پاکستان میں آلودگی کے مسائل

فلک صدی

پاکستان ہمارا ملک حسین وادیاں سرسبز میدان برف پوش پہاڑوں اور مہکتی ہوئی فضاؤں کا مرکز ہے اب بھی کچھ حد تک ہم کہہ سکتے ہیں مگر کچھ حد کا لفظ کیوں کر آیا یہ سوال خود سے پوچھا جائے تو بہتر ہوگا کیونکہ ماحول کے اس بدلتے نظام میں ہاتھ تو ہمارا اپنا ہی ہے ہم نے ماحول کو خود خراب کردیا ہے اب ہم اس بات کا گلہ کرتے اچھے نہیں لگتے کہ پاکستان میں آلودگی بہت ہے۔

سب کچھ فطرت کے اصولوں کے مطابق چل رہا تھا موسم خوشگوار تھا۔ صاف پانی میسر تھا۔ اب تو ہوا میں سموگ ہے اور پانی تک پینے کو میسر نہیں جیسے پہلے تھا۔ گاڑیوں میں استعمال ہونے والا ڈیزل اور پٹرول جب ہوا میں جاتا ہے تو ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث بن جاتا ہے۔

پانی زندگی کی بقا ہے مگر انسان نے اپنی بقا کو خطرے میں ڈال دیا۔ اس سے انسان دل کی بیماری اور آنکھوں کی بیماری میں مبتلا ہوگیا ہے نیز ہر درد ہم نے خود اپنے آپ کو اپنی ہی غلطی سے لگایا ہے۔

ہم نے اندر کے اندھیروں کی سزا پائی ہے

انسان کو بس کورونا سے بچنے کے لیے ہی ماسک کی ضرورت نہیں بلکہ اس ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثر سے بچنے کے لیے ماسک ضروری ہوگیا ہے جو ہم نے بویا ہے اب اس کو کاٹنے کا وقت ہے۔ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے کے مطابق اب ہماری باری ہے۔ ابھی بھی ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسل کے لیے کچھ اچھا کرجائیں۔

آلودگی کی اقسام:

آلودگی کی بہت سی اقسام ہیں جس میں شور کی آلودگی، ہوا کی آلودگی زمینی آلودگی اور ماحولیاتی آلودگی شامل ہے۔ ہوا میں آلودگی درختوں کی کمی اور ہمارا دھواں چھوڑتا ماحول ہے۔ پلاسٹک کا استعمال زیادہ ہے۔ ہم آج کل پلاسٹک کے شاپر کا استعمال کرتے ہیں اور یہ پلاسٹک نہ تو جلدی سڑتا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی حل ہے اس سے خود کو مختلف بیماریوں میں ڈال چکے ہیں جیسا کہ فلاسفر نے کہا ہے:

’’آدھی سے زیادہ بیماریوں کا ذمہ دار انسان خود ہے۔‘‘

اسی طرح سے ہمارا درختوں کو کاٹ کر جگہ جگہ فیکٹریاں لگالینا اور ان سے نکلتا دھواں ہمارے لیے مشکلات پیدا کررہا ہے اور اسی فیکٹری سے نکلتا گندا پانی جب سمندروں میں جاتا تو اس میں موجود جانوروں کی جان کو خطرہ لاحق ہورہا ہے اس سے نہ ـصرف انسانی زندگی بلکہ معصوم جانوں کو بھی خطرہ پہنچارہے ہیں۔ اس سے زمینی آلودگی بڑھ رہی ہے۔ گاڑیوں اور فیکٹریوں کے شور سے بھی آلودگی بڑھ رہی ہے۔

آلودگی سے بیماریاں:

شور کی آلودگی سے سر کا درد، ہائی بلڈ پریشر اور دل کو نقصان پہنچتا ہے۔

زمینی آلودگی سے پانی میں جراثیم کی وجہ سے اس پانی کو پینے سے ہیضہ ڈائیریا جیسی بیماری لگتی ہے۔

مختصر یہ کہ اگر اس کو نہ روکا گیا تو وقت دور نہیں جب ہم تباہی کے آخری دھانے پر کھڑ ے ہوں گے۔

حالیہ تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ فضائی آلودگی کا تعلق سیدھا فیصلہ کرنے کی صلاحیت میں کمزوری، ذہنی صحت کے مسائل، سکولوں میں بری کارکردگی اورجرائم سے ہے۔

جب ہم آلودہ فضا میں سانس لیتے ہیں تو جسم کو پہنچنے والی آکسیجن کی مقدار بھی کم ہوتی ہے یعنی دماغ تک جانے والی صاف ہوا بھی کم ہوجاتی ہے اس سے ناک، گلے اور سر درد کی بیماریاں جنم لیتی ہیں اور ان کی وجہ سے توجہ کی صلاحیت بھی کم ہوسکتی ہے۔ آلودگی کے ذرات سے دماغ میں سوجن بھی ہوسکتی ہے جس سے دماغ کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ جذبات اور خود پر قابو رکھنے کا حصہ زیادہ متاثر ہوتا ہے۔

حل:

ہمیں درختوں کو کاٹنے سے روکنا ہوگا اور مزید درخت لگانے ہوں گے۔

ہمیں پلاسٹک کی بجائے کاغذ کے بنے شاپر استعمال کرنے ہوں گے۔

ہمیں فیکٹریوں میں فلٹر لگانے ہوں گے تاکہ ہوا آلودہ نہ ہو۔

گاڑیوں کی بجائے شہر کے اندر لوکل بس پر سفر کرنا چاہیے۔ کام زیادہ نہ ہو تو پیدل چل کر جائیں تاکہ صحت بھی بحال ہو اور دھواں چھوڑتی گاڑیوں سے بھی بچا جائے۔

ہوا کی آمدو رفت کا عمدہ نظام:

گھروں میں تازہ ہوا کے داخلے کے نامناسب راستوں کے نتیجے میں آلودہ ہوا گھر کے اندر ہی رک جاتی ہے۔ اس لیے گھر میں تازہ ہوا کے لیے دن بھر میں کھڑکیوں اور دروازوں کو دو سے تین بار کھولیں اس کے علاوہ کھانا پکارہے ہیں اور نہا رہے ہیں تو اس صورت میں ہوا باہر نکالنے والے پنکھے کا استعمال کریں تاکہ مضر صحت ذرات کو باہر نکالا جاسکے۔

پودوں کا انتظام:

بعض پودے ہوا کے مضر صحت اجزا کو صاف کرتے ہیں اور یہ گھر کے اندر کی فضا میں آلودگی کی روک تھام کے لیے ایک موثر ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔اگرچہ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نظریے کے کوئی تحقیقی شواہد نہیں ملتے۔ لیکن یہ خوشگوار احساس کا باعث بنتے ہیں۔

ماحول دوست طریقہ:

تعمیرات میں استعمال ہونے والے مواد کی بو کافی عرصے تک گھر میں بسی رہتی اور مصنوعی خوشبو سے جب بھی اس کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس کے نتیجے میں مزید کیمیکلز کا اخراج ہوتا ہے کیونکہ یہ اپنا ردعمل کرتے ہیں اور پھر خطرناک صورت بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کپڑوں کی دھلائی کے لیے ایسی مصنوعات کا استعمال کریں جن میں خوشبو نہیں ہوتی۔ کچن میں بو ختم کرنے کے لیے لیموں کے ٹکڑے اور بیکنگ سوڈے کا استعمال بہتر ہے۔

ہمیں مل کر ان سب احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنا ہوگا تاکہ ہم اس عذاب سے بچ سکیں اور آنے والی نسل کو اس نقصان سے بچاسکیں۔ اللہ ہمارے ملک کو دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا کرے۔