قائد اعظم اور عشق رسول ﷺ

محمد ابوبکر فیضی

عشق کا کمال یہ ہے کہ عاشق کے افعال وا قوال، رفتار وگفتار، عادات، اطوار، اخلاق وخصائل غرض اس کے تمام افکار و اعمال میں محبوب کی پسند ناپسند اور اسی کا تصور ہی پیش نظر ہوتا ہے۔

ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں:

عشق وعرفان کا کمال یہ ہے کہ عاشق کی مرضی معشوق کی مرضی میں ضم ہوجائے۔ اسلام کے بھی یہی معنی ہیں۔ خدا کی مشیت کے سامنے انسان کی کامل تسلیم مشیت۔ اس تسلیم ورضا کی بدولت رسول اللہ ﷺ کو یہ مرتبہ حاصل ہوا کہ

تہ او گفتہ اللہ بود
گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

جب اسی عشق کا مظاہرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی زندگیوں میں دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں عشق نبی کریم ﷺ کی پاکیزہ صحبت اور محبت سے پیدا ہوا، اور اس میں اتنی شدت تھی کہ والدین، اہل وعیال سب آپ ﷺ کے عشق کے سامنے ہیچ تھے۔ اس لئے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اسلام کی ترویج وترقی عشق رسول ﷺ کی بدولت ممکن ہوئی بلکہ عشق رسول ﷺ ہی کا دوسرا نام اسلام ہے۔

حیات انسانی کا اولین اور بنیادی مقصد یعنی دنیا میں کلمہ حق بلند کرنا اور منصب خلافت کا اہل بننا، یہ عشق رسول ﷺ کے بغیر ناممکن ہے۔ کیونکہ یہ حضور ﷺ کی تعلیمات کا اثر ہے کہ مسلمان اسرار تقدیر الہٰی سے واقف ہوئے۔ اسی لئے اقبال کے نزدیک عشق رسول ﷺ کے بغیر انسان صفات ایزدی کا مظہر نہیں بن سکتا اور نہ ہی صفات نبوی اس کے اندر پیدا ہوسکتی ہیں۔ پیغمبر ﷺ اسلام سے عشق ومحبت ہر صاحب عقل وبصیرت کو ہونی چاہئے کیونکہ جب خالق خود عاشق رسول ہے تو مخلوق کو بھی سرتاپا اسی کے عشق میں ڈوبا ہونا چاہئے اور جس کے اندر یہ جذبہ عشق نہیں تو بقول اقبال ایسا انسان مسلمان ہی نہیں بلکہ کافر ہے۔

قلب را از صبغۃ اللہ رنگ دہ
عشق را ناموس ونام وننگ دہ
طبع مسلم از محبت قاہراست
مسلم از عاشق بنا شد کافر است

قائدا عظمؒ کی حیات و خدمات کی تابندگی دراصل شمعِ رسالت ﷺ سے اکتساب نور کی مرہون منت تھی۔ واقعات و شواہد کی روشنی میں اگر قائداعظمؒ کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی چاہت اور الفت میں کسی ثقہ اور پابند شریعت مسلمان سے کسی طرح بھی کم نہ تھے، یہی وجہ تھی کہ تحریک پاکستان کے رہنما اور مولانا اشرف علی تھانوی کے حلقہ بگوش مولاناشبیر احمد عثمانی نے قائد اعظمؒ کو اورنگ زیب عالم گیر کے بعد دوسرا بڑا مسلمان قرار دیا تھا۔

جب بانی پاکستان کی زندگی پرورق گردانی کی جائے تو آپ کی شخصیت محبت رسول ﷺ سے لبریز نظر آتی ہیں، یہ ہی وہ نسبت تھی جس نے عرب کے اجڈ بدوں کو قوم کا امام بنادیا، اسی نسبت کا فیضان ہے کہ جب بابائے قوم کی حیات کو دیکھتے ہیں تو وہ ہمیں تاجدار کائنات ﷺ کی سیرت میں ڈھلتی نظر آتی ہے۔ ذات رسالت مآب ﷺ کے ساتھ انہیں جو والہانہ عقیدت تھی اس کا اظہار ان کے خطبات سے بخوبی ہے۔

مئی 1937ء کے آخری ہفتے میں کاؤس جی جہانگریرہال بمبئی میں حضور نبی کریم ﷺ کے یوم ولادت با سعادت (عید میلاد النبی ﷺ ) کی نسبت سے ایک ایمان افروز اور روح پرور تقریب منعقد ہوئی۔ جس میں محمد علی جناحؒ نے اس تقریب سعید سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

حضور سرورِ کائنات محمد رسول اللہ نے ہمیں نہ صرف ایک مذہب (دین حنیف) دیا بلکہ ایک ضابطہ حیات دیا جس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ یہ ایک روحانی، اخلاقی،معاشی اور سیاسی ضابطہ ہے جس نے دنیا کے بدلتے ہوئے تغیر پذیر حالات اور واقعات کا ساتھ دیا ہے۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں اور اس میں کوئی بڑھائی نہیں کہ ہم محض زبانی کلامی اور طوطے کی طرح حضور ﷺ کی تعریف کرتے رہیں اور اس نظام کی تعریف کریں اور ماضی پر انحصار کریں۔

آپ نے حاضرین اور سامعین سے سوال کیا: ہم کہاں ہیں؟ اور مختصر سے وقفے کے بعد آپ نے بنفس نفیس فرمایا: ـ ہم کہیں بھی نہیں ہیں، ہمارا کوئی وجود نہیں۔

ہم حضور اکرم ﷺ کے اہل ثابت نہیں ہوئے جنہوں نے ہمارے لیے ایک قابل قدر اور قابلِ فخر ورثہ چھوڑا۔

جس کی بنیاد آزادی، اخوت، بھائی چارہ اور مساوات پر ہے۔ آپ نے حاضرین سے پوچھا ! آپ کب تک خواب غفلت میں پڑے رہیں گے؟ بعدا زاں آپ نے ایک جم غفیر سے اپیل کرتے ہوئے فرمایا:

آپ اپنے سیرت و کردار کی تشکیل اور تعمیر کیجئے۔

آپ نے حاضرین کو یقین دلایا کہ اگر آپ اس پر عمل پیرا ہونے میں کامیاب ہوگئے تو یقین کیجئے کامیابی و کامرانی آپ کے قدم چومے گی۔

(قائد اعظم اور ان کا عہد(انگریزی) جلد اول مرتبہ شریف المجاہد قائد اعظمؒ اکیڈمی کراچی 1990ء صفحات 349،348)

آپ کے نزدیک دنیوی زندگی کی کامیابی ہو یا آخرت کے فو زو فلاح عشق رسول ﷺ کے بغیر نا ممکن ہے۔ تسخیر کائنات جیسا اہم زمانہ بھی اس وقت انجام کوپہنچ سکتا ہے جب مسلمان حضور ﷺ کے عشق سے فیض یاب ہو کر اقوام عالم میں پھیل جائے۔

6 جنوری 1938ء کو مومن انصار جماعت سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظمؒ نے فرمایا:

جب رسول مقبول ﷺ نے اپنے دین کی تبلیغ شروع کی تو وہ دنیا بھر میں صرف ایک اقلیت میں تھے لیکن قرآن مجید کی اعانت سے انہوں نے ساری کائنات کو چیلنج کیا اور مختصر ترین مدت میں دنیا میں عظیم ترین انقلاب برپا کر دیا۔ اگر مسلمان یقین کی وہ قوت، تنظیم، نظم و ضبط اور ایثار کی وہ طاقت حاصل کر لیں تو انہیں ساری دنیا کی معاندانہ قوتوں سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنی سہل انگاری کو جھٹک دیں، شکست خودرہ ذہنیت اور مایوسی سے نجات حاصل کر لیں۔ وہ اپنا یقین دوبارہ حاصل کریں، اپنی روحوں کو دوبارہ تسخیر کریں اور ہند میں اپنی تاریخ ایک بار پھر رقم کریں۔

(قائد اعظمؒ: تقاریر و بیانات جلد دوم ترجمہ اقبال احمد صدیقی بزمِ اقبالؒ لاہور، 1997ء ص: تا199۔)

سندھ صوبائی مسلم لیگ کونسل سے 23 فروری 1947ء کو کراچی میں خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے قوم پر زور دیا کہ وہ حضور نبی کریم ﷺ کے نقشِ پا ک اسوہ حسنہ ﷺ کی پیروی کریں۔

ہم یہ سب کچھ کر سکتے ہیں اور اس سے بہت زیادہ حاصل کر سکتے ہیں بشرطیکہ ہم اس راہ سے انحراف نہ کریں جو عظیم ترین پیغمبر محمد ﷺ نے ہمارے لیے متعین کی تھی۔ آپ کو یہ یاد رکھنا ہو گا کہ ہم دنیا میں اپنا مقام صرف اس وجہ سے کھو بیٹھے کہ ہم نے کسی نہ کسی وجہ سے آپ ﷺ کے نقشِ پا پر چلنا چھوڑ دیا۔ (دی پاکستان ٹائمز، 25 فروری 1947ء)

25 جنوری 1948ء کو قائد اعظم محمد علی جناحؒ گورنر جنرل پاکستان نے عید میلاد النبی ﷺ کی تقریب سعید اپنے اعزاز میں کراچی بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دئیے گئے ایک استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

اس زمانہ کے مطابق رسول اللہ ﷺ کی زندگی سادہ تھی۔ تاجر کی حیثیت سے لے کر فرمانروا کی حیثیت تک آپ ﷺ نے جس چیز میں بھی ہاتھ ڈالا کامیابی نے آپ ﷺ کے قدم چومے۔ رسول کریم ﷺ عظیم ترین انسان تھے جن کا چشم عالم نے کبھی آپ ﷺ سے پہلے نظارہ نہیں کیا۔

کبھی میرے سامنے آنے کی جرات نہ کرنا۔ تیرا میرا رشتہ اسلام کے ناطے سے تھا، وہ ختم ہوگیا تو اب تیرا کوئی رشتہ مجھ سے نہیں رہا۔

1892ء میں نو عمر محمد علی جناح قانون کی تعلیم حاصل کرنے اگلستان پہنچے اس سے پیشترکہ وہ کسی ادارے میں داخل ہوئے انہوں نے بیر سٹری(وکالت) کے چار مشہور معروف تعلیمی اداروں کا مطالعہ اور معائنہ کرنیکا فیصلہ کیا وہ اپنے رہنما کے ساتھ تعلیمی ادارون انرٹمپل ان (INNER TEMPLEINN) مڈل ٹمپل (MIDDLE TEMPLE) اور گریزان (GRAYS INN) کو دیکھ چکے تھے کے بعد لنکنزان (LINCOLNS INN) میں داخل ہوئے تو انہوں نے اس تعلیمی ادارے کی دیوار پر خوبصورت تحریر دیکھی۔ اس پر انہوں نے اپنے گائیڈ سے پوچھا۔ یہ کیا ہے؟ گائیڈ نے جواب دیا دنیا میں جتنے بھی مقنن (قانون دینے والے) گزر رہے ہیں، ان کے نام اس پر کندہ ہیں۔

اس نو عمر طالب علم نے فوراً دریافت کیا سب سے اوپر یعنی سر فہرست کس کا نام درج ہے؟

گائید نے کہا مقنن اعظم (قانون دینے والوں میں سب سے بڑے) محمد ﷺ کا نام ہے

یہ سنتے ہی محمد علی جناح وہیں رک گئے۔ مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے آگے نہیں بڑھے بلکہ وہیں یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس ادارے میں قانون کی تعلیم حاصل کریں گے۔

ان کا یہ فیصلہ اسلام اور پیغمبر ﷺ اسلام سے بے پناہ محبت اور گہری عقیدت کا زندہ جاوید ثبوت ہے۔ (اعجاز احمد، ہمارے قائد اعظمؒ ص 8۔7)

1947ء میں قائد اعظمؒ نے کراچی میں وکیلوں کے اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے لنکنزان میں اپنے داخلہ لینے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا تھا:

ایک مسلمان کی حیثیت سے میرے دل میں رسول کریم ﷺ کی جن کا شمار دنیا کے عظیم ترین مدبروں میں ہوتا ہے، بہت عزت تھی۔ ایک دن اتفاقاً میں لنکنز ان گیا اور میں نے دروازے پر پیغمبر اسلام کا نام مبارک کھدا دیکھا۔ میں نے لنکنز ان میں داخلہ لے لیا کیونکہ اس کے دروازے پر آنحضرت ﷺ کا نام دنیا کے عظیم قانون سازوں میں سرفہرست لکھا تھا۔(ہمارے قائد اعظمؒ اعجاز احمد، ص: 28)

قائد اعظمؒ ملت اسلامیہ کے تمام دکھوں کا مداوا اور تمام مشکلات کا حل آنحضرت حضور نبی کریم ﷺ کی ذات با برکات کے اسوہ حسنہ میں سمجھتے تھے۔ ان کا ایمان تھا کہ حضور اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے سے ہمارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ 14 فروری 1948ء کو شاہی دربار سبی (بلوچستان) میں تقریر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:

میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلام ﷺ نے ہمارے لیے بنایا ہے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر رکھیں

(رئیس احمد جعفری، خطبات قائد اعظمؒ ص: 595)

قائداعظم نے آخری ایام میں فرماتے تھے کہ

یہ مشیت ایزدی ہے۔ یہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا روحانی فیض ہے کہ جس قوم کو برطانوی سامراج اور ہندو سرمایہ دارنے قرطاس سفید سے حرف غلط کی طرح مٹانے کی سازش کر رکھی تھی آج وہ قوم آزاد ہے۔ اس کا اپنا ملک ہے اپنا جھنڈاہے اپنی حکومت ہے، اپناسکہ ہے، اپنا آئین ہے اور اپنا دستور ہے۔ کیا کسی قوم پر اس سے بڑھ کر خدا کا کوئی اور انعام ہو سکتا ہے۔ یہی وہ خلافت ہے جس کا وعدہ خدا نے رسول اکرم ﷺ سے کیا تھا کہ اگرتیری امت نے صراط مستقیم کو اپنے لیے منتخب کر لیا تو ہم اسے زمین کی باد شاہت دیں گے۔ خدا کے اس انعام عظیم کی حفاظت ہر پاکستانی مردوزن، بچے، بوڑھے اور جوان پر فرض ہے، جب میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ میری قوم آج آزاد ہے، تو میرا سر عجزونیاز کی فراوانی سے بار گاہ رب العزت میں سجدہ شکر بجالانے کے لیے فرط انبساط سے جھک جاتا ہے۔

(رئیس احمد جعفری، خطبات قائد اعظم ؒ ص 596)

اسی طرح دستور ساز اسمبلی کے موقع پر دوران تقریر 14 اگست 1947ء کو آپ نے فرمایا:

شہنشاہ اکبر نے غیر مسلموں کے ساتھ جو خیر سگاکی اور رواداری کا برتاو کیا وہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ اس کی ابتدا آج سے تیرہ سو سال پہلے ہی ہمارے رسول ﷺ سے کر دی تھی۔ انہوں نے زبان ہی سے نہیں بلکہ عمل سے یہود و نصاری پر فتح حا صل کرنے کے بعدنہایت اچھاسلوک کیا ان کے ساتھ رواداری برتی اور ان کے عقائد کا احترام کیا۔ مسلمان جہاں کہیں بھی حکمران رہے، ایسے ہی رہے۔ ان کی تاریخ دیکھی جائے تو وہ ایسے ہی انسانیت نواز اور عظیم المرتبت اصولوں کی مثالوں سے بھری پڑی ہے جن کی ہم سب کو تقلید کرنی چاہیے۔

(رئیس احمد جعفری، خطبات قائد اعظم ؒ )

اسلام مسلمانوں کو اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ دشمن سے انتقام لو، تلوار سے نہیں روادری سے۔حضور نبی کریم ﷺ نے بھی اپنے بدترین دشمنوں کے ساتھ یہی سلوک کیا تھا۔ قائداعظم نے انہی اسلامی تعلیمات کی ترویج واشاعت پر زور دیتے ہوئے 24 اگست 1947ء کو فرمایا:قائد اعظیم کی حضور ﷺ سے والہانہ کا بے مثال ثبوت ہے کہ آپ نے 14فروری 1948ء کو سبی کے شاہی دربار میں دہرائی اور فرمایا:

ہماری نجات پیغمبراسلام کے بیان کردہ سنہری اصولوں پرعمل پیرا ہونے میں ہی مضمر ہے۔ آئیے ہم اپنی جمہوریت کی عمارت حقیقی اسلامی نظریات اور اصولوں کی بنیادوں پر استوارکریں۔

(رئیس احمد جعفری، خطبات قائد اعظمؒ ص: 607)

مولانا شبیر احمد اخگر فرماتے ہیں کہ مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم نے 1945ء میں الیکشن کے زمانہ میں یو پی کے تھانہ بھون کی جامع مسجد میں وعظ کرتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگ کہتے ہو کہ محمد علی جناح ایسا ہے، ویسا ہے، مگر رات کو جو میں نے خواب دیکھا ہے وہ کچھ اور ہی ہے۔ میں نے دیکھا کہ ایک وسیع و عریض میدان ہے، جس میں کروڑ ہا تعداد میں لوگ ہیں۔ درمیاں میں ایک مرصع تخت ہے، جس کا حسن اور خوبی بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں، وہ کسی اور دنیا کا تخت ہے، اس تخت پر حضور اکرم ﷺ اور ایک داڑھی منڈھا شخص تشریف فرما ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں۔ یہ شخص آپ کے ساتھ کون ہے؟ حضور سرور کائنات ﷺ نے فرمایا یہ محمد علی جناحؒ ہے۔ اس منظر اور بیان سے مترشح ہے کہ قائد اعظم کو حضور ﷺ کے ساتھ بے حد محبت تھی، یہی وجہ ہے کہ وہ حضور ﷺ کے بہت قریب تھے۔

(روزنامہ پاکستان، مجیب الرحمن شامی، 23نومبر، 2018)

19فروری1948ء کو آسٹریلیا کے باشندوں کے نام ایک نشری پیغام میں قائد اعظم نے فرمایا کہ پاکستان کی آبادی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ہم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی تعلیمات کے پیروکار ہیں اور اسلامی برادری سے تعلق رکھتے ہیں، جس میں حقوق شرف و احترام اور تکریم ذات کے اعتبار سے تمام افراد برابر ہیں۔ اسی بنا پر ہم میں اخوت اور وحدت کا بڑا گہرا جذبہ موجود ہے۔ ہماری اپنی تاریخ اور اپنی رسوم و روایات ہیں، ہم ایک مربوط فکر، نقطہ نگاہ اور احساس دروں سے سرشار ہیں اور یہی وہ عوامل ہیں، جو قومیت کی تشکیل کی بنیاد بنتے ہیں۔

(روزنامہ پاکستان، مجیب الرحمن شامی، 23 نومبر، 2018)

مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کا یہ ایمان تھا کہ کوئی قوم اس وقت تک زندہ وجاوید نہیں رہ سکتی، جب تک وہ سیرت مصطفی ﷺ کے نصب العین کو اپنی شاہراہ حیات کی منزل مقصود نہ بنا لے، بانی پاکستان قائدا عظم محمد علی جناحؒ نے اس فکر کو عملی جامہ پہنایا۔ قائدا عظم اپنے قول و کردار میں اقبال کے مرد مومن کا عملی پیکر تھے۔ مومن کا سینہ عشق مصطفیٰ ﷺ کا گنجینہ ہوتا ہے۔