خطبہ حجۃ الوداع: انسانیت کا عالمگیر منشور

ڈاکٹر انیلہ مبشر

9 ذوالحجہ 10 ہجری بروز جمعہ رسول اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع ادا کرتے ہوئے میدان عرفات میں ایک لاکھ چالیس ہزار سے زائد فرزندانِ توحید کے عظیم اجتماع سے مخاطب ہوتے ہوئے ایک فقید المثال خطبہ دیا جہاں اس کا ایک ایک لفظ اسلامی تعلیمات کا نچوڑ اور عطر ہے وہاں یہ تاریخ انسانی میں انسانیت کے عالمگیر اور بین الاقوامی منشور کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ اس سے پہلے کسی انسانی معاشرے یا نظام تمدن میں انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے اتنے اعلیٰ و ارفع اصول قائم نہیں کیے گئے تھے جو خطبہ حجۃ الوداع میں فرمادیئے گئے۔

اس وقت کی متمدن دنیا پر نظر دوڑائیں تو تمام تر علمی و تمدنی ترقی کے باوجود انسانیت کوچہ و بازار میں سسک رہی تھی۔ مصر، ہسپانیہ، قسطنطنیہ اور سلطنت روما میں سماجی ناہمواری اور انسانی خستہ حالی کے دل خراش مناظر بکھرے ہوئے تھے۔ معاشرتی اور سماجی زندگی نہ ختم ہونے والے طبقات میں بٹی ہوئی تھی۔ طاقتور طبقہ دولت کے نشہ میں چور کمزور طبقات کو کچل رہا تھا۔ سلطنت روما میں غلاموں کا طبقہ ایسا تھا جو کبھی آقا کے برابر حقوق حاصل نہ کرسکتا تھا بلکہ ان کی زندگی اور موت اپنے آقا کی رہین منت تھی۔ غلاموں کو بھوکے شیروں کے آگے ڈال دیا جاتا۔ سلطنت روما میں خصوصی مراعات یافتہ طبقے کا ذکر کرتے ہوئے سید امیر علی روح اسلام میں تحریر فرماتے ہیں:

’’غلام اور لونڈیاں ان کی خدمت پر مامور تھیں۔ ان کا زیادہ تر وقت حماموں میں گزرتا تھا۔ ایک طرف تو عیش و عشرت اور دولت و ثروت تھی اور دوسری طرف عوام میں انتہا درجے کی عسرت وخستہ حالی تھی۔ ‘‘

ایران کی ساسانی سلطنت میں انسان کسریٰ کے سامنے سجدہ ریز ہونے پر مجبور کیے جاتے۔ معاشرہ امیر و غریب، طاقتور و کمزور طبقات میںمنقسم تھا۔ ایران کے زرتشت مذہب اور مانی کے نظریات نے جو اخلاقی آگ روشن کی تھی اس کی کتاب اخلاق میں باپ بیٹی اور بھائی بہن کے مقدس رشتوں کا کوئی احترام نہ تھا اس اخلاقی بے راہ روی کے ساتھ ساتھ عورت قابل اعتبار نہ سمجھی جاتی۔ شوہر بیویوں کو حرم سرا میں بند رکھتے جن کے دروازے قفل بستہ ہوتے۔ عورتوں کے ساتھ ساتھ غلام طبقے سے ہر قسم کی بے انصافی روا رکھی جاتی۔

ہندوستان میں ہندو معاشرہ ذات پات اور عدم مساوات کی بندشوں کامجموعہ تھا۔ شودر طبقہ شہر کی چار دیواری سے باہر رہنے پر مجبور تھا۔ کوئی شودر مقدس ویدوں کا ایک لفظ بھی سن لیتا تو سزا کا مستحق قرار پاتا تھا۔ منو سمرتی اور منو کے شاستر کی رو سے شودر ملیچھ تھے اور عورتوں کا بہت بہت درجہ تھا۔ منونے عورتوں سے متعلق مندرجہ ذیل نفرت بھرے الفاظ کہے ہیں:

’’عورتوں میں ناپاک خواہش ہوتی ہے۔ وہ ارادے کی کچی اور چال چلن کی خراب ہوتی ہیں۔ ضروری ہے کہ انھیں رات دن کڑی نگرانی میں رکھا جائے۔ ‘‘

عورتوں کو اجازت نہ تھی کہ وہ ویدوں کے پاٹھ کریں لیکن وہ دیوتاؤں کی بھینٹ چڑھائی جاتی تھیں یا پھر مندروں میں ناچنے گانے والی دیوداسوں کا درجہ پاتی تھیں اس انسانی عدم مساوات پر مبنی معاشروں میں انسانی حقوق کے تحفظ میں سب سے موثر اور توانا آواز آنحضرت ﷺ کی خطبہ حجۃ الوداع میں ابھرتی ہے جس میں آپ نے اللہ رب العزت کے زیر سایہ معاشرے میں آباد تمام طبقات کے حقوق متعین فرمادیئے۔

حمدو ثنا کے بعد اللہ تعالیٰ کی توحید کے انقلابی عقیدے کا اعلان فرمایا گیا اور اس کی عبودیت کو نظام حیات کی روح کے طور پر پیش کیا گیا اور فرمایا:

تمہیں اللہ سے ڈرنے کی تاکید اور اس کی اطاعت پر آمادہ کرتا ہوں۔

تمام دنیا رنگ و نسل کے بندھن میں جکڑی ہوئی تھی اور آج بھی اس سے آزاد نہیں ہوسکی۔ آپ نے رنگ و نسل کے امتیازات کا خاتمہ کرتے ہوئے 14 سو سال بیشتر میدان عرفات میں بآواز بلند فرمایا۔

جاہلیت کے تمام دستور آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔

تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔

کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں سوائے تقویٰ کے۔

اگر کٹی ہوئی ناک کا کوئی حبشی بھی تمہارا امیر ہو اور تم کو اللہ کی کتاب کے مطابق لے چلے تو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو۔

یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا میں انسانوں کی منڈیاں لگتی تھیں اور ایک غلام کی حیثیت جانور سے بدتر تھی۔ آپ نے اس کمزور طبقے کو قوی اور مضبوط بنایا اور ان کا درجہ بلند کرکے دوسرے طبقوں کے برابر قرار دیا اور ان کے لیے مساوات اور برابری کا دروازہ کھولا۔ آپ نے فرمایا:

تمہارے غلام تمہارے ہیں جو خود کھاؤ ان کو کھلاؤ اور جو خود پہنو وہی ان کو پہناؤ اگر وہ کوئی ایسا جرم کر بیٹھیں جسے تم معاف نہ کرسکو تو اللہ کے بندوں کو بیچ میں ڈالو اور ان کو سزا نہ دو۔

یہ وہ دور تھا جب دنیا کے متمدن معاشروں میں عورت اپنے جائز حق کو ترس رہی تھی۔ اسے دوسرے درجے کی مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ عرب معاشرے میں بیٹیوں کو زندہ دفن کردیا جاتا۔ وراثت میں اسے کوئی حق حاصل نہ تھا مگر آپ نے بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے وراثت میں اس کا حق تسلیم کروایا اور کسی کو بھی اسے چھیننے کی اجازت نہ دی۔ خطبہ حجۃ الوداع میں آپ نے فرمایا:

اللہ تعالیٰ نے وراثت میں ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے اب کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں۔

لوگو اپنی بیویوں کے متعلق اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ کے نام کی ذمہ داری سے تم نے ان کو بیوی بنایا ہے۔

عورتوں کا حق تم پر یہ ہے کہ تم ان کو اچھی طرح کھلاؤ اور اچھی طرح پہناؤ اور ان کے معاملے میں حسن سلوک سے پیش آؤ۔

عورتوں کے لیے لازم ہے کہ وہ بے حیائی کی مرتکب نہ ہوں اور اپنے شوہر سے بے وفائی نہ کریں۔

جان و مال کا تحفظ اور عزت و ناموس کا احترام بنیادی انسانی حقوق تصور ہوتے ہیں۔ اس کے بغیر کسی بھی معاشرے میں قیام امن اور معاشرتی انصاف ممکن نہیں۔ آپ نے مسلمانوں کی جان و مال کو ایک دوسرے کے لیے حد درجہ مقدس قرار دیا تاکہ معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جائے اور سب کو معاشرتی انصاف حاصل ہو۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں:

لوگو! تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر ایسی ہی حرام ہیں جیسا کہ تم آج کے دن کی، اس شہر کی اور اس مہینہ کی حرمت کرتے ہو۔ دیکھو عنقریب تمہیں خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق سوال کرے گا۔ خبردار میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہو۔

قرونِ وسطیٰ میں تحفظ زندگی ناپید تھا۔ قتل کے بدلے نسل در نسل چلتے تھے خود عرب کا قبائلی نظام جاہلیت کے جھگڑوں میں جکڑا ہوا تھا۔ آپ نے اس کے برعکس انسانی محبت، ہمدردی اور درگزر کو اپنا شعار بنایا۔ انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر نہ کیے بلکہ فتح مکہ کے موقع پر اپنے تمام جانی دشمنوں کو معاف فرمادیا۔ آپ کا مقصد نظر ایک ایسے معاشرے کی تخلیق تھی جہاں انسانیت پھلے پھولے اور پروان چڑھے۔ چنانچہ خطبہ حجۃ الوداع میں آپ فرماتے ہیں:

جاہلیت کے قتلوں کے تمام جھگڑے ختم کیے جاتے ہیں۔ پہلا خون جو باطل کیا جاتا ہے وہ ربیعہ بن حارث کا ہے۔

انسانی معاشرے کی فلاح و بہبود میں سب سے بڑی معاشی رکاوٹ سودی نظام ہے۔ چند ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز اور اس کی غیر منصفانہ تقسیم امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر بنادیتی ہے۔ چنانچہ آپ نے معاشرے کو سودی کاروبار کی لعنت سے نجات دلاتے ہوئے فرمایا:

آج سے جاہلیت کا سود باطل کیا جاتا ہے۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے سود کو ممنوع فرمادیا ہے اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کے عباس بن عبدالمطلب کا سود باطل کرتا ہوں۔

اس منشور میں فلاح انسانی چند اور قوانین کا ذکر بھی ملتا ہے۔

مجرم اپنے جرم کا خود ذمہ دار ہوگا۔ باپ کے جرم کا بیٹا ذمہ دار نہیں اور بیٹے کے جرم کا باپ ذمہ دار نہیں۔

قرض ادا کیا جائے۔ عطیہ لوٹادیا جائے۔ ضامن تاوان کا ذمہ دار ہے۔

اللہ کی بارگاہ میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے ان میں سے چار حرمت والے ہیں۔ تین متواتر یعنی ذیقعدہ، ذی الحج اور محرم ہیں اور ایک مہینہ رجب ہے جو تنہا آتا ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ شیطان اب اس سر زمین پر پوجا نہیں جائے گا مگر وہ چھوٹے گناہوں میں اپنی اطاعت کروائے گا۔ اپنا دین اس سے محفوظ رکھو۔ آپ نے اسلامی احکامات پر عمل پیرا ہونے اور کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامنے کی تاکید کی۔

مولانا نعیم صدیقی اپنی تصنیف ’’محسن انسانیت‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:

یہ منشور انسانیت کا بنیادی مقصد ہے اس کی طرف ہر انسانیت کو بلایا جاسکتا ہے۔ ان کلمات سے ہٹ کر زندگی کا جو نقشہ بھی بنایا جائے گا وہ غیر اسلامی ہوگا۔ یہ منشور کسوٹی ہے جس پر ہم مسلمان اپنی ہر قیادت کے کارنامے پرکھ سکتے ہیں۔

الغرض اس خطبے کے ذریعے نوع انسانی کی اصلاح کے مشن کی تکمیل کردی گئی ہے۔ یہ پیغمبر آخرالزماں کا انسانیت کے نام آخری پیغام ہے۔ یہ پیغام آنے والے تمام زمانوں اور تمام معاشروں کے لیے ہے۔ آج بھی اگر عالم انسانیت اپنے نظام حیات کو اس منشور کے مطابق استوار کرلیں تو انسانی کرب و الم کے ہزار در بند ہوجائیں گے اور سطوتِ انسانی کے لیے رحمت الہٰی کا نزول ہوگا۔