فقہی مسائل: نماز کی اہمیت

مرتبہ: کلثوم قمر

نماز، اسلام کا دوسرا بنیادی رکن ہے۔ نماز اسلام کی سب سے بڑی اور سب سے افضل عبادت ہے، میدانِ حشر میں سب سے پہلے نماز کا ہی سوال ہوگا۔ نماز، سفر، حضر، جوانی، بڑھاپا، صحت و بیماری، امن و خوف کسی حالت میں معاف نہیں، نماز کفر و اسلام کے درمیان حد فاصل اور مومن و کافر کے مابین وجہ امتیاز ہے۔

یہ اہم عبادت ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہم اسے صحیح طور پر ادا کریں، اس کے حقوق کا لحاظ کرتے ہوئے، اس کے طریقے کا خیال کرتے ہوئے۔ اگر ہم نے نماز پڑھی لیکن نہ تو اس کے حقوق کی رعایت کی نہ اسے صحیح طریقے سے پڑھا تو ایسی نماز بجائے اجرو ثواب اور خوشنودی الہٰی کا سبب بننے کے، ڈر ہے کہ کہیں گناہ کا ذریعہ اور وبالِ جان نہ ہوجائے۔

رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:

صلوا کما رایتمونی اصلی.

(بخاری، ج: 1، ص: 88)

’’اسی طرح نماز پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔‘‘

اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عبادت نماز ہے۔

عن ابن مسعود قال سالت النبی ﷺ الاعمال احب الی الله قال الصلوٰة لوقتها.

(بخاری، ج: 1، ص: 76)

’’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ کون سا عمل اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے آپ نے فرمایا نماز اپنے وقت پر۔‘‘

مومن و کافر کے درمیان نماز، وجہ امتیاز ہے۔

عن جابر قال قال رسول الله ﷺ بین الرجل بین الشرک و الکفر ترک الصلوٰة.

(مسلم، ج: 1، ص: 61)

’’حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مرد مومن اور کافر و مشرک کے درمیان نماز چھوڑنے کا ہی فرق ہے۔‘‘

امیرالمومنین حضرت عمر بن خطابؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں اپنے عمال کے پاس اس مضمون کا فرمان بھیجا۔

ان اهم امرکم عندی الصلوٰة فمن حفظها وحافظ علیها حفظ دینه ومن ضیعها فهو لما سواها اضیع.

(موطا امام مالک، ص: 3)

’’میرے نزدیک تمہاری سب سے اہم چیز نماز ہے جو اس کی حفاظت کرے گا وہ اپنے دین کی حفاظت کرے گا اور جو اسے ضائع کرے گا وہ اس کے علاوہ چیزوں کو اور زیادہ ضائع کرے گا۔‘‘

ارشاد ربانی ہے:

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکیّٰ. وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰی.

(الاعلیٰ، 87: 14۔15)

’’بے شک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا۔ اور وہ اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہا اور (کثرت و پابندی سے) نماز پڑھتا رہا۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر تم میں سے کسی کے دروازہ پر کوئی نہر جاری ہو جس میں وہ ہر دن پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو تو کیا اس کے بدن پر کوئی میل کچیل باقی رہے گا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کچھ بھی میل کچیل باقی نہیں رہے گا۔ حضور ﷺ نے فرمایا یہی پانچوں نمازوں کی مثال ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ خطاؤں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘ (بخاری، ج1، ص 76)

حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔

خلیفۃ المسلمین حضرت ابوبکر صدیقؓ کا معمول تھا کہ جب نماز کا وقت آتا تو فرماتے:

قوموا الی نارکم التی او قد تموها فاطفئوها.

’’اٹھو! جو آگ (گناہوں کی) تم نے دہکائی ہے، نماز پڑھ کر اسے بجھاؤ۔‘‘ (احیاء علوم الدین)

فرضیتِ نماز، قرآن سے:

وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّکٰوةَ.

(البقرة، 2: 43)

’’اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو۔ ‘‘

وَاْمُرْ اَهْلَکَ بِالصَّلٰوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْهَا.

(طٰهٰ، 20: 132)

’’اور آپ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم فرمائیں اور اس پر ثابت قدم رہیں۔‘‘

فرضیتِ نماز، حدیث سے:

حضرت ابو درداءؓ کہتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل نبی کریم ﷺ نے وصیت کرتے ہوئے فرمایا:

ولا تترک صلوٰة مکتوبه متعمدا فمن ترکها متعمدا فقد برئت منه الذمه.

(رواه ابن ماجه، مشکوٰة، ج: 1، ص: 59)

’’کسی فرض نماز کو جان بوجھ کر مت چھوڑنا، جس نے کوئی فرض نماز جان بوجھ کر چھوڑ دی اللہ کا ذمہ اس سے بری ہوگیا۔‘‘

بڑے تو بڑے، بچوں تک کو نماز کا عادی بنانے کی تلقین کی گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:

مروا اولادکم بالصلوٰة وھم ابناء سبع سنین واضربوا ھم علیھا وھم ابناء عشر و فرقوا بینهم فی المضاجع.

(ابوداؤد، ج: 1، ص: 86)

’’اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو (نماز نہ پڑھنے پر) انھیں مارو اور ان کا بستر الگ الگ کردو۔‘‘

قرآن کریم میں نماز پنجگانہ کا تذکرہ درج ذیل آیات میں آیا ہے:

وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ ط اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّاٰتِ ط ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِیْنَ.

(هود، 11: 114)

’’اور آپ دن کے دونوں کناروں میں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کیجیے۔ بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ یہ نصیحت قبول کرنے والوں کے لیے نصیحت ہے۔‘‘

(جلالین: ج: 2، ص: 431)

’’نماز قائم کیجئے آفتاب ڈھلنے کے وقت سے تاریک شب تک اور لازم کیجئے فجر کا پڑھنا، بے شک فجر کا پڑھنا ہے گواہی دیا ہوا۔‘‘

(بنی اسرائیل: 78)

اس آیت میں پانچوں نمازوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نماز فجر کی خاص اہمیت کو بیان کیا گیا ہے کہ وہ وقت رات و دن کے فرشتوں کے موجود رہنے کا ہے۔

(ابن ماجه، ص: 49)

حٰـفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰـنِتِیْنَ.

(البقرة، 2: 238)

’’سب نمازوں کی محافظت کیا کرو اور بالخصوص درمیانی نماز کی، اور اﷲ کے حضور سراپا ادب و نیاز بن کر قیام کیا کرو۔‘‘

اس آیت میں نمازوں کی محافظت کا حکم دیا گیا ہے اور صلوٰۃ وسطیٰ پر خصوصی زور ہے، صلوٰۃ وسطی سے کون سی نماز مراد ہے، اس میں مختلف اقوال ہیں۔ راجح قول کے مطابق اس سے مراد نماز عصر ہے۔

(مسلم، ج: 1، ص: 226)

اور اس پر خصوصی زور دینے کی وجہ یہ بھی ہے کہ نماز فجر کی طرح، اعمال لکھنے والے دن و رات کے فرشتوں کے موجود ہونے کا وقت ہے۔

(بخاری، ج: 1، ص: 79، عن ابی ہریرہؓ)