اداریہ: خواتین کا تحفظ اور نظام انصاف

چیف ایڈیٹر: دختران اسلام

اسلام میں خواتین کے احترام، تحفظ، تعلیم و تربیت پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ اسلام کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ جس نے خواتین کو برابر کا شہری قرار دیا اور خواتین کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایت کی۔ اسلام نے جہاں خواتین کی تعلیم و تربیت کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کی بات کی وہاں سب سے زیادہ اس کے تحفظ اور عزت و تکریم پر زور دیا۔ اسلام سے قبل عرب کے معاشرے میں لڑکیوں کو زندہ درگور کر دینے کی روش عام تھی۔ خواتین کو خرید و فروخت کی چیز اورمالِ غنیمت سمجھا جاتا تھا۔ بدوین سوسائٹی میں خواتین کو غلام بنانا اعزاز سمجھاجاتا تھا۔ اسلام نے دور جاہلیت کی عورت دشمن رسومات کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جس نے آج سے چودہ سو سال قبل خواتین کے حقوق و فرائض کا تعین کر دیا جبکہ آج کی جدید جمہوری تہذیبوں کی ویمن امپاورمنٹ کی مہمات کی عمر 100 سال سے زیادہ نہیں ہے۔ اسلامی تعلیم اور تہذیب و ثقافت میں خواتین کے عزت و احترام اور تحفظ پر سب سے زیادہ توجہ مرکوز کی گئی۔ یہ امر افسوس ناک ہے کہ اسلام کے نام پرحاصل کئے گئے ملک میں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح دن بدن بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں گھریلو تشدد اور طلاق کی شرح میں اضافہ کا رجحان سامنے آیا ہے اور خاندانی نظام شکست و ریخت سے دو چار ہے۔ خواتین کے خلاف جرائم کی روک تھام کے لئے ریاست کی تو اولین ذمہ داری ہے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ سیاسی، اصلاحی، مذہبی اور فلاحی تحریکوں اور جماعتوں کو اپنا ذمہ دارانہ دینی و ملی کردار ادا کرنا ہو گا بصورت دیگر پاکستان کو وہ مقام حاصل نہیں ہو سکے گا جس کا خواب تحریک پاکستان کے دوران اکابرین ملت اسلامیہ نے دیکھا تھا۔ حال ہی میں خواتین کے خلاف جرائم کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے یہ رپورٹ پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے حوالے سے ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 4 سالوں میں پنجاب کے 36 اضلاع میں 40 ہزار سے زائد خواتین اغواء ہوئیں۔ 3 ہزار سے زائد خواتین گزشتہ چار سال سے لاپتہ ہیں۔ خواتین کو اغواء کرنے والے 53 ہزار سے زائد ملزمان کو گرفتار کیا گیا جن میں سے بیشتر ناقص تفتیش اور ناقص شواہد کی بناء پر قانون کے شکنجے سے بچ گئے مگر سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ خواتین کے اغواء اور تشدد میں ملوث 53 ہزار ملزمان میں سے 12 ہزار ملزمان مفرور ہیں۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی تن آسانی کا شکار ہیں۔ اغواء کے وہ کیسز جنہیں پولیس ٹریس کرنے میں ناکام رہتی ہے انہیں فائلوں کا پیٹ بھرنے کے لئے مفروروں کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جرم کے خاتمے کے لئے تین مراحل پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے پولیس کے تفتیشی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔پولیس کو تفتیشی نظام خاندانی دشمنیوں کو ہوا دینے کا سبب بنتا ہے۔ محض شک کی بناء پر لوگوں کو گرفتار کرنے اور کیس خراب کرنے کا چلن عام ہے۔ جرائم پر کنٹرول کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تعلیم یافتہ افسران اور افراد کو تفتیشی نظام سے منسلک ہونا چاہیے۔ دوسرے نمبر پر پراسیکیوشن کا نظام آتا ہے۔پولیس کی طرف سے ایف آئی آر کے اندراج اور تفتیش کے باوجود ناقص پراسیکیوشن کی وجہ سے ملزمان سزا سے بچ جاتے ہیں۔ کریمنلزکو قرار واقعی سزادلوانے کے لئے پراسیکیوشن کے نظام کو ازسرنو ترتیب دینا ضروری ہے۔ خواتین کے اغواء کے اعداد و شمار میں 53 ہزار ملزمان گرفتار ہوئے۔ 80 فیصد سے زائد ملزمان پراسیکیوشن کی خامیوں کی وجہ سے سزائوں سے بچ گئے فیئر ایف آئی آر، فیئر تفتیش اورفیئرپراسیکیوشن سے ہی مجرم کیفرکردار کو پہنچیں گے اور خواتین کو تحفظ میسر آئے گا۔ ہر دور میں ہر حکومت خواتین کے تحفظ کے لئے بلند و بانگ دعوے کرتی ہے مگر عملاً کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ اسلامی سوسائٹی میں حکومتوں کو خواتین کے تحفظ پر تمام وسائل بروئے کار لانے چاہئیں۔