کتاب ایک بہترین دوست ہے

سمیّہ اسلام

کتب بینی ایک نہایت مفید مشغلہ ہے۔ یہ علم میں اضافے اور پریشانیوں سے چھٹکارے کے لیے نہایت موثر نسخہ ہے۔ صدیوں پہلے کے ایک عرب مصنف الجاحظ نے ایک پریشان حال شخص کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا، کتاب ایک ایسا دوست ہے جو آپ کی خوشامندانہ تعریف نہیں کرتا اور نہ آپ کو برائی کے راستے پر ڈالتا ہے۔ یہ دوست آپ کو اکتاہٹ میں مبتلا ہونے نہیں دیتا۔ یہ ایک ایسا پڑوسی ہے جو آپ کو کبھی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ یہ ایک ایسا واقف کار ہے جو جھوٹ اور منافقت سے آپ سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کرے گا۔

امریکا کی رش یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کی ایک تحقیق کے مطابق وہ بزرگ افراد جو مطالعے یا ذہنی آزمائش کے کھیل جیسے شطرنج یا معمے وغیرہ کو اپنا معمول بنا لیتے ہیں ان میں دماغی تنزلی کا باعث بننے والے الزائمر امراض کا خطرہ ان سرگرمیوں سے دور رہنے والے لوگوں کے مقابلے میں ڈھائی گنا کم ہوتا ہے۔ محقق کرسٹل رسل اپنے تحقیقی مقالے میں لکھتے ہیں کہ مطالعہ آپ کا ذہنی تنائوختم کر کے آپ کی پُرسکون فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو جلا بخشتا ہے۔ اچھی کتاب پڑھنے سے آپ کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ اور سوچنے کی صلاحیتوں میں بہتری آتی ہے۔ امریکا کی یونیورسٹی آف بفالو کی تحقیق کے مطابق فکشن بُکس پڑھنے سے دوسروں کی نفسیات کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے۔ اور آپ بہ آسانی اپنے مخاطب کے احساسات اور جذبات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے ہاں یہ شوق ماند پڑتا جا رہا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں کتاب پڑھنے کا کلچر پہلے ہی کم تھا اب جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے مزید کم ہوتا جا رہا ہے اور نوجوان نسل لائبریریوں کی جگہ گیمنگ زون اور ہاتھوں میں کتاب کی جگہ موبائل فونز، ٹیبلیٹ، آئی پیڈ اور لیپ ٹاپ تھامے نظر آتی ہے۔ اگرچہ نجی سطح پر کتب میلوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے، تاہم ان میلوں میں بھی نوجوان کتابیں خریدنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ کتاب بہترین دوست ہے کی پرانی کہاوت کو ٹیکنالوجی کی نئی لہر نے تبدیل کر کے موبائل فون بہترین دوست میں تبدیل کر دیا ہے اور وہ نوجوان جو پہلے اپنا وقت کتب بینی میں گزارتے تھے اب وہی وقت جدید آلات اور انٹرنیٹ پر سرفنگ میں ضائع کر رہے ہیں۔

گیلپ سروے کے مطابق پاکستان میں 42 فیصد کتب بین مذہبی بتیس فیصد عام معلومات یا جنرل نالج چھبیس فصد فکشن اور سات فیصد شاعری کی کتابیں پڑھتے ہیں۔ گیلپ پاکستان کی طرف سے کیے جانے والے ایک اور سروے کے مطابق ملک میں 39 فیصد پڑھے لکھے افراد کتابیں پڑھنے کے دعویدار ہیں جبکہ 61 فیصد کا کہنا ہے کہ وہ کتابیں نہیں پڑھتے ہیں۔ پاکستان میں کتب بینی کے فروغ نہ پانے کی وجوہات میں کم شرح خواندگی صارفین کی کم قوت خرید حصول معلومات کے لیے موبائل انٹرنیٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال اچھی کتابوں کا کم ہوتا ہوا رجحان حکومتی عدم سرپرستی اور لائبریریوں کیلئے مناسب وسائل کی عدم فراہمی کے علاوہ خاندان اور تعلیمی اداروں کی طرف سے کتب بینی کے فروغ کی کوششوں کا نہ ہونا بھی شامل ہے۔ کتب بینی کے رجحان میں کمی کا ایک اہم سبب ہمارا تعلیمی نظام اور تدریسی نظام کی دن بہ دن گرتی ہوئی صورت حال ہے۔ اگرچہ جدید ٹیکنالوجی سے تعلیم کی شرح میں اضافہ ضرور ہوا ہے، لیکن اس کی بدولت کتب بینی کی شرح بھی گر گئی ہے۔

23 اپریل ہر سال عالمی یوم کتاب منایا جاتا ہے۔ دنیا میں سو سے زیادہ ممالک میں کتابوں اور کاپی رائٹس کا عالمی دن منایا جاتا ہے اس دن کا مقصد کتاب بینی کے شوق کو فروغ دینا اور اچھی کتابیں تحریر کرنے والے مصنفین کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ عالمی یوم کتاب کے موقع پر بک سیلرز اور پبلشرز کتابوں پر زیادہ ڈسکاونٹ دے کر اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بہت ساری کتابیں مفت بھی تقسیم کر سکتے ہیں۔

نوجوان نسل میں کتب بینی کو کیسے فروغ دیا جائے:

کتاب بہترین دوست ہوتی ہے یہ مقولہ ہم نے بارہا سنا ہے لیکن موجودہ دور میں جیسے جیسے عام آدمی کیلئے جدید ٹیکنالوجی تک رسائی ممکن ہوتی جا رہی ہے پاکستان میں کتب دوستی دم توڑتی جا رہی ہے۔ کتابوں کی جگہ انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن معلومات کا فوری ذریعہ بن چکے ہیں۔ تفریح کے جدید ذرائع کی موجودگی میں کتب بینی صرف لائبریریوں یا چند اہل ذوق تک محدود ہو گئی ہے خاص طور پہ نوجوان نسل اور بچوں میں کتب بینی سے لا تعلقی اور غیر سنجیدہ رویہ پایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا نوجوان نسل وقت کی کمی کے باعث اس لا تعلقی کا شکار ہے یا کتابوں سے دوری بھی اقدار سے دوری کی طرح ہمارا قومی رویہ بنتا جا رہا ہے؟ اور نوجوان نسل اور خصوصی طور پہ بچوں کو اس طرف لانے کے لیے کتب کو عملی زندگی کا جزو بنانے کیلئے کیا اقدامات کیے جائیں کہ انفرادی رویوں میں مثبت تبدیلی لائی جا سکے؟

کتب بینی سے دوری علم سے دوری ہے فی زمانہ لوگ معلومات اور علم کے حصول کے لیے شارٹ کٹ چاہتے ہیں۔ ٹی وی اور انٹر نیٹ کو کتاب کا متبادل سمجھا جانے لگا ہے ۔ سب سے پہلا قدم کتاب کی اہمیت کو تسلیم کرنے کا ہے۔ کتب میلے اور کتابوں کو بطور تحائف دوستوں اور بچوں کو دینا بھی کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈیجیٹل کتب کو بھی فروغ دیا جا سکتا ہے اور اسی سلسلے میں اردو ویب پر لائبریری کا کام بھی ہوتا ہے اور اس میں دلچسپی لینے والوں کی تعداد دیکھ کر لگتا ہے کہ لوگوں کو کتابوں تک رسائی دی جائے تو ان میں شوق اب بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا اور آن لائن سائٹس اور ایپ استعمال کرکے بھی یہ شوق پیدا کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ کتابوں کے چھپنے،فروخت ہونے اور پبلیشنگ کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔

کتابوں کی اہمیت اورنوجوان نسل کا رحجان:

انٹرنیٹ کے ذریعے من چاہی معلومات فوری میسر آنے کی وجہ سے نوجوان نسل میں کتابیں پڑھنے کا رحجان قدرے کم ہوگیا ہے. تاہم کتابوں کے شوقین کتابوں کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ کتابوں کو معلومات اورعلم بڑھانے کا سب سے پائیدار اور مصدقہ ذریعہ گردانتے ہیں۔ کتابوں کے لئے اپنے وسائل بالخصوص وقت میں سے کچھ حصہ ضرور صرف کرنا چاہیے یہ یقیناً ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل کے لئے بہترین سرمایہ کاری ثابت ہوگی۔

ایک شہسوار قلم کے لیے مطالعہ اتنا ضروری ہے جتنا انسانی زندگی کی بقاء کے لیے دانہ اور پانی کی ضرورت ہے، مطالعہ کے بغیر قلم کے میدان میں ایک قدم بھی بڑھانا بہت مشکل ہے، علم انسان کا امتیاز ہی نہیں؛ بلکہ اس کی بنیادی ضرورت بھی ہے، جس کی تکمیل کا واحد ذریعہ یہی مطالعہ ہے، ایک پڑھے لکھے شخص کے لیے معاشرہ کی تعمیر و ترقی کا فریضہ بھی اہم ہے؛ اس لیے مطالعہ ہماری سماجی ضرورت بھی ہے۔ اگرانسان اپنے اسکول و مدرسہ کی تعلیم مکمل کرکے اسی پر اکتفا کرکے بیٹھ جائے تو اس کے فکر و نظر کا دائرہ بالکل تنگ ہوکر رہ جائے گا۔ مطالعہ استعداد کی کنجی اور صلاحیتوں کو بیدار کرنے کا بہترین آلہ ہے۔ یہ مطالعہ ہی کا کرشمہ ہے کہ انسان ہر لمحہ اپنی معلومات میں وسعت پیدا کرتا رہتا ہے۔ اور زاویہء فکر ونظر کو وسیع سے وسیع تر کرتا رہتا ہے۔

مطالعہ ایک ایسا دوربین ہے جس کے ذریعے انسان دنیا کے گوشہ گوشہ کو دیکھتا رہتا ہے، مطالعہ ایک طیارے کی مانند ہے جس پرسوار ہوکر ایک مطالعہ کرنے والا دنیا کے چپہ چپہ کی سیر کرتا رہتا ہے اور وہاں کی تعلیمی، تہذیبی، سیاسی اور اقتصادی احوال سے واقفیت حاصل کرتا ہے۔ آج لوگ لکھنے والے زیادہ اور پڑھنے والے کم ہوگئے جس کے نتیجے میں تحریر کی اثر آفرینی ختم ہوگئی۔ عربی کا ایک مشہور محاورہ ہے: زمانے کا بہترین دوست کتاب ہے۔ کتابوں کا مطالعہ انسان کی شخصیت کو ارتقاء کی بلندمنزلوں تک پہنچانے کا اہم ذریعہ، حصول علم ومعلومات کا وسیلہ اور عملی تجربانی سرمایہ کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنے اور ذہن وفکر کو روشنی فراہم کرنے کا معروف ذریعہ ہے۔ کتابوں سے جہاں معلومات میں اضافہ اور راہ عمل کی جستجو ہوتی ہے وہیں اس کا مطالعہ ذوق میں بالیدگی، طبیعت میں نشاط، نگاہوں میں تیزی اور ذہن ودماغ کو تازگی بھی بخشتا ہے۔

مطالعہ کن کتابوں کا ہو؟:

مطالعہ ایسی کتابوں کاہو جو نگاہوں کو بلند، سخن کو دل نواز اور جاں کو پرسوز بنادے، اگر مطالعہ فکر کی سلامت روی، علم میں گیرائی اور عزائم میں پختگی کے ساتھ ساتھ فرحت بخش اور بہار آفریں بھی ہوتو اسے صحیح معنوں میں مطالعہ کہاجائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کا دور انتہائی ترقی پذیر اور مسابقہ کا دور ہے، ذرائع ابلاغ و ترسیل کی بہتات ہے،اور سہولیات کی بھی کمی نہیں ہے؛ ایسے ہی طرح طرح کے اخبارات و رسائل اور کتابوں کی بھی فراوانیاں ہیں۔ اب ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کتابوں کی اس ریل پیل اور جنگل میں کن کا مطالعہ کیاجائے اور کن کو چھوڑا جائے؟ اس کا سیدھا سا جواب یہی ہے کہ یہ ممکن نہیں؛ اس لیے کہ نہ ہر کتاب قابل مطالعہ ہے اورنہ ہی تمام کتابوں کے مطالعہ کرنے کی انسانی زندگی میں گنجائش۔ اس لیے انتہائی چھان پھٹک کر کتابوں کا انتخاب ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں ایسے اساتذہ کی رہنمائی بھی بڑی کارآمد ہوتی ہے جن پر مطالعہ کرنے والے کو مکمل اعتمادہو، رہنما ایسا ہونا چاہیے جو بذات خود ہر اعتبار سے ایک پیاسے کی تشنہ لبی کو دور کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہو۔

حاصل مطالعہ:

مطالعہ کے ساتھ ساتھ حاصل مطالعہ کو ذہن نشین کرنے کی تدبیر بھی ضروری ہے۔ علم و معلومات کی مثال ایک شکار کی سی ہے؛ لہذا اسے فوراً قابو میں کرنا چاہیے۔ امام شافعی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: علم ایک شکار کی مانند ہے کتابت کے ذریعے اسے قید کرلو۔ اس لیے مطالعہ کے دوران قلم کاپی لے کر خاص خاص باتوں کو نوٹ کرنے کا اہتمام کرنا چاہئے؛ ورنہ بعد میں ایک چیز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور وہ نہیں ملتی ہے۔ اب یا تو سرے سے بات ہی ذہن سے نکل جاتی ہے یا یادتو رہتی ہے لیکن حوالہ دماغ سے غائب ہوجاتا ہے۔ مطالعہ کے بعد حاصل مطالعہ کی بھی بڑی اہمیت ہے؛ ورنہ تو بات لاحاصل ہی رہے گی۔ مطالعہ کے دوران جہاں اچھی کتابوں، خوشگوار فضا، مناسب مقام، موزوں روشنی اور وقت کی تنظیم ضروری ہے وہیں صحت کا بھی خاص خیال رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ قرآن کریم نے مسلمانوں میں لکھنے پڑھنے کا ایک غیر معمولی ذوق پیدا کر دیا تھا۔ یہ ذوق مذہب کے پس منظر میں پیدا ہوا تھا۔ مگر ایک دفعہ پیدا ہو گیا تو صرف مذہب تک محدود نہیں رہا، بلکہ علم کی تمام شاخوں تک پھیل گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہزار برس تک مسلمان دنیا پر حکومت کرتے رہے۔ مسلمانوں کا زوال بھی جس واقعہ سے شروع ہوا وہ یہی تھا کہ بغداد اور اسپین میں مسلمانوں کی کتابوں کے ذخیرے یا تو جلا دیے گئے یا پھر مسلمانوں کی شکست کے بعد عیسائیوں کے ہاتھ لگ گئے۔ یہی کتابیں یورپ پہنچیں تو وہ آنے والے دنوں میں دنیا کے حکمران بن گئے۔

آج بھی اگر ہم ترقی کی شاہراہ پر قدم رکھنا چاہتے ہیں تو اس کا ذریعہ صرف یہ ہے کہ لوگوں میں پڑھنے کی عادت پیدا کریں۔ کیونکہ علم کی فصل قلم و کتاب کی جس زمین پر اگتی ہے اسے پڑھنے کا شوق رکھنے والے لوگ سیراب کرتے ہیں۔ اورجس معاشرے سے مطالعے کا ذوق اور عادت ختم ہو جائے وہاں علم کی پیداوار بھی ختم ہو جاتی ہے۔ جس قوم میں علم نہ ہو اس کا انجام سوائے مغلوبیت کے کچھ اور نہیں ہو سکتا۔