فکر شیخ الاسلام: ہدایت کی ابتداء کیسے ہوتی ہے؟

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

خطاب: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

اللهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ.

(البقرة، 2: 257)

’’اللہ ایمان والوں کا کارساز ہے وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے۔‘‘

ہدایت کیا ہے؟

اللہ تعالیٰ تمام مومنین کا ولی ہے۔ لغت میں ولی کا معنی قریب ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبa کو ارشاد فرمایا: اے میرے حبیبa اگر میرے بندے میری نسبت دریافت کریں کہ میں کہاں ہوں؟ تو انھیں بتادیں کہ میں تمہارے بالکل قریب ہوں اور تم سے ہرگز دور نہیں ہوں۔ اس ارشاد کا معنی ہے کہ میں تمہارا ولی ہوں۔ دوسری جگہ اللہ رب العزت نے سورہ کہف میں فرمایا: ہم نے انسان کو پیدا فرمایا تاکہ اسے آزمائیں کہ وہ ہمارے قریب آتا ہے یا ہم سے دور جاتا ہے۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۔

(الذاریات، 51: 56)

’’اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لیے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں۔‘‘

آیت کریمہ کا یہ معنی حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے بیان فرمایا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت کو یہ کیوں ضرورت پیش آئی کہ انسان کا امتحان ہے اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے انسان کو دنیا میں بھیج کر اس کا امتحان لینا چاہتا ہے آیا کہ وہ میرے قریب ہوتا ہے یا مجھ سے دورجاتا ہے۔ اس لیے سورۃ التین میں ارشاد فرمایا:

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ.

(التین، 95: 4)

’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔‘‘

اللہ رب العزت نے فرمایا کہ میں نے اس کو اتنا خوبصورت بنایا ہے کہ اس میں اپنی روح کا چراغ جلایا ہے۔ فنفخۃ فی روحی خوبصورتی کے ساتھ بنانے کا ایک ظاہری پہلو ہے اس کے اندر ایک توازن و اعتدال رکھا ہے۔ اسے ایک متوازن جسم دیا ہے۔ اس سے بھی بڑی خوبصورت چیز یہ ہے کہ اس کے باطن کو خوبصورت کیا ہے۔ باوجود اس کے کہ اس کا ظاہر گارے سے بنایا تھا۔ اس میں تاریکی ہے اس میں مادی خصوصیات ہیں جس کی وجہ سے اس کو بشر کہا ہے۔ جو خصوصیات مٹی، پانی، ہوا اور آگ میں ہیں وہ خوبیاں انسان کے اندر موجود ہیں۔

ایسی خصوصیات رکھنے والے فرد کا من روشن ہوجائے ایسا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے روشنی جن چیزوں میں ہے وہ آسمانوں سے ماورا عالم ملکوت، جبروت، لاہوت کی چیز ہے۔ جس میں اللہ کے ملائکہ رہتے ہیں۔ اللہ کی انوار وتجلیات کا براہ راست نزول ہوتا ہے جبکہ دنیا جو عالم بشریت ہے اس میں تاریکی غالب ہے۔ اس لیے فرشتوں نے اللہ کا ارادہ سن کر کہ وہ آدم علیہ السلام اور انسان کو اپنا نائب بنانے والا ہے۔ یہ سن کر جس چیز سے انسان بنا ہے اس میں گاڑا آگ، دھوپ ہے تو ملائکہ ان اجزاء کی خصوصیات سے واقف تھے اگر ان اجزاء سے انسان بنایا ہے جو اجزاء اس زمینی دنیا کے ہیں۔ اس سے تاریکی آئے گی۔ تاریک کردار جنم لے گا، تاریک کردار سے فساد جنم لے گا۔ غصہ، بغض، عناد، نفرت، دشمنی، طبقاتی منافرت جنم لے گی کیونکہ ملائکہ نے انسان میں ساری چیزوں کو میگنیفائی کرکے دیکھ لیا تھا۔ ملائکہ کی آنکھیں اس لینز کی طرح تھیں وہ جانتے تھے کہ ان چیزوں سے تشکیل پانے والا آدمی کیا کیا کرے گا۔

ملائکہ ان صلاحیتوں کے اندر جھانک کر دیکھا تو ان چیزوں سے انھیں قتل و غارت نظر آرہی تھی۔ ایک دوسری مثال حکماء اور اطباء سمجھتے ہیں کچھ چیزوں کو مفردات کہتے ہیں کچھ چیزوں کو مرکبات کہتے ہیں، مختلف مفردات کوملاتے ہیں تو معجون، سفوف، دوائی، سیرپ بنتا ہے یہی طریقہ فارمیسی اور ماڈرن میڈیسن میں ہوتا ہے۔ دوائی پر اجزاء ترکیبی لکھی ہوتی ہے اس کو مفردکہتے ہیں۔ ہر چیز کی اپنی خاصیت ہوتی ہیں۔ پانی بھی مفرد نہیں بلکہ مرکب ہے۔ اس کی اپنی خوبیاں ہیں، مٹی ایک مرکب ہے اس میں کئی خوبیاں ہیں۔ جب یہ ساری خوبیاں مل جائیں تو مرکب بنتا ہے۔ اس سے ہمارا جسم بنا ہے۔ اس مرکب میں ساری تاثیریں اپنے آپ منتقل ہوجاتی ہیں جو مفردات میں تھی۔

جو کامل طبیب ہوتا ہے اس کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ مفردات کو اس ترتیب سے ملائے کہ کون سے کم مقدار کے ہوں۔ کون سے زیادہ مقدار کے ہوں کون سے اور زیادہ مقدار کے تاکہ تمام اجزاء کے ملنے کے بعد جب مرکب بنے تو مجموعی طور پر اس کا جو اثر ہے وہ نکلے جو وہ چاہتا ہے وہ اعتدال اور توازن ڈاکٹر نے پیدا کرنا ہے۔ اگر اس کے مطلب کا توازن پیدا ہوگیا تو وہ باکمال چیز بن گئی۔ اللہ تعالیٰ سے بہتر تخلیق کرنے والا کوئی نہیں جو جانتا ہے کہ یہ چیزیں ملاکر مرکب بنارہا ہوں مگر ان چیزوں کو اللہ رب العزت نے اتنی خوبصورتی سے جوڑا کہ انسان صرف نور بنا اور نہ صرف تاریکی بنا۔ یعنی فرشتہ بنا نہ شیطان بنا۔ مگر اس میں شیطان بن جانے کے بھی ملکات ہیں۔ اس لیے کئی انسان ہوکر شیطان بن جاتے ہیں اور اس کے اندر فرشتہ بن جانے کی صلاحیت بھی ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو ملائکہ سے بھی بزرگ تر بن جاتے ہیں۔ ملائکہ ان کی زیارت و حفاظت کے لیے اترتے ہیں گویا ساری صلاحیتیں اللہ تعالیٰ نے انسان میں رکھ دی ہیں اور انسان کے اجزائے ترکیبی کو اتنی خوبصورتی سے جمع کیا ہے کہ اس کو احسن تقویم فرمایا پھر فرمایا ہم نے اسے اس ہلاکت والی دنیا میں بھیج دیا جب فرشتوں نے کہا کہ یہ قتل و غارت کرے گا۔

وہ دراصل عناصر کے اثرات دیکھ رہے تھے کہ انسان کس طرح ترقی پائے گا جن میں یہ چیزیں زیادہ طاقتور ہوجائیں گی وہ دھنگا فساد مچائے گا، وہ چوری چکاری کرے گا کرپشن کرے گا۔ وہ جھوٹ، بددیانتی کرے گا وہ تکبر کرے گا۔ وہ اجزاء کی خوبیوں اور برائیوں کو دیکھ کر بتارہے تھے۔ مطلب یہ نہیں تھا کہ ہر انسان یہ کرے گا، مطلب یہ تھا اس انسان کی نسل میں ایسا کچھ کرنے والے بھی ہوں گے جن چیزوں سے میں نے انسان بنایا ہے وہ ملکوتی دنیا کا فرد تو نہیں بن سکتا۔ ایسے اجزا کے ساتھ بنایا جانے والا وجود اس میں اللہ رب العزت نے اپنی روح پھونک دی۔ اللہ کے نور کی روشنی نورالانوار تھی سب روشنیوں سے عظیم روشنی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے جو جسم بنایا تھا اس میں تاریکی کے غالب ہوجانے کے اثرات و میلانات زیادہ تھے مگر ان تاریکی کے میلانات کو کم کرنے کے لیے اسی پیکر کے اندر اللہ رب العزت نے اپنی روح پھونک دی۔ اپنے نور کے فیض سے اس کے باطن کو روشن کردیا۔ بندہ ایک عجیب مرکب بنایا گیا ہے۔

ظاہر اس کا ناسوتی ہے۔ باطن ملکوتی ہے، ظاہر اس کا دنیاوی ہے، باطن اس کا عالم ملکوت سے ہے۔ ظاہر میں تاریکی پیدا کرنے والی چیزیں موجود ہیں باطن میں نور پیدا کرنے والی صلاحیت موجود ہے۔ اب باطن اس قابل ہوگیا کہ اللہ اس باطن کے ساتھ دوستی پیدا کرے۔ ہم نے انسان کو اس طرح پیدا کیا۔ اس میں نور بھی رکھا، تاریکی بھی رکھی اس میں نیچے جانے کی صلاحیت بھی رکھی اور اوپر جانے کے میلانات بھی رکھے۔

اس کے اندر نفس بھی رکھا۔ نفس اس کے اندر وسوسے پیدا کرتا ہے، اس کے اندر برے خیالات پیدا کرتا ہے۔ اللہ پر ایمان کمزور کرتا ہے۔ نفس کا شیطان کے ساتھ اتحاد ہے اور نفس کا باہر کی دنیا سے اتحاد ہے۔ شیطان نفس کے اندر بُرے خیالات ڈالتا ہے۔ نفس خود بھی شیطانی ہوجائے تو برے خیالات کو جنم دیتا ہے۔ اللہ کے امر پر عقیدہ کو متزلزل کرتا ہے۔ یہ میرے ساتھ اچھا نہیں ہوا میں نے کیا برائی کی؟ میرے ساتھ نا انصافی ہورہی ہے۔ ناشکری پیدا کرتا ہے۔ جب یقین، توکل، شکر اور بھروسہ کمزور ہوتا ہے تو اللہ کی بندگی کمزور ہوتی ہے جب بندگی کمزور ہوتی ہے تو اللہ سے دوری ہوتی ہے۔ وسوسہ اندازی نفس کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔

نفس بندے کو نیکی سے دور کرتا ہے آخر میں فرمایا مگر ہم نے انسان کو نفس کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ دیا کہ نفس اس کو گمراہ کرتا رہے اور بندہ ہوتا رہے۔ ایک طرف نفس ہے تو دوسری طرف میں خود (اللہ) اس کے اندر رہتا ہوں۔ وہ قرب قرب روحی ہے جبکہ نفس کے اثرات جسمانی اثرات ہیں۔ جبکہ روح کے روحی اثرات ہیں۔ فرمایا ہم بندے کی شہہ رگ کے بھی قریب ہیں۔ یہاں دونوں کیفیتیں رکھ دی ہیں۔ بندہ نفس کے سپرد ہوجائے تو اللہ سے دور ہوجاتا ہے۔ اگر بندہ اللہ کی فرمانبردار ہوجائے تو اللہ کے قریب ہوجاتا ہے مگر نفس بندے کے شعور کو بیدار نہیں ہونے دیتا کہ اللہ میرے قریب ہے۔ کتنے وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ کے قریب ہونے کا ادراک ہے۔

دوسری جگہ فرمایا اے مرد مومن! میں تیرا ولی ہوں یہ یکطرفہ تعلق ہے کہ اللہ ہمارے قریب ہے۔ اللہ ہمارا ولی ہے کیونکہ وہ ہمارے بہت قریب ہے خرابی کہاں ہے؟ وہ تو ہمارے قریب ہے مگر ہم اس کے قریب نہیں۔ اللہ ہمارے قریب ہے وہ ہمارا ولی ہے مگر جو مومن پردوں کو ہٹا کر دوریوں کو ختم کرکے اللہ کے قریب ہوجائے اس کو ولی اللہ کہتے ہیں۔ اللہ ہر ایک کا ولی ہے لیکن اللہ کا ہر کوئی ولی نہیں کیونکہ یہ ادراک نہیں کہ اللہ ہمارے قریب ہے۔ جب بندے کا شعور بیدار ہوجاتا ہے کہ اللہ میرا ولی ہے۔ نفس کی قربت سے بھی زیادہ قریب ہے۔ مثلاً ایک بچے کو علم ہے والدین میرے قریب ہے جو قریب ہوتا ہے وہ دیکھتا اور سنتا ہے۔ اس لیے بار بار فرمایا ھو سمیع بصیر اللہ دیکھتا بھی ہے، سنتا بھی ہے۔

کبھی فرماتا ہے کہ میں تمہارا ولی ہوں ولی مددگار کو بھی کہتے ہیں۔ مددگار وہی ہوتا ہے جو قریب ہو جو دور بیٹھا ہے وہ کسی کی کیا مدد کرے گا۔ روحانی قرب بھی ہوتا ہے، جسمانی قرب بھی ہوتا ہے۔ اس طرح دوری بھی ہوتی ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو روحانی دوری سے محفوظ رکھے۔ اگر روحانی دوری نہ ہو تو بندہ دور رہ کر بھی قریب رہتا ہے۔ اگر بچے کو علم ہو کہ میرے والدین مجھے دیکھ رہے ہیں۔ وہ شرارت نہیں کرتا کیونکہ اس کو خوف بھی ہوتا ہے کہ اس کے والدین اسے دیکھ رہے ہیں اس قرب کے احساس سے جو خوف پیدا ہوتا ہے اس کو تقویٰ کہتے ہیں۔ اس میں محبت بھی ہوتی ہے۔ اس کو یہ بھی پتہ ہے اگر کسی نے مجھے تکلیف پہنچائی۔

میری ماں میرے پاس بیٹھی ہے مجھے بچالے گی۔ جب اس کو خوف بھی ہو اور ان کی شفقت و محبت کا یقین بھی ہو تو اس کو خوف و رجع کی کیفیت کہتے ہیں۔ امید بھی لگ جاتی ہے اگر کسی نے مجھے نقصان پہنچانا چاہا تو مجھے بچالیں گے۔ اگر میں نے شرارت کی تو وہ میرا برا منائیں گی اگر خوف و رجع مل جائیں اس احساس کو ایمان کہتے ہیں۔ خوف بھی احساس قربت سے جنم لیتا ہے۔ جو شخص بھی برائی سے بچائے اور حوصلہ دے تو اس سے محبت ہوتی ہے۔ اس کا قرب چاہتے ہیں۔ اس بندے کا کیا حال ہوگا۔ جس کے اندر یہ احساس بیدار ہوجائے کہ اس کا مولا اسے دیکھ رہا ہے۔ وہ میری بات کو سن رہا ہے۔ اللہ کیونکہ قریب ہے تو وہ صرف سنتا اور دیکھتا نہیں بلکہ جو خیالات بندہ کے اندر پیدا ہوتے ہیں اس کو دیکھتا ہے جو شرارت باہر ہوتی ہے صرف اس کو نہیں دیکھتا بلکہ جو شرارت من کے اندر میں چلتی ہے اس کو بھی دیکھتا ہے۔ اس بندے کا حال کا اندازہ کریں جو اس بچے کی طرح ہے جو کامل یقین کے ساتھ ہے کہ میرا مولا مجھے دیکھ رہا ہے۔

جس کا تعلق اپنے مولا کے ساتھ اس بچے کی طرح ہوجائے۔ اگر اسے تکلیف ہو تب بھی اللہ کو پکارے۔ راحت ہو تب بھی اللہ کو پکارے، تکلیف ہو تو صبر کی آواز میں پکارے، راحت ہو تو شکر کی آواز میں پکارے، حاجت ہو تب بھی اللہ کو پکارے۔ غنا ہو تب بھی اللہ کو پکارے، تنہا ہو تب بھی اللہ کو پکارے، جلوت ہو تب بھی اللہ کو پکارے۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ آواز آرہی ہے انی قریب مگر ہمیں سنائی نہیں دے رہی اس سے لیے سمجھ نہیں آرہا۔ جیسے کھانا کھاتے ہیں تو اس کا ذائقہ محسوس ہوتا ہے اس طرح تصورات کی بھی دنیا ہے کبھی گزرے ہوئے لمحے یاد کرکے لذت محسوس ہوتی ہے، کبھی خوشبو سے لذت ملتی ہے۔ جب بندہ روح کے کانوں کے ساتھ، قلب و روح سے محسوس کرنے لگے کہ مولا میرے قریب ہے وہ مجھے بچانے والا ہے۔ وہ میرے حفاظت کرنے والا ہے۔ میرے حاجت روائی کرنے والا ہے۔ وہ مجھے تاریکی سے نکالنے والا ہے۔ وہ مجھے نور کی طرف لے جانے والا ہے۔ وہ ہر حال میں مجھے سنبھالنے والا ہے۔ وہ میرے ساتھ یہ کرم کرنے والا، یہ فضل دینے والا ہے۔ وہ دن آنے والا ہے کہ پردہ اٹھا کر مجھے اپنا حسن دکھانے والا ہے۔

جب بندہ ان تصورات میں گم ہوتا ہے اس بچے سے کہیں زیادہ جو اپنی ماں کے ساتھ لپٹتا ہے وہ بندہ اپنے مولا کے ساتھ اس طرح قریب ہوجاتا ہے اس کو اللہ کا ولی کہتے ہیں۔ اللہ تو ولی تھا ہی مگر بندہ ولی نہیں بنا تھا۔ جب بندہ میں قربت کا احساس پیدا ہوجائے تو نافرمانی نہیں کرتا۔ وہ کوئی ایسا لفظ نہیں بولے گا جو مولا کو ناپسند ہو، کوئی ایسا عمل نہیں کرے گا جو اللہ کو ناگوار ہو۔ وہ ایسی نیت نہیں کرے گا جو اللہ کو ناپسند ہو۔ اگر تکلیفیں آتی ہیں وہ شکوہ نہیں کرتا بلکہ یہ تو اللہ کی ڈانٹ ہے جیسے ماں بچے کو ڈانٹتی ہے اس کو برا لگتا وہ ایک لمحہ کے لیے روتا ہے لیکن ماں سے بدظن نہیں ہوتا کیونکہ اس کی ڈانٹ بھی پیار کے خمیر سے نکلی ہے۔ بندہ اللہ کے ساتھ تعلق قائم کرلیتا تو شکوہ نہیں کرتا۔ وہ جانتا ہے کہ یہ مجھے درست کرنے کے لیے آئی ہے جب بندہ اللہ کے قریب ہوجاتا ہے تو ولی اللہ ہوجاتا ہے۔ بصورت دیگر ہم اللہ کے قرب سے دور کیوں ہیں؟ اس کا سبب یہ ہے کہ نفس نے ہمارے اندر دوری کے اسباب پیدا کردیئے ہیں نفس نے ایسی تہیں ہمارے اندر چڑھا دی ہیں جو شعور کو دبانے کا سبب بنتی ہیں۔ اللہ کی قربت ایک روحانی خزانہ ہے۔ خزانہ زمین کی دبیز تہوں میں چھپا ہوتا ہے جس کو خزانہ ملتا ہے وہ کھدوائی سے ملتا ہے۔ ڈھٹائی سے نہیں ملتا۔ خزانہ کو سب چھپا کر رکھتے ہیں۔ اللہ کے قرب سے بڑھ کر خزانہ کیا ہوگا۔ اس لیے انسان کی زندگی میں اللہ نے اپنی قربت کا خزانہ ننگا نہیں رکھا۔ وہ دیکھنا چاہتا ہے جو میری قربت کا خزانہ دیکھنا چاہتا ہے وہ پہلے کھودوائی کرے، کھودوائی کو ریاضت و مجاہدہ کہتے ہیں۔

کھودوائی غفلت تہوں کی کرنی ہے جو اللہ سے دور کرنے والی ہیں۔ ان کا ذکر اللہ رب العزت میں قرآن میں کیا ہے:

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالَانْعَامِ وَالْحَرْثِ ط ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ج وَاللهُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ.

(آل عمران، 3: 14)

’’لوگوں کے لیے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان کیے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں)، یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے، اور اللہ کے پاس بہتر ٹھکانا ہے۔‘‘

شہوت کا معنی ہے ایسی خواہش جو دل سے چمٹ جائے دل کو اپنے گھیرے میں لے لے۔ زندگی کی طلب بن جائے۔ اس کو شہوت کہتے ہیں۔ یہ شہوت عام خواہش سے جنم لیتی ہے کسی کو دیکھا، کسی کا عہدہ دیکھا تو خواہش آئی اگر وہ محض خیال تک رہے۔ اس کو الھوی کہتے ہیں۔ الھوی کا مطلب ہے عام خواہش کوئی شخص ایسا نہیں جو خواہش سے پاک ہو، خواہش کرنے میں کوئی برائی نہیں۔ اگر اچھائی کی خواہش ہے اس میں کوئی برائی نہیں اس لیے خواہش کو اللہ پاک نے برا نہیں کہا جب خواہش دل پر چھا جاتی ہے تب وہ برائی کی طرف مائل کرتی ہے جب خواہش تھی بندہ اس کو اپنا بھی سکتا تھا اور چھوڑ بھی سکتا تھا۔

اگر خواہش اس درجہ تک چلی جائے کہ دل کو بے چین کردے تو شہوت بن گئی مطلقاً شہوت کو بھی برا نہیں کہا۔ بندے کے اختیار میں ہے ریاضت کرے اسے کمزور کردے۔ یہ خیال آئے کہ میں اپنی خواہشات کا غلام ہوتا جارہا ہوں۔ یہ وہ درجہ ہے جہاں بندے نے حد قائم کرنی ہے۔ بندہ خواہش پر سوار ہے یا خواہش بندے پر سوار ہے۔ اگر خواہش بندے پر سوار ہوجائے تو یہ شہوت ہے۔ اگر شہوت بری چیز کی ہے تو بندے کو ہلاکت کی طرف سے جائے گی۔ اگر اس میں دوام آجائے ہر وقت وہ شہوت بندے کو پکڑے چھوٹے ہی نہ تو محبت ہے۔

شہوت پر محبت کا رنگ چڑھ گیا۔ اللہ نے فرمایا عورتوں کی محبت، اولاد کی شہوت، ان کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہوں، ان کو دیکھ کر دل کو خوشی ملے جب محبت اور شہوت مل جاتے ہیں تو خطرات شروع ہوجاتے ہیں۔یہاں بندہ اپنا توازن کھو دیتا ہے۔ قرآن نے اب تیسرا لفظ زینا کہا۔ اگر شہوت کو محبت گھیر لے۔ پہلے شہوت، محبت پھر زینت آگئی جب تین چیزیں جمع ہوجاتی ہیں تو تہیں بن جاتی ہیں۔ اللہ کی قربت کا حسن نظر نہیں آتا۔ انسان کی زندگی میں اللہ کی قربت کا خزانہ دب جاتا ہے۔ اگر شہوت کو روکا نہ جائے تو یہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔

روزگار کی خواہش جائز ہے لیکن روزگار کو اتنا سوار کرلیں کہ حلال و حرام کا فرق مٹالیں تو ناجائز ہے۔ عزت کی خواہش جائز ہے مگر دوسرے کی بے عزتی کا باعث بننے لگے تو گناہ ہے۔ آسائشوں کی خواہش جائز ہے لیکن اگر بندہ راحت کا غلام ہوجائے گا کہ اس کے بغیر رہ ہی نہ سکے۔ نہ ملے تو شکوہ جنم لے توناجائز ہے۔ ہر خواہش اگر بری چیز کی نہیں اصلاً جائز ہوگی۔ جب حد تجاوز کرتی ہے تو برائی کے دائرے میں چلی جاتی ہے۔ نافرمانی کا احساس نہیں ہوتا۔ گناہ کرکے گناہ کا احساس نہیں ہوتا۔ مگر ہدایت کی ابتدا اس سے ہوتی ہے کہ یہ شعور بیدار ہوجائے کہ میں اللہ سے دور ہوگیا ہوں۔ مجھے کس شے نے دور کررکھا ہے کیا کیا اسباب بننے ہیں۔ اللہ سے دوری کے جب بندہ سوچے اور دوری ختم کرنے کی کوشش کرے تو اس کی زندگی میں ہدایت کی ابتدا ہوگی۔