قائد اعظم اور آج کا پاکستان

تحریر: آمنہ خالد

قائداعظم، ہم برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن۔ قائداعظم، مکار انگریز اور منافق ہندوؤں کے مقابلے میں اصولوں کا علمبردار لیڈر۔ قائد اعظم، ذلت میں ڈوبے محروم و مجبور مسلمانوں کا وقار اور قائداعظم، وہ عظیم ہستی جس نے دنیا کے نقشے پر پھیلی ہوئی پہلی نظریاتی اسلامی ریاست کے نقشے میں اپنے جگر کے خون سے رنگ بھرے۔ یہ قدرت کا انصاف ہے کہ تپتی ریت پر اخبار بچھا کر سونے والے مزدور اور سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہونے والے کسی شہزادے کی آنکھیں ایک جیسے خواب تو دیکھ سکتی ہیں۔ لیکن یہ قدرت کا قانون ہے کہ آنکھیں جتنا بڑا خواب دیکھتی ہیں اس خواب کی تعبیر پانے کے لیے اتنی بڑی قربانی دینا پڑتی ہے۔

دنیا کے ناکام اور کامیاب افراد، اداروں، ملکوں اور قوموں کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں کامیابی اور ناکامی کے درمیان صرف ایک فرق نظر آتا ہے۔ عزت اور ذلت کے درمیان ایک حدِ فاصل دکھائی دیتی ہے۔ بلندی اور پستی میں ایک لمحے فرق محسوس ہوتا ہے۔ عروج و زوال میں صرف ایک لفظ تفریق ڈالتا ہے۔ وہ حدِ فاصل، وہ لمحہ، وہ فرق صرف اور صرف کام ہے۔

قائداعظم کی زندگی کا ایک ایک لمحہ، ایک ایک واقعہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ عمر بھر محنت، مشقت اور کام پر یقین رکھنے والے لیڈر تھے۔ اور انہوں نے آزادی کی منزل تک پہنچنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ علامہ اقبال عظیم مفکر اور راہنما تھے جنہوں نے مسلمانوں کے عروج و زوال کے ایک ایک لمحے کا تجزیہ کر کے صرف اور صرف ایک ہی جذبے کو مسلمانوں کے عروج و زوال کا واحد سبب قرار دیا اور وہ تھا۔

وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا

قائد اور راہنما وہ ہوتا ہے جو اعلیٰ نصب العین سے قوم کو مالامال کر دے۔ قائد وہ کہلاتا ہے جو سینہ تان کر حادثات کا مقابلہ کرنے کو تیار رہے۔ قائد وہ کہلاتا ہے جو اللہ پر بھروسہ کر کے دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائے۔ قائد وہ کہلاتا ہے ہے جو حلقۂ یاراں میں ریشم کی طرح نرم اور رزمِ حق و باطل میں فولاد کی طرح سخت ہو۔ قائد وہ کہلاتا ہے جو محوِ پرواز ہو تو اس کی نگاہ اپنے ٹارگٹ پر ہو جب وہ اڑے تو اس کا ہدف اس کے سامنے ہو۔

قائد وہی کہلا سکتا ہے کہ جب وہ کامل ایمان کے ساتھ، محنت اور خلوص کے ساتھ منزلوں کی طرف قدم بڑھائے تو منزل خود ایک قدم آگے بڑھ کر اس کا استقبال کرے۔ یقیناً یہی وہ خوبیاں ہیں جنھوں نے ایک معمولی تاجر کے گھر پیدا ہونے والے محمد علی جناح کو قائد اعظم کے عظیم منصب پر بیٹھایا۔

محنت کا پرچم ہاتھوں میں لے کر نکلنے والے بیرسٹر محمد علی جناح نے ہندوؤں اور انگریزوں کی سازشیوں کو ناکام بنایا۔ ایک آزاد وطن کو اپنی منزل قرار دیا۔ ایک خدا، ایک رسول، ایک کعبہ، ایک قوم کا نعرہ لگا کر نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر کے میدان تک منتشر قوم کو ایک جسم کی صورت میں اکٹھا کیا۔ انگریزوں کے مظالم اور ہندوؤں کی مکاری کے ہاتھوں زخمی ہونے والوں کے اندر آزادی کی وہ چنگاری سلگائی کہ کل تک غیر کے ہاتھوں زخم کھانے والے مسلمان بڑے بڑے فرعونوں اور جابروں سے جا ٹکرائے۔ اور آخر کار اپنا وطن حاصل کرلیا۔

آزادی کا چراغ روشن کرنا ایک مشکل کام ہے لیکن اس سے بھی مشکل کام چراغ کو زمانے کی بے رحم آندھیوں سے بچا کر روشن رکھنا ہے۔ اس چراغ کو روشن رکھنے کے لیے خونِ جگر دینا پڑتا ہے۔

قائد اعظم نے اپنا خونِ جگر دے کر جس پاکستان کو بہاروں کا مسکن بنایا تھا آج وہ خزاں کے سفاک ہاتھوں سے برباد ہو رہا ہے۔ اقبال کے جس خواب کی تعبیر بن کر قائد اعظم نے اپنا سب کچھ قربان کر کے ہمیں الگ وطن دیا تھا، آج ہماری نااہلی اور سستی کے باعث دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔

قائد کا وہ دیس جو عالمِ اسلام کی قیادت کا دعویدار تھا آج بے بسی کی صدا بن کر کفر کو اپنی مدد کے لئے پکار رہا ہے۔ قائد کے جس دیس کو دنیا بھر میں رول ماڈل بننا تھا آج کرپشن اور جہالت کی منڈی بن چکا ہے۔

ہم وہ بد قسمت قوم ہیں کہ آج قائد کی روح ہم سے سوال کرلے کہ ہم نے اس کے بخشے ہوئے وطن کے ساتھ کیا سلوک کیا تو ہماری آنکھیں ندامت سے جھک جائیں گی۔ آج قائد کے دیس کا ایک ایک نوجوان، ایک ایک استاد، ایک ایک شاگرد کردار کا غدار ہے۔ آئیے آج ہم یہ عہد کریں کہ اسلام کے سنہری اصولوں پر عمل کرکے اپنی زندگی کو سنواریں گے اور قائد اعظم کے دیے ہوئے وطن کی حفاظت کریں گے اور ایسا انقلاب برپا کریں گے جو معاشرے کی وضع کردہ اقدار، مسلط کردہ روایات، عائد کردہ عادات اور فرسودہ نظریات کو پارہ پارہ کر کے رکھ دے۔

انقلاب ایک ایسی زبردست اور ہنگامہ خیز تبدیلی کا نام ہے، جس سے معاشرے کی تسلیم شدہ بنیادوں کو منہدم کر کے اس کی تعمیر و تشکیل نئے سرے سے کی جاتی ہے۔ انقلاب خودی سے عبارت ہے۔ یہ ماحول بھی خود تیار کرتا ہے، پس منظر بھی خود بناتا ہے، مزاج کی پرورش بھی خود کرتا ہے، اٹھان کا وقت بھی خود طے کرتا ہے۔ اثرات بھی خود مرتب کرتا ہے اور مستقبل کے خاکے میں رنگ بھی خود بھرتا ہے۔

انقلاب کیسی کلیسا کے پروہت، مندر کی دیوی، مسجد کے ملا، منڈی کے آڑھتی اور دیہہ کے وڈیرے کی دعا، خوشنودی، تائید اور مدد کا محتاج نہیں ہوتا، اس میں خود اپنے اندر ایسی ایٹمی طاقت ہوتی ہے جو مختلف مراحل کی تشکیل سے لے کر تکمیل تک یہ خود کفیل بنا رہتا ہے۔

آج اسی انقلابی جذبے کی ضرورت ہے کہ جس کی ایک ہی برقی کڑک اور انقلابی زلزلے سے عرب و عجم کی زمین ہل کر رہ جائے اور جس کی گھن گرج اب رہتی دنیا تک سنائی دیتی رہے۔

انسان کو جلد کامیابی سے ہم کنار کرنے، مسائل کا بھرپور احاطہ اور ازالہ کرنے، سماجی، سیاسی اور روحانی امراض کو دور کرنے کا واحد طریقہ انقلاب ہے۔۔ جس کی رفتار تیز، افق وسیع، عمل ہمہ گیر اور نتائج حوصلہ افزا ہوتے ہیں۔

دعا ہے کہ اللّٰہ رب العزت ملک پاکستان کو ہمیشہ سلامت رکھے۔ آمین۔