سعدیہ محمود

انسانی وجود تجسس و تحقیق کے خمیر سے موجزن ہے۔ نظامِ عالم میں ہر سو پھیلے پراسرار عجائب و حقائق اسے ہر دم فطرت کو کھوجنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں۔ اس تحقیق کا بالعموم نقطہ کمال ہر ذی شعور انسان کو اس دقیق مقام پر لا کھڑا کرتا ہے جہاں یہ سوال سر اٹھاتا ہے کہ آخر اس کائنات کا تخلیق کار کون ہے؟ یہ نظام آج تک کیسے جاری و ساری ہے؟

یہ وہ مقام ہے جو ایک عظیم مرج البحرین ہے۔ جہاں مذہب سائنس کو اور سائنس مذہب کو سہارا دیتا ہے اور ان دونوں کا ملاپ ہوتا ہے۔ اور بلاشبہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ یہ مذہب اسلام ہے۔

اسلام سلامتی سے نکلا ہے اور سلامتی اس بات سے مشروط ہے کہ ہر شے اپنے مقررہ دائرے اور حدود و قیود کے اندر رہے۔ اگر ایک شے بھی اپنی حدود سے تجاوز کرے گی تو بگاڑ پیدا ہو گا۔ اب اگر نظامِ کائنات پر غور کریں تو اسلام کا یہ بنیادی اصول ہر جگہ کار فرما دکھائی دیتا ہے۔ مثال کے طور پر نظامِ شمسی۔ ہر ستارہ اور سیارہ ایک دوسرے سے منسلک مگر اپنی اپنی حدود میں صدیوں سے موجود ہیں اور اس نظام کے قیام کے لئے ان سب کا توازن کے ساتھ موجود رہنا لازم و ملزوم ہے۔ نظامِ شمسی کے اس سائنسی ماڈل کا واضح ذکر قرآنِ کریم میں موجود ہے جو اسلام کا سب سے بڑا معجزہ اور دستورِ عمل ہے۔ علومِ قرآن کی جامعیت، قیامت تک کے لئے ایک ایسی رہنمائی ہے جو کل کائنات کے تمام عقلی و نقلی علوم کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ سائنسی دریافت و ایجادات بالآخر قرآن کی کسی ایک آیت کے علم میں مقید دکھائی دیتی ہے۔

بلاشبہ قرآن کا مطالعہ انسان کے لئے نت نئے فکر و تدبر کے ابواب وا کرتا ہے مگر انسانی عقل دلیل اور مشاہدے کی محتاج ہے۔ عقل کو یہ دلیل سائنس فراہم کرتی ہے۔

گویا اسلام خالق کا پتہ دیتا ہے اور سائنس تخلیق کا شعور عطا کرتی ہے۔ اسلام " کیا" کا جواب دیتا ہے اور سائنس " کیسے" کی دلیل دیتی ہے۔ اسلام ماورائے عقل مقامات و عنوانات کو بھی یقین کے پیرہن میں سمو کر آگہی کی منزل طے کرواتا ہے اور سائنس مشاہداتی علم و تجربے کی آنکھ سے شعور کا راستہ دکھاتی ہے۔ گویا یہ ایسا مرج البحرین ہے جو ہر دم ہم قدم بھی ہے اور اپنی اپنی انفرادیت بھی برقرار رکھے ہوئے ہے۔

آج کے دور میں اسلام اور سائنس کے درمیان نظر آنے والا فاصلہ محض پسماندہ اذہان کی پیداوار ہے۔ کیونکہ آج مذہب اور سائنس دو ایسے مختلف طبقات کے درمیان بٹ گئے ہیں جو ایک دوسرے سے ناواقف ہیں۔ اسلام اور سائنس کو جدا کرنے کے پیچھے ہماری کم فہمی اور کم علمی کے سوا کوئی دوسری وجہ نہیں۔

دنیا کے نامور سائنسدان سائنسی دنیا میں تہلکہ آمیز دریافت اور ایجادات کرنے کی بعد اس بات کے معترف دکھائی دیتے ہیں کہ یہ نظام بغیر کسی " عظیم طاقت" کے وجود میں آ سکتا ہے نہ اتنے طویل عرصے تک قائم رہ سکتا ہے۔ ان میں آئزک نیوٹن، مائیکل فراڈے اور آئن سٹائن جیسے نامور سائنسدان شامل ہیں۔ مادہ اور انرجی کے باہمی تعلق کو دریافت کرنے والے عظیم سائنسدان، جس نے دنیا کو دنگ کر دیا، یہ کہتا ہے کہ

"Science without religion is lame and religion without science is blind"

اسی طرح نیوٹن بھی خدا جیسی کسی عظیم طاقت کے وجود پر یقین رکھتا تھا جو اس کائنات کی کارساز ہے ۔

مزید برآں مغربی سکالرز کی تحقیق اس بات کو تسلیم کر چکی ہے جدید سائنس کی بنیاد دراصل قرونِ وسطی کے مسلمان سائنسدانوں کے علوم و ایجادات پر مبنی ہے۔ سی۔ایچ۔ ہاسکنز ایک کتاب ( studies in the history of medical sciences) میں ان الفاظ میں اعتراف کرتا ہیکہ " یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ سپین کے عرب ہی مغربی یورپ کے تمام جدید علوم و فنون کا سر چشمہ ہیں"

اسی طرح سی۔ایچ۔بارنز کتاب ( A history of medical writings) میں کہتا ہے کہ " بہت سی جہتوں سے قرونِ وسطی کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ تہذیب و ثقافت ہر گز عسائیت نہیں تھی بلکہ یہ ثقافت اسلامی عقیدہ رکھنے والی اقوام کی تھی"

سائنس کی بنیاد فراہم کرنے والے ان عظیم مسلمان سائنسدانوں کا ذریعہ راہنمائی بلاشبہ علومِ قرآنی تھے جن کی روشنی میں انھوں نے تمام علوم میں کلیدی معلومات اور مہارت حاصل کی۔ مثال کے طور پر امام جعفر صادق ایک عظیم کیمیا دان تھے جو بابائے کیمیا جابر بن حیان کے استاد بھی تھے۔ اسی طرح محمد ابن موسی الخوارزمی ایک ر یاضی دان اور ماہر فلکیات تھے، علی ابن الطبری طب، حیوانات اور فلکیات کے ماہر، یعقوب الکندی آواز پر تحقیق کے ماہر، ابوالقاسم الزہروی طبیب اور سرجن، ابن سینا تجرباتی علم کی بنیاد رکھنے والے، زہرہ سیارے کے بارے میں تحقیق کرنے والے اور سمندر میں پتھربننے کے عمل کے بارے میں تحقیق کرنے والے سائنسدان تھے۔

ان تمام شواہد سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ سائنس اور اسلام کے حقیقی علمبردار اور عالم، سائنسدان ہوں یا محقیقینِ اسلام، سائنس اور اسلام دونوں کے قائل تھے۔ اور آج کا یہ تضاد و تصادم محض جہالت اور انتہا پسندانہ سوچ کا نتیجہ ہے، چاہے سائنسی علوم رکھنے والوں کی طرف سے ہو یا مذہبی پیروکاروں کی طرف سے۔ اسلام اور سائنس کو جدا سمجھنے والے کی یہ سوچ اس کی کم علمی اور کم فہمی پر خود ایک دلیل ہے۔

اسلام اور سائنس کے باہمی تعلق اور لازم و ملزوم ہونے کا ایک اہم ثبوت یہ ہے کہ اسلام خود سائنسی تحقیقات کی طرف توجہ مبذول کرواتا ہے۔ قدرت کے نظام کو غورو فکر کے ساتھ پرکھنے اور سمجھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ قرآن کی سب سے پہلی وحی اور سب سی پہلی آیت علم و قلم کے بارے میں تھی۔ قرآن میں کم وبیش 750 مقامات پر انسان کو مختلف پہلوؤں سے غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ قرآن کہیں زمین و آسمان کی وسعت کی طرف توجہ مبذول کرواتا ہے تو کہیں سمندر میں ہواؤں کے رخ اور پانی کے بہاؤ کی طرف، کہیں انواع اقسام کے پھل اور حیوانات کی طرف اور کہیں سورج، چاند، ستارے اور عالم افلاک کی پراسراریت کی طرف، کہیں انسانی وجوداور پیدائش کی طرف اور کہیں اجسام عالم کی کیمیائی ترکیب کی طرف۔ گویا سائنس کا علم قرآن کے بہت سارے علوم میں سے ایک علم ہے۔ اسلام اور قرآن کل ہے جبکہ سائنس اس کا ایک جزو ہے۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ جزو کل سے جدا یا متضاد ہو۔

قرآن کی چند آیات جو اس کلیت اور جامعیت پر دلیل کرتی ہیں درج ذیل ہیں؛

" اور ہم نے آپ پر وہ عظیم کتاب نازل فرمائی ہے جو ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے۔"

(النحل، 16: 89)

" اور نہ کوئی تر چیز ہے اور نہ کوئی خشک مگر روشن کتاب میں( سب کچھ لکھ دیا گیا ہے۔)

( یوسف، 6: 59)

عالامہ ابن برہان اس موضوع کی دلیل میں فرماتے ہیں کہ

" کائنات کی کوئی ایسی شے نہیں جس کا ذکر یا اس کی اصل قرآن سے ثابت نہ ہو۔"

(التقان، 2: 124)

کچھ اہم تحقیقی موضوعات جن کا براہ راست قرآن میں ذکر موجود ہے وہ درج ذیل ہیں؛

1۔ تحقیقِ کائنات اور اس کا تشکیلی نظام

2۔ زمانہ ہائے تخلیق اور ادوارِ ارتقاء

3۔ وجودِ کائنات کی طبیعی اور کیمیائی اساس

4۔ ارتقائے حیات کے طبیعی اور کیمیائی مراحل

5۔ اجرامِ فلکی کی ماہیت اور نظامِ کار

6۔ زمین اور ظہورِ حیات

7۔ انسانی زندگی کا آغاز اور نظامِ ارتقاء

8۔ نباتات اور حیوانات کی زندگی

9۔ افزائشِ نسلِ انسانی کا نظام

ان تمام موضوعات پر قرآن میں متعدد مقامات پر مفصل ذکر موجود ہے اور اس طرح کے بے شمار سائنسی و تحقیقی موضوعات قرآن میں جا بجا بیان کئے گئے ہیں۔

المختصر اسلام اور سائنس ہر گز متضاد یا متصادم نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کا فروغ اور راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے ان دونون کے درمیان پیدا ہو جانے والی خلیج کو پر کیا جائے اور قرآن اور سائنس کی مخلوط تعلیم کو فراغ دیا جائے تا کہ شعور اور آگہی کا سفر اپنے اوجِ کمال کو پہنچ سکے اور انسانیت معرفت کی معراج پا جائے۔