لیے گردش دولت کا ایسا نظام قائم کردیا جائے کہ سرمایہ اور دولت ہر شخص کے پاس پہنچے اور معاشی تعطل اور ناہمواریوں کا اس طرح خاتمہ کردیا جائے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد گرامی ہے:

کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَةً م بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْکُمْ.

’’تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مالداروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے) ۔‘‘

حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی آقائے دو جہاں علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فرمان تمام اہل اسلام کے لیے غوروفکر کا تقاضا کرتا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

من کان عنده فضل زاد فلیوده علی من لا زاد له...

’’تم میں سے جس کے پاس ضرورت سے زائد کپڑا ہو وہ اس شخص کو لوٹادے جسے اس کی ضرورت ہے اور جس کے پاس ضرورت سے زیادہ کھانا ہو وہ اس شخص کو لوٹا دے جسے اس کی ضرورت ہے۔‘‘

آنحضور ﷺ نے فلیودہ کے جو الفاظ استعمال فرمائے ان کی معنویت قابل غور ہے۔ آپ ﷺ نے یہ ارشاد نہیں فرمایا کہ ضرورت سے وافر چیزیں غریبوں کو دے دیں بلکہ فرمایا کہ لوٹادیں۔ دینے اور لوٹانے میں واضح فرق ہے۔ آپ وہ چیزیں دیتے ہیں جس کے آپ مالک ہیں۔ لوٹا دینے میں ملکیت کا نہیں بلکہ امانت کا مفہوم پوشیدہ ہے۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ ہمارے علماء اور مولوی حضرات اس لیے اسلام کے ترقی پسندانہ تصورات کو نسلِ نو کے سامنے پیش نہیں کررہے۔ انہیں یہ اندیشہ لاحق رہتا ہے کہ اگر انہوں نے کوئی ایسی بات کی تو انہیں امامت اور خطابت سے فارغ کردیا جائے گا۔

آخر میںیہ بات ذہن نشین کرلیں کہ موجودہ نسل کو محض فتوؤں کے زور سے اور دوزخ کی آگ کے خوف سے اسلام کی طرف واپس نہیں بلایا جاسکتا ہے بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے ایمان و اسلام کو باطل اثرات سے محفوظ کرنے کے لیے ان کے سامنے اسلام کو علمی، سائنسی اور منطقی اعتبار سے پیش کیا جائے اور انہیں یہ باور کرادیا جائے کہ فکری، نظریاتی اور استدلالی اعتبار سے اسلام سے بہتر دنیا کا کوئی نظام اور فلسفہ نہیں ہے۔