فرمانِ الٰہی و فرمانِ نبوی ﷺ

فرمانِ الٰہی

فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ لا وَنَجَّیْنٰهُ مِنَ الغَمِّ ط وَکَذٰلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِیْنَ. وَزَکَرِیَّـآ اِذْ نَادٰی رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَ. فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ وَ وَهَبْنَا لَهٗ یَحْیٰی وَاَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗ ط اِنَّهُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَهَبًا ط وَکَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ.

الانبیاء، 21: 88۔90

’’پس ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور ہم نے انہیں غم سے نجات بخشی، اور اسی طرح ہم مومنوں کو نجات دیا کرتے ہیں۔ اور زکریا (علیہ السلام کو بھی یاد کریں) جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا: اے میرے رب! مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تو سب وارثوں سے بہتر ہے۔ تو ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور ہم نے انہیں یحییٰ (علیہ السلام) عطا فرمایا اور ان کی خاطر ان کی زوجہ کو (بھی) درست (قابلِ اولاد) بنا دیا۔ بے شک یہ (سب) نیکی کے کاموں (کی انجام دہی) میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں شوق و رغبت اور خوف و خشیّت (کی کیفیتوں) کے ساتھ پکارا کرتے تھے، اور ہمارے حضور بڑے عجزو نیاز کے ساتھ گڑگڑاتے تھے۔‘‘

فرمانِ نبوی ﷺ

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ رضي اللہ عنهما قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللہِ بِأَبِي أَنْتَ وَاُمِّي، أَخْبِرْنِي عَنْ أَوَّلِ شَيئٍ خَلَقَهُ اللہُ تَعَالَی قَبْلَ الْأَشْیَاءِ؟ قَالَ: یَا جَابِرُ، إِنَّ اللہَ تَعَالَی قَدْ خَلَقَ قَبْلَ الْأَشْیَاءِ نُوْرَ نَبِیِّکَ مِنْ نُورِہِ، فَجَعَلَ ذَلِکَ النُّوْرَ یَدُوْرُ بِالْقُدْرَۃِ حَیْثُ شَاءَ اللہُ تَعَالَی، وَلَمْ یَکُنْ فِي ذَلِکَ الْوَقْتِ لَوْحٌ وَلَا قَلَمٌ، وَلَا جَنَّۃٌ وَلَا نَارٌ، وَلَا مَلَکٌ وَلَا سَمَاءٌ، وَلَا أَرْضٌ وَلَا شَمْسٌ وَلَا قَمَرٌ، وَلَا جِنِّيٌّ، وَلَا إِنْسِيٌّ، فَلَمَّا أَرَادَ اللہُ تَعَالَی أَنْ یَخْلُقَ الْخَلْقَ قَسَمَ ذَلِکَ النُّورَ أَرْبَعَۃَ أَجْزَاءٍ: فَخَلَقَ مِنَ الْجُزْءِ الْأَوَّلِ الْقَلَمَ، وَمِنَ الثَّانِيِّ: اللَّوْحَ وَمِنَ الثَّالِثِ: الْعَرْشَ، ثُمَّ قَسَمَ الْجُزْءَ الرَّابِعَ أَرْبَعَۃَ أَجْزَاءٍ فَخَلَقَ مِنَ الْأَوَّلِ: حَمَلَۃَ الْعَرْشِ، وَمِنَ الثَّانِيِّ: الْکُرْسِيَّ وَمِنَ الثَّالِثِ: بَاقِيَ الْمَلَائِکَۃِ، ثُمَّ قَسَمَ الْجُزْءَ الرَّابِعَ أَرْبَعَۃَ أَجْزَاءٍ، فَخَلَقَ مِنَ الْأَوَّلِ: السَّمَوَاتِ، وَمِنَ الثَّانِيِّ: الْأَرْضِیْنَ وَمِنَ الثَّالِثِ: اَلْجَنَّۃَ وَالنَّارَ … الحدیث. رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ.

’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے فرمایا کہ میں نے بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں عرض کیا: یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کس چیز کو پیدا کیا؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے جابر! بے شک اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق (کو پیدا کرنے) سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور (کے فیض ) سے پیدا فرمایا، یہ نور اللہ تعالیٰ کی مشیت سے جہاں اس نے چاہا سیر کرتا رہا۔ اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم، نہ جنت تھی نہ دوزخ، نہ (کوئی) فرشتہ تھا نہ آسمان تھا نہ زمین، نہ سورج تھا نہ چاند، نہ جن تھے اور نہ انسان، جب اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ مخلوق کو پیدا کرے تو اس نے اس نور کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پہلے حصہ سے قلم بنایا، دوسرے حصہ سے لوح اور تیسرے حصہ سے عرش بنایا۔ پھر چوتھے حصہ کو (مزید) چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے حصہ سے عرش اٹھانے والے فرشتے بنائے اور دوسرے حصہ سے کرسی اور تیسرے حصہ سے باقی فرشتے پیدا کئے۔ پھر چوتھے حصہ کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے حصہ سے آسمان بنائے، دوسرے حصہ سے زمین اور تیسرے حصہ سے جنت اور دوزخ بنائی … یہ طویل حدیث ہے۔‘‘

(المنهاج السوی من الحدیث النبوی ﷺ، ص: 566،567)