باب الاسلام سندھ کی فتح، نتائج اور اثرات

ڈاکٹر انیلہ مبشر

ہندوستان میں اسلام جیسے عالمگیر مذہب کی آمد اور حکمرانی کا سلسلہ باب الاسلام سندھ کی فتح سے ہوا۔ نورِ اسلام کی ابتدائی کرنیں اسی عظمت کدہ میں اتریں اور اہل سندھ کو احترام انسانیت، رواداری، فراغ دلی، فیاضی طبع، بے تعصبی اور معاشرتی انصاف جیسی اعلیٰ و ارفع اسلامی اقدار سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ بقول احمد بن یحییٰ بلازری مصنف ’’فتوح البلدان‘‘ فتح سندھ سے فاتحین اور مفتوحین کے درمیان محبت و یگانگت کا گہرا رشتہ قائم ہوا۔ یقینا یہ رشتہ مذہب، سیاست، معاشرت، ثقافت اور علوم و فنون جیسے تمام شعبہ جات کا احاطہ کیے ہوئے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خطہ سندھ پر اسلامی تہذیب و تمدن کے ان مٹ نقوش مابعد کے ادوار میں واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔

سندھ پر مہم جوئی کی ابتدا:

عرب اور ہندوستان کے درمیان قدیم الایام سے تجارتی روابط قائم تھے۔ انقلاب اسلام کے باوجود یہ تجارتی تعلقات منقطع نہ ہوئے۔ مسلمان تاجر اپنی کشتیاں اور عربی جہاز لے کر عرب سے ہندوستان اور سراندیپ (سری لنکا) کے سواحل پر آتے جاتے۔ ہندوستان کے ساحلی علاقوں سے لے کر لنکا تک عرب تاجروں نے اپنی نو آبادیاں قائم کررکھی تھیں۔ سیاسی اعتبار سے اسلامی عرب اور خطہ ہندوستان کا پہلا واسطہ آغاز اسلام کے تھوڑے ہی عرصہ بعد حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت میں ظہور پذیر ہوا۔ مشہور مورخ طبری کے مطابق حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں سرکاری طور پر مہم جوئی حکم بن عمرو کے ذریعے انجام پائی۔ انھوں نے اسلامی فوج کے ہمراہ مکران کی مہم کے دوران سندھ اور ایران کی مشترکہ افواج سے جنگ کی اور انہیں شکست دی۔

حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں بحرین کے عرب گورنر عثمان بن ابی العاص ثقفیؓ نے اپنے دو بھائیوں حاکم اور مغیرہ کی مدد سے ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں جہاد کیا۔ ہندوستان کے تین ساحلی مقامات پر مجاہدین اسلام کی تشریف آوری ہوئی ان میں ایک تھانہ (متصل بمبئی) بھڑوچ (گجرات) اور دیبل (متصل کراچی) شامل ہیں۔ حضرت عمرؓ دور دراز بحری مہمات کے حق میں نہ تھے اس لیے انہوں نے سرکاری طور پر ان مہمات کو آگے بڑھانے کے احکامات صادر کرنے سے انکار کردیا۔ البتہ مکران پر مسلمانوں کا قبضہ ہوچکا تھا جو سندھ کی سرحد پر واقع تھا۔ اس کے بعد عربوں نے خلیفہ ولید بن عبدالملک عہد تک ہندوستان پر باقاعدہ مہم جوئی نہ کی مگر چند اہم واقعات نے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کردیا۔

فتح سندھ کا پس منظر:

اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں گورنر عراق حجاج بن یوسف مشرقی مفتوحہ علاقوں کا نگران تھا۔ حجاج بن یوسف اسلامی تاریخ میں سخت گیری، بہادری، انتظامی قابلیت کے ساتھ ساتھ جذبہ جہاد و فتوحات کے لیے مشہور تھا۔ سندھ پر اس وقت راجہ داہر کی حکومت تھی جس کے اسلامی سلطنت سے تعلقات کشیدہ تھے۔ اس نے ان باغی عربوں کو پناہ دے رکھی تھی۔ جنہوں نے مکران کے مسلم گورنر سعید بن اسلم کو قتل کیا تھا۔ راجہ داہر نہایت متعصب برہمن زادہ تھا جس نے اپنی رعایا اور بدھ مت کے پیروکاروں پر بے پناہ ظلم ڈھائے ان مظلومین میں جاٹ اور بویان قومیں بھی شامل تھیں۔

اس کے برعکس جزیرہ لنکا کا راجہ دربار خلافت سے دوستانہ مراسم کا خواہاں تھا۔ چنانچہ کچھ جہاز ان تحائف سے لدے ہوئے عرب آرہے تھے جو لنکا کے راجہ نے خلیفہ اسلام کی خدمت میں بھجوائے تھے۔ ان کے ساتھ کئی مسلمان تھے جو حج کی نیت سے جارہے تھے۔ ان میں مسلمان تاجروں کی بیویاں اور بچے بھی تھے جو لنکا میں وفات پاگئے تھے۔ مگر ان حجازوں کو ساحل دیبل کے قریب بحری قزاقوں نے لوٹ لیا۔ عورتوں، بچوں اورمردوں کو قیدی بناکر سندھ میں لے گئے۔ انہی میں ایک عورت قبیلہ بنی یربوع کی تھی جو پکاری ’’یا حجاج اغشنی‘‘ کہ اے حجاج ہماری مدد کو پہنچ۔ حجاج بن یوسف کو اس واقعہ کا علم ہوا تو وہ جوش غضب سے کانپ اٹھا اور راجہ داہر سے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا مگر راجہ داہر نے نہایت غیر ذمہ دارانہ جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان بحری قزاقوں پر ہماری کوئی گرفت نہیں تم خود ہی اپنے قیدی چھڑا لو۔ چنانچہ تادیبی کاروائی کے طور پر حجاج بن یوسف نے 710ء میں یکے بعد دیگرے دو مہمات عبیداللہ اور بدیل کی سرکردگی میں روانہ کیں مگر دونوں سپہ سالار میدان جنگ میں شہید ہوئے اور یہ مہمات ناکام ہوئیں۔

محمد بن قاسم اور فتح سندھ:

حجاج بن یوسف کو ان شکستوں کا بہت صدمہ تھا چنانچہ خلافت اسلامیہ اور امارت حجاج کے وقار کی خاطر اس نے اپنے ترکش کا بہترین تیر آزمانے کا ارادہ کیا۔ اس مہم کے سپہ سالار کے طور پر اپنے داماد اور بھتیجے محمد بن قاسم ثقفی کا انتخاب کیا جو اس وقت حاکم فارس تھا اور ایرانی فتوحات میں بطور سپہ سالار عسکری ذہانت اور فہم و فراست کا مظاہرہ کرچکا تھا۔ اس نے چھ ماہ شیراز میں رہ کر ہند سندھ میں جہاد کا مکمل انتظام کیا۔ حجاج بن یوسف نے دربار خلافت سے چھ ہزار شامی فوج روانہ کی۔ محمد بن قاسم کی اپنی سپاہ اور رضا کار مجاہدین کی بدولت اس کی تعداد بارہ ہزار کے قریب ہوگئی۔ بحری راستے سے جہازوں کا ایک بیڑہ بھی سامان رسد اور قلعہ شکن منجنیقیں لے کر روانہ ہوچکا تھا۔ جس میں عروس نامی منجنیق شامل تھی جسے 500 آدمی حرکت دیتے تھے۔ محمد بن قاسم اپنی سپاہ کے ہمراہ مکران سے ہوتا ہوا خشکی کے راستے سندھ میں داخل ہوا اور اپنی لاجواب عسکری قابلیت کی بدولت ارمابیل (لس بیلہ) کو تسخیر کیا اور یہاں قلعہ کا کنٹرول سنبھال لیا۔

اب محمد بن قاسم کی اگلی منزل دیبل تھی جو راجہ داہر کی سلطنت کا مشہور شہر اور بندرگاہ تھا۔ اسلامی فوج کی آمد پر یہاں کے باشندے قلعہ بند ہوگئے۔ شہر کے گرد فصیل بہت مضبوط اور چوڑی تھی۔ شہر کے وسط میں ہندوئوں کا مشہور مندر تھا۔ جس کے گنبد پر سرخ جھنڈا لہراتا تھا۔ عوام کا عقیدہ تھا کہ جب تک یہ جھنڈا بلند رہے گا کوئی شہر کو فتح نہیں کر پائے گا۔ دوران محاصرہ محمد بن قاسم نے گنبد اور جھنڈے پر عروس منجنیق سے سنگباری کا حکم دیا۔ جس سے گنبد ٹوٹ گیا اورجھنڈا زمین بوس ہوگیا۔ اہل شہر کی ہمت پست ہوگئی۔ مسلم جانباز کمال بہادری سے کمند ڈال کر فصیل پر چڑھ گئے اور سخت جنگ کے بعد شہر پر محمد بن قاسم کا قبضہ ہوگیا۔ مسلم قیدیوں کو رہائی دلوائی گئی جو جنگ کا موجب بنے تھے۔

اہل شہر حیران تھے کہ مسلم فاتحین نے نہ شہر کو لوٹا نہ قتل عام کیا اور نہ ہی عورتوں کو بے آبرو کیا۔ محمد بن قاسم کے حسن سلوک کی شہرت چہار سو پھیل گئی۔ چنانچہ دیبل سے تھوڑی مسافت پر نیرون (موجودہ حیدر آباد کے قریب) کے راجہ بھدرکن نے جنگ سے گریز کرتے ہوئے ہتھیار ڈال دیے اور اسلامی فوج کا پرتپاک استقبال کیا۔ اسی طرح برج کی آبادی بھی اطاعت گزار رہی۔ اس کے بعد اہم شہر سیوستان (سہوان) تھا۔ سہوان کا راجہ بجرا راجہ داہر کا بھتیجا تھا۔ اس نے ابتدا میں قلعہ بند ہوکر جنگ کی مگر وہ اہل شہر میں غیر مقبول تھا۔ جس پر شہریوں نے بغاوت کرتے ہوئے اسلامی فوج کی اطاعت قبول کی اور راجہ بجرا رات کے اندھیرے میں راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوا۔ محمدبن قاسم نے سیم پر قبضہ کے بعد راجہ داہر کے پایہ تخت پر فوج کشی کا ارادہ کیا گیا۔

سندھ میں محمد بن قاسم کا سب سے اہم مقابلہ راجہ داہرکی فوج سے ہوا جو دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر خیمہ زن تھی۔ دونوں افواج کے درمیان دریائے سندھ حائل تھا۔ راجہ داہر نے جابجا تیر انداز متعین کردیئے تاکہ مسلمان دریا عبور نہ کرسکیں مگر عسکری فہم و فراست کے ماہر محمد بن قاسم نے رات کی تاریکی میں کمال سرعت سے کشتیوں کو جوڑ کر ایسا پُل بنایا کہ اسلحہ جنگ سمیت فوج کو مشرقی ساحل پر اتار دیا۔ آخری معرکے میں دونوں افواج آمنے سامنے صف آرا تھیں۔ راجہ داہر پرشکوہ اور کوہ پیکر ہاتھیوں کی صف کے ساتھ سپید ہاتھی پر سوار تھا۔ اس کے جلو میں اس کا بیٹا جے سنگھ دس ہزار فوج کے ہمراہ موجود تھا۔ تیس ہزار پیدل سپاہ بھی موجود تھی۔ آغاز جنگ میں ہی کئی خونریز معرکے ہوئے۔ ہاتھیوں کی دیوار آہن کے سامنے مسلمانوں کا زور نہ چلتا تھا چنانچہ انہوں نے نفت کے ذریعہ آگ برسانا شروع کردی تو ہاتھی بدحواسی میں بھاگے۔ خود راجہ داہر کا ہاتھی بھی بھاگنے پر مجبور ہوا۔ بعد ازاں راجہ داہر کے بہت سے سردار مارے گئے تو وہ عام سپاہیوں کے ہمراہ پاپیادہ لڑتے ہوئے مارا گیا۔ سندھی فوج کو شکست ہوئی اور میدان مسلمانوں کے ہاتھ رہا۔

یہ معرکہ حق و باطل 20 جون 712ء مطابق 10رمضان المبارک 93ھ کے دن وقوع پذیر ہوا اور سندھ باب الاسلام قرار پایا۔ مسلمان ہر سال 10 رمضان المبارک کو یوم باب الاسلام مناتے ہیں۔ راجہ داہر کی شکست کے بعد برہمن آباد سے ملتان تک کا علاقہ بآسانی مسلم تسلط میں آگیا۔ اس طرح برصغیر پاک و ہند میں سب سے پہلے اسلام کی شمع منور کرنے کا شرف اسلام کے جواں سال بطل جلیل محمد بن قاسم ثقفی کو حاصل ہوا۔

فتح سندھ کے نتائج و اثرات:

محمد بن قاسم نے ہندوستان میں چار سالہ مختصر قیام کے دوران اور اس کے بعد آنے والے عرب حاکموں نے سندھ میں جس نظم و نسق کو جاری کیا وہ معاشرتی انصاف، رواداری اور رعیت پروری پر مبنی تھا۔ محمد بن قاسم نے ہندوئوں کو ذمیوں کا درجہ دے کر اپنا معاون و شریک بنایا۔ راجہ داہر کے وزیر سی ساگر کواپنا مشیر خاص بنایا۔ ہندوئوں کے پرانے نظام کو حتی الوسع تبدیل نہ کیا گیا۔ مثلاً مسلمانوں کے مقدمات کا فیصلہ قاضی کرتے مگر ہندوئوں کے لیے ان کے شخصی قوانین اور پہنچائتیں بدستور قائم رہیں۔ ہندوئوں کو مندروں میں ہر طرح کی مذہبی آزادی حاصل تھی۔ ان اقدامات سے حاکم و محکوم میں بہترین تعلقات استوار ہوئے۔ یہ ایک ایسا نظام تھا جسے شمالی ہند میں مسلم ترک حکمرانوں نے بھی جاری رکھا۔

سندھ و ملتان میں مسلم فتوحات کے بعد اسلامی تہذیب و تمدن کے فروغ کے آثار نمایاں طور پر نظر آتے ہیں مثلاً حجاج بن یوسف نے محمد بن قاسم کو حکم دے رکھا تھا کہ جہاں بھی کوئی قدیم موضع اور مشہور قصبہ و شہر ہو وہاں مسجدیں اور منبر تعمیر کیے جائیں۔

چنانچہ دیبل سے متعلق بلازری کا بیان ہے کہ محمد بن قاسم نے پیمائش کرکے زمین کے قطعات مسلمانوں میں تقسیم کیے۔ مسجد بنوائی اور چار ہزار مسلمانوں کو آباد کیا۔

بعد ازاں یہ مساجد علوم و فنون کے مراکز ثابت ہوئی۔ کوفہ و بصرہ سے علماء و مشائخ کی آمدو رفت جاری ہوئی۔ اہل عرب کے طرز پر یہاں حلقہ درس جاری ہوئے۔ ساتھ ہی ساتھ اولیاء کرام اور بزرگان دین کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہوا اور اسلام کی نشرو اشاعت کا سامان ہوا۔ سندھ میں شیخ ابوتراب تبع تابعی المتوفی 788ء کے مرزار عہد اسلامی کی سب سے قدیم زیارت گاہ ہے۔ سندھ میں اسلامی علوم و فنون کے فروغ سے اس ظلمت کدہ میں ایسے علماء اور مشائخ نے جنم لیا جنہوں نے بغداد و حجاز مقدس اور اسلامی ممالک میں اپنی علمی حیثیت کو منوایا۔ مثلاً ابو معشر سندھی فن معازی و سیر کے امام تھے جن کی نماز جنازہ خود خلیفہ ہارون الرشید نے پڑھائی۔ رجا السندھی علم حدیث کے ماہر و محدث تھے۔ ابو عطا سندھی ایک عربی و سندھی شاعر تھے۔ بایزید بسطامیؒ کے حالات زندگی میں ایک استاد ابو علی سندھی کا ذکر ملتا ہے۔ بغداد میں خلیفہ منصور نے دارالترجمۃ قائم کیا تو سنسکرت کی کتابوں کو عربی زبان میں منتقل کرنے کا کام شروع ہوا۔ مثلاً علم ہیت کی کتاب ’’سدھانت‘‘ کا ترجمہ عربی میں السندہند کے نام سے ہوا۔ مشہور عرب ریاضی دان خوارزمی نے ہندی حساب کو عربی میں منتقل کیا۔ اسی طرح سنسکرت کی مشہور کتاب ’’کلیہ و دمنہ‘‘ کا عربی زبان میں ترجمہ ہوا۔

ہند اور عرب کے تجارتی روابط تو عرصہ دراز سے قائم تھے مگر فتح سندھ کے بعد یہ روابط تمام شعبہ ہائے حیات پر پھیل گئے۔ اہل سندھ تہذیب و شائستگی سے بہرہ ور ہوئے۔ یہاں چھوت چھات اور ذات پات کا نظام اس طرح قائم نہ رہا جیسے باقی ہندوستان میں موجود تھا۔ عرب سپاہیوں نے سندھ میں مستقل سکونت اختیار کی تو مقامی عورتوں سے شادیاں کیں جس سے مخلوط خاندانوں کی بنیاد پڑی۔ اس کی یادگار سندھی زبان ہے۔ کھجور کے درخت، اونٹ اور عربی گھوڑے و عربی لباس سندھی تہذیب و ثقافت کا حصہ قرار پائے۔

الغرض سندھ کی فتح کے بعد مسلم ثقافت نے ہر اعتبار سے ہندو ثقافت کو متاثر کیا۔ توحید پرستی، معاشرتی اقدار، فن تعمیر، موسیقی، باغبانی، علوم و فنون اور شعر و ادب غرض ہر پہلو سے اسلامی تہذیب کا امتیاز محسوس کیا گیا۔ مورخین متفق ہیں کہ عرب کی اسلامی تہذیب اور پھر ایران کی ثقافت نے ہندوستان آنے پر ہندی آریائی تہذیبی اکائی سے متصادم ہوکر ایک نئے ثقافتی مرکب کی شکل اختیار کی۔ یہاں تک کہ ایک ہزار سال کے دوران یہ ایک مستقل اور جداگانہ ثقافتی اکائی بن گئی۔ بقول مورخ

یہ عرب تہذیب ہندی آریائی ثقافت سے زیادہ جاندار تھی اس لیے اس کا ہندی تہذیب پر گہرا اثر ہوا۔

چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ محمد بن قاسم کے ہاتھوں سندھ کی فتح کے دور رس اثرات مرتب ہوئے کیونکہ ہم ان تمام عوامل کو نظر انداز نہیں کرسکتے جس کے باعث تمام تر خارجی اور داخلی اثرات کے امتزاج نے ایک ایسے تمدن کو جنم دیا جس کے اثرات سندھ اور پنجاب کی حدود سے نکل کر برصغیر پاک و ہند کے تمام علاقوں میں پھیل گئے۔