امام احمد بن حنبلؒ امام اہل السنہ کے لقب سے مشہور ہوئے

ڈاکٹر شفاقت علی البغدادی الازہری

حضرت ابو عبد اللہ امام احمد بن محمد بن حنبل شیبانیؒ ماہ ربیع الاول سال 164ھ میں شہر بغداد میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنی تعلیم و تربیت وہاں کے کبار علماء و مشائخ عظام اور جلیل القدر اساتذہ سے حاصل کی۔ قابل ذکر بات ہے کہ بغداد اس وقت نہ صرف حکومت و اقتدار کا سرچشمہ تھا بلکہ تہذیب و تمدن اور علم وفن کا بھی مرکز تھا۔ جہاں پر اپنا علمی و تدریسی سکہ منوانا آسان کام نہ تھا مگر امام احمد بن حنبلؒ نے حصول علم کے بعد جب درس وتدریس کی مسند پر رونق افروز ہوئے تو آپ کے علمی فضل،  ثقاہت حکمت و بصیرت اور فکری و روحانی اوصاف روز روشن کی طرح شہر بغداد کے چپہ چپہ، کوچہ کوچہ اور نگر نگر پھیل گئے۔ آپؒ کے زہدو ورع،  تقویٰ و طہارت،  توکل و قناعت اور صبر و استقامت کے عظیم مقام و مرتبے کو علمی و روحانی حلقہ میں مقبولیت عامہ حاصل ہو گئی۔ بایں اوصاف آپ امام الآئمۃ،  امام اہل السنۃ کے لقب سے ملقب ہوئے۔

امام ابو عبید قاسم بن سلام آپ کے علمی و فقہی مقام و مرتبہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

انتهی العلم إلی أربعة افقهم أحمد،  ما رأیت رجلا اعلم بالسنة منه.

علم چار شخصیات پر آکر ختم ہو جاتا ہے ان میں سے سب سے زیادہ فقیہ امام احمد بن حنبل تھے۔ میں نے آپ سے زیادہ سنت نبوی کا علم رکھنے والا کوئی شخص نہیں دیکھا۔

اسی طرح امام شمس الدین بن الجزری آپ کے علمی و روحانی اور تقویٰ و ورع میں مقام و مرتبہ کو یوں گویا ہوتے ہیں:

هو إمام المسلمین،  و أزهد الأئمة،  شیخ الاسلام،  افضل الأعلام فی عصره،  وشیخ السنة،  وصاحب المنة علی الامة.

آپ امام المسلمین،  آئمہ میں سب سے بڑے زاہد،  شیخ الاسلام،  اپنے زمانے میں سب سے بڑے عالم،  شیخ السنۃ اور امت پر صاحب احسان تھے۔

گویا کہ حضرت امام احمد بن حنبلؒ شیبانی کی شخصیت علمی و تحقیقی اعتبار سے انتہائی باکمال،  محقق،  ثقہ اور حکیم تھی،  جب آپؒ کے اصلاح و تقویٰ کو دیکھا جاتا ہے تو یہ آپ کی تفقہ کی صفت پر نمایاں نظر آتا ہے۔ کیونکہ آپ طریقت و شریعت کے اماموں میں سے ہیں۔ بایں وجہ ذیل میں ہم آپ ؒ کی سیرت کے چند اہم پہلوؤں کو ذکر کریں گے جو کہ انسانی شخصیت کی کردار سازی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ نیز سیرت امام احمد بن حنبل ؒ کو نمونہ و اسوہ بنا کر جو کامیابیاں اور کامرانیاں مل سکتی ہیں اس کے حوالہ سے بھی چند اہم نکات پیش خدمت ہیں:

  1. حسن ظن کا شاندار نمونہ
  2. صدق واخلاص کے پیکر
  3. توکل و رضا
  4. زہد و رع میں نمونہ کامل
  5. صبر و تحمل
  6. ادب و احترام

حسن ظن کا شاندار نمونہ:

حضرت امام احمد بن حنبلؒ مخلوق خدا سے حسن ظن رکھتے اور نیک گمان کرنے کے بارے میں درجہ کمال پر فائز تھے۔ دین اسلام ہمیں دوسرے کے بارے میں حسن ظن رکھنے اور اچھا گمان رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔ یہاں تک کہ آقا کریم ﷺ  نے اپنی احادیث مبارکہ میں اچھا گمان رکھنے کو عبادت کا درجہ دیا ہے۔ لہذا ایک مومن کو دوسرے مسلمان کے بارے میں ہمیشہ اچھا گمان رکھنا چاہیے کیونکہ بدگمانی انسان کو گناہ کی طرف لے جاتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا کَثِیرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ.

(الحجرات: 12)

’’اے ایمان والو! بہت ساری بدگمانی کی باتوں سے پرہیز کرو،  بے شک بعض بدگمانی گناہ ہیں۔‘‘

مذکورہ بالا آیت میں مطلق گمان کو گناہ نہیں گردانا گیا بلکہ بعض گمان کو گناہ کہا گیا ہے اور وہ برا گمان ہے۔ اور وہ گمان جو گناہ نہیں وہ کسی کے متعلق حسن ظن رکھنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا:

إِنَّ حُسْنَ الظَنِّ مِنْ حُسْنِ الْعِبَادَة.

(مسند احمد،  رقم: 7943)

’’یقیناً اچھا گمان بہترین عبادت سے ہے۔‘‘

امام احمد بن حنبل حسن ظن رکھنے کے کمال درجے پر فائز تھے۔ ہمیشہ مخلوق خدا کے بارے میں نیک گمان رکھتے تھے۔ اس چیز کا ثبوت آپ کے ساتھ پیش آنے والے اس دردناک اور المناک واقعہ سے سمجھا جا سکتا ہے جو معتزلہ کی شہ پر مقتدر طاقت کی طرف سے آپ پر مسلط کیا گیا۔ یاد رہے جب عراق میں معتزلہ کا غلبہ و تسلط ہوا تو انہوں نے اپنے عقیدہ کے مخالف علماء ربانیین اور اہل حق کو طرح طرح کی تکالیف و اذیتیں پہنچائیں۔ معتزلہ کا عقیدہ یہ تھا وہ قرآن کو مخلوق مانتے تھے جبکہ علمائے اہل سنت میں ان کے اس عقیدہ کا رد کیا جن میں سرِ فہرست حضرت امام احمد بن حنبل شامل تھے ۔انہوں نے آپ کو قرآن کریم کو مخلوق ماننے پر مجبور کیا اور ہر طرح کی کوشش کی مگر آپ اپنے صحیح عقیدے پر مستقیم رہے۔

واقعہ یوں ہے کہ آپ ضعیف العمر،  کمزور اور لاغر ہو چکے تھے پھر بھی آپ کے ہاتھوں کو کندے سے کھینچ کر باندھا گیا اور آپ کے جسم پر ایک ہزار کوڑے مارے گئے۔ لیکن آپ نے ان کی موافقت میں اپنے علم و ضمیر کے خلاف کہنا گوارا نہ فرمایا۔ اس دوران آپ کا ازار بند کھل گیا چونکہ آپ کے دونوں ہاتھ باندھے ہوئے تھے ایک غیبی ہاتھ نمودار ہوا اور اس نے آپ کے ازار بند کو باندھ دیا۔جب ان لوگوں نے آپ کی حقانیت کی یہ دلیل دیکھی تو آپ کو چھوڑ دیا۔ انہیں کوڑوں کے زخموں کے نتیجہ میں آپ کا انتقال ہوا۔ آخر وقت میں آپ سے کچھ لوگوں نے دریافت کیا کہ ان لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جنہوں نے آپ پر کوڑے برسائے۔ آپ نے فرمایا: میں کیا کہہ سکتا ہوں بجز اس کے کہ انہوں نے خدا کی راہ میں اس گمان پر کوڑے مارے ہیں کہ (معاذاللہ ) میں باطل پر ہوں اور وہ حق پر ہیں میں محض زخمی ہونے پر قیامت کے دن ان سے جھگڑا نہیں کروں گا۔

مذکورہ واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ امام احمد بن حنبل نے حسن ظن کو ہمیشہ پیش نظر رکھا حتی کہ آپ نے اپنے مخالفین کے جبرو تشدد پر بھی براگمان نہ کیا بلکہ ان کے بارے میں حسن ظن رکھا کہ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں اس لیے وہ میری مخالفت کر رہے ہیں اور مجھے جبر کا نشانہ بنا رہے ہیں امام احمد بن حنبل نے ان لوگوں کا معاف فرما دیا ۔

صدق و اخلاص کے پیکر:

اخلاص کے معنی پاک صاف ہونے اور خالص ہونے کے ہیں۔ امام راغب اصفہانیؒ فرماتے ہیں:

الاخلاص التَبَرِّی عَن کُلِّ ما دُون اللہ تعالی.

’’اخلاص یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ ہر چیز سے دل کو پاک کر لیا جائے۔‘‘

یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ کہ انسان اپنی زندگی میں جو بھی نیک عمل کر یا اس کا دل اس امر پر مطمئن ہو کہ میں نے عمل یا عبادت صرف اپنے مالک و خالق کی رضا و خوشنودی کے لیے کیا ہے اور اسی سے ہی اجر و ثواب کا طلبگار ہوں۔

اسی امر کو اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:

إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّینَ.

(الزمر: 2)

’’بے شک ہم نے آپ کی طرف (یہ)کتاب حق کے ساتھ نازل کی ہے تو آپ اﷲ کی عبادت اس کے لئے اطاعت و بندگی کو خالص رکھتے ہوئے کیا کریں۔‘‘

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جب یمن کی طرف بھیجا گیا تو انہوں نے بارگاهِ رسالت مآب ﷺ میں عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے نصیحت فرمائیں۔ آپ ﷺ  نے فرمایا:

اَخْلِصْ دِیْنَکَ،  یَکْفِکَ الْعَمَلُ الْقَلِیْلُ.

(أخرجه الحاکم فی المستدرک،  4: 341)

’’اپنے دین میں اخلاص پیدا کر،  تجھے تھوڑا عمل بھی کافی ہو گا۔‘‘

اسی طرح حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ  ﷺ  یَقُوْلُ: طُوْبَی لِلْمُخْلِصِیْنَ اُوْلَئِکَ مَصَابِیْحُ الْہُدَی تَتَجَلَّی عَنْہُمْ کُلُّ فِتْنَۃٍ ظَلْمَاء .

’’ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اخلاص سے کام کرنے والوں کے لئے خوش خبری ہے۔ یہ لوگ چراغِ ہدایت ہیں،  ان کے ذریعے ہر سیاہ فتنہ چھٹ جاتا ہے۔‘‘

اخلاص تمام اعمال کی روح ہے،  اور وہ عمل جس میں اخلاص نہ ہواُس جسم کی مانند ہے جس میں روح نہ ہو،  گویا اخلاص عبادات و اعمال میں روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ امام احمد بن حنبلؒ سے،  جو طریقت و سلوک میں ارفع و اعلیٰ مقام رکھتے تھے کسی نے سوال کیا کہ ما ہو الإخلاص؟ یعنی اخلاص کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا:

الإخلاص ہو الخلاص من آفات الاعمال ِ

’’اخلاص یہ ہے کہ تم اعمال کی آفتوں سے محفوظ رہو مطلب یہ کہ عمل ایسا ہونا چاہیے جو سمع و ریا سے خالی ہو اور وہ آفت رسیدہ نہ ہو۔‘‘

امام احمد بن حنبلؒ اخلاص و صدق کے پیکر تھے یہ صفت محمودہ آپ میں روشن ستارے کی طرح موجود تھی۔یہ ایک راہنما اصول و ضابط ہے۔اگر دور حاضر میں ملت اسلامیہ کے نوجوان بوڑھے، بچے اور خواتین اس قاعدہ و ضابطہ کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنا لیتے ہیں تو ملت اسلامیہ اپنی کھوئی ہوئی اقدار کو حاصل کر سکتی ہے۔

توکل و رضا:

بلاشک و شبہ توکل و رضا قرب الٰہی کا ایک اہم ذریعہ ہے نہ صرف یہ بلکہ توکل بندہ مومن کی ایسی صفت ہے جو اسے اللہ رب العزت کا محبوب بنادیتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ.

(آل عمران،  3: 159)

’’پھر جب آپ پختہ ارادہ کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کیا کریں،  بیشک اللہ توکّل والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘

اکثر معاشرے میں برائیاں اور کوتاہیاں عدم توکل سے پیدا ہوتی ہیں اور افراد معاشرے اللہ پر بھروسہ چھوڑ کر مادیت کے پیچھے دوڑتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید رزق و مال کے حصول کا یہی راستہ و طریقہ ہے۔ درحقیقت یہ بات اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ اللہ رب العزت نے انسانیت کو توکل و رضا کی صورت میں ایسا راہنما اصول عطا فرمایا جو رزق و دولت کے حصول کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ  نے فرمایا:

لَوْ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَوَکَّلُوْنَ عَلَی اللهِ حَقَّ تَوَکُّلِهِ،  لَرُزِقْتُمْ کَمَا تُرْزَقُ الطَّیْرُ،  تَغْدُو خِمَاصًا،  وَتَرُوْحُ بِطَانًا.

(الترمذی فی السنن،  الرقم: 2344)

’’ اگر تم اللہ تعالیٰ پر اس طرح بھروسہ کرتے جیسا بھروسہ کرنے کا حق ہے،  تو تمہیں اس طرح رزق دیا جاتا جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ وہ صبح کو بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔‘‘

صوفیاء اور اہل حق ہمیشہ سے اس طریق کے مسافر رہے ہیں ان میں سے امام احمد بن حنبل ؒ کی شخصیت ایک مینارہ نور ہیں جو توکل و رضا کے اعلیٰ درجات پر فائز تھے ۔آپؒ کی سیرت و زندگی سے توکل کے بارے میں ایک مثال بطور نمونہ کے یوں ملتی ہے کہ ایک مرتبہ آپ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ ما التوکل توکل کیا ہے ؟

آپ نے جواب دیا کہ الثقۃ باللہ روزی رسانی میں اللہ تعالیٰ پر مکمل اعتماد اور بھروسہ رکھنا ۔

اس نے سوال کیا کہ ما الرضا یعنی رضا کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا: تسلیم الاُمور إلی اللہ رضا یہ ہے کہ تمام کاموں کو خدا کے حوالہ کرنا اور راضی برضا رہنا۔

یعنی اللہ رب العزت کی ذات پر ہمیشہ بھروسہ کرنا اور اس کی عطا پر خود کو تسلیم و رضا کا پیکر بنا لینا توکل کی علامت ہے ۔

زہد و ورع :

امام احمد بن حنبلؒ کی زندگی زہد و ورع میں یکتائے روزگار تھی۔ انہوں نے پوری زندگی عبادت و ریاضت اور مجاہدہ میں بسر کی۔آپ فرماتے تھے ۔

میرا وہ دن خوشبوؤں سے لبریز ہوتا ہے جس دن میرا ہاتھ خالی ہو۔

اسی طرح یہ بھی فرمایا کرتے تھے:

آخرت کے کھانوں اور لباس کے مقابلہ میں دنیا کے کھانوں اور لباس کی کیا حیثیت ہے اور دنیا کی زندگی تو چند روزہ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آئمہ و محدثین نے امام احمد بن حنبل کے علم و فضل کے ساتھ ان کے جامع الکمالات ہونے کا بھی اعتراف کیا ہے امام شافعی فرماتے ہیں:

میں جب بغداد سے روانہ ہوا تو وہاں امام احمدؒ سے زیادہ صاحب علم و فضل اور متدین و متورع شخص کوئی نہیں دیکھا۔

طبقات حنابلہ میں ابن ابی لیلیٰ نے امام شافعی کا آپ کی مدح میں یہ قول نقل کیا ہے کہ امام احمد بن حنبل آٹھ خصلتوں کے مالک ہے۔

امام فی الحدیث،  امام فی الفقہ،  امام فی الغۃ،  امام فی القرآن،  امام فی الفقر، امام فی الزہد، امام فی الورع و امام فی السنۃ۔

آپ حدیث،  فقہ،  لغت،  قرآن،  فقر،  زہد،  ورع اور سنت کے امام تھے۔

اہل معرفت کا ادب:

آپ سے جو کوئی مسئلہ دریافت کرتا اگر وہ سلوک اور طریقت سے متعلق ہوتا تو جواب عنایت فرمادیتے اور اگر حقائق و معرفت سے تعلق رکھتا تو حضرت بشر حافی کے پاس بھیج دیتے چنانچہ ایک مرتبہ کسی نے سوال کیا کہ ماالمحبۃ ؟ محبت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ بات بشر حافی سے دریافت کرو جب تک وہ حیات ہیں میں اس کا جواب نہیں دوں گا۔

اس سے پتہ چلا کہ آپ اہل معرفت کا کس قدر ادب کرتے تھے کہ ان کی موجودگی میں خود جواب نہیں دیتے بلکہ سائل کو ان کی طرف بھیج دیتے۔

صبر و استقامت:

حضرت امام احمد بن حنبلؒ کی آزمائش تنگدستی،  فقرو فاقہ اور غربت و افلاس سے ہوئی مگر دنیوی حاجات نے ان کے قلب کو متزلزل نہ کیا۔ فقرو افلاس آپ کے مجاہدہ و ریاضت اور خدمت دین کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکا۔ آپؒ کے زمانے کے حکمرانوں نے یکے بعد دیگرے آپ کو آزمائش کے میدان میں گھسیٹا لیکن اس امتحان کے بعد ایک پاکباز اور ملک سرشت کی حیثیت سے باہر نکل آئے۔

آپ کی طرح طرح سے آزمائش کی گئی،  مامون نے قیدو بند کے مصائب میں مبتلا کیا،  آپ قید خانے کی طرف بمشکل پہنچے زندان خانے کی چار دیواری میں اس طرح گئے کہ بیڑیوں کا وزن اور ہتھکڑی کی جھنکار چلنے نہ دیتی تھی۔ آپؒ کو معتصم باللہ نے سزائے قید دی حتیٰ کہ کوڑوں سے آپ کے بدن کو لہولہان کیا،  واثق نے پابندیاں عائد کیں اور آپ کی زندگی تلخ کردی لیکن کوئی تکلیف ان میں تزلزل نہ لاسکی۔ جب جسمانی مشقت اور سزا آپ کو حق گوئی و حق کلامی سے باز نہ رکھ سکی تو متوکل نے سونے چاندی کے ڈھیر سامنے جمع کردیئے مگر آپ نے نہایت لاپرواہی سے سیم و زر کے انبار کو ٹھکرادیا۔ آپ نے نعمت سے مامور دستر خوان اس وقت بھی ٹھکرادیئے جب بھوک سے نڈھال ہوچکے تھے۔ سونے چاندی کی تھیلیاں اس وقت بھی واپس کردیں جب جیب بالکل خالی تھی۔ ریشم و دیباج کے لباس پر اس وقت بھی نگاہ نہ ڈالی جب بوسیدہ اور پرانا لباس جسم پر تھا۔ آپ نے کسی ایسی شے کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا جو مشکوک یا شان تقویٰ کے خلاف تھی۔

علامہ قاضی ابو الحسین محمد بن محمد خلف الفراء آپ کے وسعت علم اور صبر و استقامت کے بارے میں یوں رقم طراز ہوتے ہیں:

انہ فی السنة الامام الفاخر والبحر الزاخر،  أوذی فی الله فصبره ولکتابه نصر و السنة رسول الله انتصر،  افصح الله فیها لسانه وأفصح بیانه،  وأرجح میزانه.

سنت میں آپ امام فخر اور بحر زاہر ہیں۔ آپ کو تکلیف دی گئی آپ نے صبر کیا۔ آپ اللہ کی کتاب کی نصرت کرنے والے ہیں اور حضور کی سنت سے فتح پانے والے ہیں اللہ نے آپ کی زبان کو فصاحت،  آپ کے بیان کو وضاحت اور آپ کے میزان کو بھاری فرما دیا۔

امام احمد بن حنبلؒ کے حالات زندگی اور ان کی سیرت کے مختلف پہلوؤں اسلامی معاشرہ کے افراد کو نہ صرف رشد و ہدایت کی طرف رہنمائی فراہم کرتے ہیں بلکہ نوجوان نسل کی کردار سازی میں مشعل راہ بھی ہیں اور دور حاضر میں بالخصوص تربیت امت اور اصلاح احوال کے لیے آپؒ کی سیرت و تعلیمات روشن مینارہ ہے۔ اللہ رب العزت اہل اسلام کو اخلاق حسنہ اور اعلیٰ اقدار سے مزین فرمائے۔ آمین۔