تربیتِ اولاد کی اہمیت

ڈاکٹر فرخ سہیل

ہر شادی شدہ جوڑے کے لیے اولاد ایک نعمت ہوتی ہے اور اولاد کی نعمت سے محروم والدین میں اولاد کی قدر و قیمت کا احساس پایا جاتا ہے لیکن اولاد دینا یا نہ دینا، بیٹے دینا یا بیٹیاں عطا کرنا یہ اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لِلّٰهِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ ط یَھَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّیَھَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّکُوْرَ. اَوْ یُزَوِّجُھُمْ ذُکْرَانًا وَّاِنَاثًا ج وَیَجْعَلُ مَنْ یَّشَآءُ عَقِیْمًا ط اِنَّہٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ.

(الشوریٰ، 42: 49-50)

’’اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے بخشتا ہے۔ یا انہیں بیٹے اور بیٹیاں (دونوں) جمع فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ ہی بنا دیتا ہے، بے شک وہ خوب جاننے والا بڑی قدرت والا ہے۔ ‘‘

اور ایک جگہ فرمایا: انہ علی حکیم بے شک وہی جانتا ہے اور قدرت بھی رکھتا ہے وہ خوب جانتا ہے کہ کسے بیٹا دینا اور کسے بیٹی دینی ہے اور کسے بانجھ رکھنا ہے۔

قرآن مجید نے مسلمانوں پر صرف اپنی اصلاح کی ذمہ داری ہی عائد نہیں کی بلکہ اپنے اہل و عیال اور اپنے عزیز و اقارب کی اصلاح و تربیت کی ذمہ داری بھی سونپی ہے جیسا کہ آقائے دو جہاں ﷺ، معلم اعظم، ہادی و رہبر کو بھی نبوت کے بعد جو سب سے پہلا تبلیغی حکم ملا تھا وہ اپنے قریبی خاندان والوں کو پند و نصائح کا تھا جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ

وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ.

(الشعراء، 26: 214)

’’اور (اے حبیبِ مکرّم!) آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو (ہمارے عذاب سے) ڈرائیے۔ ‘‘

نبی مکرم و محترم ﷺ کے علاوہ بھی تمام انبیاء علیہم السلام کی یہی سنت رہی ہے کہ وہ اپنی تبلیغ کا آغاز اپنے گھر والوں سے ہی کرتے تھے۔ نہ صرف خود احکامات الہٰی پر کار بند ہوتے بلکہ اپنی امت کے ساتھ ساتھ اپنے عزیز و اقارب اور خاندان والوں کی دینی و اخلاقی تربیت پر بھرپور توجہ فرماتے جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی وفات سے پہلے اپنے بیٹوں کو طلب کیا اور انہیں وصیت فرمائی:

’’جب (یعقوبؑ) نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم اس ذات پاک کی پرستش کریں گے جس کی آپ اور آپ کے آباء ابراہیم، اسماعیل و اسحاق علیہم السلام کرتے آئے ہیں۔ یعنی وہی معبود جو وحدہ لاشریک ہے اور ہم اسی کی اطاعت پر قائم رہیں گے۔ ‘‘

اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنی اولاد کے لیے دعا فرمائی:

’’اے میرے پروردگار مجھے نماز کا پابند بنا اور میری اولاد کو بھی۔ اے ہمارے رب میری دعا قبول فرمالے۔ ‘‘

اسی طرح اہل ایمان کو اپنے قرابت داروں کی تربیت کا حکم ملا کہ

یٰٓـاَیَّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَهْلِیْکُمْ نَارًا.

(التحریم، 66: 6)

’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ۔ ‘‘

ایک اور ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ

وَاْمُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلٰوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا.

(طہ، 20: 123)

’’اور آپ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم فرمائیں اور اس پر ثابت قدم رہیں۔ ‘‘

اپنی اولاد کی تربیت کرنا ہر انسان کی ذمہ داری ہے اور دین اسلام میں یہ ایک مذہبی فریضہ ہے کہ اپنی اولاد کی تربیت کرنا ہر مسلمان کے لیے لازم ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہی بچے اگر تربیت یافتہ ہوں گے تو وقت اور عمر کے ساتھ ساتھ ان کی کردار سازی ہوتی رہے گی تو یہ اپنی بلوغت کے بعد والی زندگی میں ایک مسلمان کی اعلیٰ صفات کا مظہر بنیں گے۔ ان کی دنیا بھی روشن ہوگی اور آخرت میں بھی کامیاب و کامران رہیں گے اور اسی طرح وہ اپنی مستقبل میں آنے والی نسلوں کی درست انداز میں آبیاری کرسکیں گے۔ اسی لیے قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہورہا ہے:

اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِیْنَةُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا.

’’مال اور اولاد (تو صرف) دنیاوی زندگی کی زینت ہیں۔ ‘‘

(الکہف، 18: 46)

حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

اپنی اولاد کو تین عادات سکھائو: اپنے نبی کی محبت اور ان کے اہلِ بیت اطہارؓ کی محبت سکھائو نیز ان میں قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کا شغف پیدا کرو۔

چونکہ بچے ہمارا مستقبل ہیں جس کی وجہ سے ہمیں اپنے مستقبل کی بہتری کے لیے ہر دم بھرپور کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ بچے کی اولین درسگاہ ماں کی گود ہے۔ لہذا ہر مسلمان ماں پر دینی فرض ہے کہ وہ اپنی گود میں ہی بچے کی درست تربیت شروع کردے اور بچے کا ذہنی رابطہ اسلامی تعلیمات سے جوڑ دے اخلاقیات کا درس دے اس کی عمر اور سمجھ بوجھ کے مطابق اس کو اخلاقی درس دے کیونکہ فضائل اخلاق کا بچے کی طبیعت میں راسخ ہونا بہت ضروری ہے اور رزائل اخلاق کی کراہت آمیزی کو اس کے ذہن میں نقش کرنا بھی بہت لازم ہے۔ جس کے لیے قدم قدم پر بچے کو پیار اور محبت سے پندو نصائح کرنا چاہیں، جس کی مثال درج ذیل ہے:

بچے بالکل نادان اور ناسمجھ ہوتے ہیں آگ سے جلنے کی کیفیت سے بے خبر لیکن آگ کے شعلے ان کو بہت خوبصورت دکھائی دیتے ہیں۔ بچہ جب اس دلکش منظر کو دیکھتا ہے تو آگ کی طرف لپکتا ہے اور یہاں ہر والدین کا فرض یہ ہوگا کہ وہ زبانی کلامی نصیحت کی بجائے اسے آگے سے دور کردیں۔

یہی عمل بچوں کے لیے ابتدائی نصیحت اصلاح کا کام کرے گا۔ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ یہ بچہ آگ میں جلنے کے نقصانات سے خوب باخبر ہوتا چلا جائے گا۔

لہذا یہ مثال بچے کے مستقبل کی زندگی میں عملی طور پر اس کے لیے بہت کار آمد ہوگی۔ جیسے والدین بچے کو آگ کے نقصان سے بچانے کے لیے لپکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح والدین کو اپنی اولاد کی عاقبت کی بھی فکر ہونی چاہیے کہ اگر وہ اس دنیا کی آگ سے بچانے کے لیے لاشعوری طور پر بچے کو دور کرتے ہیں تو آخرت میں نار جہنم سے بچانے کے لیے شعوری کاوشیں کرنی چاہیے تاکہ بچے کے ذہن میں آگ سے ہونے والی تکلیف کا احساس بیدار ہوسکے جیسا کہ قرآن ہمیں بتاتا ہے:

مگر آگ صرف یہی نہیں جو ہمیں دنیا میں دکھائی دیتی ہے بلکہ ایک اور بھی آگ ہے جس کی ہیبت ناکی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں ایندھن کے طور پر لکڑیاں نہیں جلتیں بلکہ انسانوں کے گوشت پوست اور پتھر اس میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔

لہذا والدین کا دینی فریضہ ہے کہ جس طرح وہ بچے کو دنیا کی آگ سے بچانے کے لیے لپکتے ہیں۔ اسی طرح وہ اپنے بچے کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے بھرپور کوشش کریں کیونکہ اسلام کے مطابق بچے کی تربیت کا آغاز اسی دن سے ہوجاتا ہے جس دن وہ اس دنیا میں آنکھیں کھولتا ہے اور بچے میں پیدائشی طور پر بہت سی قوتیں موجود ہوتی ہیں۔ لہذا ان کے مزاج اور طبیعت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی تعلیم و تربیت کی جائے تاکہ مستقبل میں وہ ایک بہترین مسلمان کے طور پر بھرپور انداز میں معاشرے کے بہترین فرد کے طور پر زندگی گزاریں اور اس تربیت کی اہمیت کا اندازہ اس قولِ مبارکہ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ

’’اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے بچے کو نظم و ضبط کی تعلیم دیتا ہے یہ اس کے اس کام سے بہتر ہے کہ وہ ہر روز نصف صاع خیرات کرے۔ ‘‘

تربیت اولاد کے بنیادی اصول جن کو اپنا کر اولاد کی بہترین تربیت کی جاسکتی ہے۔

اولاد میں خود داری اور خود اعتمادی پیدا کرنا تاکہ بچوں کے اندر اپنی ذات کی اہمیت کا احساس پیدا ہوسکے۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ بچوں کو یہ احساس دلائیں کہ ان کی اس گھر میں بہت اہمیت ہے۔ اگرچہ وہ چھوٹے ہیں لیکن گھر کے لیے بہت سے کام کرسکتے ہیں اور اچھی گفتگو کرنے کے لیے اولاد کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ ان کے اندر جھجھک اور احساس کمتری پیدا نہ ہو اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں یہ احساس بھی دلایا جائے کہ بے مقصد اور بے محل گفتگو سے گریز کرنا ہے۔

اس کے علاوہ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ کھیل کود میں بھی دلچسپی لیں تاکہ اس دوران انہیں معلوم ہوسکے کہ کہیں بچے کے اندر کسی قسم کا کوئی مسئلہ تو نہیں کیا وہ دیگر ہم عمروں کے ساتھ مل جل کر کھیلتا ہے۔ دوسروں کے لیے مشکلات کا باعث تو نہیں بنتا۔ اس طرح والدین کو چاہیے کہ وہ نہ صرف بچوں کی تعلیم پر توجہ دیں بلکہ کھیل کود کے دوران بھی اس کی تربیت کریں اور بلاواسطہ انداز سے اس کے مسائل اور دلچسپیوں کو جاننے کی کوشش کریں کیونکہ کھیل کود سے بھی بچے کی زندگی پر بہت مثبت اثر ہوتا ہے۔ اس میں بچے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں اور ان کی جسمانی نشوونما بھی ہوتی ہے اور یہ ایک ایسا ذریعہ ہے جس میں انہیں اپنے جذبات اور خواہشات کے اظہار کا موقع بھی ملتا ہے اور دوسروں سے تعاون اور دوستی کا جذبہ بھی تقویت پاتا ہے۔

اس کے علاوہ بچوں میں پابندی وقت کا احساس پیدا کرنا بھی والدین کی ذمہ داری ہے اور ان میں یہ احساس بیدار کرنا کہ کون سا وقت پڑھائی کے لیے ہونا چاہیے اور کن اوقات میں وہ کھیل کود سکتے ہیں۔ وقت پر سکول جانا، کھانا مکمل کرنا، ہوم ورک مکمل کرنا، کلاس میں ہم جماعتوں کے ساتھ خوش اخلاقی اور دوستانہ رویہ رکھنا۔ اساتذہ کا حکم ماننا ان کے ساتھ احترام سے پیش آنا، سکول میں لڑائی جھگڑے سے گریز کرنا، دوستوں کی مدد کرنا، مل بانٹ کر کھانا یہ وہ تمام اہم باتیں ہیں جن کا احساس صرف والدین ہی بچے میں بیدار کرسکتے ہیں۔

اس کے علاوہ گھر میں والدین کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا بچہ کیا پڑھ رہا ہے۔ کمپیوٹر پر کیا دیکھ رہا ہے، کس قسم کی گیمز کھیل رہا ہے، ان کے دوست کس قسم کے ہیں۔ ان تمام باتوں سے آگاہ رہنا والدین کی ذمہ داری ہے تاکہ بچے کے ابتدائی ایام سے لے کر بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ بچے کی طبیعت اور میلان کا اندازہ ہوسکے اور اگر اس دوران کسی قسم کی کوئی نامناسب بات یا حرکت محسوس کریں تو بچے کی اصلاح کی جاسکے۔

اس کے علاوہ والدین کا یہ فرض بھی ہے کہ بچوں کے ساتھ دوستی رکھتے ہوئے اپنے دل کی باتیں بھی ذکر کریں۔ کہانیوں کی صورت میں ان کی اخلاقی تربیت کریں۔ بچوں سے ان کے دل کی باتیں ان کی پسندیدہ کھانے کی اشیاء یا کھیل، دوست یا رشتہ داروں وغیرہ کے بارے میں گفتگو کریں تاکہ ان کے جذبات کا اندازہ لگایا جاسکے تاکہ بعد میں آنے والی پریشان کن صورت حال پر ابتدا میں قابو پایا جاسکے۔

اس کے علاوہ بچے کی جسمانی صحت اور صفائی ستھرائی کا خیال بھی رکھنا چاہئے۔ لباس کی لطافت و پاکیزگی کا شعور بھی اولاد کو دینا ضروری ہے۔ لباس میں بچوں کی پسند کا خیال بھی رکھنا چاہیے۔ تکلیف دہ اور عریاں لباس پہنانے سے گریز کروانا بھی ضروری ہے تاکہ بچوں کو ابتدائی عمر میں ہی اس بات کا شعور پیدا ہوکہ مسلمان معاشرے میں اس کی کیا اہمیت ہے۔ عام زندگی میں بچے سے چیخ کر بات نہیں کرنی چاہیے بلکہ دھیمے اور نرم لیجے میں اور آسان لفظوں میں بات کی جائے تاکہ بچے بھی اپنی گفتگو میں یہی انداز اپنائیں اور ہر وقت کی ڈانٹ ڈپٹ سے گریز کرنا چاہیے تاکہ بچے میں اعتماد کی کمی نہ ہوسکے۔ اگر بچے سے کوئی نقصان یا غلطی ہوجائے تو سب کے سامنے ڈانٹنے سے بھی گریز کرنا چاہیے تاکہ بچہ شرمندگی سے بچ سکے۔

گفتگو کے دوران اپنے بچے کی بات کو پوری توجہ سے سنیں اس کے علاوہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں بچوں کو بھی فیصلہ کرنے کا موقع دینا چاہئے اور کھانے پینے میں بھی اس کی پسند و ناپسند پوچھتے رہنا چاہیے۔

اولاد کی دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنا بھی والدین کی اہم ذمہ داری ہے جس کے لیے قرآن فہمی کی طرف بھرپور توجہ دلانا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ دینی و علمی پروگراموں میں شرکت کروانی چاہیے۔ اس کے علاوہ زبان و ادب کی طرف بھی بچوں کو راغب کیا جائے تاکہ ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں بیدار ہوسکیں اور ان سب کاموں کے ساتھ ساتھ ذوق مطالعہ کو بھی بچوں میں فروغ دیں۔ جس کے لیے و الدین بچوں کو مختلف کتابیں خرید کر دیں۔

والدین کا یہ فرض بھی ہے کہ اپنے بچوں کی اخلاقی تربیت کے لیے قرآن مجید کی تلاوت و قرات کے انتظام کے علاوہ خود بھی بچوں کو اخلاقی اور سبق آموز کہانیاں سنائیں اور مختلف دعائیں حفظ کرائیں۔ اس کے علاوہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ گھر کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں بھی بچوں سے مدد کی جائے تاکہ انہیں ابتدا سے ہی گھر کے انتظامات کو درست رکھنے کی عادت ہوسکے۔ بچوں کو ان کا کمرہ، میز اور کتابوں کپڑوں کی الماری کو صاف اور سلیقے سے رکھنے کی مشق بھی ساتھ ساتھ جاری رکھنی چاہیے۔

اس کے علاوہ خاص طور پر اس بات کا خیال رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کے ہر عمل اور کام پر نظر رکھیں۔ انہیں محسوس کرائے بغیر ان کی خفیہ نگرانی کریں۔ بدچلن، بدکردار لوگوں سے ملنے جلنے نہ دیا جائے کیونکہ اولاد مستقبل کا بہت قیمتی سرمایہ ہے جس کی حفاظت کرنا والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔