غزوہ بدر کی اہمیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

پروفیسر ڈاکٹر شفاقت علی البغدادی الازہری

ابتدائے آفرنیش سے لیکر تاحال حق و باطل کی طاقتوں کے مابین معرکہ آرائی اور جنگ و جدل چلی آرہی ہے۔  ہر طاقت اپنے اپنے محاذ پر سرگرمِ عمل ہے مگر حقیقی وا بدی فتح ہمیشہ اہل حق کا مقدر رہی ہے ۔  اور یہ اس لیے ممکن ہوتا ہے کہ اہل حق اور صاحبان توحید کے ساتھ تائید ایزدی شامل ہوتی ہے۔ قابل ذکر بات ہے کہ تاریخ انسانیت کی چشم حق نے بے شمار فرعونوں،نمرودوں ،ظلم و استبداد کے سرغنوں اور سرداروں کے جبر و ظلم کو ریزہ ریزہ ہوتے دیکھا ہے ۔ نمرود کی باطل خدائی کو ایک کمزور مچھرکے ہاتھوں ملیامیٹ ہوتے ہوئے دیکھا تو کبھی چھوٹے چھوٹے ابابیلوں کے ہاتھوں اصحاب فیل کی عبرتناک موت دیکھی۔  یہ سب مثالیں اس امر کو واضح کرتیں ہیں کہ حق و باطل کی جنگ میں بالآخر باطل سرنگوں ہو کر ہی رہتا ہے اور حق اس کے مقابلے میں مزید نکھر کر سامنے آتا ہے۔ 

اللہ تعالیٰ نے اپنے دین مبین کی ترویج اور دعوتِ توحید کا کام حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کیا اور بالآخر چلتے چلتے یہ سیدالمرسلین خاتم النّبیین حضرت محمد ﷺ  پر زریں سلسلہ مکمل فرمادیا۔  جب اعلان نبوت کے بعد آپ ﷺ  نے چلتے چلتے یہ پیغام حق کوہ صفا پر کھڑے ہو کر لوگوں کو سنایا تو ظلم و ستم کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔  مکہ کی تیرہ سالہ زندگی میں مشرکین نے جو دردناک اور ہوش ربا مظالم، مٹھی بھر مسلمانوں پر روا رکھے اور مظلوم مسلمانوں نے جس صبر واستقلال اور معجزہ نما استقامت وللہیت سے مسلسل تیرہ برس تک ان ہولناک مصائب ونوائب کا صبر واستقامت سے مقابلہ کیا وہ دنیا کی تاریخ کی بے مثال اور ناقابل فراموش حقیقت ہے۔  صبر وتحمل کے امتحان کی آخری حد یہ تھی کہ مسلمان مقدس وطن، اعزہ واقارب، اہل وعیال، مال ودولت سب چیزوں کو خیر باد کہہ کر خالص خدا اور رسول ﷺ کی خوشنودی کی خاطر مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے لیے گھروں سے نکل پڑے۔

ہجرت مدینہ کے بعد مسلمانوں نے جب سکھ کا سانس لیا تو قریش مکہ کے لیے یہ بہت تکلیف دہ بات تھی۔  وہ نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان ایک آزاد ریاست میں امن و عافیت کی زندگی بسر کریں اور اسلام کا شہرہ چاردانگ عالم پھیلے۔ لہذا ہجرت مدینہ کے بعد بھی وہ مسلمانوں کی جڑ کاٹنے کیلیے طرح طرح کے منصوبے بنانے لگے۔ غزوہ بدر اس سلسلے کی ایک کڑی تھا جس میں کفار اپنی طاقت و تکبر کے نشے میں مبتلا ہو کر میدان بدر میں ایک ہزار کے لشکر کے ساتھ خیمہ زن ہوئے۔  ان کا خیال تھا کہ وہ مٹھی بھر مسلمانوں کا خاتمہ چند لمحوں میں کر کے اسلام کا نام و نشان مٹا دیں گے۔  مگر معرکہ کے اختتام پر اللہ نے ان کا غرور خاک میں ملا دیا اور حق کو کامران فتح یاب فرمایا۔  قرآن کریم غزوہ بدر کے بارے میں سورۃ انفال میں اس کے انفرادیت اور اہل حق کی جوانمردی اور احقاق حق اور ابطال باطل کے مظاہر کو بیان فرماتا ہے۔  ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَإِذْ یَعِدُکُمُ اللهُ إِحْدَی الطَّائِفَتَیْنِ أَنَّهَا لَکُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَةِ تَکُونُ لَکُمْ وَیُرِیدُ اللهُ أَن یُحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمَاتِهِ وَیَقْطَعَ دَابِرَ الْکَافِرِینَ. لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ کَرِهَ الْمُجْرِمُونَ.

اور (وہ وقت یاد کرو) جب اللہ نے تم سے (کفارِ مکہ کے) دو گروہوں میں سے ایک پر غلبہ و فتح کا وعدہ فرمایا تھا کہ وہ یقیناً تمہارے لئے ہے اور تم یہ چاہتے تھے کہ غیر مسلح (کمزور گروہ) تمہارے ہاتھ آجائے اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے کلام سے حق کو حق ثابت فرما دے اور (دشمنوں کے بڑے مسلح لشکر پر مسلمانوں کی فتح یابی کی صورت میں) کافروں کی (قوت اور شان و شوکت کے) جڑ کاٹ دے۔ تاکہ (معرکہ بدر اس عظیم کامیابی کے ذریعے) حق کو حق ثابت کر دے اور باطل کو باطل کر دے اگرچہ مجرم لوگ (معرکہ حق و باطل کی اس نتیجہ خیزی کو) ناپسند ہی کرتے رہیں۔

پھر اللہ جل جلالہ اہل حق کی فرشتوں سے مدد کا تذکرہ فرماتا ہے تاکہ اصحاب رسول کے دلوں میں اطمینان کی حسین کیفیات پیدا ہوسکیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔

إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَنِّی مُمِدُّکُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَآئِکَةِ مُرْدِفِینَ. وَمَا جَعَلَهُ اللهُ إِلاَّ بُشْرَی وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُکُمْ وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِندِ اللهِ إِنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ.

(وہ وقت یاد کرو) جب تم اپنے رب سے (مدد کے لئے) فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد قبول فرمالی (اور فرمایا) کہ میں ایک ہزار پے در پے آنے والے فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد کرنے والا ہوں اور اس (مدد کی صورت) کو اللہ نے محض بشارت بنایا (تھا) اور (یہ) اس لئے کہ اس سے تمہارے دل مطمئن ہو جائیں اور (حقیقت میں تو) اللہ کی بارگاہ سے مدد کے سوا کوئی (اور) مدد نہیں، بیشک اللہ (ہی) غالب حکمت والا ہے۔

اسی طرح اللہ رب العزت نے مجاہدین اسلام کے جسموں کو سکون اور مزید قوت دینے کی خاطر ان پر اونگھ طاری فرمائی اور انہیں شیطان کی نجاست و رجز سے پاک و طاہر کرنے کے لیے آب بر نازل فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

إِذْ یُغَشِّیکُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ وَیُنَزِّلُ عَلَیْکُم مِّن السَّمَاءِ مَاءً لِّیُطَهِرَکُم بِهِ وَیُذْهِبَ عَنکُمْ رِجْزَ الشَّیْطَانِ وَلِیَرْبِطَ عَلَی قُلُوبِکُمْ وَیُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ.

جب اس نے اپنی طرف سے (تمہیں) راحت و سکون (فراہم کرنے) ے لئے تم پر غنودگی طاری فرما دی اور تم پر آسمان سے پانی اتارا تاکہ اس کے ذریعے تمہیں (ظاہری و باطنی) طہارت عطا فرما دے اور تم سے شیطان (کے باطل وسوسوں) کی نجاست کو دور کردے اور تمہارے دلوں کو (قوتِ یقین) سے مضبوط کر دے اور اس سے تمہارے قدم (خوب) جما دے

بات یہاں تک ختم نہ ہوئی بلکہ رب ذولجلال نے فرشتوں کو پیغام ارسال فرمایا کہ میں تمہارے اور مجاہدین کے ساتھ ہوں اور میری معیت کا اندازہ لگانا ہے تو دیکھو میں نے اہل کفر کے دلوں میں کیسے رعب و دبدبہ ڈال دیا ہے اور ان کی گردنیں اڑ رہی ہیں ۔

إِذْ یُوحِی رَبُّکَ إِلَی الْمَلآئِکَةِ أَنِّی مَعَکُمْ فَثَبِّتُواْ الَّذِینَ آمَنُواْ سَأُلْقِی فِی قُلُوبِ الَّذِینَ کَفَرُواْ الرَّعْبَ فَاضْرِبُواْ فَوْقَ الْأَعْنَاقِ وَاضْرِبُواْ مِنْهُمْ کُلَّ بَنَانٍ.

(الانفال، 12-08)

(اے حبیبِ مکرم! اپنے اعزاز کا وہ منظر بھی یاد کیجئے) جب آپ کے رب نے فرشتوں کو پیغام بھیجا کہ (اَصحابِ رسول کی مدد کے لئے) میں (بھی) تمہارے ساتھ ہوں، سو تم (بشارت و نصرت کے ذریعے) ایمان والوں کو ثابت قدم رکھو، میں ابھی کافروں کے دلوں میں (لشکرِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا) رعب و ہیبت ڈالے دیتا ہوں سو تم (کافروں کی) گردنوں کے اوپر سے ضرب لگانا اور ان کے ایک ایک جوڑ کو توڑ دینا۔

اسی طرح اللہ رب العزت نے سورۃ آل عمران میں مجاہدین بدر کے لیے اتاری گئی مدد و نصرت کا تذکرہ فرمایا ہے اور اہل حق کو تعلیمات دی ہیں کہ فرشتوں کے ذریعے مددِ خداوندی اہل ایمان کے صبر اور تقویٰ کے ساتھ مربوط ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَأَنتُمْ أَذِلَّةٌ فَاتَّقُواْ اللهَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِینَ أَلَن یَکْفِیکُمْ أَن یُمِدَّکُمْ رَبُّکُم بِثَلاَثَۃِ آلاَفٍ مِّنَ الْمَلآئِکَۃِ مُنزَلِینَ بَلَی إِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ وَیَأْتُوکُم مِّن فَوْرِهِمْ هَذَا یُمْدِدْکُمْ رَبُّکُم بِخَمْسَۃِ آلافٍ مِّنَ الْمَلآئِکَۃِ مُسَوِّمِینَ.وَمَا جَعَلَهُ  اللهُ  إِلاَّ بُشْرَی لَکُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُکُم بِهِ وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِندِ اللهِ الْعَزِیزِ الْحَکِیمِ. (126). لِیَقْطَعَ طَرَفاً مِّنَ الَّذِینَ کَفَرُواْ أَوْیَکْبِتَهُمْ فَیَنقَلِبُواْ خَآئِبِینَ. لَیْسَ لَکَ مِنَ الأَمْرِ شَیْءٌ أَوْ یَتُوبَ عَلَیْهِمْ أَوْ یُعَذَّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ. (آل عمران، 3: 123 تا 128)

اور اللہ نے بدر میں تمہاری مدد فرمائی حالانکہ تم (اس وقت) بالکل بے سرو سامان تھے پس اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔ جب آپ مسلمانوں سے فرما رہے تھے کہ کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تین ہزار اتارے ہوئے فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد فرمائے۔  ہاں اگر تم صبر کرتے رہو اور پرہیزگاری قائم رکھو اور وہ (کفّار) تم پر اسی وقت (پورے) جوش سے حملہ آور ہو جائیں تو تمہارا رب پانچ ہزار نشان والے فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد فرمائے گا۔  اور اللہ نے اس (مدد) کو محض تمہارے لئے خوشخبری بنایا اور اس لئے کہ اس سے تمہارے دل مطمئن ہو جائیں، اور مدد تو صرف اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے جو بڑا غالب حکمت والا ہے۔ (مزید) اس لئے کہ (اللہ) کافروں کے ایک گروہ کو ہلاک کر دے یا انہیں ذلیل کر دے سو وہ ناکام ہو کر واپس پلٹ جائیں۔ (اے حبیب! اب) آپ کا اس معاملہ سے کوئی تعلق نہیں چاہے تو اللہ انہیں توبہ کی توفیق دے یا انہیں عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔

غزوہ بدر رمضان المبارک ہجری کو مسلمانوں اور کفارِ مکہ کے مابین بدر کے مقام پر وقوع پذیرہوا ۔ لشکر اسلام کی قیادت و سپہ سالاری تاجدارِ مدینہ حضرت محمد ﷺ  فرما رہے تھے جبکہ لشکر کفار کی قیادت ابوجہل کے پاس تھی ،اسے غزوہ بدر الکبریٰ اور یوم الفرقان کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے ۔

بدر ایک گاؤں کا نام ہے جو مدینہ طیبہ سے تقریباً 10 میل کے فاصلہ پر واقع ہے جہاں پر پانی کے چند کنویں تھے اور شام سے آنے والے قافلے اسی مقام پر آکر ٹھہرتے تھے۔ قابل ذکر امر ہے کہ جب حضرت محمد ﷺ  نے مکہ سے ہجرت کی تو قریش مکہ نے اسی وقت سے مدینہ طیبہ پر حملہ کرنے کی سازشیں شروع کر دیں۔ ان کی آتش غضب کسی صورت بجھ نہیں رہی تھی۔ پہلے پاسبان اسلام کو دربدر کیا اور ان پر اتنے مظالم ڈھائے کہ وہ مجبور ہو کر اپنے محبوب وطن کو چھوڑ کر یثرب چلے گئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ  کے وجود مبارک کی برکت سے یثرب بعد ازاں مدینہ کے نام سے معروف و مشہور ہوا۔  قریش مکہ مدینہ کے راستے شام کی طرف تجارتی سفر پر جایا کرتے تھے کہ اسی اثناء میں ان کو یہ خبر ملی کہ مسلمانِ قریش مکہ کے شام سے آنے والے قافلہ پر حملہ آور ہونے کے لیے آرہے ہیں۔

قریش مکہ نے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے اپنے ناپاک ارادوں کے ساتھ تکبر کے نشے میں سرمست ہو کر مدینہ طیبہ کا رخ کیا اور بدر کے مقام پر پہنچے تو وہاں لشکر اسلام سے جنگ ہوئی اللہ رب العزت نے شیطانی طاقتوں کو نیست ونابودکردیا اوراہل اسلام کو عظیم الشان فتح و کامرانی عطا فرمائی۔  اسلامی لشکر313 افراد پر مشتمل تھا۔  اسلحہ خوردونوش، سواریاں بہت کم تھیں جبکہ مد مقابل کفار سر سے لے کر پاؤں تک اسلحہ سے لیس تھے۔ ان کی سواریاں بھی کثیر تھیں اور لاتعداد اونٹ اشیائے خوردونوش سے لدے ہوئے تھے۔ اس کے باوجود کفار مکہ اس چھوٹے سے اسلامی لشکر کے وار کی تاب نہ لا سکے۔ اور آخر کار انہیں دم دبا کر بھاگنا پڑا۔ کیونکہ لشکر اسلامی کو اللہ رب العزت کی مدد حاصل تھی جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَأَنتُمْ أَذِلَّةٌ فَاتَّقُواْ اللهَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ.  إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِینَ أَلَن یَکْفِیَکُمْ أَن یُمِدَّکُمْ رَبُّکُم بِثَلاَثَةِ آلاَفٍ مِّنَ الْمَلآئِکَةِ مُـنْـزَلِینَ.

(آل عمران، 3: 123-124)

اور اللہ نے بدر میں تمہاری مدد فرمائی حالانکہ تم (اس وقت) بالکل بے سرو سامان تھے پس اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔ جب آپ مسلمانوں سے فرما رہے تھے کہ کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تین ہزار اتارے ہوئے فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد فرمائے۔

غزوہ بدر میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کی شرکت:

ابن عباس ؓنے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بدر کی لڑائی میں فرمایا تھا کہ

"هذا جبریل آخذ براس فرسه علیه اداة الحرب".

یہ ہیں جبرائیل علیہ السلام اپنے گھوڑے کا سر تھامے ہوئے اور اس پر جنگی ہتھیار ہیں۔

کفار مکہ کے مقتول اور قیدی:

غزوہ بدر میں کفار مکہ کے ستر سے زائد لوگ واصل جہنم ہوئے جن میں ابوجہل جیسے نامی گرامی سردار بھی شامل تھے۔  تقریباً ستر لوگ قیدی ہوئے ۔

شہدائے بدر کی شجاعت و بہادری:

اصحاب رسول ﷺ  نے غزوہ بدر میں اپنی جانیں سرکار دوعالم پر نثار کردیں اور آپ کی وفاداری کا حق ادا کر دیا جیساکہ حضرت حسان بن ثابت شہدائے بدر کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:

تَـذَکَّرتُ عَـصـراً قَـد مَـضـی فَـتَهـافَتَت
بَـنـاتُ الحَشا وَاِنهَلَّ مِنّی المَدامِعُ

صَـــبـــابَةُ وَجــدٍ ذَکَّرَتــنــی أَحِــبَّةً
وَقَـتـلی مَـضَـوا فـیهِم نُفَیعٌ وَرافِعُ

وَفَـوا یَـومَ بَـدرٍ لِلرَسـولِ وَفَـوقَهُـم
ظِـلالُ المَـنایا وَالسُیوفُ اللَوامِعُ

(دیوان حضرت حسان بن ثابت، ص: 197)

مجھے ماضی یاد آیا تو میرا دل غمگین اور آنکھیں اشک بار ہو گئیں، یہ بے چینی میرے ان دوستوں کی یاد میں ہے جو (غزوہء بدر میں) شہید ہو گئے ، جن میں (میرے قریبی ساتھی) نفیع اور رافع بھی تھے ، جب ان پر موت کے سائے منڈلا رہے تھے او رچمکتی تلواریں ٹوٹ رہی تھیں، انہوں نے اس وقت بھی رسول کریم ﷺ  سے بھرپور وفاداری کی۔

اسی طرح مداح رسول حضرت امام بوصیریؒ نے اصحاب اہل بدر کی شجاعت و بہادری اور جانثاری کا تذکرہ کرتے ہوئے کچھ یوں خراج عقیدت پیش کیا:

وَسَلْ حُنَیْنا وَسَلْ بَدْرًا وَسَلْ أُحُدًا
فُصُوْلُ حَتْفٍ لَهُمْ أَدْهٰی مِنَ الْوَخَمِ

الـمُصْدِرِی الْبِیْضِ حُمْراً بَعْدَ مَا وَرَدَتْ
مِنَ الْعِدَا کُلَّ مُسْوَدٍّ مِن الْلَّمَمِ

وَالْکَاتِبِیْنَ بِسُمْرِ الْخَطِّ مَا تَرَکَتْ
أَقْلَامُهُمْ حَرْفَ جِسْمٍ غَیْرَ مُنْعَجِمِ

(غزوہ) حنین سے، بدر سے اور احد سے پوچھو یہ ان کی موت کے موسم ہیں جو وباءِ عام سے زیادہ خطرناک تھے۔  ان(عظیم صحابہ مجاہدین)کی سفید تلواریں جو دشمنوں کی سیاہ زلفوں میں گھس گئیں وہ انہیں سرخ واپس لا رہے تھے۔  وہ (صحابہ) خطی نیزوں سے لکھنے والے تھے۔  ان کی اقلام نے کفار کے حرفِ جسم کو نقطہ لگائے بغیر نہ چھوڑا۔

حضرت امام بوصیری فرماتے ہیں کہ صحابہ رسول ﷺ  جرأت و شجاعت کے پہاڑ ہیں۔  ان کی قوت کا عالم یہ ہے کہ جو ان سے ٹکراتا ہے پاش پاش ہوجاتا ہے بناء بر ایں أعداء و مخالفین بھی ان کی بسالت و شجاعت کے معترف تھے۔  غزوات میں عظیم کامیابیاں صحابہ کرام کی بہادری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔  جن میں کفار و مشرکین کو شکست ہوئی اور اسلام کا غلبہ متحقق ہوا۔  ان سب غزوات و جنگوں کا ذکر کرنا ممکن نہیں ہے لیکن ان میں سے غزوہ بدر،غزوہ حنین، اور غزوہ احداہم ہیں یہ وہ غزوات ہیں جو کفار کے لیے بہت زیادہ خطرناک اور موت کے موسم گردانے جاتے ہیں، ان میں کفارو مشرکین موت کے گھاٹ ایسے اتار رہے تھے جیسے کسی وبائی و متعدی مرض لوگوں کو اچانک لقمہ اجل بناتی ہے۔  امام بوصیری نے رسول عربی ﷺ کے صحابہ کرام کی تلوار زنی کی عمدہ مہارتوں کو بطور مثال پیش کیا۔  جن کی تلوار کا وارکبھی خطا نہیں ہوا، وہ مد مقابل دشمن کے سیاہ بالوں پر وار اس طرح کرتے کہ وہ اوندھے منہ زمین پر گر پڑتے۔  یہاں تک کہ اسلام کے ان عظیم مجاہدین کی چمکتی دمکتی سفید تلواریں کالے بالوں کو چیرتے ہوئے یک لخت سرخ ہو کر نمودار ہوتیں۔ (شرح قصیدہ بردہ از ڈاکٹر شفاقت علی البغدادی الازہری،ص233)

غزوہ بدر میں جن صحابہ کرام نے جام شہادت نوش فرمایا ان کی تعداد ہے۔ جن کے نام نامی درج ذیل ہیں۔

مہجع بن صالح ۔ عبید ہ بن حارث بن مطلب بن عبد مناف بن قصی،۔ عمیر بن ابی وقاص۔ عاقل بن بکیر بن عبد یالیل۔ عمیر بن عبد عمرو بن نضلہ۔ عوف یا(عوذ) بن عفرا۔ معوذ بن عفرا۔ حارث یا (حارثہ) بن سراقہ بن حارث۔ یزید بن حارث یا (حرث) بن قیس بن مالک۔ رافع بن معلی بن لوذان۔ عمیر بن حمام بن جموح بن زید بن حرام۔ عمار بن زیادہ بن رافع۔ سعد بن خیثمہ انصاری ۔ مبشر بن عبد منذر بن زبیر بن زید۔

مذکورہ بالا چودہ خوش نصیب صحابی ہیں جو غزوہ بدر میں شریک ہوئے اور شہادت پائی۔  شہداء بدر میں سے تیرہ حضرات تو میدان بدر ہی میں مدفون ہوئے مگر حضرت عبید ہ بن حارث نے چونکہ بدر سے واپسی پر منزل صفراء میں وفات پائی اس لیے ان کی قبر شریف منزل صفراء میں ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی نام ذکر کیے جاتے ہیں جو مختلف فیہ ہیں۔ 

اہل بدر کی فضیلت:

اصحاب بدر اور شہدائے بدر کی فضیلت اس بات سے عیاں ہوتی ہے کہ حضور نے انہیں جنت کی بشارت دی۔ چنانچہ ام المومنین حضرت حفصہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ  نے فرمایا:

إنی لارجو الا یدخل النار احد إن شاءالله تعالی ممن شهد بدرا، والحدیبیة، قالت: قلت: یا رسول الله! الیس قد قال اللہ: وإن منکم إلا واردها کان علی ربک حتما مقضیا (سورۃ مریم آیة 71). قال: "الم تسمعیه، یقول: ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِینَ اتَّقَوا وَّنَذَرُ الظَّالِمِینَ فِیهَا جِثِیًّا. (سورة مریم 72)". (ابن ماجۃ)

مجھے امید ہے جو لوگ بدر و حدیبیہ کی جنگوں میں شریک تھے، ان میں سے کوئی جہنم میں نہ جائے گا، ا ن شاءاللہ اگر اللہ نے چاہا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ !کیا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں ہے: تم میں سے ہر ایک کو اس میں وارد ہونا ہے، یہ تیرے رب کا حتمی فیصلہ ہے۔ (سورۃ مریم: 71)، رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا: کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ قول نہیں سنا: پھر ہم پرہیزگاروں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو اسی میں اوندھے منہ چھوڑ دیں گے۔ (سورۃ مریم: 72)

حضرت حاطب بن ابی بلتعہ جو بدری صحابی ہیں ان کے واقعہ پر حضور نبی اکرم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:

إِنَّهُ شَهِدَ بَدْرًا وَمَا یُدْرِیکَ؟ لَعَلَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ اطَّلَعَ عَلَی أَهْلِ بَدْرٍ فَقَال: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ.

آپ  ﷺ  نے فرمایا یہ بدر کی جنگ میں ہمارے ساتھ موجود تھے۔  تمہیں کیا معلوم، اللہ تعالیٰ بدر والوں کے تمام حالات سے واقف تھا اور اس کے باوجود ان کے متعلق فرما دیا کہ جو جی چاہے کرو کہ میں نے تمہیں معاف کر دیا۔

اسی طرح حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ:

ان عبدا لحاطب جاء رسول الله ﷺ یشکو حاطبا، فقال: یا رسول الله، لیدخلن حاطب النار، فقال رسول الله ﷺ: کذبت، لا یدخلها فإنه شهد بدرا و الحدیبیۃ".

حاطب رضی اللہ عنہ کا ایک غلام ان کی شکایت کرتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! حاطب ضرور دوزخ میں جائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو جھوٹا ہے حاطب دوزخ میں نہ جائے گا وہ بدر اور حدیبیہ میں شریک تھا۔

حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ

"اصیب حارثة یوم بدر وهو غلام فجاءت امه إلی النبی ﷺ فقالت: یا رسول الله قد عرفت منزلة حارثة منی فإن یکن فی الجنة اصبر و احتسب وإن تک الاخری تری ما اصنع، فقال: "ویحک اوهبلت اوجنة واحدة هی إنها جنان کثیرة، وإنه فی جنة الفردوس".

انہوں نے بیان کیا کہ حارثہ بن سراقہ انصاری رضی اللہ عنہ جو ابھی نوعمر لڑکے تھے بدر کے دن شہید ہو گئے تھے (پانی پینے کے لیے حوض پر آئے تھے کہ ایک تیر نے شہید کر دیا) پھر ان کی والدہ (ربیع بنت النصر انس رضی اللہ عنہ کی پھوپھی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو معلوم ہے کہ مجھے حارثہ سے کتنا پیار تھا۔  اگر وہ اب جنت میں ہے تو میں اس پر صبر کروں گی اور اللہ تعالیٰ کی امید رکھوں گی اور اگر کہیں دوسری جگہ ہے تو آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں کس حال میں ہوں۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تم پر رحم کرے، کیا دیوانی ہو رہی ہو، کیا وہاں کوئی ایک جنت ہے؟ بہت سی جنتیں ہیں اور تمہارا بیٹا جنت الفردوس میں ہے۔

حضرت ابو موسی اشعریؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ  نے فرمایا:

"و إذا الخیر ما جاء الله به من الخیر بعد و ثواب الصدق الذی آتانا بعد یوم بدر".(البخاری، 3987)

خیر و بھلائی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں احد کی لڑائی کے بعد عطا فرمائی اور خلوص عمل کا ثواب وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بدر کی لڑائی کے بعد عطا فرمایا۔

حضرت رفاعہ بن رافع سے مروی ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور آپ سے انہوں نے پوچھا :

جاء جبریل إلی النبی ﷺ فقال: ما تعدون اهل بدر فیکم؟ قال: من افضل المسلمین او کلمۃ نحوها، قال: وکذلک من شهد بدرا من الملائکة". (بخاری، 3992)

معاذ بن رفاعہ بن رافع زرقی نے اپنے والد (رفاعہ بن رافع) سے، جو بدر کی لڑائی میں شریک ہونے والوں میں سے تھے، انہوں نے بیان کیا کہ بدر کی لڑائی میں شریک ہونے والوں کا آپ کے یہاں درجہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانوں میں سب سے افضل یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کا کوئی کلمہ ارشاد فرمایا۔  جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ جو فرشتے بدر کی لڑائی میں شریک ہوئے تھے ان کا بھی درجہ یہی ہے۔

غزوہ بدر اہل ایمان کے لیے اپنے اندر بیشمار اسباق اور دروس رکھتا ہے۔ اگر اہل اسلام کو غزوہ بدر کی روح سمجھ آجائے تو اللہ رب العزت کی مدد و نصرت آج بھی اتر سکتی ہے۔ بقول اقبال

فضائے بدر پیدا کر ، فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

اللہ رب العزت اخلاصِ نیت سے جہاد کرنے والوں کو کبھی بھی محروم و مایوس نہیں کرتا وہ ہمیشہ انہیں فتح و کامرانی سے نوازتا ہے۔ اگر آج بھی عالم اسلام کے فرزندان اہل بدر جیسا اخلاص پیدا کر لیں اور محنت سے آگے بڑھیں تو اللہ رب العزت ان کی مدد و نصرت کے لیے آج فرشتے نازل فرمائے گا اور انہیں پوری دنیا میں ایک دفعہ پھر عروج و ترقی حاصل ہو گی۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ شہدائے بدر کے توسل سے تمام اہل ایمان پر اپنی نظرِ کرم فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین