فکر شیخ الاسلام: انداز خطابت نبوی ﷺ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

اللہ تعالیٰ نے جتنے اعلیٰ محاسن اور کمالات نسل بنی آدم کو عطا کئے۔ بالخصوص اعلیٰ و ارفع طبقہ جو انبیاء و رسل کو عطا کیے وہ سارے کمالات حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات میں جمع فرمادیئے۔ انبیاء کرام کو مبعوث ہی اسی لیے کیا جاتا ہے کہ وہ اللہ رب العزت کے پیغام کو مخلوق کے دل و دماغ میں بٹھائیں۔ ان کے دماغوں میں اٹھنے والے سوالات کو دلائل کے ذریعے مطمئن کریں۔ بالآخر پیغام حق کا تائید کرنے والا بنائیں یا یہ سارے مقاصد اسی وقت پورے ہوتے ہیں جب اللہ کا نبی اظہار مافی الضمیر پر قادر ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جو پیغام اس کے دل پر القاء کیا ہے یا فرشتے کے ذریعے اس تک پہنچایا ہے۔ اس کو حسن و خوبی کے ساتھ واضح انداز میں بیان کرنے پر قدرت رکھتا ہو۔ اگر اللہ کا نبی اپنے مافی الضمیر کے اظہار پر قادر نہیں۔

اس کو کھلے کھلے صاف صاف الفاظ میں لوگوں کے سامنے پیش نہیں کرسکتا۔ استدلال کے ساتھ سننے والوں کے ذہنوں کو متاثر نہیں کرسکتا۔ وہ نبی فریضہ نبوت و رسالت سے بھی قاصر رہتا ہے۔ اس لیے خطابت عناصر نبوت میں سے ہے۔ ان کمالات اور محاسن میں سے ہے جن سے اللہ رب العزت اپنے ہر نبی کو نوازتا ہے۔ لہذا خطابت اللہ رب العزت کی بہت بڑی نعمت ہے۔ سورہ الرحمن میں ارشاد فرمایا گیا:

اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ.

(الرحمٰن، 55: 1-2)

ساری رحمتوں کا مالک اللہ ہے۔ جس نے قرآن سکھایا۔

قرآن کیا ہے وہ آسمانی علوم و معارف کا سر چشمہ ہے۔ قرآن سکھانے کا مطلب ہے اللہ رب العزت نے اپنی الوحی علم و معرفت کا سرچشمہ بندے کو عطا کردیا۔ رحمن وہ ہے جس نے انسان کو پیدا فرمایا اور اسے زبان و بیان کی قدرت عطا کی۔ اسے خطاب کا طریقہ عطا کیا۔ اسے مافی الضمیر کے اظہار پر قدرت عطا کی اس کو وہ قدرت عطا کی کہ وہ من کی بات لوگوں سے کرسکے۔ گویا اللہ کی ذات ہر وہ شخص کو یہ نعمت عطا کرتی ہے جس سے اللہ نے اپنی مخلوق کی اصلاح کا کام لینا ہوتا ہے تاکہ اس کی مخلوق کے دل و دماغ کو سکون و اطمینان نصیب ہو۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اولوالعزم پیغمبروں میں سے ہیں انہیں قرآن مجید نے حضور علیہ السلام کے مماثل قرار دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کی بارگاہ میں التجا کرتے تھے:

رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ. وَ یَسِّرْ لِیْٓ اَمْرِیْ. وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْ. یَفْقَھُوْا قَوْلِیْ.

(طٰہٰ، 20: 23۔28)

’’اے میرے رب! میرے لیے میرا سینہ کشادہ فرما دے۔ اور میرا کارِ (رسالت) میرے لیے آسان فرما دے۔ اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔ کہ لوگ میری بات (آسانی سے) سمجھ سکیں۔‘‘

باری تعالیٰ میرا سینہ میرے لیے کھول دے۔ میرے تمام تر حجابات اٹھا دے۔ حقائق میرے اوپر منکشف عطا فرما اور جس کام پر تو نے مجھے متعین فرمایا ہے وہ کام میرے لیے آسان کردے۔ اللہ کا نبی کس قدر قدم قدم پر کار نبوت کے کام میں اللہ کی مددو نصرت کا طلب گار ہے۔ میری زبان کی گانٹھ کھول دے۔ میری زبان کو روانی عطا ہوجائے۔ میں گفتگو کروں تو اس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ اس میں ایسی سلاست تاثیر و روانی عطا کر جن کے کانوں تک بات پہنچے ان کا دل اسے قبول کرلے۔ اس دعا میں موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے چار چیزیں طلب کیں:

1۔ شرح صدر

2۔ تاثیر امر

3۔ سلاست لسانی

4۔ افہام قول

1۔ شرح صدر:

میرے سینے کو کھول دے جو باتیں میری نظر سے نہ گزری ہوں جب میں تیرے کام کی طرف متوجہ ہوں، تیری عنایت خاص سے میرے دل میں القاء ہوتی چلی جائیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنے کسی کام کے لیے منتخب فرماتا ہے تو سب سے پہلی نعمت اس کو شرح صدر دیتا ہے۔ حضور علیہ السلام کو شرف و کمالات عطا کیے فرمایا:

اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ.

(الانشراح، 94: 1)

’’کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (انوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لیے) کشادہ نہیں فرما دیا۔‘‘

ہم نے سارے پردے اٹھادیئے ہیں تیرے سینے کو ہم نے حکمتوں کے چشمے عطا کردیئے ہیں۔ ہم نے اپنے لطائف، حقائق اور معرفت کے چشمے بہادیئے ہیں۔ جب تو متوجہ ہوتا ہے تو ہماری حکمت کے چشمہ کے ساتھ تیرے دل کا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ مضامین ادھر سے اترتے ہیں اور تیری زبان سے اگلتے چلے جاتے ہیں۔ یہ انشراح صدر ہے۔

2۔ تاثیر امر:

پھر دعا مانگی باری تعالیٰ! ’’میں جس طرح قدم اٹھاؤں رکاوٹیں دور ہوتی چلی جائیں، مصائب و آلام راستے سے ہٹتے چلے جائیں۔‘‘

میری عالم غیب سے ایسی مدد کر اپنی نصیحت خاص سے وہ تقویت عطا کر جدھر قدم اٹھاؤں میرے قدم بڑھتے ہی چلے جائیں۔ اللہ کا نبی اللہ کی بارگاہ میں یہ دعا کرتا ہے۔

3۔ سلاست لسانی:

تیسری دعا سلاست لسانی ہے۔ میری زبان کی گانٹھ کو یوں کھول دے کہ جب میں بولنے پر آؤں تو معارف کے سمندر بہادوں، گفتگو میں بہاؤ، روانی و سلاست و ہو کہیں رکاوٹ نہ آئے تاکہ تسلسل ٹوٹنے نہ پائے تاکہ سننے والا ہمہ تن میری بات کو یوں سنے کہ میری زبان سے بات نکلے اور اس کے دل کی گہرائیوں میں اترتی چلی جائے۔ میں جس معنی و مفہوم میں بات کہہ رہا ہوں اسی معنی و مفہوم میں بات ان کے دلوں میں اترتی چلی جائے۔

4۔ افہام قول:

چوتھی بات افہام قول استدلال کی قوت عطا ہو۔ زبان کی تاثیر عطا ہو، سلاست لسانی ہے۔ گفتگو میں تاثیر اللہ کی بارگاہ میں انبیاء کرام طلب کرتے رہے اور انبیاء علیہم السلام کو عطا بھی ہوتی رہیں۔

جب موسیٰ علیہ السلام کو منصب رسالت سونپا جاتا ہے تو آپ اللہ رب العزت سے ایک معاون طلب کرتے ہیں کہ حضرت ہارون علیہ السلام کو میرا معاون بنادے۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام کو کیوں معاون کے طور پر طلب کیا جارہا ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام جواب دیتے ہیں کہ ان کی زبان میں مجھ سے زیادہ فصاحت وبلاغت ہے۔ مجھ سے زیادہ استدلال اور روانی ہے۔ اس لیے کہ ایسا شخص میرے پیغام کو زیادہ بہتر انداز میں آگے پہنچاسکتا ہے۔ اللہ رب العزت اس کی التجاء کو قبول فرماتے ہیں۔ اس لیے قرآن مجید حضرت داؤد علیہ السلام کی نسبت بیان کرتا ہے۔ باری تعالیٰ نے فرمایا:

وَاٰتَیْنٰـهُ الْحِکْمَةَ وَ فَصْلَ الْخِطَابِ.

(ص، 38: 20)

’’اور ہم نے انہیں حکمت و دانائی اور فیصلہ کن اندازِ خطاب عطا کیا تھا۔‘‘

ہم نے داؤد علیہ السلام پر نعمت کی اور کار نبوت کے مقاصد کے حصول کے لیے اسے حکمت و دانائی بھی عطا کی۔ خطاب میں تاثیر اور روانی بھی عطا کی۔ خطابت حکمت و دانائی کے بغیر ہو تو بے معنی ہے۔ اگر سینوں کا انشراح نہ ہوا ہو اللہ کی طرف سے حقائق نصیب نہ ہوئے ہوں تو وہاں سے لغو و فضولیات نکلتی ہیں۔ جیسے خطاب بغیر حکمت کے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اس لیے حکمت بغیر خطاب کے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اگر اندر تو بہت کچھ ہو مگر اظہار پر قدرت نہ ہو۔ لوگوں کو پہنچانے کی طاقت نہ ہو تو حکمت اس کی ذات تک محدود ہوکر رہ جاتی ہے۔ وہ مخلوق خدا کو فائدہ نہیں پہنچاتا۔ اس لیے داؤد علیہ السلام کو حکمت و دانائی بھی عطا کی اور مخلوق خدا تک پہنچانے کے لیے قدرت خطاب بھی عطا کی۔

حضرت شعیب علیہ السلام کے بارے میں فرماتے ہیں: کانا شعیباً خطیب انبیاء. (ترمذی)

حضرت شعیب علیہ السلام گروہ انبیاء علیہم السلام کے بہت بڑے خطیب تھے۔ پھر قرآن مجید تمام انبیاء علیہم السلام کے بارے میں نسبت عمومیہ کلیہ بیان کرتے ہوئے کہ ہم نے آج تک کسی قوم کی طرف کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اسے اس قوم کی زبان میں بھیجا تاکہ وہ اپنی بات جو ہماری طرف سے عطا ہوئی کھول کھول کر اچھی طرح سمجھا سکے۔ قرآن کے بارے میں فرمایا:

وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ.

’’اور ہم نے آپ پر وہ عظیم کتاب نازل فرمائی ہے جو ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے ۔‘‘

قرآن خود بھی خطاب ہے جو چیزوں کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں سلاست ہے روانی ہے۔ اس کے الفاظ میں نغمگی ہے، ترنم ہے،آبشاروں کی طرح کا بہاؤ ہے۔ معنی و معارف اور مطالب کا ابلتا ہوا سمندر ہے۔

قرآن کے الفاظ میں تاثیر ہے فیصلہ کن انداز ہے، موثر انداز ہے، کافر بھی سن لیتے تو

فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ.

(الحجر، 15: 94)

’’پس آپ وہ (باتیں) اعلانیہ کہہ ڈالیں جن کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اور آپ مشرکوں سے منہ پھیر لیجیے۔‘‘

سجدہ ریز ہوجاتے صرف قرآن کو سن کر وہ حسن و خوبی جو کائنات کے بڑے بڑے خطیبوں کو میسر نہیں آتی وہ خود قرآن کے الفاظ میں ہے۔ پھر جب حضور علیہ السلام کا ذکر آیا۔ ہر نبی کو حکمت عطا کی تھی۔ فصاحت و بلاغت عطا کی تھی۔ زبان و بیان کی قدرت اس کے اپنے منصب و ضرورت کے مطابق عطا کی تھی۔ جب رسول پاک ﷺ کی بعثت کا وقت آیا تو حضور ﷺ کو ایسی قوم میں مبعوث فرمایا گیا جس معاشرے میں خطابت کا فن بہت عروج پر تھا۔

ارسطو نے خطابت پر بہت کام کیا۔ رومیوں نے اس پر بہت کام کیا چلتے چلتے عرب تک پہنچا تو خطابت کا فن بام عروج تک پہنچ گیا۔ بڑے بڑے عرب فصیح و بلیغ خطیب تھے،کھڑے کھڑے فصیح و بلیغ تقریریں کرتے اونٹوں پر چلتے چلتے فصیح و بلیغ تقریریں کرتے۔ وہ قوم اپنے فصاحت و بلاغت پر اتنی نازاں تھی، اتنی اکڑی تھی وہ خود کو صاحب زبان کہتی باقی ساری مخلوق کو عجمی یعنی گونگا کہتی۔ اس قوم میں جب رسول ﷺ کو بھیجا تو خطاب میں کتنا کمال عطا کرکے بھیجا تھا۔ جس قوم کے اکثر لوگ بہت بلند پایہ خطیب تھے ان میں بھیجے جانے والے نبی کو خطابت و تقریر میں بلند مقام عطا کیا۔ اس لیے جب حضور ﷺ تشریف لائے۔ آپ ﷺ نے اہل عرب سے فرمایا لوگو! بے شک تم ساری کائنات سے بڑھ کر خطیب ہو مگر محمد ﷺ سب سے زیادہ فصیح ہے۔ یہ بہت بڑا چیلنج تھا۔

آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ زبان عطا کی ہے میں چند لفظوں میں بیان کے سمندر سمودیتا ہوں۔‘‘ آپ ﷺ نماز عصر پڑھ کر منبر پر کھڑے ہوئے۔ دو اڑھائی گھنٹوں میں مخلوق تک لوگوں کے جنت سے دوزخ تک چلے جانے تک سب کچھ بیان کردیا دو گھنٹے میں پوری کائنات کی تاریخ بیان فرمادی۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:

’’یہ عظمت جو مجھے عطا ہوئی ہے نبیوں میں بھی میرا کوئی شریک نہیں، مجھے منفرد بنایا‘‘ اس اعتبار سے حضور علیہ السلام بہت اولوالعزم جلیل القدر خطیب تھے۔ حضور علیہ السلام کا معجزانہ اثر رکھنے والا خطاب تھا جو کوئی سنتا اس کا دل حضور ﷺ کی گرفت میں آجاتا۔ حضور علیہ السلام کے انداز خطابت کا احاطہ کوئی خطیب نہ کرسکتا ہے نہ ہی ذہنی اعتبار سے اس کا حق ادا کرسکتا ہے۔

آپ ﷺ کے اندازِ خطابت کے اہم نکات درج ذیل ہیں:

i۔ حسن صوت:

اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ السلام کو حسن صوت عطا کیا کسی بھی خطیب کی پہلی خوبی یہ ہوتی ہے۔ اس کی آواز میں شیرینی ہو۔ اس میں حلاوت ہو، آواز کرخت ہوگی، آواز بھدی ہوگی دلوں و کانوں کو خوش گوار نہ لگے گی تو پھر اس کے سارے خطابت کے جوہر دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ اللہ رب العزت نے حضور علیہ السلام کو حسن صوت عطا کیا۔ حضور علیہ السلام تصنع و بناوٹ کے ساتھ نہیں پڑھتے تھے۔ مترنم آواز میں گفتگو نہیں فرماتے تھے مگر سادگی اور بے تکلفی میں گفتگو کرتے اور ہر ہر لفظ میں شیرینی ہوتی حلاوت ہوتی کہ سننے والے کے دل موہ جاتے۔ پس خطاب سُر لگاکر بات کرنا حضور علیہ السلام کی سنت نہیں ہے۔ اس سے گفتگو کا وقار و تمکنت ختم ہوجاتی ہے۔ آپ ﷺ خواہ اونچی آواز میں گفتگو کرتے یا نیچی آواز میں دونوں صورتوں میں گفتگو میں ایک خوبصورتی پائی جاتی۔

ii۔ فصاحت و بلاغت

کوئی شخص اس وقت تک خطیب نہیں ہوسکتا جب تک اسے زبان و بیان پر اسے قدرت نہ ہو۔ فصاحت و بلاغت سے مراد زبان میں پختگی شائستگی ہو، اچھے الفاظ کا انتخاب کرسکتا ہو، برے الفاظ، اخلاق سے گرے ہوئے الفاظ سے اپنی گفتگو کو پاک رکھتا ہو۔ اس کی گفتگو میں حسن ادب ہو۔ کبھی صریح بات کرے کبھی مجاز میں بات کرے، کبھی حقیقت کبھی کنایہ و اشارہ میں بات کرے، کبھی استفہام میں بات کرے، کبھی ہنسانے کی بات کرے، کبھی ڈرانے کی بات کرے، ہر رنگ میں اس کی گفتگو فصیح و بلیغ ہو کہ دل میں ہر ہر لفظ اترا چلا جائے۔ جیسے ہم دیکھتے ہیں قرآن کی زبان فصیح و بلیغ ہے۔

فصیح و بلیغ زبان کی خوبی یہ ہے کہ وہ مرقع بھی ہو لیکن مشکل نہ ہو۔ ایسا نہ ہو کہ سننے والا اس کی زبان کا ترجمہ ہی کرتا رہ جائے۔ اس کے الفاظ کا مفہوم ہی تلاش کرتا رہ جائے، جو کچھ مقرر یا خطیب نے کہا وہ آگے نکل جائے سننے والے کو پتہ نہ چلے۔ یہ فصاحت و بلاغت کے خلاف ہے۔ رسول پاک ﷺ کوئی شاعر نہ تھے کہ بات عبارتوں میں کرتے نہ کہ وزن کافیہ و بحر میں بات کرتے جو کلام حضور علیہ السلام پر اتارا گیا وہ بھی شعر نہ تھا۔ وما ینبغی لوگو جو کلام حضور علیہ السلام پر اتارا ہے کوئی شاعری نہیں تھا اور نہ ہی شاعری حضور علیہ السلام کے منصب کے شایان شان ہے۔ حضور علیہ السلام کا کلام بھی شاعری تھا، نہ حضور علیہ السلام غزل کہتے نہ نظم کہتے لیکن جو چاشنی نظم میں نظر آتی ہے آواز کا بہاؤ کافیہ، بحر کا رنگ جو نظم و شاعری میں نظر آتا ہے وہ ساری چیزیں علیہ السلام کی نثر میں تھی۔

پتہ چلتا ہے کہ حضور علیہ السلام کی زبان کتنی فصیح تھی، نمونے کے طور پر ایک حدیث مبارکہ ہے، شاعری نہیں لیکن کتنا حسن ان کلمات میں ہے۔

کلمتان جیبتان الی الرحمن حفیفتان علی اللسان ثقیلتان فی المیزان، سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم.

فرمایا دو کلمے ایسے ہیں جو بہت محبوب ہیں رحمت والے رب کے نزدیک زبان پر ہلکے ہیں اور بہت بھاری ہیں اجرو ثواب کے ترازو میں۔

بخاری شریف میں فاسق و فاجر کے تلاوت قرآن کرنے کے باب میں آتا ہے۔ حضور علیہ السلام تفسیر و تمثیل کے پیرائے میں گفتگو فرماتے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا:

جو شخص مومن ہے وہ قرآن کی تلاوت کرتا ہے اس کی مثال ایسے پھل کی سی ہے جس کا ذائقہ بھی میٹھا ہے جس کی خوشبو بھی اچھی ہے۔ جو اعمال تو نیک نہیں کرتا وہ گناہ گار ہے۔ جو شخص جس کے اعمال نیک ہوں۔ مگر قرآن کی تلاوت نہیں کرتا اس کی مثال کھجور جیسی ہے جس کا ذائقہ تو میٹھا ہے لیکن خوشبو کوئی نہیں ہوتی۔ جو شخص گناہ گار ہے لیکن عمل نہیں کرتا مگر قرآن کی تلاوت کرتا ہے۔ اس پودے جیسی ہے جس میں خوشبو ہے لیکن ذائقہ کڑوا ہے۔ جس کا عمل بھی خراب ہے وہ قرآن کی تلاوت بھی نہیں کرتا۔ اس کی مثال اس پھل جیسی ہے کھانے کے اعتبار سے بھی کڑوا ہے اور بو کے لحاظ سے بھی اچھا نہیں چار باتیں کی اور چاوں کو تمثیل کے انداز میں بیان کیا۔

اس طرح گفتگو فرماتے کبھی استعارہ کا بیان ہوتا، کبھی حقیقت کا رنگ ہوتا، کبھی مجاز کا رنگ ہوتا، کبھی صریح کا رنگ ہوگا، کبھی کنایہ کا رنگ ہوتا۔

iii۔ اندازِ استفہام:

تیسرا عنصر حضور ﷺ کی خطابت کا استفہام تھا کہ اپنی تقریر کا آغاز سوال سے کرتے۔ سوال ایسا کرتے کہ سوال سے ہی لوگوں کو بات کی سمجھ آجاتی۔ یہ انداز استفہام تھا۔ خطبہ حجۃ الوداع میں بھی حضور علیہ السلام نے اس انداز کو اپنایا۔ غزوہ حنین میں حضور علیہ السلام نے خطبہ دیا وہ بھی اپنی مثال آپ تھا۔ حنین کی جنگ ہوئی۔ غزوہ سے جتنا مال غنیمت آیا وہ مال غنیمت آقا علیہ السلام نے سارا تقسیم فرمادیا۔ دو قریشی جو غیر مسلم تھے ان کی تالیف قلب کے لیے ان پر خصوصی رحمت کی تاکہ وہ اسلام کی طرف راغب ہوسکیں۔ اس پر چند انصاری نوجوان برہم ہوگئے۔ انہوں نے اعتراض اٹھایا کہ خون ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے۔ مال سارامحمد ﷺ نے قریشی لوگوں کو تقسیم کردیا ہے۔ کہنے لگے معاذ اللہ اس نبی کو اللہ ہی معاف فرمائے۔ آقا علیہ السلام کے کانوں تک یہ بات پہنچی۔ حضور علیہ السلام خیمے میں تشریف لے گئے سارے انصار کو جمع کیا۔ مجھ تک یہ بات پہنچی کہ بعض نے یہ کہا سرداران قریش کہنے لگے۔

آقا علیہ السلام ہم معافی کے خواستگار ہیں، جذباتی اور کم عمر لوگوں نے ایسی بات کہی حضور علیہ السلام نے کہا سنو! سارے لوگوں کو بٹھا لیا اور کھڑے ہوکر استفہام کے انداز میں خطابت فرمانے لگے۔ لوگو! جب میں تمہارے پاس آیا تم گمراہ تھے۔ اللہ نے میرے سبب تمہیں ہدایت دی، تم متفرق تھے اللہ نے میرے سبب سے تمہیں مجتمع کردیا، تم محتاج تھے اللہ نے تمہیں غنی اور مالدار کردیا۔ آپ ﷺ فرماتے جارہے تھے، انصار اپنے سروں کو جھکاکر فرماتے جارہے تھے۔ حضور ﷺ آپ سچے ہیں، آپ صادق ہیں جب یہ گفتگو ہوچکی۔ آپ ﷺ ان سے مخاطب فرماکر یہ کہتے کہ انصاریو! تم اسی کے جواب میں یہ کیوں نہیں کرتے کہ جب آپ ﷺ ہمارے پاس اس وقت آئے جب لوگ آپ کی تکذیب کررہے تھے۔ ہم نے آپ کو سچا کہا، کہو کہ جب تم آئے تو آپ ﷺ گھر سے نکالے گئے تھے ہم نے آپ کو گھر دیا۔ کہو اے نبی! جب تم آئے تم بے سہارا تھے ہم نے تمہیں سہارا دیا۔ جب یہ سوال نکلتے رہے تو انصاریوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہہ نکلا۔ جب یہ کیفیت پیدا ہوگئی فرمایا: لوگو! تم نے میری تقسیم پر اعتراض کیا ہے اس رب کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے۔ میں نے انہیں بکریاں دی ہیں۔ انہیں اونٹ دیئے ہیں، جب وہ گھروں کو جائیں گے تو اونٹ، بکریاں اور مال غنیمت لے کر جائیں گے۔ اس کے مقابلے میں تم گھروںکو جاؤ گے تو محمد ﷺ کو گھروں کو لے کر جاؤ گے۔ یہ ان کی بکریوں، اونٹوں سے کہیں بلند ہے، کیا تمہیں تقسیم پسند نہیں۔ وہ گھروں میں دنیا کا مال لے کر جائیں اور تم گھروں کو محمد ﷺ لے کر جاؤ۔ اس کے بعد آوازیں بلند ہوگئیں کہ راضینا یارسول ﷺ ہم آپ کی تقسیم پر راضی ہیں۔ آپ کے انداز میں استفہام تھا جب آپ ﷺ نے خطاب کیا۔

iv۔ جوشِ خطابت:

ایک اور چیز آپ کے خطاب میں جوش خطابت اور بلندی صوت تھا۔ جب آپ ﷺ خطاب فرماتے حضور ﷺ کے بیان میں جوش آجاتا، آواز بلند ہوجاتی، آپ کی تقریر، خطاب میں اتنا جوش ہوتا کہ چشمان مقدس سرخ ہوجاتی۔ اتنی دور دور تک حضور ﷺ کے خطاب کی آواز جاتی ہے۔ اس قدر جوش سے حضور علیہ السلام خطاب فرماتے جس قسم کا حضور ﷺ خطاب فرماتے اسی قسم کی کیفیات حضور علیہ السلام پر وارد ہوجاتیں۔ حضور ﷺ اس قدر جوش سے خطاب کرتے یوں لگتا کسی فوج کو جنگ کے لیے تیار کررہے ہوں۔ ان کے دلوں میں جوش و خروش اور ولولے کی آگ بپا کردیتے۔ پھر حضور ﷺ کے خطاب کاعنصر کیفیات کا تھا حضور علیہ السلام جس قسم کا مضمون بیان فرماتے اسی قسم کی کیفیات حضور علیہ السلام پر وارد ہوجاتیں۔ کیفیات کا یہ عالم تھا جب اللہ کا پیغام خلق تک پہنچاتے۔ لوگوں کو بدکاریوں اور برے انجام سے بچانے کی بات کرتے تو حضور علیہ السلام پر ایک جلال کی کیفیت طاری ہوتی۔ جسم اطہر پر جلال کا رنگ ہوتا ہے جس میں آنکھ سرخ ہوتیں، آواز بلندہوتی۔ حضور علیہ السلام کی انگلیاں اٹھتیں کسی چیز کو کھلے کا ذکر ہوتا تو ہاتھ کو کھول دیتے اگر بند کرنے کا ذکر آتا تو مٹھی کو بند کردیتے۔ کیفیات کے ساتھ ساتھ پورے جسم اطہر میں حرکت آجاتی۔ کبھی دائیں طرح حضور علیہ السلام متوجہ ہوتے کبھی بائیں طرف حضور علیہ السلام اپنا چہرہ اقدس پھیر دیتے۔ سارا جسم میں حرکت کی کیفیت پیدا ہوجاتی جو بات زبان اقدس سے نکلتی سارا جسم اس کی تائید کررہا ہوتا۔

حضرت عبداللہ ابن عباسؓ ابن ماجہ کی حدیث مبارکہ ہے میں نے منبر پر کھڑے ہوکر حضور علیہ السلام کو تقریر کرتے ہوئے دیکھا حضور بآواز بلند اس طرح تقریر فرمارہے تھے کبھی حضور علیہ السلام دائیں ہوتے ، کبھی بائیں ہوتے، میں نے اس منبر کو دیکھا جس پر حضور علیہ السلام تشریف فرما تھے۔ وہ منبر حرکت میں تھا میں نے بار بار سوچا کہ منبر حضور علیہ السلام سمیت نیچے گر پڑے گا۔ اس کا حاصل یہ ہے وہ خطاب جو صاحب جذبات کی عکاسی نہیں کرتا تو یہ بھی قول و عمل کی عدم مطابقت ہے جو لوگ اپنے دل کی گہرائیوں سے بات نکالتے ہیں جن کے خون کی تپش سے بات نکلتی ہے تو پورا جسم اس کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ان کے خطاب اور عمل میں مطابقت ہوتی ہے۔ اس انداز سے جب حضور علیہ السلام خطاب کرتے، لوگ ان کے خطاب اور انداز سے بھی متاثر ہوتے۔

v۔ ہمہ جہت خطابت

آپ کے خطاب کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ ہمہ جہت خطاب صرف وعظ اور نصیحت مسائل کے انداز میں نہ ہوتا مسائل، حج و زکوٰۃ اور روزہ کا بیان نہ ہوتا۔ جامع خطاب ہوتا۔ اسی خطاب میں حکمرانوں کی اصلاح کی بھی بات کی جاتی، اسی خطاب میں بندوں کو رب سے جوڑنے کی بات بھی کی جاتی۔ اسی خطاب میں آمادہ جہاد کی بات کی جاتی، اسی خطاب میں اپنا تن من دھن اللہ کی راہ میں قربان کرنے کی بھی بات کی جاتی۔ کبھی دائمی مسائل پر خطاب ہوتا کبھی ہنگامی مسائل پر خطاب ہوتا۔ کبھی عائلی موضوعات پر کبھی سیاسی موضوعات پر ہوتا، کبھی سیاست کے موضوع پر گفتگو فرماتے۔ لگتا کوئی فلسفہ سیاست کا امام بول رہا ہے جب اقتصادیات پر بات کرتے تو لگتا کہ کوئی ماہر اقتصادیات بات کررہا ہے۔ روحانیت پر بات کرتے تو پتہ چلتا کہ کوئی صاحب روحانیت بات کررہا ہے۔

الغرض موضوع سخن جس طرح پلٹ جاتا بحر بے کنار کی طرح حضور ﷺ گفتگو فرماتے۔ حضور ﷺ معارف کے خزانے لٹاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ خطاب کے ذریعے نہ صرف لوگوں کو ڈرایا نہیں جاتا تھا بلکہ جرات و شجاعت عطا کی جاتی تھی۔ الغرض حضور علیہ السلام اپنے خطابت کے رنگ میں عدیم المثال تھے۔ تاریخ کے خطبہ میں سے نہ کوئی پہلے حضور ﷺ جیسا خطیب آیا نہ کوئی قیامت تک حضور علیہ السلام جیسا خطیب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ السلام کے خطابت کو ایسا رنگ اور ڈھنگ عطا کیا کہ آج بھی دنیا آپ کے انداز خطابت کی پیروی کرتی ہے۔