رمضان المبارک میں تلاوتِ قرآن کی اہمیت

سماوہ سلطان

قرآن مجید پڑھنا اور سمجھنا کسی دن کا محتاج نہیں ہر روز ہی یہ اپنے قاری کیلئے ہدایت کا ذریعہ بنتا ہے لیکن رمضان المبارک میں تلاوت قرآن کی ایک منفرد اہمیت ہے۔ کوئی شک نہیں کہ ماہِ رمضان اور قرآنِ حکیم کا ایک گہرا تعلق ہے۔ یہ دونوں ابد تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔ قرآن مجید کتابِ رحمت ہے جو رمضان یعنی ماہِ رحمت میں نازل ہوئی ہے۔ سورہ البقرہ میں ارشاد ہوا ہے کہ

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰی وَالْفُرْقَانِ.

(البقرة، 2: 185)

ترجمہ؛ مضان وہ مہینہ ہے کہ جس میں قرآن نازل کیا گیا لوگوں کیلئے ہدایت بنا کر ہدایت اور حق و باطل کے درمیان امتیاز کی روشن دلیلوں کے ساتھ۔

لہٰذا ماہِ رمضان کا تقاضا ہے کہ اس میں کثرت سے قرآن پڑھا اور سنا جائے۔ اسی وجہ سے قرآن مجید کو تیس پاروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے تیس دن میں یہ ختم کیا جا سکتا ہے۔ سات منزلیں رکھی گئی ہیں تاکہ سات دن میں ختم کیا جا سکے۔ تو جس قدر ہو سکے رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ تلاوت کرنی چاہئے۔

اس مبارک ماہ میں تلاوت کرنے کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ویسے قرآن کا ایک لفظ پڑھنے پہ دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے لیکن رمضان المبارک میں ایک لفظ کا ثواب ستر نیکیوں کے برابر ہو جاتا ہے۔ چونکہ یہ ماہِ مبارک ہمارے لیے عبادات کا خاص مرکز ہوتا ہے اس لئے قرآن مجید کی تلاوت سے بہتر اور کیا عبادت ہو سکتی ہے۔ نبی اکرمa نے استقبال رمضان کا جو خطبہ شعبان کے آخر میں دیا جسے خطبہ شعبانیہ بھی کہا جاتا ہے اس میں فرمایا:

’’رمضان میں جو تم ایک آیت کی تلاوت کرتے ہو وہ سال بھر میں دوسرے کسی بھی مہینے میں پڑھے جانے والے پورے قرآن کے برابر ہوتی ہے۔ قرآن کریم کس دن نازل ہوا تو اس کا جواب بھی سورہ القدر میں اللہ تبارک وتعالی نے دے دیا ہے:

اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْر.

(القدر: 1)

ترجمہ: یقینا ہم نے اتارا ہے اس (قرآن)کو لیلۃ القدر میں۔

اور پھر یہ بھی ارشاد ہوتا ہے کہ؛

لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شھر.

(القدر: 3)

ترجمہ؛ لیلتہ القدر ہزار مہینوں سے افضل ہے۔

اگر صرف ہزار مہینہ دیکھا جائے تو قریباً اسّی سال کا عرصہ بنتا ہے اور انسان کی زندگی لگ بھگ اتنی ہی ہوتی ہے۔ تو اس کا معنی یہ ہوا کہ اس ایک رات میں تمام زندگی کے گناہوں کی بخشش ہو جاتی ہے۔ ہر عمل ہزار گنا افضل ہوجاتا ہے۔ تو قرآن مجید کی تلاوت کی کس قدر نعمتیں اور برکتیں اس ایک رات میں حاصل کی جا سکتی ہیں اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت اور ترجمہ پڑھنا اور پھر اس پر عمل کرنا ہی اصل ہدایت کا راستہ ہے۔ یہ کتاب بر حق ہے جو اس میں لکھا ہے سے ہم نے پکڑ لینا ہے اور جس کام سے روکا گیا ہے اسے ہم نے چھوڑنے کی کوشش کرنی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

جب میں چاہتا ہوں کہ خدا سے باتیں کروں تو میں نماز پڑھتا ہوں اور جب میں چاہتا ہوں کہ میرا رب مجھ سے باتیں کرے تو میں قرآن کی تلاوت کرتا ہوں۔ کیا ہی خوش بختی کی بات ہو کہ ہم حالتِ روزہ میں اپنے رب کی گفتگو سنیں اور صحیح معنوں میں اپنے قلب کو پر سکون کریں۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:

جب تم پر اندھیری رات کی طرح فتنے آ پڑیں اور تم چاروں طرف سے اندھیروں میں گم ہو تو اس وقت میری کتاب کو پکڑ لینا کیونکہ قرآن سچا سفارشی ہے اس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ (ان القیم: بدائع التفیسر)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت جبریل علیہ السلام سال میں ایک دفعہ قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے، لیکن جس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا اس سال دو مرتبہ دور کیا۔ یعنی ایک بار جبرائیل علیہ السلام کو قرآن کی تلاوت کر کے سنایا اور دوسری بار ان سے سنا۔ اس طرح رمضان میں دو بار تلاوت قرآن کو مکمل کیا۔ (رمضان میں قرآن کے دور، ابن ماجہ)

اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ہمارے نبی محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ماہِ رمضان میں تلاوت کو بہت پسند فرمایا ہے۔ جو لوگ خود تلاوت نہ کر سکتے ہوں اور کسی سے سن لیں تو یہ بھی ایک پسندیدہ عمل ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجرہ مبارک سے باہر تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ رمضان المبارک میں لوگ مسجد کے ایک گوشہ میں نماز پڑھ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: یہ کون ہیں؟ عرض کیا گیا: یہ وہ لوگ ہیں جنہیں قرآن پاک یاد نہیں ۔ حضرت ابی بن کعب نماز پڑھتے ہیں اور یہ لوگ ان کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انہوں نے درست کیا اور کتنا ہی اچھا عمل ہے جو انہوں نے کیا۔ (مسجد میں لوگوں کے قرآن سننے کی حدیث: کتاب الصلاۃ)

آج کے دور میں تو انٹرنیٹ کی بدولت مزید آسانی سے گھر بیٹھے بھی تلاوت سنی جا سکتی ہے بلکہ ترجمہ و تفسیر کے ساتھ بھی۔ خصوصاً اس ماہ مبارک میں پڑھا اور سنا جانے والا قرآن تو روزِ محشر ہماری بخش کا سامان بنے گا۔ حضرت عبد  اللہ  بن عمر رضی  اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزہ اور قرآن بندے کے لیے قیامت کے دن شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اسے کھانے پینے اور خواہشِ نفس سے روکے رکھا لہٰذا اس کے لیے میری شفاعت قبول فرما اورقرآن کہے گا: اے میرے رب! میں نے اسے رات کے وقت نیند سے روکے رکھا اور قیام اللیل میں مجھے پڑھتا یا سنتا رہا لہٰذا اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائے گی۔

صحابہ کرام بھی رمضان المبارک میں قرآن پڑھنے اور سننے کا خاص اہتمام فرماتے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رمضان المبارک میں قاریوں کو بلایا اور ان میں سے ایک شخص کو بیس رکعت تراویح پڑھانے کا حکم دیا اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ انہیں وتر پڑھاتے تھے۔ (حضرت علی کا تراویح پڑھانا: اخرجہ البیہقی، فی السنن الکبر) حضرت ابو عونہؓ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ رمضان المبارک میں لوگوں کوقرآن حکیم کا درس دیتے تھے۔

رمضان المبارک اور قرآن دونوں ہی ہمیں قرب الٰہی عطا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت کے وقت اللہ تعالیٰ سے خاص قرب حاصل ہوتا ہے، ایسے ہی روزے دار کو بھی اللہ تعالیٰ کا خاص قرب حاصل ہوتا ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ؛ قرآن پڑھنے والا مومن اترج کے مانند ہے جس کی خوشبو اور لذت دونوں اچھی ہوتی ہیں اور قرآن نہ پڑھنے والا مومن کھجور کے مانند ہے جس کی لذت تو عمدہ ہے مگر اس میں خوشبو نہیں ہوتی ہے۔ (حدیث قرآن اور روزے میں مماثلت: مسند احمد)

ایک اور اہم اور ضروری امر قرآن مجید کو سمجھنا اور پھر عمل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

ویل لمن قراها ولم یتفکر فیها.

ہلاکت ہے اس کے لیے جوقرآن کی آیات کی تلاوت توکرتاہے مگر اس میں غورفکرنہیں کرتا۔ (صححہ البانی فی سلسلہ الصححۃ)

قرآن میں تدبر نہ کرنا قرآن کو چھوڑنے کے مترادف ہے۔ جب حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم پر قرآن مجید کا نزول ہواتو آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم قرآن بہت ٹھہر ٹھہر کر اور غور و تدبرکے ساتھ پڑھتے تھے۔

حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک رات آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک ہوئے۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن کی تلاوت غور سے فرماتے ۔جب کسی تسبیح کی آیت سے گزرہوتاتوتسبیح کرتے ، اسی طرح کسی ایسی آیت سے گزرہوتاجس میں سوال ہے توآپ سوال کرتے یاکسی تعوذکی جگہ سے گزرتے تواللہ کی پناہ مانگتے۔ (حدیث، نماز کے دوران ٹھہر ٹھہر کر تلاوت: مسلم)

رسول اللہ قرآن میں غورو تدبرمیں اس قدرمحوہوجاتے کہ کبھی کبھی پوری رات ایک ہی آیت کی تلاوت میں گزاردیتے تھے۔ حضرت ابوذر عفاریؓبیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ نے ایک ہی آیت پڑھتے پڑھتے صبح کردی۔وہ آیت تھی:

اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُکَ ج وَاِنْ تَغْفِرْلَهُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ.

(المائدة، 5: 118)

’’اگر توانہیں عذاب دے تو وہ تیرے (ہی) بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بے شک تو ہی بڑا غالب حکمت والا ہے۔‘‘

فہم قرآن کے سلسلے میں صحابہ کرام کا بھی یہی معمول تھا۔وہ بھی معنی و مفہوم اور تدبر پر خوب غور فرماتے اور عمل کرتے۔ (صحابہ 10 آیات پر عمل کے بعد آگے پڑھتے: رواہ الطبری فی تفسیرہ)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی فرماتے ہیں ہم سے جوکوئی دس آیات پڑھ لیتاتووہ اس وقت تک آگے نہیں بڑھتاجب تک کہ وہ ان کے معنیٰ اور مفہوم کو سمجھ نہ لے اوران پر عمل پیرانہ ہو۔

آج ہماری ایک غلط فہمی یہ بھی ہے قرآن کو محض عربی میں پڑھنا کافی ہے تفصیل اور ترجمہ کا کام صرف علماء کرام کا ہے تو ایسا ہرگز نہیں۔ قرآن ہر ایک کیلئے ہے۔ اور جو کوئی اس پہ غور و فکر کرتا ہے یہ صرف اسی کے کام آتا ہے۔ مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ قرآن کوسمجھنے اوراسے اپنی زندگی میں ڈھالنے کے لیے ایک عام فہم مثال بیان کرتے ہیں

بتائیے اگرکوئی شخص بیمار ہو اورعلمِ طب کی کوئی کتاب لے کرپڑھنے بیٹھ جائے اوریہ خیال کرے کہ محض اس کتاب کو پڑھ لینے سے بیماری دورہوجائیگی توآپ اسے کیاکہیں گے؟کیا آپ نہ کہیں گے کہ بھیجواُسے پاگل خانے میں،اس کا دماغ خراب ہوگیاہے؟ مگر شافی مطلق نے جوکتاب آپ کے امراض کا علاج کرنے کے لیے بھیجی ہے ،اس کے ساتھ آپ کا یہی برتائو ہے۔آپ اس کوپڑھتے ہیں اوریہ خیال کہ بس اسکے پڑھ لینے ہی سے تمام امراض دور ہوجائیں گے، اس کی ہدایات پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ،نہ ان چیزوں سے پرہیزکی ضرورت ہے جن کویہ مضربتارہی ہے۔پھرآپ خوداپنے اوپربھی وہی حکم کیوں نہیں لگاتے جواس شخص پر لگاتے ہیں جوبیماری دورکرنے کے لیے صرف علم طب کی کتاب پڑھ لینے کوکافی سمجھتاہے۔ (قرآن نہ سمجھنے والوںکی مثال: خطبات حصہ اول)

آج کے حالات کے متعلق حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ نے فرمایا تھا کہ ہم لوگوں پر قرآن کا حفظ کرنا مشکل جبکہ اس پر عمل کرنا آسان ہے اورہمارے بعد لوگوں پر قرآن کا حفظ کرنا آسان ہوگا اوراس پر عمل کرنا مشکل ہوگا۔

(حفظ کرنا آسان عمل مشکل: الجامع الاحکام القرآن)

اس رمضان المبارک ہم نے تلاوت و تدبر قرآن کا خصوصی اور بھرپور انتظام کرنا ہے اور کوشش کرنی ہے کہ جس حد تک ہو سکے اس کے معنی کو سمجھیں اور پھر عمل بھی کریں۔ قرآن کے بغیر انسان کی روح کو غذا نہیں ملتی۔ انسان ایک بے جان روح بن جاتا ہے۔ قرآن نور ہے رحمت و عافیت ہے جو اسے تھام لے گا یہ اسے کبھی اکیلا نہیں کرے گا اور کبھی بھٹکنے نہیں دے گا۔ قرآن انسان کا وہ اچھا ادوست بن جاتا ہے جو ہر معاملے میں راہنمائی کرتا ہے اور غلطیوں پر ہدایت کی طرف جاتا راستہ سامنے رکھ دیتا ہے تاکہ ہم غلط راستہ ترک کر دیں۔ ہمارے ہر سوال کا جواب اسی میں موجود ہے ہر پریشانی کا حل اسی میں لکھا ہے۔ نہ صرف اس دنیا میں بلکہ اگلے جہان میں بھی یہ اپنے قاری کا ساتھ نہیں چھوڑتا اس کی شفاعت کا ضامن بنتا ہے۔

ماہِ رمضان ایک خاص رحمتوں اور برکتوں کے نزول کا مہینہ ہے جو ہمیں یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اس میں کثیر وقت اس کتاب کے ساتھ گزاریں جس میں دِلوں کی شفاء ہے۔