ام المومنین سیدہ ام حبیبہؓ کا مقام و مرتبہ

سعدیہ کریم

ام المومنین سیدہ ام حبیبہؓ بنت ابی سفیان الامویہ سلام اللہ علیھا کا اصل نام رملہ تھا۔ بعض مورخین نے ہند لکھا ہے لیکن رملہ ہی زیادہ معروف ہے۔ آپ قریشی ازواج مطہرات میں چوتھے نمبر پر ہیں اور حضور اکرم ﷺ نے آپ کے ساتھ نکاح بھی چوتھے نمبر میں فرمایا تھا۔ پہلا نکاح حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا سے، دوسرا عائشہ بنت ابی بکرؓ پھر سودہ بنت زمعہؓ اور پھر ام حبیبہ بنت عائشہ بنت ابی بکرؓ پھر سودہ بنت زمعہؓ اور پھر ام حبیبہ بنت سفیان سلام اللہ علیہن سے نکاح فرمایا۔ سیدہ ام حبیبہ کا نکاح نجاشی نے پڑھوایا اور خود ہی ان کا مہر ادا کیا جو کہ چار سو دینار تھا پھر ولیمہ کا کھانا کھلا کر مہمانوں کو رخصت کیا اور سیدہ ام حبیبہ کو جہاز پر حضور اکرم ﷺ کی طرف روانہ کیا۔

پیدائش:

ام المومنین سیدہ ام حبیبہؓ ابو سفیان کی بیٹی تھیں۔ ابو سفیان صخر بن حرب کا تعلق بنو امیہ سے تھا۔ ان کا شمار سرداران قریش میں ہوتا تھا۔ قریش میں جن تین اشخاص کو صاحب الرائے مانا جاتا تھا۔ ان میں ایک ابو سفیان بھی تھے۔ ابو سفیان کی شادی صفیہ بنت ابوالعاص بن امیہ سے ہوئی جو ان کے چچا کی بیٹی تھی اور حضرت عثمان بن عفان ذوالنورینؓ کی پھوپھی تھیں۔ جب ان کے گھر بیٹی کی ولادت ہوئی تو ابو سفیان نے کہا کہ:

’’کون جانتا ہے کہ یہ بچی میرے لیے کتنی مبارک ثابت ہو۔‘‘

پھر رملہ نام رکھا، رملہ کی پیدائش واقعہ فیل سے 23 برس بعد ہوئی۔ وہ سب کی آنکھوں کا تارا تھی سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوئی تھی والدین ہر خواہش پوری کرتے تھے۔ جب وہ بالغ ہوئی تو بہت خوبصورت تھیں۔ صحیح مسلم میں ابو سفیان کا ایک قول موجود ہے کہ میرے گھر میں عرب کی حسین ترین اور جمیل ترین عورت موجود ہے جو کہ میری بیٹی رملہ ہے۔

ام حبیبہؓ کا پہلا شوہر عبیداللہ جحش تھا جو ہجرت حبشہ کے بعد عیسائی ہوگیا تھا اور اسی حالت میں مرگیا لیکن ان کے دل میں اسلام کے لیے جو محبت تھی اس نے ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آنے دی۔ وہ حضور اکرم ﷺ کی محبت میں دین پر قائم رہیں اور دین کی خاطر اپنے باپ، بھائی، خویش، قبیلہ اور وطن تک کو چھوڑ دیا۔

شوہر کی وفات کے بعد انہوں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی انہیں ام المومنین کہہ کر پکار رہا تھا۔ پھر نجاشی کی طرف سے رسول اکرم ﷺ کے ساتھ نکاح کا پیغام ملا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور لونڈی کو انعام میں اپنا سارا زیور اتار کر دے دیا نکاح کے وقت ان کی عمر 36یا 37 برس تھی۔

حضرت ام حبیبہ بہت صابر و شاکر خاتون تھیں جب حبشہ میں قیام کے دوران ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا تو اس کے بعد وہ طویل عرصہ تک حبشہ میں اکیلی مقیم رہیں ان کے دو چھوٹے بچے تھے۔ لیکن واپس مکہ نہیں گئیں کیونکہ ان کا باپ اسلام کا بدترین دشمن تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس صبر کا صلہ عطا فرمایا اور حضور اکرم ﷺ نے ان کو نکاح کا پیغام بھجوادیا۔ اس نکاح کی وجہ سے حضور ﷺ کابنی امیہ کے ساتھ رشتہ قائم ہوگیا۔ دشمنی محبت میں بدل گئی جو ترویج اور اشاعت اسلام کے لیے خوش آئند ثابت ہوئی۔

عزیز و اقارب:

سیدہ ام حبیبہؓ کے عزیز و اقارب میں سرفہرست ان کے والد تھے جو مکہ کے مشہور سردار اور تاجر تھے۔ ابتدائی زمانے میں اسلام کے بدترین دشمن تھے۔ انہوں نے حضور اکرم ﷺ کے خلاف جنگوں میں قریش کا ساتھ دیا تھا اور یہ صورتحال اور دشمنی سیدہ ام حبیبہؓ کے لیے بہت تکلیف کا باعث تھی اسی وجہ سے اپنی بیوگی کے دنوں میں وہ اپنے والد کی طرف واپس نہیں گئی تھیں۔ وہ جب ان کی حضور ﷺ سے دشمنی کے واقعات کو یاد کرتیں تو ان کے چہرہ مبارک پر نفرت کے آثار دیکھے جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضور ﷺ سے نکاح کے بعد ان کا باپ ان سے ملنے کے لیے آیا تو انہوں نے اپنے باپ کو اپنے شوہر کے بستر پر بیٹھنے بھی نہیں دیا۔ باپ کے علاوہ ان کے سگے بھائی یزید بن ابوسفیان ہیں جو یزیدالخیر کے نام سے مشہور ہوئے۔ پھر باپ شریک بھائی امیر معاویہؓ تھے۔ ان کے پہلے شوہر سے ہونے والی اولادوں میں حبیبہ ان کی بیٹی تھی جس نے رسول اکرم ﷺ کے زیر سایہ پرورش پائی تھی۔ ان کی باپ شریک چار بہنیں تھیں جن کی والدہ ہند بنت عقبہ تھیں۔ وہ جویریہ، فارعہ اور ام حکیم تھیں اس کے علاوہ ہند اور صخرہ بھی دو بہنیں تھیں۔

اخلاق و عادات:

سیدہ ام حبیبہؓ اعلیٰ اخلاق کی مالکہ تھیں وہ پاکیزہ ذات، حمیدہ صفات، جواد اور عالی ہمت تھیں۔ پہلی شادی کے فوراً بعد ہی دونوں میاں بیوی نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ بڑی سختی سے وہ اپنے دین پر کار بند رہی تھیں اور شوہر کے مرتد ہوجانے کے بعد بھی دین کو نہیں چھوڑا۔ حضور اکرم ﷺ کی زوجیت میں آنے کے بعد ان کا اخلاق کمال تک پہنچ گیا تھا۔ احادیث رسول ﷺ پر بڑی شدت سے عمل کرتی تھیں اور دوسروں کو بھی احادیث پر عمل کرنے کی تلقین کرتی تھیں۔

آپ نے تقریباً 165 احادیث روایت کی ہیں۔ حضرت ام حبیبہؓ کی روایات میں سے دو متفق علیہ ہیں جبکہ ایک جامع مسلم میں اور باقی دیگر کتب احادیث میں موجود ہیں۔

عہد عثمانی میں جب خوارج نے حضرت عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور ضرورت کی کوئی چیز ان کے گھر میں جانے نہ دی تو اس وقت ام المومنینؓ مضطرب ہوئیں۔ ہر طرح کے خطرات کو پس پشت ڈال کر پانی کا ایک مشکیزہ اور کچھ کھانا لے کر اپنے خچر پر سوار ہوئیں اور حضرت عثمانؓ کے گھر کی طرف روانہ ہوگئیں مگر فسادیوں نے انہیں روک کر ان کے خچر کو زخمی کردیا۔ پھر کچھ لوگوں نے انہیں گھر واپس پہنچایا۔

ان کی بیٹی حبیبہؓ بھی بڑی فضیلت والی تھیں انہوں نے بھی روایت حدیث کا فیض اور شرف آپؓ سے حاصل کیا تھا۔ حضرت ابن سیرین نے ذکر کیا ہے کہ مجھے حبیبہ بنت سہلؓ نے بیان کیا کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے گھر میں تھیں۔ آپ ﷺ گھر تشریف لائے اور فرمایا کہ مسلمانوں میں سے جن والدین کے تین بچے وفات پاجائیں اور وہ بلوغت تک نہ پہنچیں تو ان کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور پھر ان سے کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہوجاؤ تو وہ کہیں گے کہ ہم داخل نہ ہوں گے یہاں تک کہ ہمارے والدین داخل ہوجائیں۔

سیدہ ام حبیبہؓ ایک عظیم خاتون تھیں۔ وہ اپنے والد اور باقی اہل خانہ کے قبول اسلام کے لیے بہت دعائیں مانگا کرتی تھیں ان کی سب دعائیں فتح مکہ کے دن قبول ہوئیں اور ان کے والد نے اسلام قبول کرلیا۔

سیدہ ام حبیبہؓ جب ام المومنین کے مقام پر فائز ہوئیں تو 36 برس کی تھیں۔ بعض روایات کے مطابق انہوں نے 24 ہجری میں انتقال کیا۔ بعض روایات کہتی ہیں کہ انہوں نے خلافت راشدہ کا پورا زمانہ دیکھا اور 66 ہجری میں اپنے بھائی امیر معاویہؓ کے دور خلافت میں وفات پائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔

ام حبیبہؓ کا حضور اکرم ﷺ کے ساتھ نکاح اسلام کی بہتری اور توسیع تعلقات میں مددگار ثابت ہوا اور یہ بات بھی واضح ہوئی کہ نبی محض اللہ کا پیغام پہنچانے والا نہیں ہوتا بلکہ معاشرے میں رہنے والا جلیل القدر انسان بھی ہوتا ہے۔