خلیفہ دوم سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ

سمعیہ اسلام

سیدنا عمر بن خطاب اشراف قریش میں سے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی مدت خلافت دس سال ، چھ ماہ اور چار دن ہے۔وفات کے وقت آپ کی عمر مبارک تریسٹھ برس تھی۔ ثقہ تابعی ابو رجاء عمران بن ملجان العطاردی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر دراز قامت اور مضبوط جسم کے مالک تھے۔ رنگ خوب سفید تھا، آنکھیں سرخ تھیں ، چہرے پر داڑھی ہلکی اور مونچھیں گھنی تھیں اور اس کی رنگت سرخی مائل تھی۔

امیرالمومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شمار تاریخ عالم کی ان شخصیات میں ہوتا ہے جن کی ذات میں بیک وقت اس قدر صلاحیتیں اور خوبیاں موجود ہوں کہ ایک طرف فتوحات اور نظام حکومت میں مساوات، عدل و انصاف، مذہبی رواداری اپنی انتہاء پر ہو اور دوسری طرف روحانیت، زہد و ورع، تقویٰ اور بصیرت بھی اپنے پورے کمال پر نظر آئے۔ اس حوالے سے آپ کی ذات اپنی مثال آپ ہے۔

عدل و انصاف کے معاملے میں بھی آپ کا عملی نمونہ سب کے سامنے موجود ہے۔جو آپ کے لیے باعثِ امتیاز ہے۔ اپنے، پرائے، کمزور و طاقتور میں فرق نہیں کرتے یہاں تک کہ اپنے متعین کردہ گورنر اور اپنے بیٹے کے لئے بھی انصاف کا مظاہرہ اسی طرح کرتے ہیں جس طرح کسی عام آدمی پر عدل و انصاف کا اطلاق کرتے۔ یہی وہ صفات ہیں جو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فتوحات کے پس پردہ کار فرما نظر آتی ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے وقت قریش مکہ میں صرف سترہ آدمی ایسے تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ، ان میں ایک سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے۔سیدناعمر رضی اللہ عنہ قرآن کریم سے بہت گہرا تعلق و شغف رکھتے تھے، اس کی اہم دلیل یہ ہے کہ بعض مواقع پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے ایسے امور کے بارے میں سوالات کرتے تھے جن کا حکم ابھی نازل نہ ہوا ہوتا اور آپ ﷺ ان معاملات میں خلوصِ دل اور سچائی کے جذبے سے اپنی رائے کا اظہار فرمادیتے۔ ان کی فراست اور قرآن کریم کے مقاصد بالاستیعاب جاننے کی وجہ سے قرآنِ کریم کی بعض آیات ان کی رائے کے مطابق ہوئیں۔

اس میں شک نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قبول اسلام حضور نبی اکرم ﷺ کی دعا کا نتیجہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات میں بے شمار صلاحیتیں، سیاسی و انتظامی بصیرت اور عدالت و صداقت ودیعت کر رکھی تھیں، اسی بناء پر آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ عمر کی زبان اور قلب کو اللہ تعالیٰ نے صداقت کا مصدر بنادیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وجود مسعود سے اسلام کی شان و عظمت کو قیصر و کسریٰ کے ایوانوں تک پہنچادیا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہجرت نبوی ﷺ سے چالیس برس پہلے پیدا ہوئے، ایام طفولیت کے حالات پردہ خفا میں ہیں؛بلکہ سن رشد کے حالات بھی بہت کم معلوم ہیں، شباب کا آغاز ہوا تو ان شریفانہ مشغلوں میں مشغول ہوئے جو شرفائے عرب میں عموماً رائج تھے، یعنی نسب دانی، سپہ گری، پہلوانی اور خطابت میں مہارت پیدا کی، خصوصاً شہسواری میں کمال حاصل کیا، اسی زمانہ میں انہوں نے لکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیا تھا۔ تعلیم وتعلم سے فارغ ہونے کے بعد فکر معاش کی طرف متوجہ ہوئے، عرب میں لوگوں کا ذریعہ معاش زیادہ تر تجارت تھا، اس لیے انہوں نے بھی یہی شغل اختیار کیا اور اسی سلسلہ میں دور دور ممالک کا سفر کیا، اس سے آپ کو بڑے تجربے اور فوائد حاصل ہوئے، آپ کی خودداری بلند حوصلگی، تجربہ کاری اورمعاملہ فہمی اسی کا نتیجہ تھی اور ان ہی اوصاف کی بنا پر قریش نے آپ کو سفارت کے منصب پر مامور کردیاتھا، قبائل میں جب کوئی پیچیدگی پیدا ہوجاتی تھی تو آپ ہی سفیر بن کر جاتے تھے اور اپنے غیر معمولی فہم وتدبر اورتجربہ سے اس عقدہ کو حل کرتے تھے۔

فہم و فراست:

عہد نبوت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سرکار دوعالم ﷺ کا قرب حاصل ہوا اور ساتھ ہی ساتھ تمام معاملات میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مشاورت کو اہمیت حاصل تھی۔ غزوات ہوں یا حکومتی معاملات، سب میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشورہ لیا جاتا تھا۔ بعض اوقات آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اختلاف کرتے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کی تائید ہوجاتی اور جبرائیل امین علیہ السلام آیات قرآنی کی صورت میں بارگاہ رسالتمآب ﷺ میں حاضر ہوکر موافقت فرماتے۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں مشورہ کرنے کے عادی تھے۔وہ ہر معاملے میں لوگوں سے مشورہ کرتے، بسا اوقات تو خواتین سے بھی مشورہ کر لیتے اور اگر ان کے مشورے میں بھلائی دیکھتے تو اسے اختیار فرماتے۔ چنانچہ سند سے ثابت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی ام المؤمنین سیدہ حفصہ سے بھی مشورہ لیا۔

اگر کوئی عمومی حادثہ پیش آتا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع فرماتے اور جس قدر ممکن ہوتا مجلس مشاورت میں توسیع کرتے تھے، جیسا کہ انھوں نے طاعون کے سلسلے میں وسیع پیمانے پر مجلس مشاورت قائم کی اور ارض شام کی طرف سفر کے سلسلے میں مشاورت فرمائی۔سیدنا عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میرے پاس ہجرت میں پہل کرنے والوں کو بلاؤ۔ میں نے انھیں بلایا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے مشاورت کی اور انھیں شام میں پھیلی ہوئی وبا کے متعلق خبر دی تو انھوں نے اختلاف کیا۔بعض نے کہا، آپ ایک اہم کام کے لیے نکلے ہیں، اس لیے ہم آپ کا واپس لوٹنا مناسب نہیں سمجھتے۔بعض نے کہا ،تمہارے ساتھ وہ لوگ ہیں جو (پہلے لوگوں میں سے) باقی رہ گئے ہیں اور رسول ﷺ کے اصحاب ہیں اور ہم انھیں وبائی ملک میں لے جانا مناسب نہیں سمجھتے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اب تم لوگ جاؤ۔ پھر فرمایا اب انصار کو میرے پاس بلاؤ۔ میں نے ان کو بلایا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے مشاورت کی تو وہ مہاجرین کے راستے پر چلے اور انہی کی طرح اختلاف کرنے لگے ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اب تم چلے جاؤ۔پھر فرمایا اب میرے پاس قریش کے ان عمر رسیدہ لوگوں کو بلاؤ جو فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہوئے ہیں۔میں نے انہیں بلایا اور ا ن میں سے کسی دو افراد نے بھی اختلاف نہیں کیا۔ سب نے کہا ہم یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ آپ لوگوں کو لے کر لوٹ جائیں اور انہیں وبا کے سامنے نہ کیجئے۔ آخر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں منادی کر دی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں ایک ہزار چھپن شہر مع قصبات و دیہات فتح ہوئے۔ روم و ایران کا جاہ و جلال سرنگوں ہوا۔ چار ہزار مساجد تعمیر ہوئیں۔ 10 سال 6 ماہ 4 دن کے دور خلافت میں 22 لاکھ 51 ہزار 30 مربع میل پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا۔ جس میں شام، مصر، عراق، جزیرہ خوزستان، ایران، آرمینیہ، آذربائیجان، فارس، کرمان، خراسان اور مکران شامل تھے۔

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہ صرف یہ کہ فتوحات کا دائرہ وسیع کیا اور ایک کامیاب فاتح حکمران کے طور پر شہرت حاصل کی بلکہ ان مفتوحہ ممالک میں جو انقلابی اقدامات اور اصلاحات نافذ کیں حقیقت میں وہ آپ کو تاریخ اسلام میں ہی نہیں بلکہ تاریخ عالم میں منفرد و ممتاز مقام عطا کرتی ہیں۔

قرآن کریم سے موافقت:

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روحانیت کا یہ عالم تھا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان پر حق بولتا تھا۔ آپ الہامی شخصیت کے مالک تھے، جو سوچتے وہ ہوجاتا تھا۔ قرآن اور حدیث آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے میں موافقت کرتے۔ آیت حجاب، مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنانے، ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے متعلق، واقعہ ایلاء، جنگی قیدیوں سے سلوک، منافق کی نماز جنازہ، حرمت شراب، توریت کی آیت کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کلام، اذان کے حکم کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کے مطابق ہونا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روحانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دعائے برکت کے سلسلے میں آنحضور ﷺ کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورے پر عمل کرنا، جنت کی بشارت دینے کے سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مشورہ قبول کرنا، فرض اور نوافل کو الگ الگ رکھنے کے سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کو پسند فرمانا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روحانیت کا مظہر ہونے کے دلائل ہیں۔ سترہ کے قریب ایسی قرآنی آیات ہیں جو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کی موافقت میں نازل ہوئیں۔

عدل و انصاف کا پیکر:

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ عدل و انصاف کا پیکرتھے۔ اسی عدل و انصاف کی وجہ سے ساڑھے 22 لاکھ مربع میل سے زائد علاقہ پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت اپنے تمام تر تقاضوں کے ساتھ موجود رہی اور رعایا نے آپ کے تمام احکامات کو دل و جان سے قبول کیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں عدالت کا محکمہ باقاعدہ قائم ہوا۔ حکومتی نظام کو احسن طریقے سے چلانے اور عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عدالتی امور کو حکومتی امور سے الگ کردیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے مقرر کردہ گورنرز، والیوں اور ججز پر سخت گرفت فرماتے۔ ان کی کارکردگی کے جائزہ کے لئے حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مقرر کررکھا تھا۔ جہاں کہیں سے شکایت ملتی یا کہیں بے انصافی کا گمان ہوتا فوراً گرفت فرماتے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عدل و انصاف کے پیچھے کارفرما روح صرف اور صرف خوف الہٰی تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حساب سے ڈرنے والے تھے۔ خوداحتسابی اور معاملہ فہمی میں بہت محتاط تھے۔

کارہائے نمایاں:

محکمہ فوج، پولیس، ڈاک، بیت المال، محاصل، جیل، زراعت، آبپاشی اور تعلیم کے محکمہ جات کا قیام آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ہوا۔ اس سے پیشتر یہ محکمے موجود نہ تھے۔ ان محکموں کے قیام سے یکسر نظام خلافت، نظام حکومت میں بدل گیا تمام محکموں کے افسران اور ملازمین کی تنخواہیں مقرر کی گئیں باقاعدہ فوج اور پولیس کے ملازمین بھرتی کئے گئے نہری اور زرعی نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق ترتیب دیا گیا ڈیم اور نہریں بنائی گئیں زمینوں کو مزارعین میں تقسیم کردیا گیا باقاعدہ حساب کتاب کے لئے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مختلف شعبوں کا سربراہ مقرر کیا۔

امیرالمومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت، فہم و تدبر، سیاسی بصیرت، انتظامی صلاحیت، جنگی حکمت عملی، منفرد انداز حکمرانی اور روحانیت کا وہ حسین امتزاج ہے کہ جس نے انہیں تاریخ عالم کا منفرد فاتح اور عادل حکمران بنادیا۔