کلام خدا بزبانِ مصطفی ﷺ اور ذکرِ مصطفی ﷺ بزبانِ خدا

محمد شفقت اللہ قادری

خالق کائنات رب العرشِ العظیم نے احمدِ مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺ کو تمام انبیائے کرام کے علمی عملی کمالات و فضائل اور محاسن کا پیکر بنایا۔ کمالات نبوت کی منتہا پر پہنچا کر خاتم الانبیاء کے منصب پر فائز کردیا اور جب لوح محفوظ سے اپنا کلام قرآن مجید آسمان دنیا اور پھر ارض کائنات پر منتقل کرنے کا وقت آیا تو ذات محمدمصطفی ﷺ اور قلبِ حبیبِ کبریا کا انتخاب فرمایا:

وَبِالْحَقِّ اَنْزَلْنٰهُ وَبِالْحَقِّ نَزَلَ.

(الاسراء، 17: 105)

’’اور حق کے ساتھ ہی ہم نے اس (قرآن) کو اتارا ہے اور حق ہی کے ساتھ وہ اترا ہے۔‘‘

حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں قرآن کریم بیک وقت پورا لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر لیلۃ القدر میں بیت العزۃ پر اتارا گیا اور پھر ضرورت اور مصلحت کے مطابق تھوڑا تھوڑا کرکے آقائے دو جہاں نبی کریم ﷺ پر اتارا گیا۔

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ تَنْزِیْلاً.

’’بےشک ہم نے آپ پر قرآن تھوڑا تھوڑا کر کے نازل فرمایا ہے۔‘‘

(الدهر، 76: 23)

مفسرین اور محققین نے قرآن مجید سے قرآن کریم کے جو نام اخذ کیے ہیں ان کی تعداد پچپن ہے۔ ان میں قرآن کا ایک نام ’’کلام اللہ‘‘ بھی ہے۔ خالق نے اپنے کلام عظیم فرقان مجید کو اپنے حبیب اور محبوب کے قلب انور پر نازل فرماکر محمد الرسول اللہ کو عالم ہائے حقیقت میں لاریب اور صراط مستقیم ہونے کا اعلان فرمادیا۔ سبحان اللہ۔

قرآن اللہ کی صفت، غیر مخلوق غیر حادث ہے:

امام بیہقی کتاب الاعتقاد میں فرماتے ہیں۔ قرآن کریم اللہ کا کلام ہے اور کلام الہٰی ہونے کے باعث اس کی ذاتی صفات میں سے ایک صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی منجملہ صفات میں سے کوئی صفت نہ ہی مخلوق ہے اور نہ ہی حادث اور فانی ہے۔ لہذا صفت کلام الہٰی بھی قدیم ہے۔

اصولیین کے نزدیک:

وہ بھی اسی بات سے متفق ہیں اور قرآن کی تعریف میں لکھا ہے یہ کلام اللہ خالق کی صفت ہے قطعی مخلوق یا حادث نہ ہے۔ قرآن عظیم وہ کلام اللہ ہے جو بے شک رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا۔

امام ابو حنیفہؒ کا موقف:

قرآن کا فقط کلام اللہ، صفت الہٰی ہونا ہے۔ فرماتے ہیں حادث مخلوق اور فانی قطعی طور نہ ہے۔

امام شافعیؒ کا موقف:

امام شافعیؒ کے نزدیک قرآن علم غیر مشتق ہے کسی دوسرے لفظ میں سے نہ نکلا ہے جبکہ بعض فقہا اور علما مشتق قرار دیتے ہیں۔ یہ لفظ غیر مہموز پڑھا جائے گا۔

امام راغب اصفہانیؒ کا موقف:

ہر مجموعے کو قطعی طور قرآن نہیں کہتے اور نہ ہی کسی شخص کے ہر قسم کے مجموعہ کلام کو قرآن کہہ جائے گا۔ فقط کلام الہٰی کے مجموعے کو قرآن کہا جائے گا کیونکہ اس میں گزشتہ تمام صحیفوں اور آسمانی کتابوں کے نتائج اور ثمرات جمع ہیں۔ پھر فرماتے ہیں کہ یہ جملہ اقسام کے علوم و معارف کا مجموعہ ہے اور قرآن ہی کہا جائے گا جو فقط کلام اللہ اور صفت الہٰی ہے اور صفت الہٰی غیر مشروط ہوتی ہے۔

قارئین محتشم! مختصر وقت میں قرآن کے کلام اللہ ہونے پر اپنی بساط کے مطابق روشنی ڈالی ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل قطعی یہ ہے کہ قرآن میں خالق کائنات خود فرمارہا ہے کہ قرآن کلام الہٰی ہے۔

قارئین کرام! ایک لطیف نقطۂ وجدانی آپ کے ذوق آگہی کے لیے پیش خدمت ہے۔ یہ قانون قدرت ہے کہ خالق کسی سے براہ راست کلام نہیں فرماتے اور پھر جب اپنا کلام دنیا میں منتقل کرنا چاہا تو پوری کائنات میں قلب محمد الرسول اللہ ﷺ کا انتخاب فرمایا اور وحی کے لیے جبرائیل امین علیہ السلام مقرر ہوئے۔نزول قرآن پر فقہا اور علماء امت کی طویل ابحاث موجود ہیں اور معتبر احادیث مبارکہ بھی۔ مزید عنوان سے ہٹ کر کسی بحث کی ضرورت نہیں۔

نزول قرآن کیسے ممکن ہوا؟:

علامہ جلال الدین سیوطیؒ کی نظر میں:

علامہ جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں کہ نزول کلام اللہ دو طریق سے ہونا تھا وحی الہٰی اترے کہ یہ کام کیجئے اور اس کام کے کرنے سے منع فرمائیں لیکن اس میں مخصوص عبارت اور مخصوص تسلسل نہ تھا۔

طریق دوم نزول وحی:

طریق دوم یہ تھا کہ اللہ جبرائیل علیہ السلام کو حکم دیتے کہ میرا یہ کلام اور حکم رسول محمد ﷺ کو پڑھ کر سنا دو جبرائیل امین حکم خداوندی میں کلام اللہ لے کر اترتے اور آنحضرت ﷺ کو سنا دیتے۔ آپ ﷺ یاد فرماتے اور بعد میں صحابہ کرام کو لکھوا دیتے۔ علامہ جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں کہ وحی کی یہ دوسری قسم ہی کلام اللہ اور حقیقی قرآن ہے۔ اور پہلی قسم سنت رسول ﷺ ہے۔

نزول قرآن کی ابتدا :

ام المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آغاز وحی نبی آخرالزماں ﷺ پر سچے خوابوں اور بشارتوں سے ہوئی جو روز روشن کی طرح من و عن صحیح و درست ثابت ہوتے۔ پھر طبع خلوت نشینی کی طرف مائل ہوئی اور غار حرا میں خلوت نشینی میں وقت گزارتے عبادت میں مشغول رہتے۔ سبحان اللہ! اچانک عبادت گزاری میں مشغول محمد الرسول اللہ پر دو جہانوں کی سب سے بڑی گھڑی حق کے ساتھ آگئی کہ آپ بعثت حق و رسالت سے سرفراز فرمائے گئے۔ جبرائیل امین علیہ السلام نے حکم الہٰی سے کلام اللہ حضور نبی اکرم ﷺ کے قلبِ اطہر پر اتارا۔ قارئین گرامی قدر! عنوان بے مثل کا حصہ اول کلام اللہ سمجھ لینے کے بعد سمجھنا مقصود ہے کہ کلام اللہ بزبان مصطفی کیسے بنا۔ ملاحظہ فرمائیں:

کلام اللہ بزبانِ مصطفی ﷺ کیونکر ممکن ہوا:

حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ:

اول سورة نزلت فی القرآن اقرا باسم ربک.

’’سب سے پہلی سورۃ جو قرآن میں نازل ہوئی وہ اقراء ہے۔‘‘۔

لہذا ثابت ہوا کہ پہلی وحی ہی کلام الہٰی کا آغاز اول ہے جو زبان مصطفی میں حکم الہٰی سے جبرائیل امینؑ نے ڈالا اور کلام الہٰی زینت زبان مصطفی ﷺ بن گیا۔

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ.

(العلق: 96: 1)

’’(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا۔‘‘

میری ذاتی دانست میں کلام الہٰی کے الفاظ اولین جو آیت کریمہ محمد الرسول اللہ پر نازل ہوئی میں دو پیغاماتِ انقلابی سے آگاہی تھی اور دونوں کی اہمیت اجاگر کرنا مقصود تھا۔ ایک اقراء پڑھیئے یعنی کہ لفظ قرآن کا مفہوم سمجھا دیا کہ یہ تیرے پڑھنے سے قرآن اسم بامسمٰی ہوجائے گا یعنی کہ میرے محبوب کا پڑھا ہوا اور اسی کا اگلا حصہ کہ تعلیم کی اہمیت اجاگر کرنا مقصود تھی اور پھر دوسرا حصہ آیت مبارکہ میں تخلیق کائنات کی طرف لطیف اشارہ ہے کیونکہ میری دانست میں وجہ تخلیق کائنات وہ بشری وجود مسعود محمد الرسول اللہ ﷺ ہے۔ جس کے لیے حدیث قدسی ہے:

لولاک لما خلقت الافلاک.

’’میرے محبوب تیری ذات نہ ہوتی تو میں آسمانوں کو بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘

آیاتِ مقدسہ سے استدلال:

پھر رب محمد ﷺ نے فرمایا:

اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ.

(الحاقة، 69: 40)

’’بے شک یہ (قرآن) بزرگی و عظمت والے رسول (ﷺ) کا (منزّل من اللہ) فرمان ہے، (جسے وہ رسالتاً اور نیابتاً بیان فرماتے ہیں)۔‘‘

پھر خالق ارض سماوات نے فرمایا:

وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰی.

(النجم، 53: 3)

’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔‘‘

تفسیری تشریح میری نظر میں:

خالق محمد الرسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ محمد ﷺ قطعی اپنی مرضی اور منشا سے کلام نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ مہر تصدیق ثبت فرماتے ہوئے مخاطب ہوا کہ جو کلام اللہ میں زبان محمد پر جبرائیل کے ذریعے القا اور اتار دیتا ہوں وہی میرے محبوب محمد الرسول اللہ ﷺ کا کلام بن جاتا ہے۔

اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی.

(النجم، 53: 4)

’’اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔‘‘

تفسیری تشریح:

تفسیری تشریح آیت مذکورہ کی یہ ٹھہری کے محمد الرسول اللہ ﷺ جو بھی کلام اور فرمان زبان اقدس سے ادا فرماتے ہیں وہ فقط وحی ہوتی ہے جو جبرائیل امینؑ کسی صورت میں لے کر حاضر ہوتے ہیں سراسر ان کا کلام بالواسطہ طور پر کلام الہٰی ہی ہوتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی اپنی مرضی و منشا شامل نہیں ہے۔ پھر محمد الرسولاللہs کے علم اور وصف کلام بصیغہ قرآن پر مہر الوہیت ثبت فرماتے ہوئے رب محمد ﷺ نے فرمایا:

عَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰی.

(النجم، 53: 5)

’’ان کو بڑی قوّتوں و الے رب نے (براهِ راست) علمِ (کامل) سے نوازا۔‘‘

قارئین آپ کو معلوم ہے کہ علم کامل کیا ہے۔ وحی کے ذریعے غیب کا علم ثابت ہوا کہ کامل حقدار وہی ہستی محمد الرسول اللہ ﷺ ہی ہے جو کلام خدا بزبانِ مصطفی ﷺ ہی روئے کائنات منجملہ مخلوقات کے قلب و اذہان کی زینت بنا اور سچائی اور حق کی کامل دلیل قرآن کا کلام الہٰی کو من و عن حفظ فرمایا صحابہ کرامؓ تک پہنچایا۔ حرف بہ حرف لکھوایا اور کسی غلطی کا عمداً یا سہواً بھی احتمال نہ ہونے پایا۔ عنوان کا آخری حصہ ملاحظہ ہو۔

ذکرِ مصطفی ﷺ بزبانِ خدا:

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ.

(الانشراح، 94: 4)

’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا۔‘‘

تفسیری معارف:

اہل علم ائمہ لغت جانتے ہیں کہ ذکر کے لغوی معنی ہیں کسی بھولی ہوئی چیز کو یاد کرنا یعنی کہ

وَاذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ.

(الکهف، 18: 24)

’’اور اپنے رب کا ذکر کیا کریں جب آپ بھول جائیں۔‘‘

قارئین گرامی قدر! خالق کائنات رب محمد دو ٹوک فرمارہے ہیں کہ ’’اے میرے محبوب میں تیرا ذکر تیری خاطر بلند ضرور کرتا ہوں۔‘‘ میرے محبوب میں تجھے کیوں یاد کروں؟ کیونکہ میں تو ایک لمحہ بھر کے لیے بھی تجھے نہیں بھولا (میرے محبوب محمد ﷺ) میں جب تیرا ذکر بلند کرنا چاہتا ہوں تو قاب قوسین کے مقام پر عرش کی بلندیوں پر اپنی شان کریمی کے ساتھ بیٹھ کر جلسے کا انعقاد کرتا ہوں اور صدر محفل میں ہوتا ہوں اورملائکہ عرش سامعین بنتے ہیں اور میرے ساتھ بصیغہ درود شریف نعت خوانی کرتے ہیں۔

خالق ارض و سماوات نے فرمایا: اے میرے بندو تم کیونکہ انسان ہو بھولنا میں نے تمہاری فطرت و جبلت میں ودیعت کردیا ہوا ہے اور بھولنا تمہارا بشری تقاضا ٹھہرا میں عرش پر فرشتوں کے ساتھ محمد الرسول اللہ ﷺ پر درود شریف بھیجتا ہوں اور ذکر محبوب محمد مصطفیؐ اپنی شان کے ساتھ بلند کرتا رہوں گا، تم زمین پر درود و سلام اور نعت خوانی کے ذریعے میرے محبوب کو یاد کرتے رہو۔

استدلال قرآنی:

ارشاد فرمایا:

اِنَّ اللهَ وَمَلٰٓئِکَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ط یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا.

(الاحزاب، 33: 56)

’’بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ ﷺ ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔‘‘

ذکرِ مصطفی ﷺ بزبانِ خدا۔ ولادت مصطفیؐ کے تناظر میں:

ذکر اس محبوب خدا حبیب کبریا مدنی محمد ﷺ کا جن کی عین ولادت مبارک کے و قت باد صبا نے نسیم سحری کا گھونگھٹ اٹھا کر طواف طلوع فجر ایمان کیا اور دیدار صاحب لولاک محمد مصطفی ﷺ حوروں کے جھرمٹ میں بے حدو بے حساب اور سر عام کیا اور چہرہ والضحٰی کا بوسہ لیا۔ خاص نکتہ لطیف یہ ہے کہ قرآن عظیم شاہد ہے صانع کائنات خالق محمدؐ نے دو آیات کریمہ متصلاً نازل فرمائیں جو عین لمحہ ولادت محمد مصطفی ﷺ کی عکاس ہیں:

وَالَّیْلِ اِذَا عَسْعَسَ. وَ الصُّبْحِ اِذَا تَنَفَّسَ.

(التکویر، 81: 17-18)

’’اور رات کی قَسم جب اس کی تاریکی جانے لگے۔اور صبح کی قَسم جب اس کی روشنی آنے لگے۔‘‘

خدا کی عزت کی قسم یہی پوہ پھوٹنے کا عین وہ لمحہ ولادت اور بی بی آمنہؓ کے لعل کا بی بی آمنہؓ کے دامن مراد میں آنے کا وقت تھا۔ یعنی کہ طلوع آفتاب ایمان کا وقت تھا۔ رات نہ جانے پر بضد تھی اور صبح صادق آنے میں عجلت میں تھی دونوں کا مطمع نظر فقط دیدار مصطفی ﷺ اور چہرہ والضحٰی ہی تھا۔ خدا نے دونوں کو ایک گھڑی اور ایک لمحہ میں ملادیا وہ گھڑی آگئی جب رات کا آخری کنارہ اور فجر ولادت کا پہلا کنارہ باہم خوشی ولادت میں گلے ملے اور مکھڑا مصطفی ﷺ کا دیدار کیا اور بوسہ لیا اور اپنے اپنے راہ لگے۔ اندھیرا سمٹ گیا روشنی بن کر نور چار سو پھیل گیا۔

ذکرِ اول، مذکورِ اولؐ اور گواهِ اول کون؟

ایک خصوصی مکالمے کے تناظر میں پیش خدمت ہے:

معزز قارئین کرام! میں آپ کی توجہ خاص ایک عمیق ، لطیف دلچسپ مکالمہ وجدانی روحانی۔۔۔۔ کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں جو عین موقع عنوان کے مطابق اور آپ کے ذوق طبع کا عکاس بھی ہے۔ میں نے فضیلت درود پاک کی ایک قدیم تصنیف مطبوعہ کراچی میں چند علمائے کرام کی وجدانی روایت میری نظر مطالعہ سے گزری من و عن پیش خدمت اور زینت قرطاس ہے۔

روایت کیا کہ حضور اکرم محمد مصطفی ﷺ عالم خوش طبعی رجوع الی اللہ کی حالت میں وجد آگیں لمحات میں تشریف فرما تھے کہ بارگاہ محمد الرسول اللہ ﷺ میں روح القدس حضرت جبرائیل امینؑ حاضر خدمت ہوئے۔

کون جبرائیلؑ؟

وہ جبرائیلؑ جو ایک انمٹ حقیقت خداوندی ہے اور رضائے الہٰیہ و منشائے ایزدی کی تکمیل و تشکیل کا اہم ذریعہ تھے۔ بارگاہ رسالت مآب میں حاضر ہوئے سلام عرض کیا سمع خراشی کی معذرت کے بعد عرض کیا یارسول اللہ ﷺ آج میں آپ کی بارگاہ اقدس میں خالق کائنات کے دو خاص راز آشکار کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ حبیب کبریا احمد مجتبیٰ ﷺ محمد مصطفی ﷺ آہستگی سے مسکرادیئے کیونکہ معلوم ہوتا تھا کہ آقائے دو جہاں پہلے ہی ان رازوں سے واقف تھے، تاہم جبرائیل امینؑ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہو جبرائیل کیا خاص بات ہے؟ حضرت جبرائیلؑ ادب سے مخاطب ہوئے یارسول اللہ ﷺ عرض یہ ہے کہ میں یہ راز بتانے حاضر ہوا ہوں کہ میں کیسے تخلیق ہوا اور میری تخلیق کا مقصد کیا تھا؟ خالق ارض و سماوات نے اپنے خالصتاً اپنے نور کے پرتاؤ اور فیض سے حکم کن فیکون سے میری تخلیق کی۔ میرا حقیقی روپ آقا آپ بخوبی واقف ہیں جو کچھ اس طرح ہے کہ میری ایک ہزار زبانیں ہیں۔ میرے چھ سو نورانی پر ہیں، سر سے پاؤں تک میرے ریشمی نورانی زعفرانی بال ہیں۔ دونوں آنکھوں کے درمیان ایک آفتاب ہے ہر بال پر ایک ایک ستارہ مثل ماہتاب درخشاں ہے، میں روزانہ حکم الہٰی خالق کائنات سے تین سو ساٹھ مرتبہ بحر نور (نور کے سمندر میں) غوطہ لگاتا ہوں اور جب غوطہ لگاکر باہر آتا ہوں تو ہر پر سے قطرے ٹپکتے ہیں اورہر نوری قطرے سے اللہ تعالیٰ حکم کن فیکون سے ایک فرشتہ تخلیق کرتا ہے جو تاقیامت خالق عظیم کی تسبیح کرتا رہے گا۔ تاہم آقائے دو جہاں محمد الرسول اللہ ﷺ نے فرمایا جبرائیلؑ دوسرا راز کیا ہے؟

جبرائیل امینؑ حیرانگی سے مخاطب ہوئے میرے آقا میری پیدائش کے بعد مجھے میری پیدائش کا مقصد معلوم نہ ہوسکا کہ میںکون ہوں؟ اور مجھے کیا کرنا ہے؟ مجھے دس ہزار سال عالم سکوت میں رکھا گیا پھر ندائے پروردگار بلند ہوئی (اے جبرائیلؑ) تو مجھے دریافت ہوا کہ میرا نام جبرائیلؑ ہے۔ میں نے فوراً عرض کیا لبیک اللہم لبیک پھر خالق ارض و سماوات نے فرمایا میری تقدیس بیان کرو۔ میں نے حکم الہٰی میں دس ہزار سال مولا کی تسبیح کی اور تقدیس الہٰی بیان کیا۔ تب جاکر رب ذوالجلال نے مجھ پر انوار عرش علیٰ ظاہر کیے۔

عرش عظیم پر میں یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ عین عرش عظیم کے پائیوں کے اوپر نور روشنائی سے لکھا ہوا تھا لا الہ الا اللہ محمد الرسولاللہ میں نے بڑے اشتیاق سے بارگاہ رب العالمین سے دریافت کیا میرے مالک و خالق یہ محمد ﷺ کون ہے؟ رب المشرقین و رب المغربین نے راز دارانہ انداز میںمجھے مخاطب کرکے فرمایا اے جبرائیلؑ میں نے اگر اپنا محبوب تخلیق نہ کرنا ہوتا تو میں تجھے پیدا نہ کرتا۔ تیری تخلیق کا مقصد اور وجہ تخلیق کائنات جو ذات خاص ہے وہ محمد ﷺ ہی ہے۔ تب جاکر مجھے یہ راز کھلا کہ میں کیوں پیدا کیا گیا ہوں پھر عرش پر نوریوں کی عظیم المرتبت محفل کا انعقاد ہوا۔ صدر مجلس مالک عرش عظیم خالق کائنات خود بنے اور ہم نوری سب سامع بنے۔

رب محمد ﷺ نے اپنی شان الوہیت کے ساتھ خطاب فرمایا مجھے مخاطب فرماکر حکم دیا کہ اے جبرائیل میں نے سب سے پہلے اپنے محبوب محمد الرسول اللہ ﷺ کا ذکر کیا ہے اور میں ذاکر محمد ﷺ بنا ہوں، تو اس ذکر کا گواہ اول اور سامع اول ٹھہرا ہے۔پھر فرمایا جبرائیلؑ گواہ بن جا کہ میں اگر اپنا محبوب محمد مصطفی ﷺ کریم نے بناتا تو جنت نہ بناتا شفاعت محمدی ﷺ کے لیے جہنم نہ بناتا نہ چاند بناتا، نہ سورج بناتا، نہ دن بناتا، نہ رات بناتا، انہ انس بناتا نہ جن بناتا، نہ آب بناتا نہ گل بناتا، نہ سمندر بناتا نہ پہاڑ بناتا، نہ حسن بناتا نہ ہی روئے کائنات کوئی محبوب بناتا۔ الغرض کہ مجھے تو کائنات کے تخلیق کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ پھر حکم ہوا جبرائیلؑ ذات محمد جسے میں نے تخلیق کرکے نورانیت کے ہزار نوری پردوں میں پنہاں کرکے یعنی کہ چھپا کے آسمانوں کی سیر کے لیے آزاد کردیا ہے۔ اب میرا حکم کے کہ تو میرے ساتھ اس محمد ﷺ پر درود و سلام بھیج پھر میں نے دس ہزار سال اے میرے آقا و مالک محمد الرسول اللہ ﷺ آپ کی ذات اقدس پر درود و سلام بھیجا۔

قارئین ذی محتشم! اس طویل وجدانی اتقانی آسمانی مکالمے کا مقصد خالق ارض سماوات کے حضور اس کے محبوب محمد مصطفی ﷺ کی قدر و منزلت فوقیت سب نوریوں اور خاکیوں کے سامنے اجاگر ہوجائے اظہر من الشمس ہوجائے اور ثابت ہوجائے کہ اول ذاکر محمد ﷺ خالق کائنات نے اول مذکور محمد ﷺ ، محبوب کبریا عرش عظیم پر قاب قوسین کے مقام پر کیا اور گواہ عظیم فرشتہ مقرب جبرائیلؑ ٹھہرائے اور چنے گئے جبرائیل امین علیہ السلام سمجھ گئے کہ

محمد الذی بحمد مرة بعد مرة.

محمد سے مراد وہ ذات ہے جس کی تعریف کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا اور قیامت تک ختم نہ ہوگا۔

خصوصی نکتہ اتقانی و وجدانی روحانی ملاحظہ ہو:

عشاق رسالت مآب ﷺ کے ذوق آگہی کے لیے گزارش ہے اور تاریخ اسلام شاہد ہے کہ آقائے دو جہاں محمد الرسول اللہ ﷺ کا اسم مبارک محمدؐ آپ کے حضرت بی بی آمنہؓ کی گود مبارک میں مجسمہ نور بن کر آنے کی خوشخبری سماعت کرتے ہی چشم زدن میں حضرت عبدالمطلب نے رکھا یہ نام لاریب طور پر حضرت عبدالمطلب سے عالم غیب حق سے رکھوایا گیا یہ خاص مشیت ایزدی تو تھی ہی تاہم روئے کائنات کا پہلا معجزہ رسولؐ بھی تھا کہ عالم کفر بامِ عروج پر ہو اور سردار وقت عبدالمطلب پر لفظ محمدالقا کردیا جائے جو فقط عرشی اور الوہی اسم مبارک ہے۔ قبل ازیں ارض سماوات میں شرق تا غرب نام محمد ﷺ کسی کا نہ تھا بلکہ عرش پر روح محمد ﷺ کی تخلیق لفظ کن سے بھی پہلے ہوچکی تھی۔

ذاکرِ محمد مصطفی ﷺ بروئے قرآن:

جب ذاکر مصطفی خالق ارض و سماوات نے اپنے حبیب محبوب خدا کا ذکر دونوں جہانوں میں بلند کرنا چاہا تو فرمایا:

وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ.

(الانشراح، 94: 4)

’’اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا۔‘‘

جب کفار اور اغیار نے محبوب خدا محمد مصطفی ﷺ کو (نبی امی کا مطلب) ان پڑھ کہا تو ذاکر حبیب کبریا محمد مصطفی رب محمد ﷺ نے غار حرا میں جبرائیل امینؑ کو بھیجا اور اعلان فرمایا:

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ.

(العلق، 96: 1)

’’(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا۔‘‘

پھر بھی جب کفار ان پڑھ کہنے سے باز نہ آئے تو خالق عظیم نے اپنے محبوب کے خاموش چہرہ اقدس کی جانب دیکھا اور فرمایا:

سَنُقْرِئُکَ فَـلَا تَنْسٰٓی.

(الاعلیٰ، 87: 8)

’’(اے حبیبِ مکرّم!) ہم آپ کو خود (ایسا) پڑھائیں گے کہ آپ (کبھی) نہیں بھولیں گے۔‘‘

جب خالق ارض سماوات نے اپنے محبوب محمدکریم ﷺ کے گستاخوں کو سزا اور عذاب کا نوشتہ یاد دلانا چاہا تو فرمایا:

کَلَّا لَئِنْ لَّمْ یَنْتَهِ لا لَنَسْفَعًام بِالنَّاصِیَۃِ.

(العلق، 96: 15)

’’خبر دار! اگر وہ (گستاخی رسالت اور دینِ حق کی عداوت سے) باز نہ آیا تو ہم ضرور (اسے) پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹیں گے۔‘‘

جب خالق عظیم کو محمد الرسول اللہ ﷺ کی پوری زندگی مبارک کے ایک ایک لمحے پہ پیار آیا اظہار محبت فرماتے ہوئے فرمایا:

لَعَمْرُکَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَکْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ.

(الحجر، 15: 72)

’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ کی عمرِ مبارک کی قَسم، بے شک یہ لوگ (بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بدمستی میں سرگرداں پھر رہے ہیں۔‘‘

جب حبیب خدا محمد مصطفی ﷺ شب معراج سدرۃ المنتہٰی سے مقام قاب قوسین کی طرف اوپر بڑھے تو خالق ارض سماوات نے فرمایا:

وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِقِ.

(الطارق، 86: 1)

’’آسمان (کی فضائے بسیط اور خلائے عظیم) کی قَسم اور رات کو (نظر)آنے والے کی قَسم۔‘‘

جب رب محمد ﷺ نے واقعہ معراج بلند کرنا چاہا تو فرمایا:

سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا.

(الاسراء، 17: 1)

’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی۔‘‘

جب خالق عظیم نے واقعہ معراج کو حقیقی معراج بخشنا چاہی تو ذکر یوں کیا:

وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰی.

(النجم، 53: 1)

’’قسم ہے روشن ستارے (محمد ﷺ ) کی جب وہ (چشم زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترے۔‘‘

خدا کی عزت کی قسم جس کا حبیب اور محبوب محمد مصطفی ﷺ ہے جب خالق عظیم نے کلام اللہ بزبانِ حبیب اللہ ثابت کرنا چاہا تو فرمایا:

وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰی. اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی.

(النجم، 53: 3-4)

’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔‘‘

جب رب محمد ﷺ نے یہ ثابت کرنا چاہا کہ میرے حبیب نہ کبھی راہ بھولے ہیں اور نہ ہی کبھی راہ سے بھٹکے ہیں تو فرمایا:

مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی.

(النجم، 53: 2)

’’تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (رسول ﷺ جنہوں نے تمہیں اپنا صحابی بنایا) نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکے۔‘‘

ہجرتِ مدینہ کی شب:

محمد الرسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہمراہ غارِ ثور میں پناہ لی اور دشمن تلاش کرتے ہوئے غار ثور کے دھانے پر آپہنچے تو خالق عظیم نے اپنے حبیب مصطفی ﷺ کے لیے گھٹا ٹوپ اندھیرا کردیا اور دشمن کو کچھ نظر نہ آیا۔ قرآن نے فرمایا:

وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی.

(اللیل، 92: 1)

’’رات کی قَسم جب وہ چھا جائے (اور ہر چیز کو اپنی تاریکی میں چھپا لے‘‘

جب خالق عظیم نے اپنے محبوب کے خلق عظیم کا ذکر بلند کرنا چاہا تو فرمایا:

وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ.

(القلم، 68: 4)

’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)۔‘‘

جب مولا کریم نے اپنے محبوب اور حبیب کے چہرہ انور کا ذکر بلند کرنا چاہا تو قرآن نے فرمایا:

وَالضُّحٰی.

(الضحٰی، 93: 1)

’’قَسم ہے چاشت کے وقت کی (جب آفتاب بلند ہو کر اپنا نور پھیلاتا ہے)۔‘‘

جب خالق نے اپنے محبوب محمد مصطفی ﷺ کی زلف عنبریں کا ذکر کرنا چاہا تو فرمایا:

وَالَّیْلِ اِذَا سَجٰی.

(اللیل، 93: 2)

’’اور قَسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے۔‘‘

جب رب تعالیٰ نے اپنے حبیب پر خیر کثیر عطا کیے جانے کا ذکر کرنا چاہا تو فرمایا:

اِنَّآ اَعْطَیْنٰـکَ الْکَوْثَرَ.

(الکوثر، 108: 1)

’’بے شک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہے۔‘‘

جب اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو روز محشر کا شاہد اور گواہی دینے والا اور ڈر سنانے والا ثابت کرنا چاہا تو شان حبیب بلند کرتے ہوئے فرمایا:

اِنَّـآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا.

(الاحزاب، 33: 45)

’’بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘

جب خالق عظیم نے اپنے حبیب کی زندگی کو بنی نوع انسانیت کے لیے بطور نمونہ حیات ثابت کرنا اور ذکر بلند کرنا چاہا تو فرمایا:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ.

(الاحزاب، 33: 21)

’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اللہ ( ﷺ کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے۔‘‘

جب خالق عظیم نے محبوب خدا محمدمصطفی ﷺ کی شان خاتم النبیین بیان کرنا چاہی تو فرمایا:

مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَـآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ.

(الاحزاب، 33: 40)

’’محمد (ﷺ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں۔‘‘

جب دشمن مصطفی کریم ابولہب کی شرارت اور دشمنی انتہا کو پہنچی تو محبت حبیب جوش میں آگئی اور خداوند قدوس نے فرمایا:

تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ.

(اللهب، 111: 1)

’’ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ ہو جائے (اس نے ہمارے حبیب پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی ہے)۔‘‘

جب دشمن مصطفی ﷺ ابو لہب کو سزا کا اعلان سرعام کرنا چاہا تو شان مصطفی ﷺ بلند کرتے ہوئے فرمایا:

سَیَصْلٰی نَارًا ذَاتَ لَھَبٍ.

(اللهب، 111: 3)

’’عنقریب وہ شعلوں والی آگ میں جا پڑے گا۔‘‘

جب اپنے محبوب محمد مصطفی ﷺ کا علم غیب دنیا کو آشکار کرنا چاہا تو فرمایا:

وَمَا ھُوَ عَلَی الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ.

(التکویر، 81: 24)

’’اور وہ (یعنی نبی اکرم ﷺ ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں (مالکِ عرش نے ان کے لیے کوئی کمی نہیں چھوڑی)۔‘‘

خالق عظیم ہمیں اپنی سنت مطاہرہ کے مطابق ہمیشہ اپنے اور اپنے حبیب کے ذکر میں مصروف رکھے تاکہ ہم ذکر خدا اور ذکر حبیب خدا کے طفیل سرخرو ہوں اور اپنے آپ کو بلند کریں۔