بچوں کو کامیاب بنانے کے اصول

رابعہ فاطمہ

بچے قوم کے مستقبل معمار ہوتے ہیں انہوں نے ہی آئندہ نسلوں کو پروان چڑھانا ہوتا ہے۔ اسی لیے ان کی اعلیٰ تعلیم و تربیت اور مناسب پرورش والدین و اساتذہ کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود کو کہا گیا ہے۔ جب بچہ اس دنیا میں اپنی آنکھیں کھولتا ہے تو اسے کسی چیز کا ادراک نہیں ہوتا لیکن جیسے جیسے وہ اپنے شعور کی منازل طے کرتا ہے تو وہ اپنے آس پاس کے ماحول سے آشنائی کے ساتھ ساتھ بے شمار چیزیں سیکھتا ہے اور سب سے پہلے جس سے اس کی شناسائی ہوتی ہے وہ اس کی ماں ہوتی ہے اس کی پرورش کے ساتھ ساتھ وہ اس کی پہلی استاد طبعی ہوتی ہے۔ بچے کورے کاغذ کی طرح ہوتے ہیں ان پر جو بھی تحریر کیا جائے وہ اپنا نقش چھوڑ جائے گا۔ اس لیے ان کے بہترین مستقبل کے لیے ان کو اچھی تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے والدین کو چاہیے کہ پہلے اپنی طرف توجہ دیں جو چیزیں یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں میں نہ ہوں خود بھی وہ کام نہ کریں۔ کیونکہ بچے وہی کرتے ہیں جو دیکھتے ہیں۔

’’بچوں کو کامیاب بنانے کے لیے کن اصولوں کو اپنانا ضروری ہے۔‘‘

اس دنیا میں کامیاب کون ہے؟ کامیابی کا پیمانہ کیا ہے؟

اس دنیا میں جس کے پاس دولت کی فراوانی ہے وہ کامیاب ہے جس کے پاس دنیاوی علوم کی ڈگریاں ہوں وہ کامیاب ہے یا پھر جس کے پاس اقتدار کی کرسی ہو وہ کامیاب ہے۔ نہیں ہرگز نہیں اسلام ان چیزوں کو کامیابی نہیں کہتا بلکہ اصل کامیابی اچھے اخلاق اور انسانیت کی بھلائی کرنے والوں کو ملتی ہے۔ تاریخ انسانی میں جس شخص نے بھی خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم جس نے بھی انسانی بھلائی کو ترجیح دی ہے اس کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ دولت، دنیاوی اقتدار وغیرہ تو صرف انسان کی زندگی تک اسے فائدہ دیتی ہیں۔ مرنے کے بعد کیا ہوگا اگلی دنیا میں جو کامیاب ہوگا وہی اصل کامیابی ہے کیونکہ وہی دائمی زندگی ہے اور اسی ہمیشہ کامیاب اور قائم رہنے والی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے انسان کو اس دنیا میں محنت کرنی ہوگی کیونکہ یہ امتحان گاہ ہے۔ آقا کریم ﷺ نے اس دنیا کو آخرت کی کھیتی قرار دیا ہے جو یہاں بوئیں گے وہی آگے کاٹیں گے۔

بچوں کو کامیاب بنانے میں والدین کا کردار:

اسلام دین رحمت ہے یہ ہر کام کو محنت اور شفقت اور پوری دلجمعی سے کرنے کا حکم دیتا ہے۔ عرف عام میں کہا جاتا ہے کہ بچہ پیدا کرنا آسان ہے لیکن اس کی تربیت کرنا مشکل ہے۔ تویہ بات سچ ہے کیونکہ اس معاملے میں بہت سی چیزوں کو دیکھنا اور پرکھنا پڑتا ہے۔ غلط کو چھوڑنا اور صحیح کو اپنانا پڑتا ہے۔ والدین اور خاص طور پر والدہ پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اخلاق و کردار کو بہتر سے بہترین بنائیں کیونکہ بچے نے زیادہ وقت اسی کے ساتھ گزارنا ہوتا ہے۔

امام غزالیؒ احیاء علوم الدین میں ارشاد فرماتے ہیں:

’’بچے والدین کے پاس اللہ کی امانت ہوتے ہیں اور اس کا دل ایک عمدہ، صاف اور سادہ آئینہ کی مانند ہے جو اگرچہ ہر قسم کے نقش و صورت سے خالی ہے لیکن ہر طرح کے نقش و اثر قبول کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔ اسے جس چیز کی طرف چاہیں مائل کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اگر اس میں اچھی عادتیں پیدا کی جائیں اور اسے علم نافع پڑھایا جائے تو وہ عمدہ نشوونما پاکر دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرلیتا ہے۔ یہ ایسا صدقہ جاریہ ہے جس میں اس کے والدین استاد اور روحانی مربی وغیرہ سب حصہ دار ہوجاتے ہیں۔ لیکن اگر اس کی بری عادتوں سے صرف نظر کیا جائے اور اسے جانوروں کی طرح کھلا چھوڑ دیا جائے تو وہ بداخلاق ہوکر تباہ ہوجاتا ہے۔ جس کا وبال اس کے ولی اور سرپرست کی گردن پر ہوتا ہے۔

اسی کے بارے میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

یٰٓـاَیَّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَهْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ.

(التحریم، 66: 6)

’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔‘‘

اسی لیے والدین اپنے بچوں کی اچھی تربیت کریں۔ انہیں اچھے اخلاق سکھائیں تاکہ انہیں نار جہنم کا ایندھن بننے سے بچایا جاسکے۔ بچوں کو بلاوجہ نہ ڈانٹیں نہ ماریں۔ بچوں کی عزت کریں تاکہ وہ بھی بڑوں کا احترام کریں۔ والدین اپنے بچوں کی نفسیات کو سمجھیں ان کے سامنے اپنے جھگڑے اور گھریلو ناچاقیوں کو نہ لائیں۔ آپس میں رنجشوں کو ختم کرکے انہیں ذہنی سکون مہیا کریں گھر کو پرسکون ماحول فراہم کریں تاکہ بچوں کو ایک بہترین صلاحیتیں دکھانے کا موقعہ ملے۔ ویسے بھی میاں بیوی کے جھگڑوں سے بچوں کی نفسیات پر بے حد برے اثرات مرتب ہوتے ہیں جو کہ بچوں کو چڑ چڑا بداخلاق اور منفی رویے والا بنادیتے ہیں وہ بہترین انسان بننے کی بجائے معاشرے کے لیے دردِ سر بن سکتے ہیں۔

والدین کو چاہیے بچوں کو اپنی ذات سے زیادہ دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنا سکھائیں۔ ان کے ہاتھوں سے دوسروں کی مدد کروائیں۔ دوسروں کے کام آنے کی ترغیب دیتے رہیں تاکہ جب وہ کسی خاص مقام پر پہنچے تو اسے دوسروں کے کام آنے، مدد کرنے میں ہچکچاہٹ نہ ہو دوسروں کا احساس کرنے والا بنایئے۔ اپنی چیزیں دوسروں سے شیئر کرنے کی عادت بنائیں۔

استاد کا کردار بچے کی تربیت میں:

والدین کے بعد جو بچے کی تربیت گاہ ہوتی ہے وہ استاد کی صحبت ہوتی ہے بچہ جب گھر سے باہر نکلتا ہے تو جو کچھ سیکھتا ہے اور دیکھتا ہے وہ سب ایک استاد کی نظر سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ استاد ہی اسے باہر کی دنیا اور علوم و فنون سے روشناس کرواتا ہے۔ اس لیے اپنے بچوں کے لیے کسی ایسے استاد کو چنیںجو شفیق و رہبر ہو تاکہ بچے کی منزل کے تعین اور منزل پر بہتر طریقے سے پہنچا سکے اسے اچھی اور برائی کا فرق واضح کرکے دکھاسکے۔ اسے نہ صرف دنیاوی علوم سکھائے بلکہ اس کی شخصیت کے ہر ہر پہلو کو سنوار سکے۔ چاہے وہ دینی پہلو ہو یا اخلاقی یا روحانی اس کے ظاہرو باطن دونوں کو نکھاریئے اس لیے والدین اور استاد کے درمیان باہمی ہم آہنگی بھی ہونی چاہیے تاکہ دونوں مل کر اس کی تعلیم و تربیت کرسکیں۔

اس کی ایک مثال ادارہ منہاج القرآن بھی ہے جس میں نہ صرف جدید دنیاوی علوم سکھائے جاتے ہیں بلکہ بچوں کی دینی، روحانی، باطنی اور اخلاقی تربیت کا بھی خوب خوب اہتمام کیا جاتا ہے۔ آقا علیہ السلام کی محبت دلوں میں بھری جاتی ہے۔ اہل بیت و صحابہ اور اللہ کے ولیوں کی محبت سکھائی جاتی ہے تاکہ دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی کامیابی بھی ملے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں:

’’میں نے کٹھن جدوجہد کے بعد لوگوں کو تعلیم کی راہ دکھا دی ہے۔ میں پاکستانی قوم کو تعلیم یافتہ، باشعور اور مہذب دیکھنے کی خواہش رکھتا ہوں۔ میری چاہت ہے کہ میرا ملک قوموں کی برادری میں آبرو مند ہو یہاں امن کا راج ہو اور میرے عظیم طلبہ کے ذریعے یہ دنیا میں ممتاز مقام حاصل کرے۔ میں اپنی قوم کو اعلیٰ معاشرتی اور انسانی قدروں کا پابند دیکھنے کا متمنی ہوں اور مجھے یقین ہے کہ باہمت پاکستانی نونہال بہت جلد اس خواب کو شرمندہ تعبیر کر کے دکھائیں گے۔‘‘

استاد کے چنائو میں بہت احتیاط کریں کیونکہ استاد نے ہی اس کے مستقبل کی منزل متعین کرنے میں مدد کرنی ہے۔ امام ابن سیرینؒ فرماتے ہیں کہ جس سے علم لے رہے ہو اسے دیکھ لو کہ وہ کون ہے۔

اس لیے ایسے ادارے یا استاد کا انتخاب کیا جائے جس پر مکمل اعتماد و بھروسہ ہو۔

خود اعتمادی کا ہونا:

اللہ رب العزت نے انسان کے اندر جو صلاحیتیں ودیعت کی ہیں ان کو استعمال میں لانے کے لیے خود اعتمادی کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ اگر خود اعتمادی نہ ہو تو اپنی منزل یا ہدف کو حاصل کرنا دیوانے کے خواب جیسا ہے۔ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اپنے آپ پر یقین ہونا چاہیے کہ میں یہ کام کرسکتا ہوں تو اللہ رب العزت بھی اس کی مدد فرماتا ہے کیونکہ انسان جس کے لیے کوشش کرتا ہے وہ اسی کے لیے ہے۔

وقت کی قدر:

جو شخص بھی اس دنیا میں آیا ہے وہ مخصوص وقت لے کر آیا ہے لہذا جو بھی کام کرنا ہے وہ اسی خاص وقت میں ہی مکمل کرنا ہے۔ وقت کی مثال ایسے ہے جیسے برف پگھلتی جارہی ہو یا تیر کی طرح جو ایک بار کمان سے نکل گیا سو نکل گیا اس لیے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ بامقصد گزارنا چاہئے تاکہ اس جہان کی تیاری کرسکیں اور اپنی اس زندگی کو بھی بہتر بناسکیں۔ ورنہ وقت گزر تو رہا ہے ختم بھی ہوجائے گا۔

مستقل مزاجی:

کوئی بھی کام چاہے مشکل ہو یا آسان اگر اسے صبرو تحمل اور مستقل مزاجی سے نہ کیا جائے تو وہ یا تو وقت پر مکمل نہیں ہوگا یا مکمل ہی نہیں ہوگا اس لیے اپنے ٹارگٹ پر فوکس رکھ کر مستقل مزاجی سے محنت کرتے رہیں منزل ضرور ملے گی۔

حوصلہ افزائی:

بچوں کی ہر چھوٹی بڑی کامیابی پر خوشی کا اظہار کریں ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں تاکہ وہ مزید جوش و جذبے سے اپنے کام انجام دے سکیں۔ اسی طرح ان کی کسی غلطی یا ناکامی پر ناراضگی یا غصے کا اظہار نہ کریں بلکہ کہیں کہ تم اس سے بہتر کرسکتے ہو یہ غلطی نہیں بلکہ سیکھنے کا ایک ذریعہ ہے، حوصلہ شکنی نہ کریں ہمیشہ حوصلہ افزائی کریں۔

منزل کا تعین اور احساس ذمہ داری:

چھوٹے بچوں کو منزل کا تعین کرنا سکھائیں انہیں اپنی زندگی کے مقاصد متعین کرنے کی ترغیب دیں پھر ان سے کہیں کہ اسے پورا کریں تاکہ ان کے اندر احساس ذمہ داری پیدا ہو بڑے ہوکر وہ ان ہی اصولوں پر کاربند رہیں گے۔

ان اصولوں کے ساتھ اللہ رب العزت سے دعا مانگتے رہنا چاہئے جو کہ اس مالکِ کریم نے ہمیں سکھائی ہے۔

وَمِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّفِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ.

(البقرة، 2: 201)

’’اور انہی میں سے ایسے بھی ہیں جو عرض کرتے ہیں: اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور آخرت میں (بھی) بھلائی سے نواز اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔‘‘

یہ ایک جامع دعا ہے دنیا و آخرت کی بھلائی کے لیے اپنے بچوں کو آقا علیہ السلام کی محبت سب اصولوں سے بڑھ کر سکھائی جائے تاکہ حقیقی معنوں میں ہم سب فلاح پاسکیں۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:

کی محمد ﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
محمد ﷺ کی محبت دینِ حق کی شرطِ اول ہے
اسی میں ہوگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے