سمیہ اسلام

اسلام وہ واحد دین ہے جس نے زندگی کے ہر شعبے میں راہ نما اصول وضع کیے جو تمام انسانوں کے لئے یکساں طور پر قابل عمل ہیں۔ کھانے پینے کے آداب سے لے کر ایک حسین اور متوازن معاشرے کی تشکیل تک ہمیں ہر شعبے میں زریں اصول نظر آتے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم ایک حسین معاشرے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ لیکن دنیا میں دیگر مظلوم طبقات کے ساتھ مزدور بھی ہیں، جنہیں ہر دور میں تیسرے درجے کا شہری سمجھا گیا اور ان کے حقوق کی بدترین پامالی کی گئی۔ ایسے ہی استحصالی گروہ کو جناب رسالت مآب ﷺ نے خبردار فرمایا کہ قیامت کے دن جن تین آدمیوں کے خلاف میں مدعی ہوں گا ان میں ایک وہ شخص ہوگا جو کسی کو مزدور رکھے اور اس سے پورا پورا کام لے مگر مزدوری پوری نہ دے۔ (بخاری)

اللہ تعالیٰ نے محنت کی عظمت اور مزدوروں کے حقوق بیان فرمائے اور اس کے آخری رسول ﷺ ان احکامات خداوندی پر مکمل عمل پیرا ہوئے اور محنت کشوں کے حقوق خود ادا فرمائے اور پوری امت کو ان پر عمل کرنے کی تلقین فرمائی۔ اللہ کے حبیب ﷺ نے محنت کشوں کو اللہ کے دوست کا اعزاز عنایت فرمایا ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:مزدور کو مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو (ابن ماجہ)۔ ایک اور موقع پر حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا یہ تمہارے بھائی ہیں جن کو اللہ نے تمہارے ماتحت بنادیا ہے ان کو وہی کھلاو جو خود کھائو وہی پہنائو جو خود پہنو ان سے ایسا کام نہ لو کہ جس سے وہ بالکل نڈھال ہوجائیں، اگر ان سے زیادہ کام لو تو ان کی اعانت کرو (بخاری و مسلم)

ایک صحابیؓ نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ کون سی کمائی سب سے زیادہ پاکیزہ ہے آپ ﷺ نے فرمایا اپنی محنت کی کمائی۔ بعض صحابہ کرامؓ رزق حلال کے لیے ہرقسم کی محنت و مشقت کرتے تھے۔ مختلف پیشوں سے اپنی روزی کماتے تھے۔ حضرت خباب بن ارتؓ لوہار تھے، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ چرواہے تھے، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ تیرساز تھے، حضرت زبیر بن عوامؓ درزی تھے، حضرت بلا ل بن رباحؓ گھریلو ملازم تھے اور حضرت ابوبکرؓ کپڑا بیچتے تھے۔ صحابہ کرام ؓ کی اکثریت محنت کش اور مزدوروں پر مشتمل تھی۔ ازواج مطہراتؓ گھروں میں اْون کاتتی اور کھالوں کی دباغت کرتی تھیں۔ حضرت زینبؓ کھالوں کی دباغت کرتی تھیں۔ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ جانوروں کی خدمت اور جنگل سے لکڑیاں چن کر لا نے کا کام کرتی تھیں۔ کچھ صحابیاتؓ کھانا پکا کر فروخت کر نے کا م کرتی تھیں۔ کچھ دایہ کا کام کرتی تھیں، کچھ زراعت کرتی تھیں اور کچھ تجارت کرتی تھیں، کچھ خوش بو فروخت کرتی تھیں، کچھ کپڑا بنتی تھیں اور کچھ بڑھئی کا کام کرتی تھیں (بخاری )

ہرسال یکم مئی دنیا بھر میں لیبر ڈے (مزدوروں کا دن) کے طور پر منایا جاتا ہے۔ لوگوں کو اس روز مزدوروں کے حقوق کے بارے میں آگاہی دی جاتی ہے۔ محض رسمی طور پر مزدوروں کے حقوق کا ڈھنڈورا پیٹ کر اگلے روز سے ہی مزدوروں کا استحصال شروع کر دیا جاتا ہے۔ حیرت واستعجاب ہے کہ مزدوروں کے حقوق کے علمبردار لوگ و ادارے خود اپنے ماتحتوں، ملازموں، مزدوروں اور کارکنوں کا استحصال کرتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ آجر (مالک) مزدوروں سے شاکی اور نالاں ہوتا ہے۔ وہ مزدوروں وملازموں کی خیانت، بدعہدی، کام چوری اور غیر ذمہ داری کا رونا روتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف مزدور اپنے مالک کے ظلم وستم، استحصال، حق تلفی اور نامناسب رویوں کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔

اسلام دین فطرت ہے۔ اس پاکیزہ اور کامل دین نے دیگر طبقات کی طرح آجر واجیر اور ادائیگی حقوق وفرائض کا نہ صرف تعین کیا، بلکہ فریقین کو حقوق و فرائض کے حصول کی جانب متوجہ بھی فرمایا۔ ظاہر ہے کہ اگر فریقین اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی کی فکر میں ہوں اور ادائیگی وفرائض کے باوجود اپنی کوتاہی کا احساس دل میں رکھتے ہوں تو وہ دوسرے فریق کو اپنا محسن اور اپنے آپ کو کوتاہ متصور کریں گے۔ آجر کے ذہن میں ہو گا کہ میں مزدور کے حقوق حقیقی معنوں میں ادا نہیں کرپا رہا، میرے رزق اور معیشت کا ذریعہ وسبب یہ مزدور اور ملازم ہیں، ان ہی کی بدولت میرا کاروبار اور کام رواں دواں ہے، حقیقت میں یہ اُن کی کمائی ہے جو میں اور میرا خاندان استعمال کر رہے ہیں۔ میں جو کچھ انہیں معاوضہ دے رہا ہوں، ان کا حق اس سے بڑھ کر ہے۔ مجھے ان کے ساتھ حسنِ سلوک، مروت اور تواضع وعاجزی سے پیش آنا ہے، ان کے دکھ درد کو سمجھنا چاہیے، ان کی خوشی وغمی میں شریک ہونا ہے، ان کی مشکل کو حل کرنا ہے۔ یہ احساس ایسے آجر کو اجیروں اور مزدوروں میں یوں محبوب بنا دے گا کہ مزدور ایسے آجر پر اپنی جان تک نچھاور کر دیں گے اور وہ اس کے مال کے محافظ اور عزت کے رکھوالے ہوں گے۔

برصغیر میں اقبالؒ سے پہلے کسی فکری شاعر نے مزدور اور مظلوم طبقات کے بارے میں ایک مربوط،متعین اور منظم فکر کے طور پر بہت کم لکھا ہے۔ کسی کے ہاں ایک شعر،کسی کے ہاں دو یا زیادہ سے زیادہ دو چار نظمیں نظر آ سکتی ہیں۔ اقبالؒ وہ واحد عظیم المرتبت فکری شاعر ہے جس نے مزدور کے پسینے کو اپنے اشعار میں جذب کر کے اسے مشکِ نافہ بنا دیا ۔ ان کی دردمندی میں محنت کی مہک اور مزدور کے لہو کی باس موجود ہے۔ خاص طور سے ایک ایسے وقت میں جب دنیا مسائل سے دوچار ہے اور آنکھوں سے نظر نہ آنے والے ننھے سے کورونا وائرس نے دنیا کو معاشی تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے ، صنعتوں کی بندش سے بے روزگاری میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے،کوئی کہتاہے کہ دنیا بھر میں 60کروڑ کے قریب بے روزگار ہوں گے ۔ کوئی اس سے بھی زیادہ افراد کے روزگار چھینے جانے کی درد ناک باتوں سے دل دہلا دیتا ہے۔ لیکن علامہ صاحب کو علم تھا کہ کسی بھی مصیبت میں مشینوں کے سرمایہ دارمحنت کشوں کوکچل دیں گے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج یہ کچھ ہو رہا ہے۔ کھربوں ڈالر کی امداد کے قصے دنیا بھر میں عام ہیں لیکن غریب کو کہیں بھی کچھ نہیں مل رہا۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی غریب خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ علامہ صاحب جانتے تھے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کا بنایا گیا نظام غریب کا کبھی ساتھ نہیں دے گا اور یہ ہم نے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک دیکھ لیا ہے۔

اقبالؒ ایک پسماندہ، نو آبادیاتی معاشرے میں پیدا ہوئے لیکن انہوں نے عالمی استعمار کے خلاف جس انقلابی وژن سے کام لیا اور جس تخلیقی انداز سے نو آبادیاتی نظام کے خلاف آواز بلند کی، افروایشیائی اقوام کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ اقبالؒ نے مغرب سے مرعوب ہونے کی بجائے اس کے کھوکھلے پن کا سراغ لگایا۔ شاخِ نازک پر آشیانہ بنانے والوں کے سامنے اس کی ناپائیداری کا کھلم کھلا اعلان کر دیا حالانکہ اس وقت سلطنتِ برطانیہ پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ اگر ہم ارتقائی لحاظ سے اقبالؒ کے ہاں غم مزدور یامظلوم لوگوں کی حالتِ زار کانقشہ دیکھنا چاہیں تو سب سے پہلے 1910ء میں نالہء یتیم سے اس کا آغاز ہوتا ہے۔ اس نظم میں پوشیدہ کرب 1910ء ہی میں علم الا قتصادکی صورت میں ایک ٹھوس نثری احتجاج بن جاتا ہے۔ اس میں اقبالؒ اس درد اور احساسِ زیاں کی عکاسی کرتے ہیں جو اس وقت کے مزدوروں اور کسانوں بلکہ پورے ہندوستان پر مسلط تھا۔

آگے چلیے تو ایک عہد آفریں رسالے مخزن میں ان کا ایک بصیرت افروز مضمون ملتا ہے۔ اس میں کشتگانِ جبر اور اسیرانِ استحصال کی زبوں حالی پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ لکھتے ہیں (یہ قوم) اب وقت کے تقاضوں سے غافل اور افلاس کی تیز تلوار سے مجروح ہو کر ایک بے معنی توکل کا عصا ٹیکے کھڑی ہے۔ میں صنعت و حرفت کو قوم کی سب سے بڑی دولت خیال کر تا ہوں۔ میری نگاہ میں اس بڑھئی کے کھردرے ہاتھ ان نرم و نازک ہاتھوں کی نسبت بدرجہا بہتر، خوبصورت اور مفید ہیں جنہوں نے قلم کے سوا کسی چیز کا بوجھ محسوس نہیں کیا۔

بندہ مزدور کے اوقات کی تلخی کم کرنے کے لئے اقبالؒ نے نہ صرف شعروادب کو استعمال کیا بلکہ عملی جدّوجہد بھی کی۔ اس سلسلے میں قائداعظم ؒکو خطوط بھی لکھے اور مسئلے کے حل کے لئے اُبھارا۔ وہ جس پاکستان کا مطالبہ کر رہے تھے اس میں مزدوروں اور محنت کشوں کے حقوق کے زبردست حامی تھے۔ حضرت قائد اعظم ؒبھی اپنی کئی تقاریر میں پسینہ خشک ہونے سے پہلے محنت کا صلہ دینے کے حامی تھے۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو پاکستان میں کسی کو بھی محنت کشوں کے حقوق غضب کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔ جب اقبالؒ پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تو کسانوں پر لگائے جانے والے ناروا لگان کی سخت مخالفت کی اور دیہاتی عورتوں کے لئے طبّی سہولتوں کا مطالبہ کیا۔

اسی زمانے میں ایک اور معرکۃ الآراء نظم شمع و شاعر میں بھی استعاراتی انداز میں مظلوموں اورمجبوروں کی کم نصیبی کا ذکر ملتا ہے۔

آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا
دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تو

یہاں دہقان سے مراد زوال پذیر مسلمان بھی ہو سکتا ہے اور عام دہقان مزدور بھی۔

یہاں یہ بتا دینا مناسب ہو گا کہ فکرِ اقبال میں مزدور سے مراد صرف اینٹیں اور گارا ڈھونے والے محنت کش ہی نہیں ہیں بلکہ یہ لفظ وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اس میں وہ تمام محنت کش طبقات شامل ہیں جو اجرت کی بنیاد پر کام کرتے ہیں اور آجر اور اجیر کے متعین مفہوم میں شامل ہیں۔ ایک اور قابلِ غور بات یہ ہے کہ اقبالؒ کا بندہ مزدور، اس کے باقی نظامِ فکر کا ایک حصہ ہے۔ وہ جہاں بندہ مزدور ہے وہاں وہ بندہ مومن کا پرتو بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ نانِ جویں پر گزارا کرتا ہے۔ 1910ء میں اقبالؒ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اصحابِ فکرو نظر اورطلباء کے سامنے ایک خطبہ پیش کیا۔ عنوان تھا ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر۔ اس میں وہ وطن کی غربت اور افلاس پر لوگوں کو متوجہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

سب سے اہم عقیدہ اس مسلمان کے سامنے جو قومی کام کرنے کے لئے اپنے آپ کو وقف کرتا ہے،یہ ہے کہ وہ کیونکر اپنی قوم کی اقتصادی حالت کو سدھارے۔ اس کا فرض ہے کہ ہندوستان کی تمام اقتصادی حالت پر نظرِ غائر ڈال کران اسباب کا پتا لگائے جنہوں نے ملک کی یہ حالت کر دی ہے۔ کلامِ اقبال میں بندہ مزدور کے حوالے سے ایک واضح جھلک نظم خضر راہ میں بھی ملتی ہے۔ اس نظم میں اقبالؒ کی فکری تمازت شعلہ آفریں ہو جاتی ہے اور یہ موضوع جامعیت اور آفاقیت حاصل کر لیتا ہے۔ پیام مشرق ہی کی ایک اوراہم نظم نوائے مزدور ہے جسے خلیفہ عبدالخکیم نے محنت کشوں کا پیغامِ انتقام کہا ہے۔ فکرِ اقبال میں بندہ مزدور کا مقام اس قدر بلند ہے کہ اقبال کا کلام مزدور تحریک کا منشور کہا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں مزدوروں کے حالات اطمینان بخش نہیں ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہر حکمران نے غریبوں اور مزدوروں کو مراعات دینے، سہولیات فراہم کرنے اور دن بدلنے کے لیے وعدے کیے مگر بد قسمتی سے وہ وعدے وفا نہ ہوسکے۔ ہمارے ملک میں مزدوروں کے حوالے سے جو کچھ آئین اور قانون میں موجود ہے اس پر عمل درآمد ہو جائے تو مزدور کے حالات بہتر کرنے کے لیے وہی کچھ کافی ہے، کسی نئے قانون یا پیکج کی ضرورت نہ ہو گی۔ اس آئین و قانون پر عملی طور پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے آج ہمارا مزدور طبقہ بد حالی کا شکار ہے اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔

ہمارے معاشرے میں محنت سے جڑے پیشے قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ ہم نے محنت کشوں کا اس قدر استحصال کیا ہے اور کرتے ہی چلے جارہے ہیں کہ محنت کش اور جانور کے درمیاں خط ناتواں باقی ہے۔ جبکہ یہ بات مسلم ہے کہ ملکی ترقی ان محنت کشوں کے بغیر کسی صورت بھی ممکن نہیں۔ اگر ہم اپنے وطن کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں لا محالہ اپنے مزدور طبقے پر توجہ دینا ہوگی، ان کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا تا کہ وہ دلجمعی کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دے کر ملک کی ترقی کا باعث بن سکیں۔