اداریہ: مادرِ ملتؒ ایک عظیم خاتون

چیف ایڈیٹر: دختران اسلام

جب بھی تحریک پاکستان اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ کا ذکر ہو گا تو وہاں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کا ذکر بھی ہو گا۔ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح اپنے افکار و نظریات ،نظریے کے ساتھ کمٹمنٹ، جہد مسلسل اور حق و صداقت کا استعارہ تھیں اور اپنی بے مثل سیاسی جدوجہد کی وجہ سے وہ ہمیشہ دلوں میں زندہ رہیں گی۔مادرِ ملت وہ ہستی ہیں جنہوں نے برصغیر کی مسلم خواتین کو تحریک آزادی میں حصہ لینے کے عظیم اور پاکیزہ مشن کے لئے متحرک کیا اور خواتین کو قائداعظم محمد علی جناحؒ کا ہر اول دستہ بنا دیا۔ مادرِ ملت نے نہ صرف تحریک پاکستان میں قابل فخر اور قابل تقلید کردار ادا کیا بلکہ انہوں نے زندگی کے آخری سانس تک قائداعظم محمد علی جناح کے افکار و نظریات کا علم بلند رکھا اور اس حق و صداقت کی جدوجہد میں پاکستان بننے کے بعد انہوں نے نامساعد حالات و واقعات کا سامنا کیا مگر ان کے حوصلے میں رتی برابر بھی کمی نہیں آئی۔ وہ ایک خاتون تھیں مگر عزم، ہمت اور صبر کا کوہ گراں تھیں۔ مادرِ ملت نے برصغیر پاک و ہند کے عظیم رہنما قائداعظم محمد علی جناحؒ کا بھرپور ساتھ دیا۔ تاریخِ عالم میں یہ دونوں بہن، بھائی عزم و ہمت کا استعارہ بن کر ہمارے حوصلوں کو جلا بخشتے رہیں گے۔ بانی پاکستان نے مادرِ ملت کو برصغیر کی مسلم خواتین کو سیاسی طور پر متحرک کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے اس حکم کی بجا آوری میں تن، من، دھن سب کچھ نثار کر دیا۔ مادر ملت اسلام اور مشرق کی عظیم ثقافت اور تہذیب و تمدن کا پرتو تھیں۔ انہوں نے خاتون ہونے کے باوجود اسلامی ثقافت و روایات کی پاسداری کی اور ہندو اور انگریز کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف دبنگ جدوجہد کی۔ بانی پاکستان کو اگر اپنی عظیم بہن مادرِ ملت کی معاونت میسر نہ آتی تو حصولِ پاکستان کی منزل بہت سارے مصائب و آلام کا شکار ہو سکتی تھی۔ آپ نے ان کی بیماری کا راز افشاں نہ ہونے دیا اور ان کے آرام کا بھرپور خیال رکھا۔ یہ خدمت ایک عظیم بہن فاطمہ جناحؒ ہی انجام دی سکتی تھیں۔ مادرِ ملت کے تحریکی کردار سے یہ پیغام ملتا ہے کہ جس عظیم مشن کے پیچھے باوقار اور باکردار خواتین کی معاونت ہوتی ہے وہ عظیم مشن ضرور پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے۔ خواتین جس منصب پر بھی ہوں اور ان کی ذمہ داریاں بظاہر کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہوں مگر وہ نتائج کے اعتبار سے فیصلہ کن کردار کی حامل ہوتی ہیں۔ مادرِ ملت نے قیام پاکستان کے بعد بھی اپنی سیاسی، سماجی جدوجہد جاری رکھی اور پاکستان کے حصول کے صلے میں کوئی تمنا نہیں کی۔ ان کی جدوجہد پاکستان بنانے کے حقیقی نصب العین پر مرکوز تھی۔وہ چاہتی تھیں کہ پاکستان جن مقاصد کے لئے حاصل کیا گیا ہے وہ پورے ہوں۔ہر شخص کو تعلیم کا حق ملے، عوام کو حقیقی معنوں میں جمہوریت کے ثمرات میسر آئیں۔غریب کو انصاف اور میرٹ پر روزگار میسر آئے۔ رول آف لاء ہو۔طاقتور طاقت کے نشے میں کسی کمزور کا حق غصب نہ کر سکے۔ اشیائے ضروریہ ناجائز منافع خوری سے پاک ہوں، رٹ آف دی گورنمنٹ امیر، غریب پر یکساں لاگو ہو۔ وہ ڈکٹیٹر شپ کو جمہوریت کے لئے زہر قاتل سمجھتی تھیں۔ مادرِ ملت شورائیت کے اسلامی نظام کو جمہوریت کے قریب ترین سمجھتی تھیں۔ اس لئے انہوں نے ون مین رول کے خلاف پاکستان بننے کے بعد بھی جدوجہد کی۔ مادر ملت کا ہمیشہ خواتین کے لئے یہ پیغام تھا کہ آپ کمزور نہیں ہیں۔اسلام نے آپ کو برابری کے حقوق دئیے ہیں۔ آپ ملت کے مقدر کا ستارہ ہیں۔ آپ اپنی تمام تر توجہ حصول علم اور خاندان کی باوقار تربیت پر صرف کریں۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ پاکستان بنانے والی ان عظیم ہستیوں کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے اور انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔