صبر و تحمل اور برداشت کی ضرورت و اہمیت

ہانیہ ملک

آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں سائنسی ایجادات، سہولتوں اور آسائشوں کی بھرمار نے بظاہر ہماری زندگی کو بہت سہل بنادیا ہے۔ اپنی خواہشوں اور مطالبات کو چند لمحوں میں پورا کرلینے کے باوجود ہماری زندگیاں بے بسی، بے سکونی، بداخلاقی، مایوسی، اضطراب، ڈپریشن، عدم تحفظ اور عدم استحکام کا شکار ہوچکی ہیں۔ جیسے جیسے ہماری سہولیات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے وہاں ہمارے معاشروں سے اخلاقیات، برداشت، رواداری اور بھائی چارے کا خاتمہ ہوتا جارہا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ’’طاقت‘‘ ہی اصل اصول کو اپناتے ہوئے ہم زمانہ جاہلیت کی طرف چل نکلے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں معمولی معمولی باتوں پر جھگڑا شروع ہوتا تو خون کی ندیاں بہادی جاتیں۔ نسل در نسل دشمنیاں چلیں۔ آج اگر دیکھا جائے تو ہمارا معاشرہ دور جاہلیت کا منظر پیش کررہا ہے۔ سیاست ہو یا گھریلو زندگی، معاشرتی زندگی ہو یا سماجی، ہر جگہ گالی گلوچ کا کلچر فروغ پارہا ہے۔ یہاں تک کہ دینی اور مذہبی حلقے بھی رواداری، برداشت، صبرو تحمل اور عدل و انصاف جیسی اعلیٰ صفات سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ ہماری عدالتوں کے کیس اٹھا کے دیکھ لیں تمام جرائم اور قتل و غارت کی بنیادی وجوہات میں بے صبری اور عدم برداشت سرِ فہرست ہیں۔

پارلیمنٹ ہائوس، ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز، ہمارا سارا معاشرہ عدم برداشت کی وجہ سے مچھلی منڈی کا منظر پیش کررہا ہے۔ معاشرے کی اس بڑھتی بدحالی کی بنیادی وجہ صبر کا نہ ہونا ہے۔

دراصل صبر ناخوشگوار حالات، اضطراب، تکلیف، تنگی، دکھ یا مشکل میں انسان کے اندر تحمل اور برداشت جیسی قوتوں کو پیدا کرتا ہے۔ جو بلاشبہ ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے لیکن اس کٹھن مرحلے سے گزرنے کے بعد انسان بے پناہ کامیابیوں اور کامرانیوں سے نواز دیا جاتا ہے۔ یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ صبر کا اظہار کرنا صبر نہیں بے صبری ہے، صبر توکل سے جڑا ہے اور توکل خاموشی اختیار کرتے ہوئے اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے۔ جس صبر میں گلہ ہو وہ صبر صبر نہیں رہتا۔ صبر کرنے والے انسان کا وقار بلند ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کے نفس میں سخاوت اور بے نیازی جیسے اعلیٰ درجے کے اوصاف پیدا ہوجاتے ہیں۔ پھر وہ اپنے رب کا شکر گزار بندہ بن جاتا ہے۔ منزل صابرین کے قدم چومتی ہے جبکہ جلد بازی اور بے صبری ہمیشہ انسان کو منزل سے دور لے جاتی ہے۔ اللہ پاک نے قرآن مجید میں فرمادیا۔

’’بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘

غور طلب بات یہ ہے کہ جسے رب کا ساتھ مل جائے اسے بھلا کیا کمی باقی رہ سکتی ہے۔ اسی لیے صبر اور عفو و درگزر کرنا خیر کے خزانوں میں ایک ایسا خزانہ ہے۔ جسے اللہ پاک اپنے محبوب اور مقرب بندوں کو عطا کرتا ہے۔ اللہ کے مقرب بندوں کی زندگی تو ایسی ہوتی ہے کہ لوگ ان کو پہنچنے والے دکھ پر افسوس نہیں کرتے بلکہ ان کے صبر پر رشک کرتے ہیں۔ طبیعتوں میں ٹھنڈک اور نرم مزاجی سے وہ کام بن جاتے ہیں جو ساری رات عبادتیں کرنے سے بھی نہیں بنتے۔

صبر کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ہمارے لیے تاجدار کائنات حضرت محمد ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ پیش کرتی ہے۔ آپ ﷺ پر سنگباری کرکے آپ ﷺ کا جسم مبارک لہولہان کردیا گیا، غزوہ احد میں آپ ﷺ کے دندان مبارک شہید کردیے گئے۔ راستے میں کانٹے بچھائے گئے، سوشل بائیکاٹ کیا گیا، مجنوں، دیوانہ کہا گیا، اس کے باوجود آپ ﷺ نے صبر کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے ظالموں کے حق میں دعائیہ کلمات ادا کیے۔ آپ ﷺ کی ساری زندگی صبرو استقامت کا بہترین عملی نمونہ ہے، جس کے نتیجہ میں اللہ رب العزت آپ ﷺ کو بے مثال کامیابیوں اور نصرتوں سے نوازتے رہے۔

آپ ﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے صحابہ کرامؓ، آئمہ کرام، اہل بیت اطہارؓ نے صبرو تحمل اور عفو و درگزر کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ سب سے زیادہ تکالیف اور آزمائشیں اللہ کے برگزیدہ بندوں نے برداشت کیں اور اس پر صبر شکر کیا۔ جتنا زیادہ صبر ہوتا اتنا ہی اعلیٰ و ارفع مقام سے نوازا جاتا رہا۔ اسلام کی ساری تاریخ صبر و تحمل اور عفو و درگزر کی ایک طویل داستان ہے۔ اللہ نے اپنے محبوب بندوں کی صفت بتاتے ہوئے فرمایا کہ ’’وہ اپنے غصے کو ضبط کرتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔‘‘

آپ ﷺ سے کسی نے پوچھا ایمان کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا صبر۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ’’اسلام چار ستونوں پر مبنی ہے:

  1. یقین
  2. صبر
  3. جہاد
  4. عدل

جس میں توکل اور یقین ہوگا کہ اس کا رب اس کے لیے بہتر فیصلے کرنے والے ہیں تو یقینا وہ صبر کرتے ہوئے اپنے رب پر توکل کرے گا۔

آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مومن بندے کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ ہر حال میں اس کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ اگر اسے خوشی اور راحت پہنچے تو اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے۔ اگر اسے کوئی دکھ یا رنج پہنچتا ہے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے یہ صبر بھی اس کے لیے خیر ہی خیر ہے۔‘‘

واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں کہ اگر آنکھ کھل جائے تو وہ اس مشکل کا بھی شکر ادا کرتا ہے جو اسے رب سے جوڑنے کا سبب بنی۔ یہاں تک کہ وہ اس گناہ کا بھی شکر ادا کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے رب کے ساتھ جڑا۔

لہذا جو دکھ، مصائب و آلام میں صبر اور توکل کرتا ہے اللہ پاک اس کا ساتھ زیادہ دیتے ہوئے اس کو کندن بناتے چلے جاتے ہیں۔ انسان کا اپنے رب سے جڑ جانا اس کے اعمال، کردار، اخلاق اور مقدر کے سنور جانے کا سبب بنتا ہے۔ افراد کے کردار سے ہی اقوام بنتی ہیں۔

جو قومیں مصیبتوں یا مشکل حالات میں صبر کا دامن تھامتے ہوئے آگے بڑھتی ہیں انھیں اللہ کی نصرت حاصل ہوتی ہے اور اس کے برعکس جن قوموں میں عدم برداشت بے صبری اور عفو درگزر سے کام نہ لینے جیسی برائیاں پیدا ہوجائیں وہ افراتفری، عدم اعتماد، عدم تحفظ، بدعملی کا شکار ہوکر تباہی کو اپنا مقدر بنالیتی ہیں۔ وہ اپنا وقار کھو بیٹھتی ہیں اور صفحہ ہستی سے ان کے نام و نشان تک مٹا دیے جاتے ہیں۔ صبر و تحمل میں کمزوری معاشرے کی تباہی کا سبب بنتی ہے۔

اپنے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرنے کے لیے، دنیا میں اپنے معاشرے اور ملک کو ترقی کی راہوں پہ گامزن کرنے کے لیے، معاشرے سے ناامیدی اور مایوسی کا خاتمہ ضروری ہے۔ صبر و تحمل اور عفو درگزر کو فروغ دینے سے ہی معاشی، معاشرتی، سماجی اور مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے۔ صبر کو اپنی زندگیوں میں پروان چڑھانے کے لیے تاجدار کائنات حضرت محمد ﷺ کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔