فکر شیخ الاسلام: منہاج القرآن پیغمبرانہ اُسلوب دعوت وفکر کی تحریک ہے

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

بعض کام ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں توجہ ایک نکتہ پر توجہ مرکوز ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہو تو اپنی تمام تر توانائیاں کام کرنے والے لوگ ایک ہی چیز پرلگا دیتے ہیں۔ وہ چیز کبھی ڈی فوکس نہیں ہوتی کیونکہ تمام افراد بھی اورافرادی قوت بھی، ذہنی قوت، علمی قوت، فکری قوت، حبی قوت، جسمانی قوت، روحانی قوت، سب ایک اُسی پر لگی ہوتی ہیں۔ اُس سے اُس کی توانائیاں تقسیم نہیں ہوتی۔ پھر وہ تیز رفتاری کے ساتھ وہ اپنی منزل کی طرف بڑھتے رہتے ہیں۔ آج کے دور میں حالانکہ تعلیم اور شعور بڑھ گیا ہے۔ مگر ہماری سوسائٹی میں یک نکاتی ایجنڈے کو فروغ دینے والے لوگ لاکھوں کی تعداد میں مل جاتے ہیں جو انتہاپسند ہوتے ہیں اور دہشت گردی کو جنم دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ نوجوان نسل میں سے بھی لوگ ہوتے ہیں جو ایک پوائنٹ پہ فوکس کرتے ہیں۔ وہ نعرے جو ایک پوائنٹ کے فوکس کرنے میں ہوتے ہیں۔ وہ بڑے دل کو بہلا دینے والے ہوتے ہیں۔ اُن طبیعتوں کو بہت خوب متاثر کرتے ہیں جن طبیعتوں میں اُس نوعیت کا عنصر اللہ کی طرف سے پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ رب العزت نے جداجدا طبیعتیں، جدا جدا مزاج بنائے ہیں۔ مختلف نوعیت کی باتیں مختلف طبیعتوں پہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ اُن کو متاثر کرتی ہیں۔ غازی، شہید، شہادت، جہاد، جنگ، موت اور اسلام کا تصور تنگ نظری پر مبنی انتہا پسندانہ تعبیر کرکے لوگوں کو ذہنی طور پر تیار کر لیتے ہیں، 80 کے وقت سے انتہا پسندانہ نظریات نے دنیا میں عالم اسلام میں کیا کچھ کیا ہے اور اُن کی وجہ سے عالم اسلام پر کتنی کتنی بڑی آفات آئی ہیں اور اسلام دشمن جو عالمی قوتیں اور طاقتیں ہیں اُن سے عدم استحکام کے لیے کام بھی لیے ہیں اور پھراُن کو مارا بھی ہے۔ بالآخر چلتے چلتے اِن میں سے کافی لوگ آلہ کار بن جاتے ہیں۔

بہت سے لوگ قتل ہوئے اور پھر آہستہ آہستہ یہ اِنتہاپسندانہ فکر اور نظریہ جماعتی صورت میں ملک میں پھیلتا چلا گیا۔ پھر دوسرے ممالک بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ جو آپ کے دشمن ہوتے ہیں۔ جن کا ایجنڈا ملک میں، سوسائٹی میں انتہاپسندی کو فروغ دینا۔ وہ وسائل بھی دیتے ہیں۔ اُن کے پیچھے کئی تین، چار، پانچ باہر کی طاقتیں شامل ہوتی ہیں اور جبکہ ورکرز کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ہمارے اوپر کے لوگ بک گئے ہیں یاکسی کے ایجنڈے پر ہیں۔ وہ اخلاص کے ساتھ اُس انتہاپسندانہ سنگل پوائنٹ ایجنڈے پراپنی نیت کے ساتھ کام کر رہے ہوتے ہیں تب ہی تو سیاسی جماعتیں اپنی تمام ترکرپشن اور نااہلیت کے باوجود ووٹ لیتی ہیں۔ اچھے بُرے کی تمیز نہ کرنے والے افراد اِتنی کثیر تعداد میں ہیں ورنہ وہ جماعتیں بکھر کے کب کی ختم ہو چکی ہوتیں۔ یعنی جن لوگوں کا کردارپڑھنے لکھے لوگوں کی نظر میں گالی سمجھا جاتا ہے جب الیکشن ہوتا ہے تووہ لوگ بھی بڑی کثرت کے ساتھ ووٹ لے کر پارلیمنٹ میں آتے ہیں۔ کوئی اِس صوبے میں اور کوئی اُس صوبے میں، کوئی اُس جگہ اور کوئی اُس جگ اس میں اُن کی دھن، دھونس، دھاندلی کے عوامل بھی ہوتے ہیں مگر اُن کا بہت بڑا حلقہ اور ووٹ بینک بھی ہوتا ہے۔ اُن کے چاہنے والے بھی ہوتے ہیں۔ اُن کو سننے کے لیے بھی لوگ آتے ہیں۔ تو اِس طرح کے طبقات ہیں۔ زمانہ گزر گیا، اُن کی لیڈرشپ، کچھ نہیں دے سکی۔ سوائے کرپشن اور لوٹ مار کے، لوگ گالیاں دیتے ہیں، مایوس ہیں، پریشان ہیں، دکھی ہیں، مگر جب وقت آتا ہے تو اِتنا بڑا طبقہ موجود ہوتا ہے کہ وہ اُن کو ووٹ دینے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ اِسی وجہ سے اقتدار میں پارٹیاں طویل مدت تک آتی رہتی ہیں۔ یہ بنیادی طور پر اُس تعلم اور شعور کی کمی ہے جہاں اچھے اور بُرے کا امتیاز نہیں ہوتا۔ یہ صرف پاکستان جیسے معاشرے میں نہیں۔ اب دنیا کے دیگر ممالک میں بھی میڈیا کے ذریعے ذہن کو اِس طرح خراب کردیا جاتا ہے۔ باہر بھی اِس طرح کی صورت حال پیدا ہو رہی ہے۔

یہ پوزیشن مذہب میں دینی اور مذہبی اعتبار سے زیادہ ہے۔ مشکل اُن لوگوں کو ہوتی ہے۔ جو دین کے پیغمبرانہ تصور کو کسی بھی صدی میں لے کر اُٹھتے ہیں۔ اُس کی تجدید کرنا چاہتے ہیں۔ یہ مشکل کام ہوتا ہے اور یہ آج کی بات نہیں ہے۔ یہ صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ اِس لیے مجدد کا اور اصلاح کرنے والے کا م سب سے مشکل ہوتا ہے۔ چونکہ لوگ دھارے بناتے ہیں۔ اُس میں جذبات کو شامل کرتے ہیں۔ پاکستان میں پچھلے دس سال میں مختلف نعرے لگے ہیں۔ مسلمان کے اندر دینی غیرت و حمیت کو اجاگر کرنے کے لیے دل کش نعرے ہوتے ہیں۔ کبھی عشق رسول کے نام پر، کبھی ناموس رسالت کے نام پر، کبھی اسلام کے نام پر، کبھی قرآن کے نام پر، الغرض مختلف اچھی اصطلاحات، اچھے عنوانات استعمال کرکے لوگوں کو دین کے نام پر گلیوں میں نکال کر ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔ چلتے چلتے ایک مذہبی سی تحریک بنا لیتے ہیں۔ وہ ایک طبقہ ہوتا ہے۔ جس کی علمی، شعوری سطح بہت نیچے ہے۔

ہمارے ملک میں شرح خواندگی 50 یا 60 فیصد ہے تو اس سے مراد یہ لیا جاتا ہے کہ اتنے لوگ اپنا نام لکھنا اور پڑھنا جانتے ہیں اب اُس سے شعور تو پیدا نہیں ہوتا۔ اگر شعور کی سطح کو دیکھا جائے تو جو شعور ہے جہاں اچھے اور بُرے کی تمیز ہو سکے۔ جائز اور ناجائز، درست اور غلط کی تمیز ہو سکے۔ پھر اُس میں نظریہ کی تشخیص ہوسکے ۔ کردار کی صحیح تعبیر ہوسکے، پھر اُس میں اعتدال پیدا کیا جاسکے، متوازن سوچ ہو، جب ان تمام سطحوں کا دیکھا جائے تو شرح خواندگی کی سطح کم ہوتی جائے گی کیونکہ ان دونوں طبقات میں بہت فرق ہے۔ جن لوگوں نے صرف جذباتی، لاشعوری، انتہا پسندانہ نعرے سے متاثر ہونا ہوتا ہے وہ شعوری چیزوں سے متاثر نہیں ہوتے۔ یہ ان کی سمجھ سے بالا تر ہوتی ہے۔

اُسی طرح یہ سوسائٹی ایک ہی ہے۔ یہ وہی ہے جہاں ایک اچھا، نیک، صالح کردار والا پڑھا لکھا آدمی الیکشن پہ کھڑا کردیں تو اُس کو کوئی ووٹ نہیں دیتا۔ پانچ سو، آٹھ سو، ہزار، دوہزار ووٹ کے ساتھ وہ ہار جاتا ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ یہ تھانے کچہری کا کام نہیں کروا سکے گا۔ یعنی لوگ کا ایک مائنڈ سیٹ ہے۔ اِس سے اوپر اُن کی سوچ نہیں جاتی کہ ہم نے اِس کو پارلیمنٹ کا ممبربنانا، یہ قانون سازی کرے گا۔ ملک کی تقدیر بدلے گا، مستقبل کا ہمارا لیڈر ہوگا۔ اِس طرف اُن کی ذہنی سطح اِتنی بلند نہیں ہوتی۔ تو ووٹر کا ایک مائنڈ سیٹ ہوتا ہے۔ وہ جیتتے آتے ہیں اور اچھے پڑھے لکھے لوگ سارے ہمیشہ شکست کھاتے ہیں۔

یہ جو رجحان ہے سیاسی زندگی میں اِسی طرح سماجی زندگی میں بھی اور اِس طرح مذہبی زندگی میں اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے جہاں جذبات، کا عمل دخل اور اثر زیادہ ہوگا۔ وہاں استحصال کے امکانات بھی زیادہ ہوں گے اور جہاں جذبات کے بجائے ویژن کا، ذہانت کا، علمی شعور عمل دخل زیادہ ہوگا۔ وہ جذبانی نعرے کم اثر انداز ہوں گے۔ یعنی یہ انسانی نفسیات ہے۔ اِس لیے ہر پیغمبر جب مبعوث ہوتا ہے اُسی کا کام مشکل ہوتا تھا۔ اِس لیے کہ جو قوم ایک دھارا اور ایک سمت چل رہی ہوتی ہے۔ جس میں سارے بہہ رہے ہوتے ہیں۔ خواہ وہ اخلاقی بُرائیاں ہوں۔ سماجی بُرائیاں ہوں، اعتقادی بُرائی ہو، شرک ہو، جہالت ہو، ظلمت ہو، ایک رسم ہو، ایک رواج ہو، جو معاشرے کی روایت چلی آرہی ہو سب اسی کا شکار ہوتے ہیں۔

الغرض اس کی کئی شکلیں ہیں ان کی ایک اجارہ دارہ ہوتی ہے۔ تو پیغمبر جب ایک ایسی دعوت، ایسی فکر اور ایک ایسے ویژن کے ساتھ آتا تو لوگوں کے جو ذہنی سانچے ہوتے اس کی بات ان روایت پرست لوگوں کے ذہن میں فٹ نہیں ہوتی تھی۔

مثلاً آقا علیہ السلام جب دعوت لے کر آئے تو ابوجہل، ابولہب، ابو سفیان اور سردارانِ قریش کے روایت پسند ذہنوں کے لیے اسے قبول کرنا مشکل تھا اور جو ان کے پیرو کار تھے، اُن کے جو غلام تھے۔ پسماندہ لوگ جن پر ظلم ہوتا تھا۔ مگر ظلم سہہ سہہ کر اُن کا بھی ایک ذہنی سانچہ بن جاتا ہے۔ پیغمبر کی بات اُس میں فٹ نہیں ہوتی۔ چونکہ ان کے ذہن میں انتہاپسندی چل رہی ہوتی تھی۔ جبکہ پیغمبر ایک ویژن دینا چاہتا ہے۔ جس میں عقل بھی، شعور بھی، جذبات، اطاعت، حریت، کردار، آزادی، انسانی اقدار، برابری ہے، توازن ہے، کسی سمت انتہاپسندی نہیں ہے، اُس میں انسانی عزت ہے، وہ روایتی سوچوں کو توڑ کر آگے بڑھنا ہے، اب وہ ساری چیزیں اُس سماج کا جو بہاؤ ہے، اُس کے خلاف ہوتی تھیں۔

یہی سلسلہ آگے بھی چلتا رہا ہے اُمت میں ہردور میں، ہر صدی میں یہی چیز ہوتی ہے۔ جب ایک شخص یا ایک جماعت یا ایک تحریک اُس پیغمبرانہ دعوت لے کے اُٹھتے ہیں۔ پیغمبرانہ دعوت ایک لفظ ہے۔ ہر کوئی اِسے اپنے کام کے تناظر میں کر سکتا ہے۔ آپ کسی کو روک نہیں سکتے یہ الگ بات ہے کہ جائز اپلائی ہورہا ہے۔

وہ یوں ہوتا ہے کہ جزوی طور پہ جائز ہوتا ہے۔ یعنی شخص بھی اللہ کے دین کی دعوت آگے پہنچا رہا ہے تو جزوی طور پہ وہ پیغمبرانہ دعوت کا ایک حصہ ہے۔ مگر جب آپ اُس دعوت کا جائزہ لیتے ہیں کہ پیغمبرانہ دعوت کا مزاج کیا تھا۔ پیغمبرانہ دعوت کے اندر توازن کتنا تھا۔ پیغمبرانہ دعوت کے اندر فکری، نظریاتی اساس کیا تھی۔ انسانی قدریں کیا تھیں۔ توازن کتنا تھا۔ جب آپ اُس کو اِس طرح ناپتے، تولتے اور تجزیہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ اِس کو ویژن کہتے ہیں۔

اُس میں زمین آسمان کا فرق ہو جاتا ہے۔ دعوت، دین کی طرف بلانا، نماز کی طرف بلانا، روزے کی طرف بلانا، نیکی کی طرف بلانا، یہاں تک بعض جزوی چیزیں ٹھیک ہوتی ہیں۔ جب آپ اُس کو ایک بڑے مقصد میں دیکھتے ہیں۔ جہاں انسان کے اندر کی بھی شخصیت ہے، انسان کی ذہنی شخصیت بھی ہے، اُس کے ذہن کا فروغ ہے، جس زمانے اور دور میں رہ رہا ہے۔ اُس کے ساتھ اُس کا جوڑ ہے۔ اُس کو قدیم قدریں بھی برقرار رکھنی ہیں۔ موجود زمانے میں جدید دور کے معیار پر بھی پورا اُترنا ہے اور اُس کی شخصیت سے اور فکر سے موجودہ نئی نسل متنفر بھی نہ ہو اورنیا زمانہ دین بھی نہ لگے اور دین کی جو پرانی قدریں وہ بھی جھڑ نہ جائیں تو تسلسل بھی ہو، تجدید بھی ہو، اصل روح سے نہ ہٹیں، اللہ کے حقوق بھی ہوں، انسانی حقوق بھی ہوں، تو دونوں میں توازن ہو، ایسا نہیں کہ گھر میں بیوی بچے روتے رہ جائیں اور آپ دین کی تبلیغ میں پھر رہے ہیں۔ اور اِس طرح کا وضع قطع بنا رہے ہیں کہ جو نوجوان نسل یا غیر مسلم ہے وہ دیکھ کر سمجھ لیں کہ اسلام پتہ نہیں کوئی پرانی صدیوں کا دین ہے تو وہ متنفر ہو جائیں۔ ہزار چیزیں ہیں۔ یعنی دین کو اپنے جس دور میں آپ آگے لے کے چل رہے ہیں۔ وہ دور کیا ہے؟اُس دور کی انسانی نفسیات کیا ہے؟اُس دور کی انفرادی اور اجتماعی ذہنی سطح کیا ہے؟بین الاقوامی حملے کیا ہیں؟ فتنے کیا ہیں؟مشکلات کیا ہیں؟اُس میں آپ دین کے ایک ماڈل کو، ایک فکر کو، ایک ویژن کو رکھ رہے ہیں اور اِس طرح رکھ رہے ہیں کہ دین میں جو حُسن ہے آقا کے دور کا، سلف الصالحین کا، اولیاء کا، پرانی صدیوں کا، وہ حُسن جمال بھی برقرار رہے اور اُس کے اندر جو نہی المنکر اعتبار سے وہ جاہ وجلال بھی برقرار رہے، یعنی امر بالمعروف کا حسن وجمال بھی برقرار رہے اور نہی المنکر کے اندر جو جاہ وجلال ہے وہ بھی برقرار رہے اور توازن بھی رہے اور رحمت بھی رہے، شفقت بھی رہے، نفرت بھی نہ ہو اور دور جدید بھی ساتھ چلے۔ آپ آگے بھی بڑھے، پیچھے چیزیں رک بھی نہ جائیں۔ پچھلا تسلسل بھی رہے۔

کسی جگہ انتہاپسندی نہ ہو، انتہا پسندی سے بچیں، ایک ماڈریٹ ویژن بھی ہو، اُس میں مسلمان بھی سمائیں، غیر مسلم بھی سمائیں، مرد بھی سمائیں، عورتیں بھی سمائیں، نوجوان نسل بچے بھی سمائیں آپ کے اُس ویژن میں، بوڑھے بھی جگہ پائیں اور پھر اُس کے سماجی، معاشرتی، سیاسی، فلسفیانہ، سائنسی، فکری، تربیت، ہر ہر چیز جس کی آج کے دور، انسان، معاشرے کو ضرورت ہے، اُس کو بیان کرتے جار ہے ہوں۔ جب ایسا ویژن آپ لے کے آتے ہیں۔ یہ من حیث الکل پیغمبرانہ ویژن ہے۔ جس میں آپ کا دماغ، دل، جذبات، جسم، روح، فیملی، بچے، مسجد، مدرسہ، کالج، آفس، کاروبار، معاش، مال، ہر ایک ضروریات پوری ہوں۔

اسی طرح توازن کے ساتھ دعوت کو لے کے چلنا یہ مشکل ترین کام ہے۔ چونکہ اِس میں انسان وہ کیفیت پیدا نہیں کرسکتا۔ جو یک نقاطی ایجنڈا سے جو کام چاہیں اُس سے لے لیں پیغمبرانہ وژن میں میں ان کی آنکھیں کھولتے ہیں، نابینا نہیں بناتے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

رِجَالٌ لَا تُلْهِیهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰهِ.

(النور، 24: 37)

(اللہ کے اس نور کے حامل)وہی مردان (خدا) ہیں۔ جنہیں تجارت اور خرید وفروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے۔

مرد وہ ہیں جو دنیا میں تجارت بھی کریں اور بیع بھی کریں۔ مگراللہ کی یاد سے کوئی دنیا کا کام اُن کاٹ نہیں سکتا۔

لہذا ایسے دور میں ایک ایسی تحریک قائم کرنا اور خواتین میں بطور خاص منہاج القرآن ویمن کیونکہ ایسے معاشرہ جہاں خواتین کے لیے سوچ اور بہت روایت پسندی کا شکار ہو اس میں خواتین کو دعوت دین دینے کے لیے نکلنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔

اِس پر امر بالمعروف اور نہی المنکر کا مدار کیا ہے۔ جو مردوں اور عورتوں کی اجتماعی ولایت کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔

وَیُقِیمُونَ لصَّلَوٰةَ وَیُؤْتُونَ لزَّکَوٰةَ.

(التوبة، 9: 71)

اورنمازقائم رکھتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں۔

نماز قائم کرنا اور زکوۃ دینا۔ اگر گہرائی میں جاکے سوچیں۔ اِس میں تو سارے وہ کام ہیں جو مر د بھی کرتے ہیں اور عورتیں بھی۔ اب عورتوں کو اِس کے ساتھ شامل کیوں کیا ہے؟ اس کی مثال یہ ہے کہ مرد تنہا سو کوشش کر لے، ماں اگر نمازی نہ ہو تواُس کی اولاد پکی نمازی نہیں بن سکتی۔ کیونکہ اولاد تو ماں کی گود میں پلنی ہے۔ اُس نے تربیت ماں سے لینی ہے۔ اولاد نے مما مما کرنا ہے۔ قرآن کہہ رہا کہ

بَعْضُهُمْ أَوْلِیَآءُ بَعْضٍ.

(التوبة، 9: 71)

ایک دوسرے کے رفیق ومددگار ہیں۔

تو أمر بالمعروف گھر میں بھی نہیں چل سکتا۔ گھر دینی نہیں بن سکتا۔ فیملی کا یونٹ دینی نہیں ہوسکتا۔ أقامت صلوۃ کا نظام نسلوں میں منتقل نہیں ہو سکتا۔ وہ ماں کی گود سے منتقل ہونا ہے۔ لہذا ولایت ضروری ہے۔ زکوۃدینا سماجی اور معاشی رول ہے۔

وَیُطِیعُونَ للّٰهَ وَرَسُولَهُ.

(التوبة، 9: 71)

اور اللہ اور اُس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت بجالاتے ہیں۔

اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ تو فرمایا کہ اگر نظام مردوں اور عورتوں کے ساتھ اکٹھا جُڑا ہوا ہو۔ پانچ ستون قائم ہوں تو عنقریب اللہ اُن پہ رحم فرمائے گا۔

یَٰٓأَیُّهَا لنَّاسُ تَّقُواْ رَبَّکُمُ لَّذِی خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٖ وَٰحِدَةٖ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا.

(النساء، 4: 1)

اے لوگو!اپنے رب سے ڈروجس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء )ایک جان سے کی پھر اُسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا۔

اے لوگو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ جس اللہ نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا۔ پھر اُس میں اُس کی زوج کو بنایا۔ اب یہاں مرد اور عورت دونوں کی اہمیت آگئی۔ پھراِس کے بعد قرآن مجید نے ایک خوبصورت رول عورت کا دیا۔

وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالا کَثِیرا وَنِسَآء.

پھراِن دونوں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق )کو پھیلا دیا۔

(النساء، 4: 1)

مرد اورعورت جو جوڑ بن گیا۔ اِن دونوں میں سے کثرت کے ساتھ مردوں کوپھیلایا اور عورتوں کو پھیلایا۔ قرآن مجید نے کثیراً کا لفظ رجالاً کے ساتھ لگایا ہے۔

کثرت کا ذکر دونوں جگہ مردوں کے ساتھ لگایا ہے عورتوں کے ساتھ نہیں لگایا۔ اِس میں بڑی ایک راز کی بات ہے۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:

وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالا کَثِیرا وَنِسَآء.

(النساء، 4: 1)

پھراِن دونوں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق )کو پھیلا دیا۔

کثیرہ کا لفظ بہت زیادہ کی طرف اشارہ کرتاہے۔ تو exposure میں مردوں کا زیادہ ظاہر کیا ہے اور نساء ً کے ساتھ کثیراً بہت زیادہ کا لفظ نہ لگا کر اُن کو رول بھی برابر دے دیا ہے اور حیاء کے پردے میں بھی چھپا دیا ہے۔ یہ رول دینے کا مطلب وبث منہما سے یہ women empowerment ہے اور کثیراً کا لفظ ہٹا کر پردہ دے دیا حیاء کا بھی پردہ بھی ہے۔ یعنی ایسی empowerment ہو، ایسے حقوق کی جدوجہد کریں کہ ہرحیاء ختم نہ ہوجائے جو اللہ اور اللہ کے دین نے جو خوبصورتی کا زیور پہنایا ہے۔ جو حیاء کا پردہ دیا ہے۔ جس میں عظمت، خوبصورتی، تقدس رکھا ہے، وہ پامال نہ ہو، اِس سے وہ روحانی کردار کی طرف بھی اشارہ جاتا ہے۔

جب women empowerment، انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں اور عورتوں کو برابر رول دینے کی بات کرتے ہیں۔ اُس کو سوسائٹی میں لانے کی بات کرتے ہیں۔ یہ وہ راہ ہے کہ لوگ پھسل جاتے ہیں تو جو حیاء کا پردہ ہے جس میں اللہ پاک نے مخفی رکھا ہے اگر وہ ٹوٹ جائے تو افراط اور تفریط ہو جاتا ہے۔

ایک اور مقام پہ فرمایا۔

وَلذَّٰکِرِینَ لِلّٰهَ کَثِیرا وَلذَّٰکِرَٰتِ.

(الأحزاب، 33: 35)

کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں۔

اورجب فرمایا۔

وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ لْجَٰهِلِیَّةِ لْأُولَیٰ.

(الأحزاب، 33: 33)

اور پرانی جابلیت کی طرح زیب و زینت کا اظہار مت کرنا۔

کہ پرانی جاہلیت کی زیب وزینت کااظہار نہ کرنا۔ وہ اُن کو سماجی رول دے دیا کہ معاشرے میں کیسا ماڈل بن کے جاؤ۔ گھر میں تمہارا ماڈل کیساہو؟تودیکھئے دونوں طرح کے کردار دے دیئے ہیں۔ عائلی اور گھریلو کردار بھی دے دیا اور سماجی اور معاشرتی کردار بھی دے دیا۔ یہ توازن قائم کرنا اللہ کی تعلیم تھی اور اللہ رسول کا عطا کردہ ویژن ہے۔

منہاج القرآن ویمن لیگ میں کوشش کی ہے کہ یہ ماڈل قائم ہو۔ برابر رول بھی ملے۔ آگے بھی بڑھیں۔ تعاون بھی کریں۔ پیچھے نہ رہیں۔ مگر ساتھ گھر کی ذمے داریاں بھی ادا کریں، سماجی ذمے داریاں بھی ادا کریں اُس ویژن کے ساتھ جو ویژن اللہ اور اللہ کا رسول چاہتا ہے۔ تبرج بھی نہ ہو۔ اُس کے بعد پھر

وَأَقِمْنَ لصَّلَوٰةَ وَ ءَاتِینَ لزَّکَوٰةَ وَأَطِعْنَ للَّهَ وَرَسُولَهُ.

(الأحزاب، 33: 33)

یہی قرآن مجید نے اگلی آیت نمبر34 میں اشارہ کیا ہے۔ جب ازواج مطہرات کو ایڈریس کررہے تھے اُن کا ذاتی کردارتقویٰ کے ساتھ، اُن کا عائلی اور گھریلو کردار، اُن کا سماجی کردار، اُن کا دینی کردار، پرہیزگاری، اطاعت کا کردار، پھر تعلیم اور تربیتی کردار، آیت نمبر 34 میں فرمایا۔

وَذْکُرْنَ مَا یُتْلَیٰ فِی بُیُوتِکُنَّ مِنْ ءَایَٰتِ اللّٰهِ وَلْحِکْمَةِ.

(الأحزاب، 33: 34)

اور تم اللہ کی آیتوں کو اور (رسول کی) سنت وحکمت کو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت کی جاتی ہے یاد رکھا کرو۔

اب یہ تعلیمی کردار ہے کہ وہ اِس پیغام کو سیکھیں، سمجھیں اور آگے پہنچائیں۔