فرمانِ الٰہی و فرمانِ نبوی ﷺ

فرمانِ الٰہی

وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ ز اِنَّـہٗ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَکَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا. وَکَانَ یَاْمُرُ اَہْلَہٗ بِالصَّلٰوةِ وَالزَّکٰوةِ وَکَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِیًّا. وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِدْرِیْسَ ز اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا. وَّرَفَعْنٰهُ مَکَانًا عَلِیًّا. اُولٰٓـئِکَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللهُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنْ ذُرِّیَّةِ اٰدَمَ وَ مِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ وَّمِنْ ذُرِّیَّةِ اِبْرٰھِیْمَ وَاِسْرَآئِیْلَ وَمِمَّنْ ھَدَیْنَا وَاجْتَبَیْنَا ط اِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّبُکِیًّا.

(مریم، 19: 54۔58)

’’اور آپ (اس) کتاب میں اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر کریں بے شک وہ وعدہ کے سچے تھے اور صاحبِ رسالت نبی تھے۔ اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے حضورمقامِ مرضیّہ پر (فائز) تھے (یعنی ان کا رب ان سے راضی تھا)۔ اور (اس)کتاب میں ادریس (علیہ السلام) کا ذکر کیجیے بے شک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھے۔ اور ہم نے انہیں بلند مقام پر اٹھالیا تھا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے زمرۂ انبیاء میں سے آدم (علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں اور ان (مومنوں) میں سے ہیں جنہیں ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں (طوفان سے بچاکر) اٹھا لیا تھا، اور ابراہیم (علیہ السلام) کی اور اسرائیل (یعنی یعقوب علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں اور ان (منتخب) لوگوں میں سے ہیں جنہیں ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ بنایا، جب ان پر (خدائے) رحمن کی آیتوںکی تلاوت کی جاتی ہے وہ سجدہ کرتے ہوئے اور (زار و قطار) روتے ہوئے گر پڑتے ہیں‘‘

فرمانِ نبوی ﷺ

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضي اللہ عنهما قَالَ: أَقْبَلَ رَجُلٌ إِلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ: أُبَایِعُکَ عَلَی الْهِجْرَةِ وَالْجِهَادِ أَبْتَغِي الْأَجْرَ مِنَ اللهِ، قَالَ: فَهَلْ مِنْ وَالِدَیْکَ أَحَدٌ حَيٌّ قَالَ: نَعَمْ، بَلْ کِلَاهُمَا حَيٌّ قَالَ: فَتَبْتَغِي الْأَجْرَ مِنَ اللهِ؟ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: فَارْجِعْ إِلَی وَالِدَیْکَ فَأَحْسِنْ صُحْبَتَهُمَا. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

(المنهاج السوی من الحدیث النبوی ﷺ، ص: 783-784)

’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: (یا رسول اللہ!) میں اجر و ثواب کے لئے آپ سے جہاد اور ہجرت کی بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس نے عرض کیا: ہاں بلکہ دونوں زندہ ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تو (واقعی) اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب چاہتا ہے؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا: اپنے والدین کے پاس جا اور ان سے اچھا سلوک کر۔‘‘